آپ کی ولادت
آپ 15/ رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے ۔ ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے ۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔
آپ کانام نامی
ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکم خدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن اور بعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا، بحارالانوار میں ہے کہ امام حسن کی پیدائش کے بعدجبرئیل امین نے سرورکائنات کی خدمت میں ایک سفید ریشمی رومال پیش کیا جس پرحسن لکھا ہوا تھا ماہر علم النسب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔ کتاب اعلام الوری کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہوا تھا۔
زبان رسالت دہن امامت میں
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن کی ولادت ہوئی اورآپ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم بےانتہا خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی بحارالانور میں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ امام حسن کو لعاب دہن رسول اکرم اورامام حسین کو زیادہ چوسنے کاموقع دستیاب ہوا تھا اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقر ہو گئی۔
آپ کا عقیقہ
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابة جلد 3 ص 13) ۔
علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا (مطالب السؤل ص 220) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ”اللہم عظمہابعظمہ، لحمہا بلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایا اس کی ہڈی مولودکی ہڈی کے عوض، اس کاگوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کے خون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمد کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے ۔
امام شافعی رح کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص 220) ۔
بعض معاصرین نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے آپ کاختنہ بھی کرایا تھا لیکن میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امامت کی شان سے مختون پیداہونا بھی ہے۔
کنیت و القاب
آپ کی کنیت صرف ابو محمدتھی اور آپ کے القاب بہت کثیرہیں: جن میں طیب،تقی، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں، محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ آپ کا”سید“ لقب خود سرور کائنات کاعطا کردہ ہے (مطالب السؤل ص 221) ۔
زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کالقب ناصح اور امین بھی تھا۔
امام حسن پیغمبر اسلام کی نظر میں
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام پیغمبراسلام کے نواسے تھے لیکن قرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیا ہے اوراپنے دامن میں جابجا آپ کے تذکرہ کو جگہ دی ہے خود سرورکائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلق ارشادفرمائی ہیں:
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین کودوست رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پرسوار ہو گئے کسی نے روکناچاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کردیا(اصابہ جلد 2 ص 12) ۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتے دیکھا(نورالابصارص 119) ۔
ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لیے جارہے تھے ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے یہ سن کرآنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے (اسدالغابة جلد 3 ص 15 بحوالہ ترمذی)۔
امام بخاری اور امام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں توبھی اس سے محبت کر ۔
حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اوروہ دوڑ کر پشت رسول پرسوار ہو گئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ سے اس کاتذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میراگل امید ہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہ میرابیٹا سید ہے اوردیکھو یہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔
امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نماز میں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا توفرمایا کہ میرافرزندمیری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے ، اس لیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔
حکیم ترمذی ،نسائی اور ابوداؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا (مطالب السؤل ص 223) ۔
امام حسن کی سرداری جنت
آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والدبزرگوار یعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔
جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشادفرمایا کہ مجھے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے سردارہیں اور ان کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمال ج 7 ص 107 ،صواعق محرقہ ص 117) اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہ حضرت علی صرف سیدہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے
جذبہ اسلام کی فراوانی
مؤرخین کابیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہو کرکہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جس کی رو سے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکوں آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھ کہہ چکے ہیں اب اس میں سرموفرق نہ ہوگا اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہش کی ،آپ کی عمراگرچہ اس وقت صرف 14 ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسی جرائت کاثبوت دیاجس کاتذکرہ زبان تاریخ پر ہے ۔ لکھاہے کہ ابوسفیان کی طلب سفارش پر آپ نے دوڑکر اس کی داڑھی پکڑ لی اورناک مروڑ کر کہا کلمہ شہادت زبان پرجاری کرو،تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کرامیرالمومنین مسرور ہو گئے (مناقب آل ابی طالب جلد 4 ص 46) ۔
امام حسن اور ترجمانی وحی
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ امام حسن کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائی کم سنی کے عالم میں اپنے نانا پرنازل ہونے والی وحی من وعن اپنی والدہ ماجدہ کو سنا دیا کرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایا کہ اے بنت رسول میراجی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اور سنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کاوقت بتادیا ۔ ایک دن امیرالمومنین حسن سے پہلے داخل خانہ ہوگئے اورگوشئہ خانہ میں چھپ کربیٹھ گئے۔ امام حسن حسب معمول تشریف لائے اورماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروع کردی لیکن تھوڑی دیرکے بعد عرض کی ”یااماہ قدتلجلج لسانی وکل بیانی لعل سیدی یرانی“مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اوربیان مقصدمیں رکاوٹ ہورہی ہے مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہے ہیں یہ سن کرحضرت امیرالمومنین نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیا اور بوسہ دینے لگے(بحارالانوارجلد 10 ص 193) ۔
حضرت امام حسن کابچپن میں لوح محفوظ کامطالعہ کرنا
امام بخاری رقمطرازہیں کہ ایک دن کچھ صدقہ کی کھجوریں ائی ہوئی تھیں امام حسن اورامام حسین اس کے ڈھیرسے کھیل رہے تھے اورکھیل ہی کھیل کے طورپر امام حسن نے ایک کھجوردہن اقدس میں رکھ لی، یہ دیکھ کرآنحضرت نے فرمایااے حسن کیاتمہیں معلوم نہیں ہے ؟ کہ ہم لوگوں پرصدقہ حرام ہے (صحیح بخاری پارہ 6 ص 52) ۔
حضرت حجة الاسلام شہیدثالث قاضی نوراللہ شوشتری تحریرفرماتے ہیں کہ ”امام پراگرچہ وحی نازل نہیں ہوتی لیکن اس کوالہام ہوتاہے اوروہ لوح محفوظ کامطالعہ کرتاہے جس پرعلامہ ابن حجرعسقلانی کاوہ قول دلالت کرتاہے جوانہوں نے صحیح بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھاہے جس میں آنحضرت نے امام حسن کے شیرخوارگی کے عالم میں صدقہ کی کھجورکے منہ میں رکھ لینے پراعتراض فرمایاتھا”کخ کخ اماتعلم ان الصدقة علیناحرام“ تھوکوتھو، کیاتمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگوں پرصدقہ حرام ہے اورجس شخص نے یہ خیال کیاکہ امام حسن اس وقت دودھ پیتے تھے آپ پرابھی شرعی پابندی نہ تھی آنحضرت نے ان پرکیوں اعتراض کیا اس کاجواب علامہ عسقلانی نے اپنی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں دیاہے کہ امام حسن اوردوسرے بچے برابرنہیں ہوسکتے کیونکہ ان الحسن یطالع لوح المحفوظ امام حسن شیرخوارگی کے عالم میں بھی لوح محفوظ کامطالعہ کیاکرتے تھے(احقاق الحق ص 127) ۔
امام حسن کابچپن اور مسائل علمیہ
یہ مسلمات سے ہے کہ حضرت آئمہ معصومین علیہم السلام کوعلم لدنی ہوا کرتاتھا وہ دنیا میں تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل علمیہ سے واقف ہوتے تھے جن سے دنیا کے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمرتک بے بہرہ رہتے تھے امام حسن جوخانوادہ رسالت کی ایک فرد اکمل اورسلسلہ عصمت کی ایک مستحکم کڑی تھے، کے بچپن کے حالات و واقعات دیکھے جائیں تومیرے دعوی کاثبوت مل سکے گا:
1۔ مناقب ابن شہرآشوب میں بحوالہ شرح اخبارقاضی نعمان مرقوم ہے کہ ایک سائل حضرت ابوبکرکی خدمت میں آیااوراس نے سوال کیا کہ میں نے حالت احرام میں شترمرغ کے چندانڈے بھون کرکھالیے ہیں بتائیے کہ مجھ پرکفارہ واجب الاداہوا۔ سوال کاجواب چونکہ ان کے بس کا نہ تھا اس لیے عرق ندامت پیشانی خلافت پر آ گیا ارشاد ہوا کہ اسے عبدالرحمن بن عوف کے پاس لے جاؤ، جوان سے سوال دھرایا تو وہ بھی خاموش ہو گئے اور کہا کہ اس کاحل تو امیرالمومنین کرسکتے ہیں_
سائل حضرت علی کی خدمت میں لایا گیا آپ نے سائل سے فرمایا کہ میردو چھوٹے بچے جوسامنے نظرآرہے ہیں ان سے دریافت کر لے سائل امام حسن کی طرف متوجہ ہوا اورمسئلہ دہراہا امام حسن نے جواب دیا کہ تو نے جتنے انڈے کھائے ہیں اتنی ہی عمدہ اونٹیاں لے کرانہیں حاملہ کرا اور ان سے جو بچے پیداہوں انہیں راہ خدامیں ہدیہ خانہ کعبہ کردے ۔ امیرالمومنین نے ہنس کرفرمایا کہ بیٹا جواب تو بالکل صحیح ہے لیکن یہ بتاؤ کہ کیاایسا نہیں ہے کہ کچھ حمل ضائع ہوجاتے ہیں اورکچھ بچے مرجاتے ہیں عرض کی باباجان بالکل درست ہے مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کچھ انڈے بھی خراب اور گندے نکل جاتے ہیں یہ سن کرسائل پکار اٹھا کہ ایک مرتبہ اپنے عہد میں سلیمان بن داؤد نے بھی یہی جواب دیاتھا جیساکہ میں نے اپنی کتابوں میں دیکھا ہے۔
2۔ ایک روز امیرالمومنین مقام رحبہ میں تشریف فرماتے تھے اور حسنین بھی وہاں موجود تھے ناگاہ ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ میں آپ کی رعایا اور اہل بلد(شہری) ہوں حضرت نے فرمایا کہ تو جھوٹ کہتا ہے تونہ میری رعایا میں سے ہے اورنہ میرے شہرکاشہری ہے بلکہ تو بادشاہ روم کا فرستادہ ہے تجھے اس نے معاویہ کے پاس چند مسائل دریافت کرنے کے لیے بھیجاتھا اوراس نے میرے پاس بھیجدیاہے اس نے کہایاحضرت آپ کاارشاد باکل درست ہے مجھے معاویہ نے پوشیدہ طورپرآپ کے پاس بھیجاہے اوراس کاحال خداوند عالم کے سواکسی کو معلوم نہیں ہے مگرآپ بہ علم امامت سمجھ گئے، آپ نے فرمایاکہ اچھا اب ان مسائل کے جوابات ان دوبچوں میںسے کسی ایک سے پوچھ لے وہ امام حسن کی طرف متوجہ ہواچاہتاتھا کہ سوال کرے امام حسن نے فرمایا: ا
یے شخص تویہ دریافت کرنے آیاہے کہ 1 ۔ حق و باطل میں کتنا فاصلہ ہے 2 ۔ زمین و آسمان تک کتنی مسافت ہے
3 ۔ مشرق و مغرب میں کتنی دوری ہے ۔ 4 ۔ قوس قزح کیاچزہے 5 ۔ مخنث کسے کہتے ہیں 6 ۔ وہ دس چیزیں کیاہیں جن میں سے ہرایک کوخداوندعالم نے دوسرے سے سخت اورفائق پیدا کیاہے۔
سن، حق و باطل میں چار انگشت کا فرق و فاصلہ ہے اکثر و بیشتر جوکچھ آنکھ سے دیکھاحق ہے اورجوکان سے سنا باطل ہے(آنکھ سے دیکھاہوایقینی ۔ کان سے سناہوامحتاج تحقیق )۔
زمین اور آسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مظلوم کی آہ اورآنکھ کی روشنی پہنچ جاتی ہے ۔
مشرق و مغرب میں اتنافاصلہ ہے کہ سورج ایک دن میں طے کرلیتاہے ۔
اور قوس و قزح اصل میں قوس خداہے اس لئے کہ قزح شیطان کانام ہے ۔ یہ فراوانی رزق اوراہل زمین کے لیے غرق سے امان کی علامت ہے اس لئے اگریہ خشکی میں نمودارہوتی ہے توبارش کے حالات میں سے سمجھی جاتی ہے اوربارش میںنکلتی ہے تو ختم باران کی علامت میںسے شمارکی جاتی ہے ۔
مخنث وہ ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوکہ مردہے یاعورت اوراس کے جسم میں دونوں کے اعضاء ہوں اس کاحکم یہ ہے کہ تاحدبلوغ انتظارکریں اگرمحتلم ہوتو مرد اورحائض ہواورپستان ابھرائیں توعورت ۔
اگراس سے مسئلہ حل نہ ہوتو دیکھناچاہئے کہ اس کے پیشاب کی دھاریں سیدھی جاتی ہیں یانہیں اگرسیدھی جاتی ہیں تومرد، ورنہ عورت ۔
اوروہ دس چیزیں جن میں سے ایک دوسرے پرغالب وقوی ہے وہ یہ ہیں کہ خدانے سب سے زائدسخت قوی پتھرکوپیداکیاہے مگراس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھرکوبھی کاٹ دیتاہے اوراس سے زائدسخت قوی آگ ہے جولوہے کوپگھلادیتی ہے اورآگ سے زیادہ سخت قوی پانی ہے جوآگ کوبجھادیتاہے اوراس سے زائد سخت وقوی ابرہے جوپانی کواپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتاہے اوراس سے زائد وقوی ہواہے جوابرکواڑائے پھرتی ہے اورہواسے زائد سخت وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوامحکوم ہے اوراس سے زائدسخت وقوی ملک الموت ہے جوفرشتہ بادکی بھی روح قبض کرلیں گے اورموت سے زائد سخت وقوی حکم خداہے جوموت کوبھی ٹال دیتاہے۔یہ جوابات سن کرسائل پھڑک اٹھا۔
3۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ ایک شخص کے ہاتھ میں خون آلودچھری ہے اوراسی جگہ ایک شخص ذبح کیاہوا پڑاہے جب اس سے پوچھاگیاکہ تونے اسے قتل کیاہے،تواس نے کہا ہاں ،لوگ اسے جسدمقتول سمیت جناب امیرالمومنین کی خدمت میں لے چلے اتنے میں ایک اور شخص دوڑتاہواآیا،اورکہنے لگا کہ اسے چھوڑدو اس مقتول کاقاتل میں ہوں ۔ ان لوگوں نے اسے بھی ساتھ لے لیااورحضرت کے پاس لے گئے ساراقصہ بیان کیا آپ نے پہلے شخص سے پوچھاکہ جب تواس کاقاتل نہیں تھاتوکیاوجہ ہے کہ اپنے کواس کاقاتل بیان کیا،اس نے کہایامولا میں قصاب ہوں گوسفندذبح کررہاتھا کہ مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی ،اس طرح خون آلود چھری میں لیے ہوئے اس خرابہ میں چلاگیا وہاں دیکھاکہ یہ مقتول تازہ ذبح کیاہواپڑاہے اتنے میں لوگ آگئے اورمجھے پکڑلیا میں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس وقت جبکہ قتل کے سارے قرائن موجودہیں میرے انکارکوکون باور کرے گا میں نے اقرارکرلیا ۔
پھرآپ نے دوسرے سے پوچھاکہ تواس کاقاتل ہے اس نے کہا جی ہاں، میں ہی اسے قتل کرکے چلاگیاتھا جب دیکھاکہ ایک قصاب کی ناحق جان چلی جائے گی توحاضرہوگیا آپ نے فرمایامیرے فرزندحسن کوبلاؤ وہی اس مقدمہ کافیصلہ سنائیں گے امام حسن آئے اورسارا قصہ سنا، فرمایادونوں کوچھوڑدو یہ قصاب بے قصورہے اوریہ شخص اگرچہ قاتل ہے مگراس نے ایک نفس کوقتل کیاتودوسرے نفس (قصاب) کوبچاکر اسے حیات دی اورا سکی جان بچالی اورحکم قرآن ہے کہ ”من احیاہافکانما احیاالناس جمیعا“ یعنی جس نے ایک نفس کی جان بچائی اس نے گویاتمام لوگوں کی جان بچائی لہذا اس مقتول کاخون بہابیت المال سے دیاجائے۔
4۔ علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیرمیں لکھاہے کہ شاہ روم نے جب حضرت علی کے مقابلہ میں معاویہ کی چیزہ دستیوں سے آگاہی حاصل کی تودونوں کولکھا کہ میرے پاس ایک ایک نمائندہ بھیج دیں حضرت علی کی طرف سے امام حسن اورمعاویہ کی طرف سے یزید کی روانگی عمل میں ائی یزیدنے وہاں پہنچ کر شاہ روم کی دست بوسی کی اورامام حسن نے جاتے ہی کہاکہ خداکاشکرہے میں یہودی ،نصرانی، مجوسی وغیرہ نہیں ہوں بلکہ خالص مسلمان ہوں شاہ روم نے چندتصاویر نکالیں یزیدنے کہامیں ان سے ایک کوبھی نہیں پہنچانتا اورنہ بتاسکتاہوں کہ یہ کن حضرات کی شکلیں ہیں امام حسن نے حضرت آدم، نوح، ابراہیم، اسماعیل، اور شعیب ویحی کی تصویریں دیکھ کرپہچان لیں اورایک تصویردیکھ کرآپ رونے لگے بادشاہ نے پوچھایہ کس کی تصویرہے فرمایا میرے جد نامدار کی،
اس کے بعد بادشاہ نے سوال کیا کہ وہ کون سے جاندارہیں جواپنی ماں کے پیٹ سے پیدانہیں ہوئے آپ نے فرمایااے بادشاہ وہ سات جاندارہیں :
1 ۔ 2 ۔آدم و حوا 3 ۔ دنبہ ابراہیم 4 ناقہ صالح 5 ۔ ابلیس 6 ۔ موسی کی اژدھا 7 ۔ وہ کوا جس نے قابیل کی دفن ہابیل کی طرف رہبری کی ۔
بادشاہ نے یہ تبحرعلمی دیکھ کرآپ کی بڑی عزت کی اورتحائف کے ساتھ واپس کیا۔
امام حسن اور تفسیر قرآن
علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیر و سیط واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اورابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعدوہ شخص امام حسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہدسے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی :
1 ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا ۔ائے نبی ہم نے تم کوشاہد و مبشر اورنذیربناکربھیجاہے ۔
2 ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کاوہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے، اوریہی یوم مشہود ہے ۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السؤل ص 225) ۔
امام حسن کی عبادت
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثرموت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و نشور کویاد کرکے رویاکرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے آپ کامعمول تھاکہ جب دروازہ مسجدپرپہنچتے توخدا کو مخاطب کرکے کہتے میرے پالنے والے تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں آیاہے اسے رحمن ورحیم اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کردے آپ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے تواس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تک سورج طالع نہ ہوجائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔
آپ کازہد
امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم و پرہیزگارتھے۔
آپ کی سخاوت
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگادست سوال دراز ہوناتھاکہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایاکہ مزدور لاکراسے اٹھوالے جا اس کے بعدآپ نے مزدورکی مزدوری میں اپناچغابخش دیا(مراة الجنان ص 123) ۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کوخداسے دعاکرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزار درہم عطا فرما آپ نے گھرپہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوادی (نورالابصار ص 122) ۔
آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کومحروم واپس نہیں فرماتے ارشادفرمایاکہ میں خداسے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اورمیں نے لوگوں کودینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہ اگراپنی عادت بدل دوں، توکہیں خدابھی نہ اپنی عادت بدل دے اورمجھے بھی محروم کردے (ص 123) ۔
توکل کے متعلق آپ کاارشاد
امام شافعی کابیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایاکرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری پسندہے آپ نے فرمایاکہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کاکہنادرست ہے لیکن میں تویہ کہتاہوں کہ جوشخص خداکے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیزکوپسند کرے گا جسے خدااس کے لیے پسندکرے (مراة الجنان جلد 1 ص 125) ۔
امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں
علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروں کاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کوگالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکاتوآپ اس کے قریب گئے اوراس کوسلام کرکے فرمایاکہ بھائی شایدتومسافرہے، سن اگرتجھے سواری کی ضرورت ہوتومیں تجھے سوری دیدوں، اگرتوبھوکاہے توکھاناکھلادوں، اگرتجھے کپڑے درکارہوں توکپڑے دیدوں، اگرتجھے رہنے کوجگہ چاہئے تو مکان کاانتظام کردوں، اگر دولت کی ضرورت ہے توتجھے اتنا دیدوں کہ توخوش حال ہوجائے یہ سن کرشامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ زمین خداپراس کے خلیفہ ہیں مولامیں توآپ کواورآپ کے باپ دادا کوسخت نفرت اورحقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہ بنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دورنہ جاؤں گا اورتاحیات آپ کی خدمت میںرہوں گا (مناقب جلد 4 ص 53 ،وکامل مبروج جلد 2 ص 86) ۔
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
تواریخ میں ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کوپچیس برس کی خانہ نشینی کے بعد مسلمانوں نے خلیفہ ظاہری کی حیثیت سے تسلیم کیااوراس کے بعدجمل، صفین، نہروان کی لڑائیاں ہوئیں توہرایک جہادمیں امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ ہی نہیں رہے بلکہ بعض موقعوں پرجنگ میں آپ نے کارہائے نمایاں بھی کئے۔ سیرالصحابہ اور روضة الصفا میں ہے کہ جنگ صفین کے سلسلہ میں جب ابوموسی اشعری کی ریشہ دوانیاں عریاں ہوچکیں توامیرالمومنین نے امام حسن اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ فرمایا آپ نے جامع کوفہ میں ابوموسی کے افسون کواپنی تقریرکرتریاق سے بے اثربنادیا اورلوگوں کوحضرت علی کے ساتھ جنگ کے لیے جانے پرآمادہ کردیا۔ اخبارالطوال کی روایت کی بناپرنوہزارچھ سوپچاس افراد کا لشکر تیارہوگیا۔
مورخین کابیان ہے کہ جنگ جمل کے بعدجب عائشہ مدینہ جانے پرآمادہ نہ ہوئیں تو حضرت علی نے امام حسن کو بھیجاکہ انھیں سمجھاکر مدینہ روانہ کریں چنانچہ وہ اس سعی میں ممدوح کامیاب ہوگئے بعض تاریخوں میں ہے کہ امام حسن جنگ جمل و صفین میں علمدار لشکرتھے اورآپ نے معاہدہ تحکیم پردستخط بھی فرمائے تھے اورجنگ جمل وصفین اورنہروان میں بھی سعی بلیغ کی تھی۔
فوجی کاموں کے علاوہ آپ کے سپردسرکاری مہمان خانہ کاانتظام اور شاہی مہمانوں کی مدارات کاکام بھی تھا آپ مقدمات کے فیصلے بھی کرتے تھے اوربیت المال کی نگرانی بھی فرماتے تھے و غیرہ و غیرہ ۔
حضرت علی کی شہادت اور امام حسن کی بیعت
مورخین کابیان ہے کہ امام حسن کے والد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر بمقام مسجد کوفہ 18/ رمضان 49 ہجری بوقت صبح امیر معاویہ کی سازش سے عبدالرحمن ابن ملجم مرادی نے زہرمیں بجھی ہوئی تلوارلگائی جس کے صدمہ سے آپ نے 21/ رمضان المبارک 40 ہجری کوبوقت صبح شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی_
حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے بقول ابن اثیرقیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ 21/ رمضان 40 ھ یوم جمعہ کاہے کفایة الاثر علامہ مجلسی میں ہے کہ اس وقت آپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایاہے کہ ہم میں ہرایک یاتلوارکے گھاٹ اترے گایازہروغاسے شہیدہوگا اس کے بعدآپ نے عراق، ایران، خراسان، حجاز، یمن اور بصرہ و غیرہ کے اعمال کی طرف توجہ کی اور عبداللہ ابن عباس کو بصرہ کاحاکم مقررفرمایا۔ معاویہ کوجونہی یہ خبرپہنچی کی بصرہ کے حاکم ابن عباس مقررکردیئے گئے ہیں تواس نے دو جاسوس روانہ کیے ایک قبیلہ حمیر کاکوفہ کی طرف اور دوسرا قبیلہ قین کابصرہ کی طرف، اس کامقصدیہ تھاکہ لوگ امام حسن سے منحرف ہوکرمیری طرف آجائیں لیکن وہ دونوں جاسوس گرفتار کرلیے گئے اور بعدمیں انہیں قتل کردیاگیا۔
حقیقت ہے کہ جب عنان حکومت امام حسن کے ہاتھوں میں آئی توزمانہ بڑاپرآشوب تھاحضرت علی جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھے دنیاسے کوچ کرچکے تھے ان کی دفعة شہادت نے سوئے ہوئے فتنوں کوبیدارکردیاتھا اورساری مملکت میں سازشوں کی کھیچڑی پک رہی تھی خودکوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمربن حریث، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلابرسرعناداورآمادہ فسادنظرآتے تھے ۔۔۔ معاویہ نے جابجاجاسوس مقررکردئیے تھے جومسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اورحضرت کے لشکرمیں اختلاف و تشتت و افتراق کابیچ بوتے تھے اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے سازشی ملاقات کیں اوربڑی بڑی رشوتیں دے کرانہیں توڑلیا۔
بحارالانوارمیں علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمربن حریث ، اشعث بن قیس، حجرابن الحجر، شبث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیام بھیجاکہ جس طرح ہوسکے حسن ابن علی کوقتل کرادو،جومنچلایہ کام کرگزرے گااس کودولاکھ درہم نقدانعام دوں گا فوج کی سرداری عطاکروں گا اوراپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردوں گا یہ انعام حاصل کرنے کے لےے لوگ شب و روز موقع کی تاک میں رہنے لگے حضرت کو اطلاع ملی توآپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کردی یہاں تک کہ نماز جماعت پڑھانے کے لیے باہرنکلتے توزرہ پہن کرنکلتے تھے_
معاویہ نے ایک طرف توخفیہ توڑجوڑکئے دوسری طرف ایک بڑالشکرعراق پرحملہ کرنے کے لیے بھیج دیا جب حملہ آورلشکرحدودعراق میں دورتک آگے بڑھ آیا توحضرت نے اپنے لشکرکوحرکت کرنے کاحکم دیاحجرابن عدی کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فرمایاآپ کے لشکرمیں بھیڑ بھاڑتوخاصی نظرآنے لگی تھی مگر سردارجوسپاہیوں کولڑاتے ہیں کچھ تومعاویہ کے ہاتھ بک چکے تھے کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے حضرت علی کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کردئیے تھے اوردشمنوں کوجرائت وہمت دلادی تھی۔
مورخین کابیان ہے کہ معاویہ 60 ہزارکی فوج لے کرمقام مسکن میں جااترا جوبغدادسے دس فرسخ تکریت کی ”جانب اوانا“ کے قریب واقع ہے امام حسن علیہ السلام کوجب معاویہ کی پیشقدمی کاعلم ہواتوآپ نے بھی ایک بڑے لشکرکے ساتھ کوچ کردیا اور کوفہ سے ساباط میں جاپہنچے اور 12 ہزارکی فوج قیس ابن سعد کی ماتحتی میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے روانہ کردی پھرساباط سے روانہ ہوتے وقت آپ نے ایک خطبہ پڑھا، جس میں آپ نے فرمایاکہ
”لوگوں ! تم نے اس شرط پرمجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں میراساتھ دوگے“ میں خداکی قسم کھاکرکہتاہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض و عداوت نہیں ہے میرے دل میں کسی کوستانے کاخیال نہیں میں صلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتاہوں۔“
لوگوں نے حضرت کے اس خطاب کامطلب یہ سمجھاکہ حضرت امام حسن، امیر معاویہ سے صلح کرنے کی طرف مائل ہیں اورخلافت سے دستبرداری کاارادہ دل میں رکھتے ہیں اسی دوران میں معاویہ نے امام حسن کے لشکرکی کثرت سے متاثرہوکریہ مشورہ عمروعاص کچھ لوگوں کوامام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے لشکرمیں بھیج کرایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈاکرادیا۔ امام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے متعلق یہ شہرت دینی شروع کی کہ اس نے معاویہ سے صلح کرلی ہے اورقیس بن سعدکے لشکرمیں جوسازشی گھسے ہوئے تھے انہوں نے تمام لشکریوں میں یہ چرچاکردیاکہ امام حسن نے معاویہ سے صلح کرلی ہے_
امام حسن کے دونوں لشکروں میں اس غلط افواہ کے پھیل جانے سے بغاوت اوربدگمانی کے جذبات ابھرنکلے امام حسن کے لشکر کاوہ عنصرجسے پہلے ہی سے شبہ تھاکہ یہ مائل بہ صلح ہیں کہ کہنے لگا کہ امام حسن بھی اپنے باپ حضرت علی کی طرح کافرہوگئے ہیں بالآخرفوجی آپ کے خیمہ پرٹوٹ پڑے آپ کاکل اسباب لوٹ لیاآپ کے نیچے سے مصلی تک گھسیٹ لیا، دوش مبارک پرسے ردابھی اتارلی اوربعض نمایاں قسم کے افرادنے امام حسن کومعاویہ کے حوالے کردینے کاپلان تیارکیا،آخرکارآپ ان بدبختیوں سے مایوس ہوکرمدائن کے گورنر، سعدیاسعیدکی طرف روانہ ہوگئے، راستہ میں ایک خارجی نے جس کانام بروایت الاخبارالطوال ص 393 ” جراح بن قیصہ“تھا آپ کی ران پرکمین گاہ سے ایک ایسا خنجر لگایاجس نے ہڈی تک محفوظ نہ رہنے دیاآپ نے مدائن میں مقیم رہ کرعلاج کرایا اوراچھے ہوگئے (تاریخ کامل جلد 3 ص 161 ،تاریخ آئمہ ص 333 فتح باری)۔
معاویہ نے موقع غنیمت جان کر 20 ہزارکا لشکر عبداللہ ابن عامرکی قیادت وماتحتی میں مدائن بھیج دیاامام حسن اس سے لڑنے کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ اس نے عام شہرت کردی کہ معاویہ بہت بڑالشکرلیے ہوئے آرہاہے میں امام حسن اوران کے لشکرسے درخواست کرتاہوں کہ مفت میں اپنی جان نہ دین اور صلح کرلیں۔
اس دعوت صلح اور پیغام خوف سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے ہمتیں پست ہوگئیں اورامام حسن کی فوج بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈنے لگی۔
صلح
مورخ معاصر علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ امیرشام کو حضرت امام حسن علیہ السلام کی فوج کی حالت اورلوگوں کی بے وفائی کاحال معلوم ہوچکاتھااس لیے وہ سمجھتے تھے کہ امام حسن کے لیے جنگ ممکن نہیں ہے مگراس کے ساتھ وہ بھی یقین رکھتے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کتنے ہی بے بس اوربے کس ہوں، مگرعلی وفاطمہ کے بیٹے اورپیغمبرکے نواسے ہیں اس لیے وہ ایسے شرائط پرہرگزصلح نہ کریں گے جوحق پرستی کے خلاف ہوں اورجن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو، اس کونظرمیں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک طرف توآپ کے ساتھیوں کوعبداللہ بن عامرکے ذریعہ پیغام دلوایاکہ اپنی جان کے پیچھے نہ پڑو، اورخون ریزی نہ ہونے دو۔ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کورشوتیں بھی دی گئیں اورکچھ بزدلوں کواپنی تعدادکی زیادتی سے خوف زدہ کیاگیااوردوسری طرف حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس پیغام بھیجاکہ آپ جن شرائط پرکہیں انہیں شرائط پرصلح کے لیے تیارہوں۔
امام حسن یقینا اپنے ساتھیوں کی غداری کودیکھتے ہوئے جنگ کرنامناسب نہ سجھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرورپیش نظرتھاکہ ایسی صورت پیداہوکہ باطل کی تقویت کادھبہ میرے دامن پرنہ آنے پائے، اس گھرانے کوحکومت واقتدارکی ہوس توکبھی تھی ہی نہیں انھیں تومطلب اس سے تھا کہ مخلوق خداکی بہتری ہواورحدودوحقوق الہی کااجراہو،اب معاویہ نے جوآپ سے منہ مانگے شرائط پرصلح کرنے کے لیے آمادگی ظاہرکی تواب مصالحت سے انکارکرنا شخصی اقتدارکی خواہش کے علاوہ اورکچھ نہیں قرارپاسکتاتھا اوریہ معاویہ صلح کی شرائط پرعمل نہ کریں گے ،بعدکی بات تھی جب تک صلح نہ ہوتی یہ انجام سامنے آکہاں سکتاتھا اورحجت تمام کیونکر ہوسکتی تھی پھربھی آخری جواب دینے سے قبل آپ نے ساتھ والوں کوجمع کرلیا اورتقریرفرمائی
آگاہ رہوکہ تم میں وہ خون ریزلڑائیاں ہوچکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے کچھ مقتول صفین میں ہوئے جن کے لیے آج تک رورہے ہواورکچھ مقتول نہروان کے جن کامعاوضہ طلب کررہے ہو، اب اکرتم موت پرراضی ہوتوہم اس پیغام صلح کوقبول نہ کریں اوران سے اللہ کے بھروسہ پرتلواروں سے فیصلہ کریں اوراگرزندگی کوعزیز رکھتے ہوتوہم اس کوقبول کرلیں اورتمہاری مرضی پرعمل کریں۔
جواب میں لوگوں نے ہرطرف سے پکارناشروع کیاہم زندگی چاہتے ہیں ہم زندگی چاہتے ہیں آپ صلح کرلیجیے ،اسی کانتیجہ تھاکہ آپ نے صلح کی شرائط مرتب کرکے معاویہ کے پاس روانہ کئے (ترجمہ ابن خلدون)۔
شرائط صلح
اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں:
1 ۔ معاویہ حکومت اسلام میں، کتاب خدا اور سنت رسول پرعمل کریں گے۔
2- معاویہ کواپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کاحق نہ ہوگا۔
3- شام و عراق و حجاز و یمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔
4- حضرت علی کے اصحاب اور شیعہ جہاں بھی ہیں ان کے جان و مال اور ناموس اور اولاد محفوظ رہیں گے۔
5- معاویہ، حسن بن علی اوران کے بھائی حسین ابن علی اور خاندان رسول میں سے کسی کوبھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طورپراورنہ اعلانیہ، اوران میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایانہیں جائے گا۔
6- جناب امیرالمومنین کی شان میں کلمات نازیبا جواب تک مسجد جامع اور قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردئیے جائیں، آخری شرط کی منظوری میں معاویہ کو عذرہوا تویہ طے پایاکہ کم از کم جس موقع پر امام حسن علیہ السلام موجودہوں اس جگہ ایسانہ کیاجائے، یہ معاہدہ ربیع الاول یاجمادی الاول41 ء ہجری کوعمل میں آیا۔
صلح نامہ پردستخط
25/ ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبارمیں فریقین کااجتماع ہوا اور صلح نامہ پردونوں کے دستخط ہوئے اورگواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب فی معرفتہ انساب العرب ص 80)
اس کے بعد معاویہ نے اپنے لیے عام بیعت کااعلان کردیااوراس سال کانام سنت الجماعت رکھا پھرامام حسن کوخطبہ دینے پرمجبورکیا آپ منبرپرتشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا:
”ائے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اورآخرکے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا معاویہ نے اس امرمیں مجھ سے جھگڑاکیاجس کامیں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امرکو ترک کردینا بہتر سمجھا تم رنج و ملال نہ کروکہ میں نے حکومت اس کے نااہل کودے دی اوراس کے حق کوجائے ناحق پررکھا، میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ معاویہ نے کہا”بس ائے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد 2 ص 325) ۔
تکمیل صلح کے بعد امام حسن نے صبر و استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناخوشگوار حالات کوبرداشت کیا اور معاہدہ پرسختی کے ساتھ قائم رہے مگر ادھر یہ ہواکہ امیرشام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدارکے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہوکرنخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہئے، قیام کیا اور جمعہ کے خطبہ کے بعد اعلان کیاکہ میرا مقصد جنگ سے یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو روزے رکھنے لگو، حج کرو یا زکواة اداکرو، یہ سب توتم کرتے ہی ہومیرا مقصد تویہ تھاکہ میری حکومت تم پرمسلم ہوجائے اوریہ مقصدمیراحسن کے اس معاہدہ کے بعدپوراہوگیا اورباوجودتم لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہوگیا. رہ گئے وہ شرائط جومیں نے حسن کے ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچےہیں ان کاپوراکرنا یانہ کرنا میرے ہاتھ کی بات ہے یہ سن کرمجمع میں ایک سناٹاچھاگیا مگراب کس میں دم تھا کہ اس کے خلاف زبان کھولتا۔
شرائط صلح کاحشر
مورخین کااتفاق ہے کہ امیرمعاویہ جومیدان سیاست کے کھلاڑی اور مکر و زور کی سلطنت کے تاجدار تھے امام حسن سے وعدہ اور معاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مماعاہد علیہ“ تاریخ کامل ابن اثیرجلد 3 ص 162 میں ہے کہ معاویہ نے کسی ایک چیزکی بھی پرواہ نہ کی اورکسی پرعمل نہ کیا، امام ابوالحسن علی بن محمدلکھتے ہیں کہ جب معاویہ کے لیے امر سلطنت استوراہوگیاتواس نے اپنے حاکموں کوجو مختلف شہروں اور علاقوں میں تھے یہ فرمان بھیجاکہ اگرکوئی شخص ابوتراب اوراس کے اہل بیت کی فضیلت کی روایت کرے گاتومیں اس سے بری الذمہ ہوں، جب یہ خبرتمام ملکوں میں پھیل گئی اور لوگوں کو معاویہ کامنشاء معلوم ہوگیاتوتمام خطیبوں نے منبروں پر سب و شتم اور منقصت امیرالمومنین پرخطبہ دینا شروع کردیا کوفہ میں زیادابن ابیہ جوکئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہدمیں ان کے عمال میں رہ چکاتھا وہ شیعیان علی کواچھی طرح سے جانتاتھا ۔ مردوں،عورتوں، جوانوں، اوربوڑھوں سے اچھی طرح آگاہ تھا اسے ہرایک رہائش اورکونوں اورگوشوں میں بسنے والوں کاپتہ تھا اسے کوفہ اوربصرہ دونوں کاگورنربنادیاگیاتھا۔
اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ شیعیان علی کوقتل کرتااوربعضوں کی آنکھوں کوپھوڑدیتا اور بعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوادیتاتھا اس ظلم عظیم سے سینکڑوں تباہ ہوگئے، ہزاروں جنگلوں اورپہاڑوں میں جاچھپے، بصرہ میں آٹھ ہزار آدمیوں کاقتل واقع ہواجن میں بیالیس حافظ اورقاری قرآن تھے ان پرمحبت علی کاجرم عاید کیاگیا تھا حکم یہ تھا کہ علی کے بجائے عثمان کے فضائل بیان کئے جائیں اورعلی کے فضائل کے متعلق یہ فرمات تھاکہ ایک ایک فضیلت کے عوض دس دس منقصت ومذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلالینے اور یزیدکے لیے زمین خلافت ہموارکرنے کی خاطرتھا۔
کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کوروانگی
صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ ابن جعفر اور اپنے اطفال و عیال کولے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے تاریخ اسلام مسٹر ذاکرحسین کی جلد 1 ص 34 میں ہے کہ جب آپ کوفہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تومعاویہ نے راستہ میں ایک پیغام بھیجااوروہ یہ تھا کہ آپ خوارج سے جنگ کرنے کے لیے تیارہوجائیں کیونکہ انہوں نے میری بیعت ہوتے ہی پھرسرنکالاہے امام حسن نے جواب دیا کہ اگر خونریزی مقصودہوتی تومیں تجھ سے صلح کیوں کرتا۔
جسٹس امیرعلی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ خوارج ابوبکر اور عمر کومانتے اور حضرت علی علیہ السلام اور عثمان غنی کونہیں تسلیم کرتے تھے اوربنی امیہ کومرتد کہتے تھے۔
صلح حسن اور اس کے وجوہ و اسباب
استاذی العلام حضرت علامہ سیدعدیل اختر اعلی اللہ مقامہ (سابق پرنسپل مدرسة الواعظین لکھنؤ) اپنی کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن کے ص 158 میں تحریر فرماتے ہیں :
امام حسن کی پالیسی بلکہ جیساکہ باربارلکھاجاچکاہے کل اہلبیت کی پالیسی ایک اورصرف ایک تھی (دراسات اللبیب ص 249) ۔وہ یہ کہ حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی انہیں کے احکام کااجراء چاہئے، اس مطلب کے لیے جوبرداشت کرناپڑے، مذکورہ بالاحالات میں امام حسن کے لیے سوائے صلح کیاچارہ ہوسکتاتھا اس کوخود صاحبان عقل سمجھ سکتے ہیں کسی استدلال کی چنداں ضرورت نہیں ہے یہاں پرعلامہ ابن اثیرکی یہ عبارت (جس کاترجمہ درج کیاجاتاہے) قابل غورہے:
”کہاگیاہے کہ امام حسن نے حکومت معاویہ کواس لیے سپردکی کہ جب معاویہ نے خلافت حوالے کرنے کے متعلق آپ کوخط لکھااس وقت آپنے خطبہ پڑھا اورخداکی حمدوثناکے بعدفرمایاکہ دیکھوہم کوشام والوں سے اس لیے نہیں دبناپڑرہاہے (کہ اپنی حقیقت میں) ہم کوکوئی شک یاندامت ہے بات توفقط یہ ہے کہ ہم اہل شام سے سلامت اورصبرکے ساتھ لڑرہے تھے مگراب سلامت میں عداوت اورصبرمیں فریاد مخلوط کردی گئی ہے جب تم لوگ صفین کوجارہے تھے اس وقت تمہارادین تمہاری دنیاپرمقدم تھا لیکن اب تم ایسے ہوگئے ہوکہ آج تمہاری دنیاتمہارے دین پرمقدم ہوگئی ہے اس وقت تمہارے دونوں طرف دوقسم کے مقتول ہیں ایک صفین کے مقتول جن پررورہے ہودوسرے نہروان کے مقتول جن کے خون کابدلہ لیناچاہ رہے ہوخلاصہ یہ کہ جوباقی ہے وہ ساتھ چھوڑنے والاہے اورجورورہاہے وہ توبدلہ لیناہی چاہتاہے خوب سمجھ لوکہ معاویہ نے ہم کوجس امرکی دعوت دی ہے نہ اس میں عزت ہے اورنہ انصاف ، لہذا اگرتم لوگ موت پرآمادہ ہوتوہم اس کی دعوت کوردکردیں اورہمارااوراس کافیصلہ خداکے نزدیک بھی تلوارکی باڑھ سے ہوجائے اوراگرتم زندگی چاہتے ہوتوجواس نے لکھاہے مان لیاجائے اورجوتمہاری مرضی ہے ویساہوجائے، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے لوگوں نے چلاناشروع کردیابقابقا، صلح صلح، (تاریخ کامل جلد 3 ص 162) ۔
ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیااب بھی امام حسن کے لیے یہ رائے ہے کہ صلح نہ کریں ان فوجیوں کے بل بوتے پر(اگرایسوں کہ فوج اوران کی قوتوں کوبل بوتا کہاجاسکے) لڑائی زیباہے ہرگزنہیں ایسے حالات میں صرف یہی چارہ تھاکہ صلح کرکے اپنی اوران تمام لوگوں کی زندگی تومحفوظ رکھیں جودین رسول کے نام لیوا اورحقیقی پیروپابندتھے ،اس کے علاوہ پیغمبراسلام کی پیشین گوئی بھی صلح کی راہ میں مشعل کاکام کررہی تھی (بخاری) علامہ محمدباقرلکھتے ہیں کہ حضرت کواگرچہ کی وفائے صلح پراعتماد نہیںتھالیکن آپ نے حالات کے پیش نظرچاروناچاردعوت صلح منظورکرلی (دمعئہ ساکبہ)۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت
مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین ہوگئے تھے ،لیکن امیرمعاویہ آپ کے درپئے آزاررہے انہوں نے باربار کوشش کی کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کوروانہ ہوجائیں اوراس سے ان کامقصدیزیدکی خلافت کے لیے زمین ہموارکرناتھی، چنانچہ انہوں نے 5/ بارآپ کوزہردلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ روم سے ایک زبردست قسم کازہرمنگواکرمحمدابن اشعث یامروان کے ذریعہ سے جعدہ بنت اشعث کے پاس امیرمعاویہ نے بھیجا اورکہلادیاکہ جب امام حسن شہدہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیراعقد اپنے بیٹے یزید کے ساتھ کردیں گے چنانچہ اس نے امام حسن کوزہردے کرے ہلاک کردیا،(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد 2 ص 303 ،مقاتل الطالبین ص 51 ، ابوالفداء ج 1 ص 183 ،روضةالصفاج 3 ص 7 ، حبیب السیر جلد 2 ص 18 ،طبری ص 604 ،استیعاب جلد 1 ص 144) ۔
مفسرقرآن صاحب تفسیر حسینی علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسن مصالحہ معاویہ کے بعدمدینہ میں مستقل طورپرفروکش ہوگئے تھے آپ کواطلاع ملی کہ بصرہ میں رہنے والے محبان علی کے اوپرچنداوباشوں نے شبخون مارکران کے 38 آدمی ہلاک کردئیے ہیں امام حسن اس خبرسے متاثرہوکربصرہ کے لیے روانہ ہوگئے آپ کے ہمراہ عبداللہ ابن عباس بھی تھے ،راستے میں بمقام موصلی سعدموصلی جوجناب مختارابن ابی عبیدہ ثقفی کے چچاتھے کے وہاں قیام فرمایا اس کے بعدوہاں سے روانہ ہوکردمشق سے واپسی پرجب آپ موصل پہنچے توباصرارشدیدایک دوسرے شخص کے ہاں مقیم ہوئے اوروہ شخص معاویہ کے فریب میں آچکاتھا اورمال ودولت کی وجہ سے امام حسن کوزہردینے کاوعدہ کرچکاتھا چنانچہ دوران قیام میں اس نے تین بارحضرت کوکھانے میں زہردیا، لیکن آپ بچ گئے ۔
امام کے محفوظ رہ جانے سے اس شخص نے معاویہ کوخط لکھا کہ تین بارزہردیے چکاہوں مگر امام حسن ہلاک نہیں ہوئے یہ معلوم کرکے معاویہ نے زہر ہلاہل ارسال کیا اورلکھاکہ اگراس کاایک قطرہ بھی تودے سکاتویقینا امام حسن ہلاک ہوجائیں گے نامہ برزہراورخط لیے ہوئے آرہاتھا کہ راستے میں ایک درخت کے نیچے کھاناکھاکرلیٹ گیا ،اس کے پیٹ میں درداٹھا کہ وہ برداشت نہ کرسکا ناگاہ ایک بھیڑیابرامد ہوا اوراسے لے کر رفوچکرہوگیا، اتفاقا امام حسن کے ایک ماننے والے کااس طرف سے گزرہوا، اس نے ناقہ، اورزہر سے بھرہوئی بوتل حاصل کرلی اور امام حسن کی خدمت میںپیش کیا،امام علیہ السلام نے اسے ملاحظہ فرما کرجانماز کے نیچے رکھ لیاحاضرین نے واقعہ دریافت کیاامام نے نہ بتایا۔
سعدموصلی نے موقع پاکرجانمازکے نیچے سے وہ خط نکال لیاجومعاویہ کی طرف سے امام کے میزبان کے نام سے بھیجاگیاتھا خط پڑھ کر سعدموصلی آگ بگولہ ہوگئے اورمیزبان سے پوچھاکیامعاملہ ہے، اس نے لاعلمی ظاہرکی مگراس کے عذرکوباورنہ کیاگیا اوراس کی زدوکوب کی گئی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اس کے بعدآپ روانہ مدینہ ہوگئے۔
مدینہ میں اس وقت مروان بن حکم والی تھا اسے معاویہ کاحکم تھاکہ جس صورت سے ہوسکے امام حسن کوہلاک کردو مروان نے ایک رومی دلالہ جس کانام ”الیسونیہ“ تھا کوطلب کیااوراس سے کہا کہ تو جعدہ بنت اشعث کے پاس جاکراسے میرایہ پیغام پہنچادے کہ اگرتوامام حسن کوکسی صورت سے شہید کردے گی توتجھے معاویہ ایک ہزاردینارسرخ اورپچاس خلعت مصری عطاکرے گا اوراپنے بیٹے یزیدکے ساتھ تیرا عقد کردے گا اوراس کے ساتھ ساتھ سودینا نقد بھیج دئیے دلالہ نے وعدہ کیا اور جعدہ کے پاس جاکراس سے وعدہ لے لیا، امام حسن اس وقت گھرمیں نہ تھے اوربمقام عقیق گئے ہوئے تھے اس لیے دلالہ کوبات چیت کااچھاخاصا موقع مل گیا اوروہ جعدہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
الغرض مروان نے زہربھیجااورجعدہ نے امام حسن کوشہدمیں ملاکر دیدیا امام علیہ السلام نے اسے کھاتے ہی بیمارہوگیے اورفوراروضہ رسول پرجاکر صحت یاب ہوئے زہرتوآپ نے کھالیا لیکن جعدہ سے بدگمان بھی ہوگئے، آپ کوشبہ ہوگیا جس کی بناپرآپ نے اس کے ہاتھ کاکھاناپیناچھوڑدیااوریہ معمول مقررکرلیاکہ حضرت قاسم کی ماں یاحضرت امام حسین کے گھرسے کھانامنگاکرکھانے لگے ۔
تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جعدہ کے گھرتشر یف لے گئے اس نے کہاکہ مولا حوالی مدینہ سے بہت عمدہ خرمے آئے ہیں حکم ہوتوحاضرکروں آپ چونکہ خرمے کوبہت پسندکرتے تھے فرمایالے آ،وہ زہرآلودخرمے لے کرآئی اورپہچانے ہوئے دانے چھوڑکرخودساتھ کھانے لگی امام نے ایک طرف سے کھانا شروع کیا اوروہ دانے کھاگئے جن میں زہرتھا اس کے بعد امام حسین کے گھر تشریف لائے اورساری رات تڑپ کربسرکی، صبح کوروضة رسول پرجاکردعامانگی اور صحتیاب ہوئے_
امام حسن نے بارباراس قسم کی تکلیف اٹھانے کے بعداپنے بھائیوں سے تبدیلی آب وہواکے لیے موصل جانے کامشورہ کیااورموصل کے لیے روانہ ہوگئے، آپ کے ہمراہ حضرت عباس اورچند ہواخواہان بھی گئے، ابھی وہاں چندیوم نہ گزرے تھے کہ شام سے ایک نابینا بھیج دیاگیا اوراسے ایک ایسا عصادیاگیاجس کے نیچے لوہالگایاہواتھا جوزہرمیں بجھاہواتھا اس نابینا نے موصل پہنچ کر امام حسن کے دوستداران میں سے اپنے کوظاہرکیا اورموقع پاکر ان کے پیرمیں اپنے عصاکی نوک چبھودی زہرجسم میں دوڑگیا اور آپ علیل ہوگئے، جراح علاج کے لیے بلایاگیا، اس نے علاج شروع کیا، نابینا زخم لگاکر روپوش ہوگیاتھا، چودہ دن کے بعدجب پندرہویں دن وہ نکل کرشام کی طرف روانہ ہواتو حضرت عباس علمدارکی اس پرنظرجاپڑی آپ نے اس سے عصاچھین کراس کے سرپراس زورسے ماراکہ سرشگافتہ ہوگیااوروہ اپنے کیفروکردارکوپہنچ گیا ۔
اس کے بعد جناب مختار اوران کے چچا سعد موصلی نے اس کی لاش جلادی چنددنوں کے بعدحضرت امام حسن مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔
مدینہ منور میں آپ ایام حیات گزاررہے تھے کہ ”ایسونیہ“ دلالہ نے پھرباشارئہ مروان جعدہ سے سلسلہ جنبائی شروع کردی اورزہرہلاہل اسے دے کرامام حسن کاکام تمام کرنے کی خواہش کی، امام حسن چونکہ اس سے بدگمان ہوچکے تھے اس لےے اس کی آمدورفت بندتھی اس نے ہرچندکوشش کی لیکن موقع نہ پاسکی بالآخر، شب بست وہشتم صفر 50 کووہ اس جگہ جاپہنچی جس مقام پرامام حسن سورہے تھے آپ کے قریب حضرت زینب وام کلثوم سورہی تھیں اورآپ کی پائیتی کنیزیں محوخواب تھیں، جعدہ اس پانی میں زہرہلاہل ملاکرخاموشی سے واپس آئی جوامام حسن کے سرہانے رکھاہواتھا اس کی واپسی کے تھوڑی دیربعدہی امام حسن کی آنکھ کھلی آپ نے جناب زینب کوآوازدی اورکہا ائے بہن، میں نے ابھی ابھی اپنے نانااپنے پدر بزرگوار اور اپنی مادرگرامی کوخواب میں دیکھاہے وہ فرماتے تھے کہ اے حسن تم کل رات ہمارے پاس ہوگے، اس کے بعدآپ نے وضوکے لیے پانی مانگااورخوداپناہاتھ بڑھاکرسرہانے سے پانی لیا اورپی کرفرمایاکہ اے بہن زینب ”این چہ آپ بودکہ ازسرحلقم تابناقم پارہ پارہ شد“ ہائے یہ کیساپانی ہے جس نے میرے حلق سے ناف تک ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے اس کے بعدامام حسین کواطلاع دی گئی وہ آئے دونوں بھائی بغل گیرہوکرمحوگریہ ہوگئے، اس کے بعدامام حسین نے چاہاکہ ایک کوزہ پانی خودپی کرامام حسن کے ساتھ ناناکے پاس پہنچیں، امام حسن نے پانی کے برتن کوزمین پرپٹک دیاوہ چورچورہوگیاراوی کابیان ہے کہ جس زمین پرپانی گراتھا وہ ابلنے لگی تھی ۔
الغرض تھوڑی دیرکے بعد امام حسن کوخون کی قے آنے لگی آپ کے جگرکے سترٹکڑے طشت میں آگئے آپ زمین پرتڑپنے لگے، جب دن چڑھاتوآپ نے امام حسین سے پوچھاکہ میرے چہرے کارنگ کیساہے ”سبز“ ہے آپ نے فرمایاکہ حدیث معراج کایہی مقتضی ہے، لوگوں نے پوچھاکہ مولاحدیث معراج کیاہے فرمایاکہ شب معراج میرے نانا نے آسمان پر دو قصر ایک زمردکا، ایک یاقوت سرخ کادیکھاتوپوچھاکہ ائے جبرئیل یہ دونوں قصرکس کے لیے ہیں، انہوں نے عرض کی ایک حسن کے لیے اوردوسرا حسین کے لیے پوچھادونوں کے رنگ میں فرق کیوں ہے؟ کہاحسن زہرسے شہیدہوں گے اورحسین تلوارسے شہادت پائیں گے یہ کہہ کرآپ سے لپٹ گئے اوردونوں بھائی رونے لگے اورآپ کے ساتھ درودیواربھی رونے لگے۔
اس کے بعدآپ نے جعدہ سے کہا افسوس تونے بڑی بے وفائی کی، لیکن یادرکھ کہ تونے جس مقصد کے لیے ایساکیاہے اس میں کامیاب نہ ہوگی اس کے بعد آپ نے امام حسین اوربہنوں سے کچھ وصیتیں کیں اور آنکھیں بندفرمالیں پھرتھوڑی دیرکے بعدآنکھ کھول کرفرمایاائے حسین میرے بال بچے تمہارے سپرد ہیں پھربند فرما کرناناکی خدمیں پہنچ گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ۔
امام حسن کی شہادت کے فورا بعدمروان نے جعدہ کواپنے پاس بلاکردو عورتوں اور ایک مرد کے ساتھ معاویہ کے پاس بھیج دیامعاویہ نے اسے ہاتھ پاؤں بندھواکردریائے نیل میں یہ کہہ کرڈلوادیاکہ تونے جب امام حسن کے ساتھ وفا نہ کی، تویزیدکے ساتھ کیاوفاکرے گی(روضة الشہداء ص 220 تا 235 طبع بمبئی 1285 ءء وذکرالعباس ص 50 طبع لاہور 1956 ءء۔
امام حسن کی تجہیز و تکفین
الغرض امام حسن کی شہادت کے بعدامام حسین نے غسل و کفن کاانتظام فرمایا اور نماز جنازہ پڑھی گئی امام حسن کی وصیت کے مطابق انہیں سرور کائنات کے پہلومیں دفن کرنے کے لیے اپنے کندھوں پراٹھاکر لے چلے ابھی پہنچے ہی تھے کہ بنی امیہ خصوصامروان وغیرہ نے آگے بڑھ کر پہلوئے رسول میں دفن ہونے سے روکااورحضرت عایشہ بھی ایک خچرپرسوار ہوکر آپہنچیں، اورکہنے لگیں یہ گھیرمیراہے میں توہرگز حسن کواپنے گھرمیں دفن نہ ہونے دوں گی (تاریخ ابوالفداء جلد 1 ص 183، روضة المناظرجلد 11 ص 133، یہ سن کربعض لوگوں نے کہااے عائشہ تمہاراکیاحال ہے کبھی اونٹ پرسوار ہوکردامادرسول سے جنگ کرتی ہو کبھی خچرپر سوار ہوکر فرزند رسول کے دفن میں مزاحمت کرتی ہوتمہیں ایسانہیں کرناچاہئے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوذکرالعباس ص 51) ۔
مگروہ ایک نہ مانیں اور ضد پراڑی رہیں، یہاں تک کہ بات بڑھ گئی، آپ کے ہواخواہوں نے آل محمد پر تیر برسائے ۔
کتاب روضة الصفا جلد 3 ص 7 میں ہے کہ کئی تیر تابوت میں پیوست ہوگئے ۔
کتاب ذکرالعباس ص 51 میں ہے کہ تابوت میں ستر تیر پیوست ہوئے تھے۔
تاریخ اسلام جلد 1 ص 28 میں ہے کہ ناچار نعش مبارک کوجنت البقیع میں لاکر دفن کردیاگیا۔ تاریخ کامل جلد 3 ص 182 میں ہے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر 47 سال کی تھی۔
آپ کی ازواج اور اولاد
آپ نے مختلف اوقات میں 9 بیویاں کیں، آپ کی اولادمیں 8 بیٹے اور 7 بیٹیاں تھیں، یہی تعداد ارشاد مفید ص 208، نورالابصارص 112 طبع مصرمیں ہے ۔
علامہ طلحہ شافعی مطالب السؤل کے ص 239 پرلکھتے ہیں کہ امام حسن کی نسل زید اور حسن مثنی سے چلی ہے امام شبلنجی کاکہناہے کہ آپ کے تین فرزند، عبداللہ، قاسم، اورعمرو، کربلا میں شہیدہوئے ہیں
(نورالابصارص 112) ۔
جناب زیدبڑے جلیل القدر اور صدقات رسول کے متولی تھے انہوں نے 120 ھء میں بعمر 90 سال انتقال فرمایاہے ۔
جناب حسن مثنی نہایت جلیل القدر فاضل متقی اورصدقات امیرالمومنین کے متولی تھے آپ کی شادی امام حسین کی بیٹی جناب فاطمہ سے ہوئی تھی آپ نے کربلاکی جنگ میں شرکت کی تھی اوربے انتہا زخمی ہوکر مقتلوں میں دب گئے تھے جب سرکاٹے جارہے تھے تب ان کے ماموں ابواحسان نے آپ کوزندہ پاکر عمرسعد سے لے لیاتھا آپ کوخلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے 97 ھء میں زہردیدیاتھا جس کی وجہ سے آپ نے 52 سال کی عمرمیں انتقال فرمایا آپ کی شہادت کے بعد آپ کی بیوی جناب فاطمہ ایک سال تک قبر پرخیمہ زن رہیں
(ارشاد مفید ص 211 و نورالابصار ص 269) ۔
|