|
|
جس ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک مضمرات کا کما حقہ احساس و ادراک ہر شخص کے لئَے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالہ کے لئَے مؤثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے گردوپیش تیزی سے جو حالات رونما ہورہے ہیں، انکی نزاکت اور سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑهیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض ، نفاق اور انتشار و افتراق کا خاتمه کر کے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگی، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکنہ کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری بقاء اور فلاح و نجات مضمر ہے۔
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، “وَ لا تَکُونُوا کَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْبَيِّناتُ وَ أُولئِکَ لَهُمْ عَذابٌ عَظيمٌ” اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو کہ جنهوں نے تفرقہ ایجاد کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا، ان کے لئے عذاب عظیم ہے. [1]
اس آیت میں خداوند عالم مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے اپنے دین کو فرقہ فرقہ میں بانٹ دیا، اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں [مجمع البیان ج2 ص807] آپس میں اختلاف کرانا یہودیوں اور عیسائیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ یہودی، جناب موسی کے بعد 71 فرقوں میں ہوگئے اور عیسائی، جناب عیسی کے بعد 72 میں، قیامت یہ ہے کہ مسلمان اتنی ہدایت کے باوجود 73 فرقوں میں تقسیم ہوگئے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر یہودیوں پر عالمگیر تباہی کے سائے مسلط کردیئے گئے تھے اگر وہی اسباب امت مسلمہ میں جمع ہوگئے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تباہی امت مسلمہ کا مقدر بن سکتی ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ دور حاضر میں یہود و نصاری اپنے مذہب کے کلی اختلافات کے باوجود متحد ہیں لیکن مسلمان اپنے مذہب کے کلی مشترکات کے باوجودبھی متفرق ہیں۔
اگر تاریخ ادیان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے بہت سے محور موجود ہیں جیسے وحدانیت خدا، رسالت، کعبہ، قبلہ اور انھیں میں ایک انتظار مہدی موعود ہےجن پر تمام مسلمان متحد ہوسکتے ہیں ۔
عقیدہ مہدویت مسلمانوں کے درمیان صدر اسلام سے مشہور ہے اور پیغمبر اکرم نے متعدد مرتبہ امام مہدی (عج) کے وجود کی خبر دی ہے اور امام مہدی کی حکومت ، اسم ،کنّیت کو بھی بیان فرمایا ہے ، اسکے علاوہ آپ کے انتظار کی فضیلت ، اصحاب کی خصوصیات اور آخری زمانے کی حالت کو مشخص فرمایا ہے، جس کے لئے آپ اسی سائٹ پر دوسرے مقالات کا مطالعہ فرما سکتے ہیں مقالہ کی تنگی کی بناء پر انھیں یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے۔[2]
لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ مہدویت کا عقیدہ تمام مسلمانوں کے درمیان موجود ہے، ممکن ہے کوئی جزوی فرق ہو (اور جزوی فرق بھی امام زمانہؑ کی پیدائش کے متعلق ہے جسے بہت سے علماء اہل سنت قبول کرتے ہیں کہ امام کی پیدائش ہو چکی ہے ،[3])لیکن عقل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایک انسان عاقل، کلی کو چھوڑ کر جزوی پر جھگڑا کرے، جبکہ مسلمانوں کے قسم خوردہ دشمن اپنے مسیح کے انتظار اور ان کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے کلی اختلافات کو چھوڑ کر جزوی پر اتحاد کئے ہوئے ہیں ۔مثلا دنیا میں 19 اور20 صدی میں یهود او ر مسیحي، دونوں اپنی دیرینه دشمنی کے باوجود اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ منجی“مسیحا ”کے ظهور کے لئے سیاسی سطح پر زمین ہموار کرنے اور سیاسي پشتپناہی کے طور پر ایک مشترکه حکومت جو صھونیزم کی بنیاد پر قائم ہو، وجود میں لائی جاۓ– اور اس سیاسی طرز فکر کے نتیجہ میں اسرائیلی غاصب حکومت فلسطینیون کے آبائی سر زمین پر وجود میں لائی گئی اور اسی نظریہ کے پیچھے آمریکا و یورپی ممالک کے سینکڑون کنیسا اور مسیحی تنظیموں نے اسرائیل کے جارحانه مظالم اور غاصب حکومت کی حمایت بھی کی.
سن 1980 ء میں انٹرنیشل ام. بی. سی .اف ."کرچچن "قدس میں تاسیس هوئی جسکا اصلی هدف کچھ اس طرح بتایا گیاہے “هم إسرائیلیوں سے زیاده صھونیزیم کے پابند هیں اور قدس وہ شہر هے جس پر اﷲ تعالی نے اپنا خاص کرم کیا هے اور اسے تا ابد اسرائیلیوں کے لیے مخصوص کر رکھا هے– اس کرچچن سفارت کے اراکین کا یه عقیده هے،اگر اسرائیل نهیں هے تو "جناب مسیح" کی بازگشت کا کوئی امکان نہیں هے چنانچه اسرائیل کا وجود مسیح منجي عالم کےلیے ضروری هے ۔[4]
تو جب یھود اور نصاری عقیده انتظار کے سیاسي پهلو کے پرتو میں اپنی دیرینه دشمنیوں کو بھولا کر اسلام اور مسلمین کے خلاف ایک غاصب حکومت وجود میں لا سکتے هیں، تو کیاهم مسلمانوں کو نهیں چاہئے کہ خود ساخته اور بناوٹی اختلافات کو بالائے طاق رکھکر اور ایک پلٹ فارم پر جمع هو کر اس آفاقی الهی نظام کے لیے ماحول سازی کریں۔
ایسے نظام کو عالمي سطح پر وجود میں لانے کیلیے، انتظار کے سیاسي پهلو پر کام کرنے کی اشد ضرورت هے تاکه خود بخود إصلاحی تحریک شروع هو جاۓ اور رفته رفته پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لے، إسلامی جمهوري ایران کا انقلاب، اس حقیقت پر ایک واضح دلیل هے که جسے امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) اور ایراني قوم نے انتظار کے سیاسي پهلو پر عمل کرتے هوۓ اُس آفاقي الهي نظام کے مقدمے کے طور پر اسلامی قوانین پر مبنی، اسلامي جمهوریت کو وجود میں لائے هیں اور اُمید هے که دنیا کے دوسرے مسلمان بھی بیدار هو جائیں اور اس بابرکت إصلاحی قدم سے قدم ملاتے ہوئے، عصر ظھور کے لیے ماحول فراهم کرنے میں شریک بنیں، انشاء اﷲ وعده إلهي کا تحقق نزدیک هو گا –
|