۱۳۹۶/۲/۱۴   7:32  ویزیٹ:2396     توضیح المسائل: آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی دام ظلہ


وصیت کے احکام

 


→ وقف کے احکام..........................................................................................چند فِقہی اصطلاحات ←


وصیت کے احکام


2703۔ "وصیت" یہ ہے کہ انسان تاکید کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے فلاں فلاں کام کئے جائیں یا یہ کہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کوئی چیز فلاں شخص کی ملکیت ہوگی یا اس کے مال میں سے کوئی چیز کسی شخص کی ملکیت میں دے دی جائے یا خیرات کی جائے یا امور خیر یہ پر صرف کی جائے یا اپنی اولاد کے لئے اور جو لوگ اس کی کفالت میں ہوں ان کے لئے کسی کو نگران اور سرپرست مقرر کرے اور جس شخص کو وصیت کی جائے اسے "وصی" کہتے ہیں۔

2704۔ جو شخص بول نہ سکتا ہو اگر وہ اشارے سے اپنا مقصد سمجھا دے تو وہ ہر کام کے لئے وصیت کر سکتا ہے بلکہ جو شخص بول سکتا ہو اگر وہ بھی اس طرح اشارے سے وصیت کرے کہ اس کا مقصد سمجھ میں آجائے تو وصیت صحیح ہے۔

2705۔ اگر ایسی تحریر مل جائے جس پر مرنے والے کے دستخط یا مہر ثبت ہو تو اگر اس تحریر سے اس کا مقصد سمجھ میں آجائے اور پتا چل جائے کہ یہ چیز اس نے وصیت کی غرض سے لکھی ہے تو اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے لیکن اگر پتا چلے کہ مرنے والے کا مقصد وصیت کرنا نہیں تھا اور اس نے کچھ باتیں لکھی تھی تاکہ بعد میں ان کے مطابق وصیت کرے تو ایسی تحریر وصیت کافی نہیں ہے۔

2706۔جو شخص وصیت کرے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہو، سفیہ نہ ہو اور اپنے اختیار سے وصیت کرے لہذا نابالغ بچے کا وصیت کرنا صحیح نہیں ہے۔ مگر یہ کہ بچہ دس سال کا ہو اور اس نے اپنے رشتے داروں کے لئے وصیت کی ہو یا عام خیرات میں خرچ کرنے کی وصیت کی ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس کی وصیت صحیح ہے۔ اور اگر اپنے رشتے داروں کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے وصیت کرے یا سات سالہ بچہ یہ وصیت کرے کہ "اس کے اموال میں سے تھوڑی سی چیز کسی شخص کے لئے ہے یا کسی شخص کو دے دی جائے " تو وصیت کا نافذ ہونا محل اشکال ہے اور ان دونوں صورتوں میں احتیاط کا خیال رکھا جائے اور اگر کوئی شخص سفیہ ہو تو اس کی وصیت اس کے اموال میں نافذ نہیں ہے۔ لیکن اگر اس اس کی وصیت اموال کے علاوہ دوسرے امور میں ہو مثلاً ان مخصوص کاموں کے متعلق ہو جو موت کے بعد میت کے لئے انجام دیئے جاتے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہے۔

2707۔ جس شخص نے مثال کے طور پر عمداً اپنے آپ کو زخمی کر لیا ہو یا زہر کھالیا ہو جس کی وجہ سے اس کے مرنے کا یقین یا گمان پیدا ہوجائے اگر وہ وصیت کرے کہ اس کے مال کی کچھ مقدار کسی مخصوص مصرف میں لائی جائے اور اس کے بعد وہ مرجائے تو اس کی وصیت صحیح نہیں ہے۔

2708۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کی املاک میں سے کوئی چیز کسی دوسرے کا مال ہوگی تو اس صورت میں جب کہ وہ دوسرا شخص وصیت کو قبول کرلے خواہ اس کا قبول کرنا وصیت کرنے والے کی زندگی میں ہی کیوں نہ ہو وہ چیز "موصی" کی موت کے بعد اس کی ملکیت ہوجائے گی۔

2709۔جب انسان اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ لے تو ضروری ہے کہ لوگوں کی امانتیں فوراً ان کے مالکوں کو واپس کر دے یا انہیں اطلاع دے دے۔ اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ 2351 میں بیان ہوچکی ہے۔ اور اگر وہ لوگوں کا مقروض ہو اور قرضے کی ادائیگی کا وقت آگیا ہو اور قرض خواہ اپنے قرضے کا مطالبہ بھی کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ قرضہ ادا کردے اور اگر وہ خود قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو یا قرضے کی ادائیگی کا وقت نہ آیا ہو یا قرض خواہ ابھی مطالبہ نہ کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ ایسا کام کرے جس سے اطمینان ہو جائے کہ اس کا قرض اس کی موت کے بعد قرض خواہ کو ادا کر دیا جائے گا مثلاً اس صورت میں کہ اس کے قرضے کا کسی دوسرے کو علم نہ ہو وہ وصیت کرے اور گواہوں کے سامے وصیت کرے۔

2710۔ جو شخص اپنے اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہا ہو اگر زکوٰۃ، خمس اور مظالم اس کے ذمے ہوں اور وہ انہیں اس وقت ادا نہ کرسکتا ہو لیکن اس کے پاس مال ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ کوئی دوسرا شخص یہ چیزیں ادا کردے گا تو ضروری ہے کہ وصیت کرے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر وہ شخص اس وقت اپنے شرعی واجبات ادا کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ فوراً ادا کرے اگرچہ وہ اپنے آپ میں موت کی نشانیاں نہ دیکھے۔

2711۔ جو شخص اپنےآپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہا ہوا اگر اس کی نمازیں اور روزے قضا ہوئے ہوں تو ضروری ہے کہ وصیت کرے کہ اس کے مال سے ان عبارات کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنایا جائے بلکہ اگر اس کے پاس مال نہ ہو لیکن اس بات کا احتمال ہوکہ کوئی شخص بلا معاوضہ یہ عبادات بجالائے گا تب بھی اس پر واجب ہے کہ وصیت کرے لیکن اگر اس کا اپنا کوئی ہو مثلاً بڑا لڑکا ہو اور وہ شخص جانتا ہو کہ اگر اسے خبر دی جائے تو وہ اس کی قضا نمازیں اور روزے بجالائے گا تو اسے خبر دینا ہی کافی ہے، وصیت کرنا لازم نہیں۔

2712۔ جو شخص اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہا ہو اگر اس کا مال کسی کے پاس ہو یا ایسی جگہ چھپا ہوا ہو جس کا ورثاء کو علم نہ ہو تو اگر لاعلمی کی وجہ سے ورثاء کا حق تلف ہوتا ہو تو ضروری ہے کہ انہیں اطلاع دے اور یہ لازم نہیں کہ وہ اپنے نابالغ بچوں کے لئے نگراں اور سرپرست مقرر کرے لیکن اس صورت میں جب کہ نگراں کا نہ ہونا مال کے تلف ہونے کا سبب ہو یا خود بچوں کے لئے نقصان دہ ہو تو ضروری ہے کہ ان کے لئے ان امین نگران مقرر کرے۔

2713۔ وصی کا عاقل ہونا ضروری ہے۔ نیز جو امور موصی سے متعلق ہیں اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر جو امور دوسروں سے متعلق ہیں ضروری ہے کہ وصی ان کے بارے میں مطمئن ہو اور ضروری ہے کہ مسلمان کا وصی بھی احتیاط کی بناپر مسلمان ہو۔ اور اگر موصی فقط نابالغ بچے کے لئے اس مقصد سے وصیت کرے تاکہ وہ بچپن میں سرپرست سے اجازت لئے بغیر تصرف کرسکے تو احتیاط کی بنا پر درست نہیں ہے۔ لیکن اگر موصی کا مقصد یہ ہو کہ بالغ ہونے کے بعد یا سرپرست کی اجازت سے تصرف کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔

2714۔ اگر کوئی شخص کئی لوگوں کو اپنا وصی معین کرے تو اگر اس نے اجازت دی ہو کہ ان میں سے ہر ایک تنہا وصیت پر عمل کرسکتا ہے تو لازم نہیں کہ وہ وصیت انجام دینے میں ایک دوسرے سے اجازت لیں اور اگر وصیت کرنے والے نے ایسی کوئی اجازت نہ دی ہو تو خواہ اس نے کہا ہو یا نہ کہا ہو کہ دونوں مل کر وصیت پر عمل کریں انہیں چاہئے کہ ایک دوسرے کی رائے کے مطابق وصیت پر عمل کریں اور اگر وہ مل کر وصیت پر عمل کرنے پر تیار نہ ہوں اور مل کر عمل نہ کرنے میں کوئی شرعی عذر نہ ہو تو حاکم شرع انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور اگر وہ حاکم شرع کا حکم نہ مانیں یا مل کر عمل نہ کرنے کا دونوں کے پاس کوئی شرعی عذر ہو تو وہ ان میں سے کسی ایک کی جگہ کوئی اور وصی مقرر کر سکتا ہے۔

2715۔ اگر کوئی شخص اپنے وصیت سے منحرف ہوجائے مثلاً پہلے وہ یہ کہے کہ اس کے مال تیسرا حصہ فلاں شخص کو دیا جائے اور بعد میں کہے کہ اسے نہ دیا جائے تو وصیت کالعدم ہوجاتی ہے اور اگر کوئی شخص اپنی وصیت میں تبدیلی کر دے مثلاً کو اپنے بچوں کا نگران مقرر کرے اور بعد میں اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو نگراں مقرر کردے تو اس کی پہلی وصیت کالعدم ہوجاتی ہے اور سروری ہے کہ اس کی دوسری وصیت پر عمل کیا جائے۔

2716۔ اگر ایک شخص کوئی ایسا کام کرے جس سے پتا چلے کہ وہ اپنی وصیت سے منحرف ہوگیا ہے مثلاً جس مکان کے بارے میں وصیت کی ہو کہ وہ کسی کو دیا جائے اسے بیچ دے یا۔ پہلی وصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔ کسی دوسرے شخص کو اسے بیچنے کے لئے وکیل مقرر کر دے تو وصیت کالعدم ہوجاتی ہے۔

2717۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ ایک معین چیز کسی شخص کو دی جائے اور بعد میں وصیت کرے کہ اس چیز کا نصف حصہ کسی اور شخص کو دیا جائے تو ضروری ہے اس چیز کے دو حصے کئے جائیں اور ان دونوں اشخاص میں سے ہر ایک کو ایک حصہ دیا جائے۔

2718۔ اگر کوئی شخص ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وہ مرجائے اپنے مال کی کچھ مقدار کسی شخص کو بخش دے اور وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد مال کی کچھ مقدار کسی اور شخص کو بھی دی جائے تو اگر اس کے مال کا تیسرا حصہ دونوں مال کے لئے کافی نہ ہو اور ورثاء اس زیادہ مقدار کی اجازت دینے پر تیار نہ ہوں تو ضروری ہے پہلے جو مال اس سے بخشا ہے وہ تیسرے حصے سے دیدیں اور اس کے بعد جو مال ماقی بچے وہ وصیت کے مطابق خرچ کریں۔

2719۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے مال کا تیسرا حصہ نہ بیچا جائے اور اس کی آمدنی ایک معین کام میں خرچ کی جائے تو اس کے کہنے کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

2720۔ اگر کوئی ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وہ مرجائے یہ کہے کہ وہ اتنی مقدار میں کسی شخص کا مقروض ہے تو اگر اس پر یہ تہمت لگائی جائے کہ اس نے یہ بات ورثاء کو نقصان پہنچانے کے لئے کی ہے تو جو مقدار قرضے کی اس نے معین کی ہے وہ اس کے مال کے تیسرے حصے سے دی جائے گی اور اگر اس پر یہ تہمتنہ لگائی جائے تو اس کا اقرار نافذ ہے اور قرضہ اس کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری ہے۔

2721۔ جس شخص کے لئے انسان وصیت کرے کہ کوئی چیز اسے دی جائے یہ ضروری نہیں کہ وصیت کرنے کے وقت وہ وجود رکھتا ہو لہذا اگر کوئی انسان وصیت کرے کہ جو بچہ فلاں عورت کے پیٹ سے پیدا ہو اس بچے کو فلاں چیز دی جائے تو اگر وہ بچہ وصیت کرنے والے کی موت کے بعد پیدا ہو تو لازم ہے کہ وہ چیز اسے دی جائے لیکن اگر وہ وصیت کرنے والے کی موت کے بعد وہ (بچہ) پیدا نہ ہو اور وصیت ایک سے زیادہ مقاصد کے لئے سمجھی جائے تو ضروری ہے کہ اس مال کو کسی ایسے دوسرے کام میں صرف کیا جائے جو وصیت کرنے والے کے مقصد سے زیادہ قریب ہو ورنہ ورثاء خود اسے آپس میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وصیت کرے کہ مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کوئی چیز کسی شخص کا مال ہوگی تو اگر وہ شخص وصیت کرنے والے کی موت کے وقت موجود ہو تو صیت صحیح ہے ورنہ باطل ہے اور جس چیز کی اس شخص کے لئے وصیت کی گئی ہو۔(وصیت باطل ہونے کی صورت میں) ورثاء اسے آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

2722۔ اگر انسان کو پتا چلے کہ کسی نے اسے وصی بنایا ہے تو اگر وہ وصیت کرنےوالے کو اطلاع دے دے کہ وہ اس کی وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو لازم نہیں کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس وصیت پر عمل کرے لیکن اگر وصیت کنندہ کے مرنے سے پہلے انسان کو یہ پتا نہ چلے کہ اس نے اسے وصی بنایا ہے یا پتا چل جائے لیکن اسے یہ اطلاع نہ دے کہ وہ (یعنی جسے وصی مقرر کیا گیا ہے) اس کی (یعنی موصی کی) وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو اگر وصیت پر عمل کرنے میں کوئی زحمت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی وصیت پر عملدر آمد کرے نیز اگر موصی کے مرنے سے پہلے وصی کسی وقت اس امر کی جانب متوجہ ہو کہ مرض کی شدت کی وجہ سے یا کسی اور عذر کی بنا پر موصی کسی دوسرے شخص کو وصیت نہیں کرسکتا تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وصی وصیت کو قبول کرلے۔

2723۔جس شخص نے وصیت کی ہو اگر وہ مرجائے تو وصی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو میت کا وصی معین کرے اور خود ان کاموں سے کنارہ کش ہوجائے لیکن اگر اسے علم ہو کہ مرنے والے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ خود وصی ہی ان کاموں کو انجام دینے میں شریک ہو بلکہ اس کا مقصد فقط یہ تھا کہ کام کر دیئے جائیں تو وصی کسی دوسرے شخص کو ان کاموں کی انجام دہی کے لئے اپنی طرف سے وکیل مقرر کرسکتا ہے۔

2724۔ اگر کوئی شخص دو افراد کو اکٹھے وصی بنائے تو اگر ان دونوں میں سے ایک مرجائے یا دیوانہ یا کافر ہو جائے تو حاکم شرع اس کی جگہ ایک اور شخص کو وصی مقرر کرے گا اور اگر دونوں مر جائیں یا کافر یا دیوانے ہو جائیں تو حاکم شرع دو دوسرے اشخاص کو ان کی جگہ معین کرے گا لیکن اگر ایک شخص وصیت پر عمل کرسکتا ہو تو دو اشخاص کا معین کرنا لازم نہیں۔

2725۔ اگر وصی تنہا خواہ وکیل مقرر کرکے یا دوسرے کو اجرت دے کر متوفی کے کام انجام نہ دے سکے تو حاکم شرع اس کی مدد کے لئے ایک اور شخص مقرر کرے گا۔

2726۔ اگر متوفی کے مال کی کچھ مقدار وصی کے ہاتھ سے تلف ہوجائے تو اگر وصی نے اس کی نگہداشت میں کوتا ہی یا تعدی کی ہو مثلاً اگر متوفی نے اسے وصیت کی ہو کہ مال کی اتنی مقدار فلاں شہر کے فقیروں کو دے دے اور وصی مال کو دوسرے شہر لے جائے اور وہ راستے میں تلف ہو جائے تو وہ ذمے دار ہے اور اگر اس نے کوتاہی یا تعدی نہ کی ہو تو ذمے دار نہیں ہے۔

2727۔ اگر انسان کسی شخص کو وصی مقرر کرے اور کہے کہ اگر وہ شخص (یعنی وصی) مر جائے تو پھر فلاں شخص وصی ہوگا تو جب پہلا وصی مرجائے تو دوسرے وصی کے لئے متوفی کے کام انجام دینا ضروری ہے۔

2728۔ جو حج متوفی پر واجب ہو نیز قرضہ اور مالی واجبات مثلاً خمس، زکوٰۃ اور مظالم جن کا ادا کرنا واجب ہوا نہیں متوفی کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری ہے خواہ متوفی نے ان کے لئے وصیت نہ بھی کی ہو۔

2729۔ اگر متوفی کا ترکہ قرضے سے اور واجب حج سے اور ان شرعی واجبات سے جو اس پر واجب ہوں مثلاً خمس اور زکوٰۃ اور مظالم سے زیادہ ہو تو اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کے مال کا تیسرا حصہ یا تیسرے حصے کی کچھ مقدار ایک معین مصرف میں لائی جائے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے اور اگر وصیت نہ کی ہو تو جو کچھ بچے وہ ورثاء کا مال ہے۔

2730۔ جو مصرف متوفی نے معین کیاہو اگر وہ اس کے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ ہو تو مال کے تیسرے حصے سے زیادہ کے بارے میں اس کی وصیت اس صورت میں صحیح ہے جب ورثاء کوئی ایسی بات یا ایسا کام کریں جس سے معلوم ہو کہ انہوں نے وصیت کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے اور ان کا صرف راضی ہونا کافی نہیں ہے اور اگر وہ موصی کی رحلت کے کچھ عرصے بعد بھی اجازت دیں تو صحیح ہے اور اگر بعض ورثاء اجازت دے دیں اور بعض وصیت کو رد کردیں تو جنہوں نے اجازت دی ہو ان کے حصوں کی حد تک وصیت صحیح اور نافذ ہے۔

2731۔ جو مصرف متوفی نے معین کیا ہو اگر اس پر اس کے مال تیسرے حصے سے زیادہ لاگت آتی ہو اور اس کے مرنے سے پہلے ورثاء اس مصرف کی اجازت دے دیں (یعنی یہ اجازت دے دیں کہ ان کے حصے سے وصیت کو مکمل کیا جاسکتا ہے) تو اس کے مرنے کے بعد وہ اپنی دی ہوئی اجازت سے منحرف نہیں ہوسکتے۔

2732۔ اگر مرنے والا وصیت کرے کہ اس کے مال کے تیسرے حصے خمس اور زکوٰۃ یا کوئی اور قرضہ جو اس کے ذمے ہو دیا جائے اور اس کی قضا نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقرر کیا جائے اور کوئی مستحب کام مثلاً فقیروں کو کھانا کھلانا بھی انجام دیا جائے تو ضروری ہے کہ پہلے اس کا قرضہ مال کے تیسرے حصے سے دیا جائے اور اگر کچھ بچ جائے تو نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقرر کیا جائے اور اگر پھر بھی کچھ بچ جائے تو جو مستحب کام اس نے معین کیا ہو اس پر صرف کیا جائے اور اگر اس کے مال کا تیسرا حصہ صرف اس کے قرضے کے برابر ہو اور ورثاء بھی تہائی مال سے زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہ دیں تو نماز، روزوں اور مستحب کاموں کے لئے کی گئی وصیت باطل ہے۔

2733۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کا قرضہ ادا کیا جائے اور اس کی نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقرر کیا جائے اور کوئی مستحب کام بھی انجام دیا جائے تو اگر اس نے یہ وصیت نہ کی ہو کہ یہ چیزیں مال کے تیسرے حصے سے دی جائیں تو ضروری ہے کہ اس کا قرضہ اصل مال سے دیا جائے اور پھر جو کچھ بچ جائے اس کا تیسرا حصہ نماز، روزوں (جیسی عبادات) اور ان مستحب کاموں کے مصرف میں لایا جائے جو اس نے معین کئے ہیں اور اس صورت میں جبکہ تیسرا حصہ (ان کاموں کے لئے) کافی نہ ہو اگر ورثا اجازت دیں تو اس کی وصیت پر عمل کرنا چاہئے اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو نماز اور روزوں کی قضا کی اجرت مال کے تیسرے حصے سے دینی چاہئے اور اگر اس میں سے کچھ بچ جائے تو وصیت کرنے والے نے جو مستحب کام معین کیا ہو اس پر خرچ کرنا چاہئے ۔

2734۔ اگرکوئی شخص کہے کہ مرنے والے نے وصیت کی تھی کہ اتنی رقم مجھے دی جائے تو اگر وہ عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کر دیں یا وہ قسم کھائے اور ایک عادل شخص اس کے قول کی تصدیق کر دے یا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتیں یا پھر چارعادل عورتیں اس کے قول کی گواہی دیں تو جتنی مقدار وہ بتائے اسے دے دینی ضروری ہے اور اگر ایک عادل عورت گواہی دے تو ضروری ہے کہ جس چیز کا وہ مطالبہ کر رہا و اس کا چوتھا حصہ اسے دیا جائے اور اگر دو عادل عورتیں گواہی دیں تو اس کا نصف دیا جائے اور اگر تین عادل عورتیں گواہی دیں تو اس کا تین چوتھائی دیاجائے نیز اگر دو کتابی کافر مرد جو اپنے مذہب میں عادل ہوں اس کے قول کی تصدیق کریں تو اس صورت میں جب کہ مرنے والا وصیت کرنے پرمجبور ہوگیا ہو اور عادل مرد اور عورتیں بھی وصیت کے موقع پر موجود نہ رہے ہوں تو وہ شخص متوفی کے مال سے جس چیز کا مطالبہ کر رہا ہو وہ اسے دے دینی ضروری ہے۔

2735۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میں متوفی کا وصی ہوں تاکہ اس کے مال کو فلاں مصرف میں لے آوں یا یہ کہے کہ متوفی نے مجھے اپنے بچوں کا نگراں مقرر کیا تھا تو اس کا قول اس صورت میں قبول کرنا چاہئے جب کہ دو عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کریں۔

2736۔ اگر مرنے والا وصیت کرے کہ اس کے مال کی اتنی مقدار فلاں شخص کی ہوگی اور وہ شخص وصیت کو قبول کرنے یا رد کرنے سے پہلے مرجائے تو جب تک اس کے ورثاء وصیت کو رد نہ کردیں وہ اس چیز کو قبول کرسکتے ہیں لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے کہ وصیت کرنے والا اپنی وصیت سے منحرف نہ ہو جائے ورنہ وہ (یعنی وصی یا اس کے ورثاء) اس چیز پر کوئی حق نہیں رکھتے۔

میراث کے احکام


2737۔ جو اشخاص متوفی سے رشتے داری کو بناپر ترکہ پاتے ہیں ان کے تین گروہ ہیں :

1۔ پہلا گروہ متوفی کا باپ، ماں اور اولاد ہے اور اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں اولاد کی اولاد ہے جہاں تک یہ سلسلہ نیچے چلا جائے۔ ان میں سے جو کوئی متوفی سے زیادہ قریب ہو وہ ترکہ پاتا ہے اور جب تک اس گروہ میں سے اک شخص بھی موجود ہو دوسرا اگر وہ ترکہ نہیں پاتا۔

2۔ دوسرا گروہ، دادا ، دادی ،نانا، نانی، بہن اور بھائی ہے اور بھائی اور بہن نہ ہونے کی صورت میں ان کی اولاد ہے۔ ان میں سے جو کوئی متوفی سے زیادہ قریب ہو توہ ترکہ پاتا ہے۔ اور جب تک اس گروہ میں سے ایک شخص بھی موجود ہو تیسرا گروہ ترکہ نہیں پاتا۔

3۔ تیسرا گروہ چچا، پھوپھی ماموں خالہ اور انکی اولاد ہے۔ اور جب تک متوفی کے چچاوں پھوپھیوں، مامووں اور خلاوں میں سے ایک شخص بھی زندہ ہو اس کی اولاد ترکہ نہیں پاتی لیکن اگر متوفی کا پدری چچا اور ماں باپ دونوں کی طرف سے چچا زاد بھائی موجود ہو تو ترک باپ اور مال کی طرف سے چچازاد بھائیوںکو ملے گا اور پدری چچا کو نہیں ملے گالیکن اگر چچایا چچازار بھائی متعدد ہوں یا متوفی کی بیوی زندہ ہو۔ تو یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے۔

2738۔ اگر خود متوفی کا چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ اور ان کی اولاد یا ان کی اولاد کی اولاد نہ ہو تو اس کے باپ اور ماں کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ ترکہ پاتے ہیں اور اگر وہ نہ ہوں تو ان کی اولاد ترکہ پاتی ہے اور اگر وہ بھی نہ ہو تو متوفی کے دادا، دادی کے چچا پھوپھی، ماموں اور خالہ ترکہ پاتے ہیں اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو ان کی اولاد ترکہ پاتی ہے۔

2739۔ بیوی اور شوہر جیسا کہ بعد میں تفصیل سے بتایا جائے گا ایک دوسرے سے ترکہ پاتے ہیں۔

پہلے گروہ کی میراث


2740۔ اگر پہلے گروہ میں سے صرف ایک شخص متوفی کا وارث ہو مثلاً باپ یا ماں یا اکلوتا بیٹا یا اکلوتی بیٹی ہو ت ومتوفی کا مال اسے ملتا ہے اور اگر بیٹے اور بیٹیاں وارث ہوں تو مال کو یوں تقسیم کیا جاتا ہے کہ ہر بیٹا بیٹی سے دگنا حصہ پاتا ہے۔

2741۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کا باپ اور اس کی ماں ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے دو حصے باپ اور ایک حصہ ماں کو ملتا ہے۔ لیکن اگرمتوفی کے دو بھائی یا چار بہنیں یا ایک بھائی اور دو بہنیں ہوں جو سب کے سب مسلمان، آزاد اور ایک باپ کی اولاد ہوں خواہ ان کی ماں حقیقی ہو یا سوتیلی ہو اور کوئی بھی ماں حاملہ نہ ہو تو اگرچہ وہ متوفی کے باپ اور ماں کے ہوتے ہوئے ترکہ نہیں پاتے لیکن ان کے ہونے کی وجہ سے ماں کو مال چھٹا حصہ ملتا ہے اور باقی مال باپ کوملتا ہے۔

2742۔ جب متوفی کے وارث فقط اس کا باپ، ماں اور ایک بیٹی ہو لہذا اگر اس کے گزشتہ مسئلے میں بیان کردہ شرائط رکھنے والے دو پدری بھائی یا چار پدری بہنیں یا ایک پدری بھائی اور دو پدری بہنیں نہ ہوں تو مال کے پانچ حصے کئے جاتے ہیں۔ باپ اور ماں ان میں سے ایک ایک حصہ لیتے ہیں اور بیٹی تین حصے لیتی ہے۔ اور اگر متوفی کے سابقہ بیان کردہ شرائط والے دوپدری بھائی یا چار پدری بہنیں یا ایک پدری بھائی اور دو پدری بہنیں بھی ہوں تو ایک قول کے مطابق مال کے ۔ سابقہ ترتیب کے مطابق ۔ پانچ حصے کئے جائیں گے اور ان افراد کے وجود سے کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن (علماء کے بیچ) مشہور یہ ہے کہ اس صورت میں مال چھ حصوں میں تقسیم ہوگا۔ اس میں سے باپ اور ماں کو ایک ایک حصہ اور بیٹی کو تین حصے ملتے ہیں اور جو ایک حصہ باقی بچے گا اس کے پھر چار حصے کئے جائیں گے جس میں سے ایک حصہ باپ کو اور تین حصے بیٹی کو ملتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر متوفی کے مال کے 24 حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے 15 حصے بیٹی کو، 5 حصے باپ کو اور 4 حصے ماں کو ملتے ہیں چونکہ یہ حکم اشکال سے خالی نہیں اس لئے ماں کے حصے میں 5۔1 اور 6۔1 میں جو فرق ہے اس میں احتیاط کو ترک نہ کیا جائے۔

2743۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کا باپ، ماں، اور ایک بیٹا ہو تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے باپ اور ماں کو ایک ایک حصہ اور بیٹے کو چار حصے ملتے ہیں اور اگر متوفی کے (صرف) چند بیٹے ہوں یا (بصورت دیگر صرف) چند بیٹیاں ہوں تو وہ ان چار حصوں کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتے ہیں اور اگر بیٹے بھی ہوں اور بیٹیاں بھی ہوں تو ان چار حصوں کو اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ ہر بیٹے کو ایک بیٹی سے دگنا حصہ ملتا ہے۔

2744۔ اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک یا کئی بیٹے ہوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یا ماں کو اور پانچ حصے بیٹے کو ملتے ہیں اور اگر کئی بیٹے ہوں تو وہ ان پانچ حصوں کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرلیتے ہیں۔

2745۔ اگر باپ یا ماں متوفی کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ اس کے وارث ہوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یا ماں کو ملتا ہے اور باقی حصوں کو یوں تقسیم کیا جاتا ہے کہ ہر بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ ملتا ہے۔

2746۔ اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک بیٹی ہوں تو مال کے چار حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یا ماں کو اور باقی تین حصے بیٹی کو ملتے ہیں۔

2747۔ اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور چند بیٹیاں ہوں تو مال کے پانچ حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ باپ یا ماں کو ملتا ہے اور چار حصے بیٹیاں آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتی ہیں۔

2748۔ اگر متوفی کی اولاد نہ ہو تو اس کے بیٹے کی اولاد ۔ خواہ وہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔ متوفی کے بیٹے کا حصہ پاتی ہے اور بیٹی کی اولاد ۔ خواہ وہ بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ متوفی کی بیٹی کا حصہ پاتی ہے۔ مثلاً اگر متوفی کا ایک نواسا (بیٹی کا بیٹا) اور ایک پوتی (بیٹے کی بیٹی) ہو تو مال کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ نواسے کو اور دو حصے پوتی کو ملیں گے۔

دوسرے گروہ کی میراث


2749۔ جو لوگ رشتہ داری کی بنا پر میراث پاتے ہیں ان کا دوسرا گروہ متوفی کا دادا، دادی ، نانا، نانی، بھائی اور بہنیں ہیں اور اگر اس کے بھائی بہنیں نہ ہوں تو ان کی اولاد میراث پاتی ہے۔

2750۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو سارا مال اس کو ملتا ہے اور اگر کئی سگے بھائی یا کئی سگی بہنیں ہوں تو مال ان میں برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے اور اگر سگے بھائی بھی ہوں اور بہنیں بھی تو ہر بھائی کو بہن سے دگنا حصہ ملتا ہے مثلاً اگر متوفی کے دو سگے بھائی اور ایک سگی بہن ہو تو مال کے پانچ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ہر بھائی کو دو حصے ملیں گے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔

2751۔ اگر متوفی کے سگے بہن بھائی موجود ہوں تو پدری بھائی اور بہنیں جن کی ماں متوفی کی سوتیلی ماں ہو میراث پاتے اور اگر اس کے سگے بہن بھائی نہ ہوں یا ایک پدری بہن ہو تو سارا مال اس کو ملتا ہے اور اگر اس کے لئے کئی پدری بھائی یا کئی پدری بہنیں ہوں تو مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوجاتا ہے اور اگر اس کے پدری بھائی بھی ہوں اور پدری بہنیں بھی تو ہر بھائی کو بہن سے دگنا حصہ ملتا ہے۔

2752۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک مادری بہن یا بھائی ہو جو باپ کی طرف سے متوفی کی سوتیلی بہن یا سوتیلا بھائی ہو تو سارا مال اسے ملتا ہے اور اگر چند مادری بھائی ہوں یا چند مادری بہنیں ہوں یا چند مادری بھائی اور بہنیں ہوں تو مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوجاتا ہے۔

2753۔ اگر متوفی کے سگے بھائی بہنیں اور پدری بھائی بہنیں اور ایک مادری بھائی یا ایک مادری بہن ہو تو پدری بھائی بہنوں کو ترکہ نہیں ملتا اور مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ مادری بھائی یا مادری بہن کو ملتا ہے اور باقے حصے سگے بھائی بہنوں کوملتے ہیں اور ہر بھائی دو بہنوں کے برابر حصہ پاتا ہے۔

2754۔ اگر متوفی کے سگے بھائی بہنیں اور پدری بھائی بہنیں اور ایک مادری بھائی یا ایک مادری بہن ہوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ مادری بھائی یا مادری بہن کو ملتا ہے اور باقی حصے پدری بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کئے جاتے ہیں کہ ہر بھائی کو بہن سے دگنا حصہ ملتا ہے۔

2756۔ اگر متوفی کے وارث فقط پدری بھائی بہنیں اور ایک مادری بھائی یا ایک مادری بہن ہوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ مادری بھائی یا مادری بہن کو ملتا ہے اور باقی حصے پدری بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کئے جاتے ہیں کہ ہر بھائی کو بہن سے دگنا حصہ ملتا ہے۔

2756۔ اگر متوفی کے وارث فقط پدری بھائی بہنیں اور چند مادری بھائی بہنیں ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک حصہ مادری بھائی بہنیں آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں اور باقی دو حصے پدری بہن بھائیوں کو اس طرح ملتے یں کہ ہر بھائی کا حصہ بہن سے دگنا ہوتاہے۔

2757۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کے بھائی بہنیں اور بیوی ہوں تو بیوی اپنا ترکہ اس تفصیل کے مطابق لے گی جو بعد میں بیان کی جائے گی اور بھائی بہنیں اپنا ترکہ اس طرح لیں گے جیسا کہ گذشتہ مسائل میں بتایا گیا ہے نیز اگر کوئی عورت مر جائے اور اس کے وارث فقط اس کے بھائی بہنیں اور شوہر ہوں تو نصف مال شوہر کو ملے گا اور بہنیں اور بھائی اس طریقے سے ترکہ پائیں گے جس کا ذکر گذشتہ مسائل میں کیا گیاہے لیکن بیوی یا شوہر کے ترکہ پانے کی وجہ سے مادری بھائی بہنوں کے حصے میں کوئی کمی نہیں ہوگی تاہم سگے بھائی بہنوں یا پدری بھائی بہنوں کے حصے میں کمی ہوگی مثلاً اگر کسی متوفیہ کے وارث اس کا شوہر اور مادری بہن بھائی اور سگے بہن بھائی ہوں تو نصف مال شوہر کو ملے گا اور اصل مال کے تین حصوں میں سے ایک حصہ مادری بہن بھائیوں کو ملے گا اور جو کچھ بچے وہ سگے بہن بھائیوں کا مال ہوا۔ پس اگر اس کا کل مال چھ روپے ہو تو تین روپے شوہر کو اور دو روپے مادری بہن بھائیوں کو اور ایک روپیہ سگے بہن بھائیوں کو ملے گا۔

2758۔ اگر متوفی کے بھائی بہنیں نہ ہوں تو ان کے ترکہ کا حصہ ان کی (یعنی بھائی بہنوں کی) اولاد کو ملے گا اور مادری بھائی بہنوں کی اولاد کا حصہ ان کے مابین برابر تقسیم ہوتا ہے اور جو حصہ پدری بھائی بہنوں کی اولاد یا سگے بھائی بہنوں کی اولاد کو ملتا ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ ہر لڑکا دو لڑکیوں کے برابر حصہ پاتا ہے لیکن کچھ بعید نہیں کہ ان کے مابین بھی ترکہ برابر برابر تقسیم ہو اور احوط یہ ہے کہ وہ مصالحت کی جانب رجوع کریں۔

2759۔ اگر متوفی کا وارث فقط دادا یا فقط دادی یا فقط نانا یا فقط نانی ہو تو متوفی کا تمام مال اسے ملے گا اور اگر متوفی کا دادا یا نانا موجود ہو تو اس کے باپ (یعنی متوفی کے پردادا یا پرنانا) کو ترکہ نہیں ملتا اور اگر متوفی کے وارث فقط اس کے دادا اور دادی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے دو حصے دادا کو اور ایک حصہ دادی کو ملتا ہے اور اگر وہ نانا اور نانی ہوں تو وہ مال کو برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔

2760۔ اگر متوفی کے وارث ایک دادا یا دادی اور ایک نانا ہوں تو مال کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے دو حصے دادا یا دادی کو ملیں گے اور ایک حصہ نانا یا نانی کو ملے گا۔

2761۔ اگر متوفی کے وارث دادا اور دادی اور نانا اور نانی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ نانا اور نانی آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں اور باقی دو حصے دادا اور دادی کو ملتے ہیں جن میں دادا کا حصہ دو تہائی ہوتا ہے۔

2762۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کی بیوی اور دادا، دادی اور نانا، نانی ہوں تو بیوی اپنا حصہ اس تفصیل کے مطابق لیتی ہے جو بعد میں بیان ہوگی اور اصل مال کے تین حصوں میں سے ایک حصہ نانا اور نانی کو ملتا ہے جو وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کرتے ہیں اور باقی ماندہ (یعنی بیوی اور نانا ،نانی کے بعد جو کچھ بچے) دادا اور دادی کو ملتا ہے جس میں سے دادا، دادی کے مقابلے میں دگنا لیتا ہے۔ اور اگر متوفی کے وارث اس کا شوہر اور دادا یا نانا اور دادی یا نانی ہوں تو شوہر کو نصف مال ملتا ہے اور دادا، نانا اور دادی نانی ان احکام کے مطابق ترکہ پاتے ہیں جن کا ذکر گزشتہ مسائل میں ہوچکا ہے۔

2763۔ بھائی ، بہن، بھائیوں، بہنوں کے ساتھ دادا، دادی یا نانا، نانی اور داداوں، دادیوں یا ناناوں، نانیوں کے اجتماع کی چند صورتیں ہیں :

اول : نانا یا نانی اور بھائی یا بہن سب ماں کی طرف سے ہوں۔ اس صورت میں مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوجاتا ہے اگرچہ وہ مذکر اور مونث کی حیثیت سے مختلف ہوں۔

دوم : دادا یا دادی کے ساتھ بھائی یا بہن باپ کی طرف سے ہوں۔ اس صورت میں بھی ان کے مابین مال مساوی طور پر تقسیم ہوتا ہے بشرطیکہ وہ سب مرد ہوں یا سب عورتیں ہوں اور اگر مرد اور عورتیں ہوں تو پھر ہر مرد ہر عورت کے مقابلے میں دگنا حصہ لیتا ہے۔

سوم: دادا یا دادی کے ساتھ بھائی یا بہن ماں اور باپ کی طرف سے ہوں اس صورت میں بھی وہی حکم ہے جو گزشتہ صورت میں ہے اور یہ جاننا چاہے کہ اگر متوفی کے پدری بھائی یا بہن، سگے بھائی یا بہن کے ساتھ جمع ہو جائے تو تنہا پدری بھائی یا بہن میراث نہیں پاتے (بلکہ سبھی پاتے ہیں)۔

چہارم: دادے ، دادیاں اور نانے ، نانیاں ہوں۔ خواہ وہ سب کے سب مرد ہوں یا عورتیں ہوں یا مختلف ہوں اور اسی طرح سگے بھائی اور بہنیں ہوں۔ اس صورت میں جو مادری رشتے دار بھائی، بہن اور نانے، نانیاں ہوں ترکے میں ان کا ایک تہائی حصہ ہے اور ان کے درمیان برابر تقسیم ہوجاتا ہے خواہ وہ مرد اور عورت کی حیثیت سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور ان میں سے جو پدری رشتہ دار ہوں ان کا حصہ دو تہائی ہے جس میں سے ہر مرد کو ہر عورت کے مقابلے میں دگنا ملتا ہے اور اگر ان میں کوئی فرق نہ ہو اور سب مرد یا سب عورتیں ہوں تو پھر وہ ترکہ ان میں برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے۔

پنجم: دادا یا دادی ماں کی طرف سے بھائی، بہن کے ساتھ جمع ہوجائیں اس صورت میں اگر بہن یا بھائی بالفرض ایک ہو تو اسے مال کا چھٹا حصہ ملتا ہے اور اگر کئی ہوں تو تیسرا حصہ ان کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے اور جو باقی بچے وہ دادا یا دادی کا مال ہے اور اگر دادا اور دادی دونوں میں ہوں تو دادا کو دادی کے مقابلے میں دگنا حصہ ملتا ہے۔

ششم:نانا یا نانی باپ کی طرف سے بھائی کے ساتھ جمع ہو جائیں۔ اس صورت میں نانا یا نانی کا تیسرا حصہ ہے خواہ ان میں سے ایک ہی ہو اور تہائی بھائی کا حصہ ہے خواہ وہ بھی ایک ہی ہو اور اگر اس نانا یا نانی کے ساتھ باپ کی طرف سے بہن ہو اور وہ ایک ہی ہو تو وہ آدھا حصہ لیتی ہے اور اگر کئی بہنیں ہوں تو دو تہائی لیتی ہیں اور ہر صورت میں نانا یا نانی کا حصہ ایک تہائی ہی ہے اور اگر بہن ایک ہی ہو تو سب کے حصے دے کر ترکے کا چھٹا حصہ بچ جاتا ہے اور اس کے بارے میں احتیاط واجب مصالحت میں ہے۔

ہفتم: دادا یا دادیاں ہوں اور کچھ نانا نانیاں ہوں اور ان کے ساتھ پدری بھائی یا بہن ہو خواہ وہ ایک ہی ہو یا کئی ہوں اس صورت میں نانا یا نانی کا حصہ ایک تہائی ہے اور اگر وہ زیادہ ہوں تو ی ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوجاتا ہے خواہ وہ مرد اور عورت کی حیثیت سے مختلف ہی ہوں اور باقی ماندہ دو تہائی دادے یا دادی اور پدری بھائی یا بہن کا ہے اور اگر وہ مرد اور عورت کی حیثیت سے مختلف ہوں تو فرق کے ساتھ اور اگر مختلف نہ ہوں تو برابر ان میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اور اگر ان دادوں، نانوں یا دادیوں نانیوں کے ساتھ مادری بھائی یا بہن ہوں تو نانا یا نانی کا حصہ مادری بھائی یا بہن کے ساتھ ایک تہائی ہے جو ان کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے اگرچہ وہ بہ حیثیت مرد اور عورت ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور دادا یا دادی کا حصہ دو تہائی ہے جو ان کے مابین اختلاف کی صورت میں (یعنی بہ حیثیت مرد اور عورت اختلاف کی صورت میں) فرق کے ساتھ ورنہ برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے۔

ہشتم: بھائی اور بہنیں ہوں جن میں سے کچھ پدری اور کچھ مادری ہوں اور ان کے ساتھ دادا یا دادی ہوں۔ اس صورت میں اگر مادری بھائی یا بہن ایک ہو تو ترکے میں اس کا چھاٹا حصہ ہے اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو تیسرا حصہ ہے جو کہ ان کے مابین برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے اور باقی ترکہ پدری بھائی یا بہن اور دادی یا دادی کا ہے جو ان کے بحیثیت مرد اور عورت مختلف نہ ہونے کی صورت میں ان کے مابین برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے اور مختلف ہونے کی صورت میں فرق سے تقسیم ہوتا ہے اور اگر ان بھائیوں یا بہنوں کے ساتھ نانا یا نانی ہوں تو نانا یا نانی اور مادری بھائیوں اور بہنوں کو ملا کر سب کا حصہ ایک تہائی ہوتا ہے اور ان کے مابین برابر تقسیم ہوجاتا ہے اور پدری بھائیوں یا بہنوں کا حصہ دو تہائی ہوتا ہے جو ان میں بہ حیثیت مرد اور عورت اختلاف کی صورت میں فرق سے اور اختلاف نہ ہونے کی صورت میں برابر برابر تقسیم ہوجاتا ہے۔

2764۔ اگر متوفی کے بھائی یا بہنیں ہوں تو بھائیوں یا بہنوں کی اولاد کی میراث نہیں ملتی لیکن اگر بھائی کی اولاد اور بہن کی اولاد کا میراث پانا بھائیوں اور بہنوں کی میراث سے مزاحم نہ ہو تو پھر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر متوفی کا پدری بھائی اور نانا ہو تو پدری بھائ کو میراث کے دو حصہ اور نانا کو ایک تہائی حصہ ملے گا اور اس صورت میں اگر متوفی کے مادری بھائی کا بیٹا بھی ہو تو بھائی کا بیٹا نانا کے ساتھ ایک تہائی میں شریک ہوتا ہے۔

تیسرے گروہ کی میراث


2765۔ میراث پانے والوں کے تیسرے گروہ میں چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ اور ان کی اولاد ہیں اور جیسا کہ بیان ہوچکا ہے اگر پہلے اور دوسرے گروہ میں سے کوئی وارث موجود نہ ہو تو پھر یہ لوگ ترکپ پاتے ہیں۔

2766۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک چچا یا ایک پھوپھی ہو تو خواہ وہ سگا ہو یعنی وہ اور متوفی ایک ماں باپ کی اولاد ہوں یا پدری ہو یا مادری ہو سارا مال اسے ملتا ہے۔ اور اگر چند چچا یا چند پھوپھیاں ہوں اور وہ سب سگے یا سب پدری ہوں تو ان کے درمیان مال برابر تقسیم ہوگا۔ اور اگر چچا اور پھوپھی دونوں ہوں اور سب سگے ہوں یا سب پدری ہوں تو بنابر اقوی چچا کو پھوپھی سے دگنا حصہ ملتا ہے مثلاً اگر دو چچا اور ایک پھوپھی متوفی کے وارث ہوں تو مال پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ایک حصہ پوپھی کو ملتا ہے اور باقی ماندہ چار حصوں کو دونوں چچا آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں گے۔

2767۔ اگر متوفی کے وارث فقط کچھ مادری چچا یا کچھ مادری پھوپھیاں ہوں تو متوفی کا مال ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اگر وارث مادری چچا اور مادری پھوپھی ہو تو چچا کو پھوپھی سے دو گنا ترکہ ملے گا اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ چچا کو جتنا زیادہ حصہ ملا ہے اس پر باہم تصفیہ کریں۔

2768۔ اگر متوفی کے وارث چچا اور پھوپھیاں ہوں اور ان میں سے کچھ پدری اور کچھ مادری اور کچھ سگے ہوں تو پدری چچاوں اور پھوپھیوں کو ترکہ نہیں ملتا اور اقوی یہ ہے کہ اگر متوفی کا ایک مادری چچا یا ایک مادری پھوپھی ہو تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ مادری چچا یا پھوپھی کو دیا جاتا ہے اور باقی حصے سگے چچاوں اور پھوپھیوں کو ملتے ہیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پھوپھیاں نہ ہوں تو وہ حصے پدری چچاوں اور پھوپھیوں کو ملتے ہیں۔ اور اگر متوفی کے مادری چچا اور مادری پھوپھیاں بھی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے دو حصے سگے چچاوں اور پھوپھیوں کو ملتے ہیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پھوپھیاں نہ ہوں تو پدری چچا اور پدری پھوپھی کو ترکہ ملتا ہے اور ایک حصہ مادری چچا اور پھوپھی کو ملتا ہے اور مشہور یہ ہے کہ مادری چچا اور مادری پھوپھی کا حصہ ان کے مابین برابر برابر تقسیم ہوگا لیکن بعید نہیں کہ چچا کو پھوپھی سے دگنا حصہ ملے اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ باہم تصفیہ کریں۔

2769۔اگر متوفی کا وارث فقط ایک ماموں یا ایک خالہ ہو تو سارا مال اسے ملتا ہے۔ اور اگر کئی ماموں بھی ہوں اور خالائیں بھی ہوں اور سب سگے یا پدری یا مادری ہوں تو بعید نہیں کہ ماموں کو خالہ سے دگنا ترکہ ملے لیکن برابر، برابر ملنے کا احتمال بھی ہے لہذا احتیاط کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔

2770۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک یا چند مادری ماموں اور خالائیں اور سگے ماموں اور خالائیں ہوں اور پدری ماموں اور خالائیں ہوں تو پدری مامووں اور خالاوں کو ترکہ نہ ملنا محل اشکال ہے بہر حال بعید نہیں کہ ماموں کو خالہ سے دگنا حصہ ملے لیکن احتیاط باہم رضامندی سے معاملہ کرنا چاہئے۔

2771۔ اگر متوفی کے وارث ایک یا چند ماموں یا ایک چند خالائیں یا ماموں اور خالہ اور ایک یا چند چچا یا ایک یا چند پھوپھیاں یا چچا اور پھوپھی ہوں تو مال تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک حصہ ماموں یا خالہ کو یا دونوں کو ملتا ہے اور باقی دو حصے چچا یا پھوپھی کو یا دونوں کوملتے ہیں۔

2772۔ اگر متوفی کے وارث ایک ماموں یا ایک خالہ اور چچا اور پھوپھی ہوں تو اگر چچا اور پھوپھی سگے ہوں یا پدری ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ ماموں یا خالہ کو ملتا ہے، اور اقوی کی بنا پر باقی سے دو حصے چچا کو اور ایک حصہ پھوپھی کو ملتا ہے لہذا مال کے نو حصے ہوں گے جن میں سے تین حصے ماموں یا خالہ کو اور چار حصے چچا کو اور دو حصے پھوپھی کو ملیں گے۔

2773۔ اگر متوفی کے وارث ایک ماموں یا ایک خالہ اور ایک مادری چچا یا ایک مادری پھوپھی اور سگے یا پدری چچا اور پھوپھیاں ہوں تو مال کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ایک حصہ ماموں یا خالہ کو دیا جاتا ہے۔ اور باقی دو حصوں کو چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے اور بعید نہیں کہ چچا کو پھوپھی سے دگنا حصہ ملے اگرچہ احتیاط کا خیال رکھنا بہتر ہے۔

2774۔اگر متوفی کے وارث چند ماموں یا چند خالائیں ہوں جو سگے یا پدری یا مادری ہوں اور اس کے چچا اور پھوپھیاں بھی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے دو حصے اس دستور کے مطابق جو بیان ہوچکا ہے چچاوں اور پھوپھیوں کے مابین تقسیم ہوجاتے ہیں اور باقی ایک حصہ ماموں اور خالائیں جیسا کہ مسئلہ 2770 میں گزر چکا ہے آپس میں تقسیم کریں گے۔

2775۔اگر متوفی کے وارث مادری ماموں یا خالائیں اور چند سگے ماموں اور خالائیں ہوں یا فقط پدری ماموں اور خالائیں اور چچا و پھوپھی ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے دو حصے اس دستور کے مطابق جو بیان ہوچکا ہے چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے اور بعید نہیں کہ باقیماندہ تیسرے حصے کو تقسیم میں باقی ورثا کے حصے برابر ہوں۔

2776۔ اگر متوفی کے چچا اور پھوپھیاں اور ماموں اور خالائیں نہ ہوں تو مال کی جو مقدار چچاوں اور پھوپھیوں کو ملنی چاہئے وہ ان کی اولاد کو اور جو مقدار مامووں اور خالاوں کو ملنی چاہئے وہ ان کی اولاد کو دی جاتی ہے۔

2777۔اگر متوفی کے وارث اس کے باپ کے چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں اور اس کی ماں کے چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ متوفی کی ماں کے چچاوں، پھوپھیاں، مامووں اور خالاوں کو بطور میراث ملے گا۔ اور مشہور قول کی بنا پر مال ان کے درمیان برابر، برابر تقسیم کر دیا جائے گا لیکن احتیاط کے طور پر مصالحت کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور باقی دو حصوں کے تین حصے کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ متوفی کے باپ کے ماموں اور خالائیں (یعنی ننھیالی رشتے دار) اسی کیفیت کے مطابق آپس میں برابر، برابر بانٹ لیتے ہیں اور باقی دو حصے بھی اسی کیفیت کے مطابق متوفی کے باپ کے چچاوں اور پھوپھیوں (یعنی ددھیالی رشتے داروں) کو ملتے ہیں۔

بیوی اور شوہر کی میراث


2778۔ اگر کوئی عورت بے اولاد مرجائے تو اس کے سارے مال کا نصف حصہ شوہر کو اور باقی ماندہ دوسرے ورثاء کو ملتا ہے اور اگر کسی عورت کو پہلے شوہر سے یا کسی اور شوہر سے اولاد ہو تو سارے مال کا چوتھائی حصہ شوہر کو اور باقی ماندہ دوسرے ورثاء کو ملتا ہے۔

2779۔ اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے مال کا چھوتھائی حصہ اس کی بیوی کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملتا ہے۔ اور اگر اس آدمی کو اس بیوی سے یا کسی اور بیوی سے اولاد ہو تو مال کا آٹھواں حصہ بیوی کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملتا ہے۔ اور گھر کی زمین، باغ، کھیت اور دوسری زمینوں میں سے عورت نہ خود زمین بطور میراث حاصل کرتی ہے اور نہ ہی اس کی قیمت میں سے کوئی ترکہ پاتی ہے نیز وہ گھر کی فضا میں قائم چیزوں مثلاً عمارت اور درختوں سے ترکہ نہیں پاتی لیکن ان کی قیمت کی صورت میں ترکہ پاتی ہے۔ اور جو درخت، کھیت اور عمارتیں باغ کی زمین، مزروعہ زمین اور دوسری زمینوں میں ہوں اور ان کا بھی یہی حکم ہے۔

2780۔ جن چیزوں میں سے عورت ترکہ نہیں پاتی مثلاً رہائشی مکان کی زمین اگر وہ ان میں تصرف کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ دوسرے ورثاء سے اجازت لے اور ورثاء جب تک عورت کا حصہ نہ دے دیں ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر ان چیزوں میں مثلاً عمارتوں اور درختوں میں تصرف کریں ان کی قیمت سے وہ ترکہ پاتی ہے۔

2781۔اگر عمارت اور درخت وغیرہ کی قیمت لگانا مقصود ہو تو جیسا کہ قیمت لگانے والوں کا معمول ہوتا ہے کہ جس زمین میں وہ ہیں اس کی خصوصیت کو پیش نظر رکھے بغیر ان کا حساب کریں کہ ان کی کتنی قیمت ہے، نہ کہ انہیں زمین سے اکھڑے ہوئے فرض کرکے ان کی قیمت لگائیں اور نہ ہی ان کی قیمت کا حساب اس طرح کریں کہ وہ بغیر کرائے کے اس زمین میں اسی حالت میں باقی رہیں یہاں تک کہ اجڑ جائیں۔

2782۔نہروں کا پانی بہنے کی جگہ اور اسی طرح کی دوسری جگہ زمین کا حکم رکھتی ہے اور اینٹیں اور دوسری چیزیں جو اس میں لگائی گئی ہوں اور وہ عمارت کے حکم میں ہیں۔

2783۔ اگر متوفی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں لیکن اولاد کوئی نہ تو مال کا چوتھا حصہ اور اگر اولاد ہو تو مال کا آٹھواں حصہ اس تفصیل کے مطابق جس کا بیان ہوچکا ہے سب بیویوں میں مساوی طور پر تقسیم ہوتاہے خواہ شوہر نے ان سب کے ساتھ یا ان میں سے بعض کے ساتھ ہم بستری نہ بھی کی ہو۔ لیکن اگر اس نے ایک ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے اس کی موت واقع ہوئی ہے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور اس سے ہمبستری نہ کی ہو تو وہ عورت اس سے ترکہ نہیں پاتی اور وہ مہر کا حق بھی نہیں رکھتی۔

2784۔ اگر کوئی عورت مرض کی حالت میں کسی مرد سے شادی کرے اور اسی مرض میں مرجائے تو خواہ مرد نے اس سے ہم بستری نہ بھی کی ہو وہ اس کے ترکے میں حصے دار ہے۔

2785۔ اگر عورت کو اس ترتیب سے رجعی طلاق دی جائے جس کا ذکر طلاق کے احکام میں کیا جاچکا ہے اور وہ عدت کے دوران مرجائے تو شوہر اس سے ترکہ پاتا ہے۔ اسی طرح اگر شوہر اس عدت کے دوران فوت ہوجائے تو بیوی اس سے تکہ پاتی ہے لیکن عدت گزرنے کے بعد یا بائن طلاق کی عدت کے دوران ان میں سے کوئی ایک مرجائے تو دوسرا اس سے ترکہ نہیں پاتا۔

2786۔اگر شوہر مرض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور بارہ قمری مہینے گزرنے سے پہلے مر جائے تو عورت تین شرطیں پوری کرنے پر اس کی میراث سے ترکہ پاتی ہے:

1۔ عورت نے اس مدت میں دوسرا شوہر نہ کیا ہو اور اگر دوسرا شوہر کیا ہو تو اسے میراث نہیں ملے گی اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ صلح کرلیں (یعنی متوفی کے ورثاء عورت سے مصالحت کرلیں)۔

2۔ طلاق عورت کی مرضی اور درخواست پر نہ ہوئی ہو۔ ورنہ اسے میراث نہیں ملے گی خواہ طلاق حاصل کرنے کے لئے اس نے اپنے شوہر کو کوئی چیز دی ہو یا نہ دی ہو۔

3۔ شوہر نے جس مرض میں عورت کو طلاق دی ہو اس مرح کے دوران اس مرض کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے مرگیا ہو۔ لہذا اگر وہ اس مرض سے شفایاب ہوجائے اور کسی اور وجہ سے مرجائے تو عورت اس سے میراث نہیں پاتی۔

2787۔ جو کپڑے مرد نے اپنی بیوی کو پہننے کے لئے فراہم کئے ہوں اگرچہ وہ ان کپڑوں کو پہن چکی ہو پھر بھی شوہر کے مرنے کے بعد وہ شوہر کے مال کا حصہ ہوں گے۔

مِیراث کے مختلف مسائل


2788۔ متوفی کا قرآن مجید، انگوٹھی، تلوار اور جو کپڑے وہ پہن چکا ہو وہ بڑے بیٹے کا مال ہے اور اگر پہلی تین چیزوں میں سے متوفی نے کوئی چیز ایک سے زیادہ چھوڑی ہوں مثلاً اس نے قرآن مجید کے دو نسخے یا دو انگوٹھیاں چھوڑی ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کا بڑا بیٹا ان کے بارے میں دوسرے ورثاء سے مصالحت کرے اور ان چار چیزوں کے ساتھ رحل، بندوق، خنجر اور جیسے دوسرے ہتھیاروں کو بھی ملادیں تو "وجہ" سے خالی نہیں لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ بڑا بیٹا ان چیزوں سے متعلق دوسرے ورثاء سے مصالحت کرے۔

2789۔ اگر کسی متوفی کے بڑے بیٹے ایک سے زیادہ ہوں مثلاً دو بیویوں سے دو بیٹے بیک وقت پیدا ہوں تو جن چیزوں کا ذکر کیا جاچکا ہے انہیں برابر برابر آپس میں تقسیم کریں۔

2790۔ اگر متوفی مقروض ہو تو اگر اس کا قرض اس کے مال کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ بڑا بیٹا اس مال سے بھی اس کا قرض ادا کرے جو اس کی ملکیت ہے اور جن کا سابقہ مسئلے میں ذکر کیا گیا ہے یا اس کی قیمت کے برابر اپنے مال سے دے۔ اور اگر متوفی کا قرض اس کے مال سے کم ہو اور ذکر شدہ چند چیزوں کے علاوہ جو باقی مال اسے میراث میں مل ہو اگر وہ بھی اس کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی نہ ہو تو ضروری ہے کہ بڑا بیٹا ان چیزوں سے یا اپنے مال سے اس کا قرض دے۔ اور اگر باقی مال قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہو تب بھی احتیاط لازم یہ ہے کہ بڑا بیٹا جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے قرض ادا کرنے میں شرکت کرے مثلاً اگر متوفی کا تمام مال ساٹھ روپے کا ہو اور اس میں سے بیس روپے کی وہ چیزیں ہوں جو بڑے بیٹے کا مال ہیں اور اس پر تیس روپے قرض ہو تو بڑے بیٹے کو چاہئے کہ ان چیزوں میں سے دس روپے متوفی کے قرض کے سلسلے میں دے۔

2791۔ مسلمان کافر سے ترکہ پاتا ہے لیکن کافر خواہ مسلمان متوفی کا باپ یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اس سے ترکہ نہیں پاتا۔

2793۔ جب کسی متوفی کے ورثاء کہ تقسیم کرنا چاہیں تو وہ بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو اور اگر زندہ پیدا ہو تو میراث کا حق دارہوگا اس صورت میں جب کہ ایک سے زیادہ بچوں کے پیدا ہونے کا احتمال نہ ہو اور اطمینان نہ ہو کہ وہ بچہ لڑکی ہے تو احتیاط کی بنا پر ایک لڑکے کا حصہ علیحدہ کر دیں اور جو مال اس سے زیادہ ہو وہ آپس میں تقسیم کرلیں بلکہ اگر ایک سے زیادہ بچے ہونے کا قوی احتمال ہو مثلاً عورت کے پیٹ میں دو یا تین بچے ہونے کا احتمال ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ جن بچوں کے پیداہونے کا احتمال ہو ان کے حصے علیحدہ کریں مثلاً اگر ایک لڑکے یا ایک لڑکی کی ولادت ہو تو زائد ترکے کو ورثاء آپس میں تقسیم کرلیں۔