۱۳۹۶/۱/۲۵   2:17  ویزیٹ:1988     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


14 اپریل 2017 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


14 اپریل 2017 کو نماز جمعہ حجت الاسلام مولانا سید امام زادہ صاحب کی اقتدا‏ء میں ادا‏ء کی گئی
آپ نے سب سے پہلے تقوای الہی کی سفارش کی اور پھر رجب المرجب کے مبارک مہینے کو آپنے آپ کو بنانے کیلئے بہترین موقعیت سمجھا آپ نے فرمایا  کہ مرحوم قاضی  (رہ) نے آپنے شاگردوں سے فرمایا کہ  
1- ہمیشہ قرآن کو آپنے پاس رکھا کرو 
2- اس حدیث مبارک کو آپنے پاس رکھو اور ہفتہ میں ایک بار اسکو  ضرور پڑھوں  اور اس  پر عمل کرو۔
وہ  حدیٹ عنوان بصری نے روایت کیا ہوا یہ حدیث ہے ۔
پھر آپ نے عنوان بصری کی واقعہ کو بیان فرمایا: 
آپ نے فرمایا کہ عنوان بصری جسکی عمر 94 سال تھی روایت کر رہے ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام مدینہ تشریف لائے  تو میرا آپ کے ہاں آنا جانا رہتا تھا جس طرح میں  انس بن مالک سے علم حاصل کر رہا تھا ایسی طرح امام صادق علیہ السلام سے بھی علم حاصل کرنا چاہتا تھا تو امام علیہ السلام نے ایک دن فرمایا:  
فقال لی: یوما انی رجل مطلوب و مع ذلک لی اوراد فی کل ساعة من اناء اللیل و النهار، فلا تشغلنی عن وردی و خذ عن مالک و اختلف الیه کما کنت تختلف الیه .
میں حکومت کو مطلوب ہو اور ایسی طرح  میرے دن اور رات میں کچھ وظیفے اور اذکار ہے تو مجھے آپنے وظایف  کے علاوہ اور جگہ مشغول نہ کریں   لہذا آپ  اسی طرح جس طرح پہلے  مالک سے تحصیل علم کر رہے تھے اب بھی انہی سے تحصیل علم کرتے رہو۔
اس پر میں کچھ ناراض  تو ہوا  لیکن پر سوچھا کہ شاید مجھ میں  حصول علم آل محمد کا ظرفیت   ہی نہیں ہے۔لہذا مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت نماز حاجت بجا لایا اور پھر خدا سے دعا کیا کہ قلب نازنین حضرت امام صادق علیہ السلام کو مجھ پر مہربان فرما۔( قصہ طولانی ہے)
المختصر - میں دوبارہ آپ علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پہنچا  ۔۔۔
سلام کلام کے  بعد آپ علیہ سلام نے فرمایا  کہ آپ کیا حاجت رکھتے ہو ؟ تو میں نے کہا کہ یا بن رسول اللہ میں تحصیل علم کی نیت نے حاضر ہوا ہو۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔
یا ابا عبد اللہ!  لیس العلم بتعلم  ،العلم نور یقذف اللہ تعالی فی قلب من یشا‏ء
ابا عبد اللہ عنوان بصری کا کنیت ہے  
علم سیکھنے سے نہیں ہو تا بلکہ علم نور ہے  خدا جیسے چاہے اسکے سینے میں ڈال دیتاہے۔
فرمایا: فالطلب اولا حقیقت عبودیه
 پہلے حقیقت عبودیت  و بندگی کو حاصل کرو۔
پھر عنوان بصری نے پوچھا کہ بندگی کی حقیقت کیا ہوتا ہے۔
فرمایا: 
 
 1- ان لا یری العبد لنفسه فیما حوله الله ملکا انه لله
جو کچھ اللہ تعالی نے آپنے بندے کو دیا اسکو اپنا ملک نہ سمجھے بلکہ یہ سب  کچھ اللہ کا ہے اور رہے گا۔
2 - و لا یدبر العبد لنفسه تدبیرا 
اور وہ اپنے لئے کوئی تدبیر یا طور و طریقہ نہ بنا‏ئے (اپنا دین نہ بنائیں)  بلکہ جو پروگرام اور دستورات اللہ کی طرف سے قرآن کی شکل میں موجود ہے اسکو آپنائیں۔
3 - و جمله اشتغاله فیما أمره تعالی به و نهاه عنه
اور ہمیشہ  کے لئے اوامر الہی کو انجام دینے اور منکرات سے روکے  رہے۔
 
دوسری خطبہ
آپنے دوسرے خطبے میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی فضا‏ئل اور مناقب کو موضوع سخن بنایا۔
آپنے فرمایا:   

 
اس ہفتہ کی مناسبات میں سے 15 رجب ایک وفات حضرت زینب سلام اللہ علیھا ہے
صفات حضرت زینب سلام الله علیها.
1- عبادت اور بندگی میں  حضرت زھرا‏ء  سلام اللہ جیسے تھی۔
2- راتوں کو نماز تہجد اور تلاوت قرآن میں گزارتی تھی۔
3- شرف اور حیاں میں  آپنی مثال آپ تھی ۔یحی مازنی کہتا ہے کہ نہ کبھی ہم نے آپ کو دیکھا  اور نہ کبھی  آپکی اواز سنا۔
4- علمی لحاظ سے بی بی اس درجے پر فائز تھی کہ امام سجاد علیہ السلام نے حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو عالمہ غیر معلمہ اور فھیمہ غیر مفپھمہ کا لقب دیا۔
5- کوفہ میں قرآن کے سب سے بڑے مدرس کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ کوفہ والوں عورتوں نے حضرت امام علی علیہ السلام سے چاہا کہ ہمارے لئے درس قرآن رکھا جائے۔ تو حضرت امام علی علیہ السلام نے حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو مقرر کیا کہ وہ ہر صبح کوفے کے عورتوں کو تعالیم قرآن دیا کرے۔ 
6- تقوی 
7- جهاد اور شجاعت
8- انفاق و احسان برای فقرا و مساکین
9- صبر و رضا و شکر 
10- رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم آپ پر روئے اور بی بی کی مصائب پر رونے کا ثواب بھی بیان فرمایا۔
روایت میں ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی ولادت ہوئی تو امام حسین علیہ السلام (جب کہ آپکی عمر 3 تھی) نے آکر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشخبری دی کہ یا جداہ! خداوند متعال نے ہمیں ایک بہن دی ہے، آپ صلی علیہ و آلہ و سلم نے جب یہ سنا تو آپ (ص) بہت روئے۔
امام حسین علیہ نے فرمایا کہ اے میرے نانا کیوں رو رہے ہو؟!
تو آپ(ص) نے  فرمایا کہ اے میرے پیارے بیٹے بہت جلد آپکو میرے رونے کا سبب معلوم ہو جائیگا۔ 
کچھ وقت  نہیں گزر ا تھا کہ  حضرت جبرائیل آمین نازل ہوا اس حالت میں کہ رو رہا تھا تو آپ (ص) نے حضرت جبرا‏‏ئیل سے رونے کا سبب پوچھا (یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا آپنے جد (نانا) کے  کود میں تھی۔
‏<< صلی الله علیک یابنت رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم 
صلی الله علیک یا بنت فاطمه الزهراء سلام الله علیها
صلی الله علیک یا بنت امیر المؤمنین علیه السلام
صلی الله علیک یا اخت الحسن و الحسین
صلی الله علیک یا زینب کبری سلام الله علیها‏‏>>
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا  رسول اللہ اپکی  بیٹی زینب سلام اللہ علیھا پر بہت جلد بہت سارے مصا‏ئب ٹوٹ پڑے گے اور یو ں بی بی  پر آنے والے مصایب بیان کرتے رہے۔  عرض کیا،
پہلی مصیبت آپکی جدائی
دوسری مصیبت بچپن میں ماں کے جدا ئ  کاغم
تیسری مصیبت اپنے بابا سے بچھڑنے  کا غم 
چھوتی مصیبت امام حسن علیہ السلام کی فراق 
پنچوی مصیبت جو سب سے زیادہ ہو گی وہ مصایب کربلا ہونگے۔
یہ مصیبتیں  اتنےسخت ہونگے کہ اسکی وجہ سے بی بی مکرمہ کا کمر خم ہو جائیگا، سر کے بال سفید ہو جائینگے ۔
پیغمبر خدا صلی الله علیه و آله وسلم (جب کہ آپکے رخسار مبارک پر آنسو جاری تھے) نے آپنے رخسار بی بی کے رخسار پر رکھ کر انچے اواز سے رویا۔
حضرت زھرا‏ء سلام اللہ علیھا نے رونے کا سبب پوچھا؟
او رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بی بی مکرمہ پر آنے والے مصایب کا ذکر کیا۔ 
 حضرت زهراء علیها سلام نے بی بی پر رونے کا ثواب  پوچھا کہ جو میری بیٹی زینب کی مصیبتوں پر روتے ہے تو اسکے رونے کا ثواب کتنا ہو گا؟
 حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بی بی کے مصایب میں رونے کا اجر اسکے  بھائیوں حسن اور حسین علیھما پر رونے کے آجر جتنا ہے۔
جبکہ امام حسین علیہ سلام کی مصایب میں رونے کا اجر سب سے زیادہ ہے۔
امام سجاد علیه السلام نےفرمایا: ایما مؤمن دمعت عیناه لقتل الحسین علیه السلام دمعة حتی تسیل علی خده بواه الله غرفا فی الجنة سیکنها احقابا.
کہ جس کیسی مؤمن نے حضرت امام حسین علیه السلام کے لیئے آنسو بہائے اس طرح کہ آنسو اسکے روخساروں پر بہنے لگے تو خدا وندمتعال اسکے لیئے جنت میں ایک جگہ بنا لے گا کہ جہاں وہ بہت زیادہ عرصے تک رہ سکے گا۔ 
11- کعبہ الرزایا ( دردوں اور غموں کی قبلہ)
12- مظلومه
13 – وحیدہ (کچھ صفتوں میں بی بی منفرد اور بی بدیل تھی جسے کمالات،الفضائل، اور مناقب ، الرزایا اور المصائب۔
امام حسین علیہ السلام سے اتنی محبت رکھتی تھی کہ جب آپ وفات پا گئی تو جب آپکے ہاتھ کھولے گئے تو دیکھا کہ آپکے ہاتھوں میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا پٹا ہوا پرانا قمیص ہے۔