۱۳۹۶/۲/۶   23:19  ویزیٹ:2501     استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای


کتاب اجتہاد و تقلید

 


................................................................فہرست..............................................تقلید کے شرائط


کتاب اجتہاد و تقلید

 
س1۔ تقلید کا واجب ہونا خود تقلیدی مسئلہ ہے یا اجتہادی ؟
 
ج۔ اجتہادی اور عقلی مسئلہ ہے۔
 
س2۔آپ کے نزدیک احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے یا تقلید پر؟
 
ج۔ چونکہ احتیاط پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب اس کے موارد و مواقع کو جانتا ہو اور احتیاط کے طریقوں سے واقف ہو اور ان دونوں کو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں اس کے علاوہ احتیاط پر عمل کرنے میں عام طور پر بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، اس بنا پر جامع الشرائط مجتہد کی تقلید بہتر ہے۔
 
س3۔ احکام میں احتیاط کا دائرہ اور اس کے حدود فقہا کے فتووں میں کیا ہیں ؟ اور کیا سابق علماء کے فتووں کو بھی اس میں شامل کرنا واجب ہے؟
 
ج۔ وجود موارد میں احتیاط سے مراد ان تمام فقہی احتمالات کی رعایت کرنا ہے جن کے واجب ہونے کا احتمال پایا جاتا ہو۔
 
س4۔ چند ہفتوں کے بعد میری بیٹی بالغ ہونے والی ہے اور اس وقت اس پر اپنے لئے مرجع تقلید کا انتخاب واجب ہو جائے گا اور چونکہ یہ امر اس کے لئے مشکل ہے لہذا اس سلسلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
 
ج۔ اگر وہ اس سلسلے میں اپنے شرعی وظیفہ کی جانب متوجہ نہ ہو تو اس سلسلے میں اس کی ہدایت و رہنمائی آپ کی ذمہ داری ہے۔
 
س5۔ مشہور ہے کہ موضوع کی تشخیص مکلف کا کام ہے اور حکم کی تشخیص مجتہد کے ذمہ ہے۔ پس جن موضوعات کی تشخیص مرجع خود کرتا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
 
کیا ا س تشخیص کے مطابق عمل کرنا واجب ہے کیونکہ ہم مرجع تقلید کو ایسے بہت سے موارد  میں بھی دخیل پاتے ہیں ؟
 
ج۔ جی ہاں ! موضوع کو مشخص کرنا مکلف کا کام ہے لہذا اپنے مجتہد کی تشخیص کا اتباع مکلف پر واجب نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ اس تشخیص سے مطمئن ہو یا موضوع کا تعلق استنباطی موضوعات سے ہو۔
 
س6۔ روزمرہ کے شرعی مسائل ، جن سے مکلف کا سابقہ پڑتا رہتا ہے ، کیا ان کا علم حاصل نہ کرنے والا گناہگار ہے؟
 
ج۔اگر شرعی مسائل کا علم حاصل نہ کرنا کسی واجب کے چھوٹ جانے یا فعل حرام کے ارتکاب کا سبب بنے تو گناہگار ہے۔
 
س7۔ جب ہم بعض کم علم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ تمھارا مرجع تقلید کون ہے؟ تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے یا کہتے ہیں کہ فلاں مرجع کی تقلید کرتے ہیں جبکہ وہ خود کو اس بات کا پابند نہیں سمجھتے کہ اس کی توضیح المسائل کو دیکھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ ایسے لوگوں کو اعمال کا کیا حکم ہے؟
 
ج۔ اگر ان کے اعمال احتیاط یا واقع یا اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہیں جس کی تقلید ان پر واجب تھی تو ان کو صحیح مانا جائے گا۔
 
س8۔ جن مسائل میں مجتہد اعلم احتیاط واجب کا قائل ہے، کیا ہم ان میں اس کے بعد کے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ؟ اور دوسر سوال یہ ہے کہ اگر اس کے بعد والا اعلم بھی اس مسئلہ میں احتیاط واجب کا قائل ہو تو کیا ہم اس مسئلے میں ان دونوں کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ؟ اور اگر تیسرا بھی اسی بات کا قائل ہو تو کیا ہم ان کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کریں گے ؟۔۔ الخ۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیجئے۔
 
ج۔ اس مجتہد کی طرف رجوع کرنے میں جو اس مسئلہ میں احتیاط کا قائل نہیں بلکہ اس میں ا سکا صریح فتویٰ موجود ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اعلم فالاعلم کی رعایت کرنا ہو گی۔

 

................................................................فہرست..............................................تقلید کے شرائط