۱۳۹۶/۲/۲۹   1:44  ویزیٹ:3242     معصومین(ع) ارشیو


حضرت فاطمہ زہرا (س) کی مختصر حالات زندگی

 



حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگي بہت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی درس کی حامل تھی ۔ یہ عظیم خاتون اسلام کے ابتدائی دور مختلف مراحل میں رسول اکرم (ص) اورحضرت علی (ع) کے ساتھ رہیں۔آپ نے حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم (ص) کے قول کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظیم شخصیت کے بارے میں دنیا کے بہت سے دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور آپ کو ایک مسلمان عورت کا جامع اور مکمل نمونہ قراردیا ہے اور خود رسول اکرم (ص) نے آپ کو سیدۃ نساء العالمین قرار دیا ہے ۔

رسول اکرم (ص) کی دختر گرامی اور حضرت علی (ع) کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت جاں گدازکے موقع پرھم ،خاندان عصمت و طھارت کےعاشقوں ، تمام مسلمانان عالم اور اپنے تمام ناظرین کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ھیں۔

وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ایسے ماحول میں دختر رحمة العالمین نے تشریف لا کر اس جاہل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ رحمت ہوتی ہے لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے فاطمہ زہرا (س) دنیا میں کیا آئیں معاشرہ عرب میں ایک انقلاب برپا ہو گیا اگر اس بات کی ان جملوں کے ذریعے وضاحت کی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ گنگا الٹی بہنے لگی آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگا عرش فرش اور فرش و عرش سے تبدیل ہو گئے چونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں امن و امان ہو جانا ایک نا ممکن امر ہے جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہ کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زھرا (س) باغ رسالت کا وہ تنہا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا لیکن فاطمہ زہرا (س) عالم نسواں کی تنہا ترین سردار ہیں .

تاریخ، فاطمہ(س) کے علاوه تین بیٹیاں کیا اگر ہزار بیٹیاں بھی بتاتی رہے تو سورہ کوثر پھر بھی فاطمہ (س) کی توصیف کرتا رہیگا یہ سورہ ایسا ہے کہ جن حضرات کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا وہ بھی اس مختصر سورہ کے آگے منہ کی کھاتے نظر آئے یہ ان کا ذوق شاعری تھا کہ ایک مصرعہ کا اور اضافہ کر دیا .


انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر
ان شانئک ھو الابتر ما ھذا کلام البشر


یہ کلام کسی بشر کا نہیں ہے بلکہ اس سے تو خا لق بشر کی جھلک آرہی ہے چونکہ عرب کے بددئوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نہیں تھی اسی لا علمی کی بنیاد پر عورت کو ہر وراثت سے محروم کر دیا گیا ۔ لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے چونکہ فاطمہ زہرا(س)نے رسول اکرم(س)کے دہن مبارک سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ۔

یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک ... اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمہیں بخش دوں ۔

فاطمہ زہرا (س) رسول (س) سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسول (س) فرماتے نظر آئے : فاطمتہ ام ابیھا : فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے رسول بے جب فاطمہ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کہہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسول (س) فاطمہ کی تعظیم کیا کرتے تھے اب اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسول نے فاطمہ کو ماں جو کہا ہے وہ مجاز کہا ہے حقیقت میں ماں تو نہیں بن گئیں ؟ بیٹی ہی رہیں گی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ہوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یہاں منظر بالکل بر عکس نظر آرہا ہے اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے چونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسول فاطمہ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کہنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیم عصمت کے لئے کھڑی ہوتی تھی رسول اسلام فاطمہ(س)کی توصیف میں گویا ہیں ( کتاب بشارہ المصطفیٰ ) اب کلام رسول کی توجیہہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کہئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ( کتاب کنز العمال )

فاطمہ زہرا بحیثیت زوجہ
فاطمہ زہرا (س) بیاہ کر علی مرتضیٰ کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرم بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علی (ع) سے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ، یا رسول اللہ (ص) میں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ )

علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسول (ص) فاطمہ(س)کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے رسول نے سوال کیا بیٹی تمہارا لباس عروسی کیا ہوا بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہ(س) نے جواب دیا بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دیدیا ۔ فاطمہ(س) نے اپنےچاہنِے والوں کو درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔

لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر تھا ایک زرہ (جس کی قیمت پانچ سو درہم تھی ) اور کھدر کا ایک معمولی لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال ( وافی کتاب النکاح ) فاطمہ(س) کا یہ معمولی سا مہر خواتین عالم کو درس قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم (ص) فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو ( وافی کتاب النکاح )

مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں قابل مذمت ہے بلکہ مہر کا کم ہونا قابل احترام ہے ( وافی کتاب النکاح 

لیکن ہزار حیف امت رسول کو کیا ہوگیا ؟ بیٹی کے گھر والے یہ سوچ کر مہر زیادہ معین کرتے ہیں کہ مہر زیادہ رہے گا تو لڑکا اس کے وزن میں دبا رہےگا اور ہماری لڑکی طلاق سے محفوظ رہے گی اور جب مہر پر لڑکے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس مہر پر راضی ہو تو لڑکا یہ سوچ کر جواب اثبات میں سر ہلا دیتا ہے کہ دینا تو ہے ہی نہیں ہاں کرنے میں کیا جاتا ہے ۔
لیکن! مہر واجب الادا ہوتا ہے صرف سر ہلانے سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ عمل کا جامہ پہنانا واجب و لازم ہے ۔ جس طرح فاطمہ(س) کا مختصر سا مہر تھا اسی طرح جہیز بھی مختصر سا تھا اس زمانہ ( حال حاضر ) کے اعتبار سے تو بہت ہی کم نظر آتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ زمانے کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں وقت بھی کچھ اقتضا کرتا ہے لیکن اساس شریعت اسلام عقل و شعور ہے کسی بھی حال میں عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتی کہ اپنے دولت خانہ کو غریب خانہ بنا کر دوسرے کے گھر کو دولت کدہ بنا دیا جائے بلکہ زمانہ اور وقت چاہے کتنے ہی چیختے چلاتے رہیں عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو جہیز دیا جائے ۔

فاطمہ زھرا(س) بحیثیت مادر
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول، صدیقہ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں اور بس، بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کی ایک عظیم ذمہ داری کی یاد آوری قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے، فاطمہ (س) ان خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا، ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا پیرو شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈالدیں۔
افسوس کہ آپ اپنے والد رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد زیادہ عرصہ اپنے بابا کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور ایک روایت کے مطابق 13مطابق سن 11 ہجری قمری جمادی الاول کو دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئیں۔