۱۳۹۶/۳/۱۰   23:41  ویزیٹ:9614     معصومین(ع) ارشیو


اقوال حضرت امام حسین علیہ السلام

 



حدیث -1-       

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” یا اعرابی نحن قوم لا نعطی المعروف الا علی قدر المعرفة “

ترجمہ:

 حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں :” ھم اھل بیت بخشش نھیں کرتے مگر لوگوں کی معرفت کے مطابق“۔

 

حدیث -2-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام :

” ان اجود الناس من اعطی من لا یرجوہ “

ترجمہ:

 حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں:

” سب سے بڑا سخی وہ انسان ھے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے کسی قسم کی توقع نہ ھو “

 

حدیث -3-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” ان اعفیٰ الناس من عفا عن قدرة “

ترجمہ:

 حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں  :” سب سے بڑا عفو کرنے والا انسان وہ ھے جو قدرت ھونے کے باوجود معاف کر دے “ ۔

 

حدیث -4-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” ان اوصل الناس من وصل من قطعہ “

ترجمہ:

حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں  :

” سب سے زیادہ صلھٴ رحم کرنے والا انسان وہ ھے جو قطع رحم کرنے والوں سے تعلقات قائم کرے “ ۔

 

حدیث -5-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” من نفس کربة مومن فرج اللہ عنہ کرب الدنیا و الاخرة “

ترجمہ:

حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں:

” جو کسی مومن کے کرب و غم کو دور کرے ،خدا اسکے دنیا و آخرت کے غم و اندوہ کو دور کرے گا “۔

 

حدیث -6-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” موت فی عز خیر من حیات فی ذل “

ترجمہ:

حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں :

” ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کھیں بھتر ھے “ ۔

 

حدیث -7-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” ان حوائج الناس الیکم من نعم اللہ علیکم فلا تملوا النعم فتحور نقما “

ترجمہ:

حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں :

” خدا کی نعمتوں میں سے ایک، لوگوں کو تمھارے پاس حاجت کے لئے آنا ھے پس اس نعمت پر حزن و ملال محسوس نہ کرو ورنہ یہ نعمت ، نقمت میں تبدیل ھو جائیگی “۔

 

حدیث -8-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” ایھا الناس من جاد ساد ، و من بخل رذل “

ترجمہ:

حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں :

” لوگو! جود و سخاوت کرنے والا سردارقرار پاتا ھے ، اور بخل کرنے والا ذلیل و رسوا ھوتا ھے “۔

 

حدیث -9-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

”ان المومن لا یسئی و لا یعتذر والمنافق کل یوم یسئی و یعتذر “

ترجمہ: حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں:

” مومن نہ برائی کرتا ھے نہ ھی عذر  پیش کرتا ھے جب کہ منافق ھر روز برائی کرتا ھے اور ھر روز عذر خواھی کرتا ھے “ ۔

 

حدیث -10-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” من احبک نھاک و من ابغضک اغراک “

ترجمہ:

 حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”دوست وہ ھے جو تمھیں برائی سے بچائے دشمن وہ ھے جو تمھیں برائیوں کی ترغیب دلائے “۔

 

حدیث -11-

 

قال الامام الحسین علیہ السلام:

” انی لا اری الموت الا سعادہ ولا الحیاة مع الظالمیں الابرما “

ترجمہ:

 حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ھیں :

 ” میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو لائق ملامت سمجھتا ھوں “ ۔

تبیان 

امام حسین علیہ السلام کی چند احادیث

 

       

 

امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:

•   لَو عَقَلَ النَّاسُ وَ تَصَوَّرُوا المَوتَ بِصُورَتِہِ لَخَرَبَتِ الدُّنیَا
اگر لوگ موت کوعقل سے اس کی واقعی شکل کے ساتھ تصور کرتے تو دنیا ویران ہو جاتی ۔
•  شُکرُکَ لِنِعمَۃٍ سَالِفَۃٍ یَقتَضِی نِعمَۃً آنِفَۃ
گزشتہ نعمتوں پر شکر کرنا آئندہ نعمتوں کا سبب بنتا ہے 
•  مَن قَبِلَ عَطٰائَکَ فَقَد اَعانَکَ عَلیٰ الکَرَم 
جس نے تمھاری عطاکو قبول کر لیا گویا اس نے کرم کرنے میں تمھاری مدد کی 
•  اِتَّقُوا ھٰذِہِ الَاھوَائَ اَلَّتِی جَمَاعُھا الضَّلاَلَۃُ وَمِیعٰادُ ھَا النَّار
ان خواہشات نفسانی سے بچو،جو گمراہی اور آتش جہنم کا مجموعہ ہے
•  مَن سَرَّہُ اَن یَنسیٰ فِی اَجَلِہِ وَ یَزَادُ فِی رِزقِہِ فَلیَصِلُ رَحِمَہ 
جو شخص اپنے موت میں تاخیر چاہتاہو ،اورچاہتا ہوکہ اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے
•  اَعجَز النَّاسِ مَن اَعجِزَ عَنِ الدُّعَا
عاجز ترین شخص وہ ہے جو دعا کرنے سے عاجزہو
•  یٰا ھٰذَ ا کَف عَن الغَیبَۃ فَاِنَّھٰا اِدام کلَاب النَّار
اے لوگو غیبت کرنے سے پرہیز کرو کیوں کہ یہ جہنمی کتوں کی خوراک ہے 
•  مَاذَا وَجَدَکَ مَن فَقَدَکَ وَمَا الَّذِی فَقَدَکَ مَن وَجَدَکَ 
اس کو کیا ملا جس نے تجھے کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پا لیا 
•  لاَ یَکمُلُ العَقَلَ اِلَّا بِاتَّبَاعِ الحَقِّ
حق کی اتباع کے بغیر عقل کامل نہیں ہو تی 
•  اَلصَنِیعَۃُ مِثلَ وَ اِبِلِ المَطَرِ تَصِیبُ البِرَّ وَ الفَاجِر
نیکیاں اس مسلادھار بارش کے مانند ہیں جو نیکی اور بدی دونوں کو فیض پہنچاتی ہیں 
•  اَبخَلَ النَّاسِ مَن بَخِلَ بِالسَّلاَم 
بخیل ترین انسان وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے 
•  رُبَّ ذَنبٍ اَحسَنَ مِنَ الِاعتِذَارِ فِیہِ 
بعض گنا ہ ایسے ہیں جو معذرت خواہی سے بہتر ہیں

منبع : مھدی مشن ڈاٹ کام  

امام حسین [ع] کی احادیث

 

       

(معبود) جوچيزيں اپنے وجودميں تيري محتاج ہيں ان سے تيرے لئے کيونکراستدلال کياجاسکتاہے؟ کياکسي کے لئے اتناظہورہے جوتيرے لئے ہے؟ تاکہ وہ تيرے اظہارکاذريعہ بن سکے،(بھلا) توغائب ہي کب تھاکہ تيرے لئے کسي ايسي دليل کي ضرورت پڑے جوتيرے اوپردلالت کرے؟ اورتوکب دورتھا تاکہ آثارکے ذريعہ تجھ تک پہونچاجاسکے؟ اندھي ہوجائيں وہ آنکھيں جوتجھے نہ ديکھ سکيں حالانکہ توہميشہ ان کاہم نشين تھاـ

(دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 226) ـ

جس نے تجھ کوکھوديااس کوکياملا؟ اورجس نے تجھ کوپالياکون سي چيزہے جس کواس نے نہيں حاص کيا؟ جوبھي تيرے بدلے ميں جس پربھي راضي ہوا،وہ تمام چيزوں سے محروم ہوگياـ(دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 228) ـ

اس قوم کوکبھي فلاح حاصل نہيں ہوسکتي جس نے خداکوناراض کرکے مخلوق کي مرضي خريدليـ(مقتل خوارزمي،ج 1 ص 239) ـ

قيامت کے دن اسي کوامن وامان حاصل ہوگاجودنياميں خداسے ڈرتارہاہوـ(بحار/ج 44 ص 192) ـ

ـخداوندعالم نے امربہ معروف ونہي ازمنکرکواپنے ايک واجب کي حيثيت سے پہلے ذکرکياکيونکہ وہ جانتاہے کہ اگريہ دونوں فريضے (امربمعروف ونہي ازمنکر) اداکئے گئے توسارے فرائض خواہ سخت ہوںيانرم،قائم ہوجائيں گے کيونکہ يہ دونوں انسانوں کواسلام کي طرف دعوت دينے والے ہيں اورصاحبان حقوق کے حقوق ان کي طرف پلٹانے والے ہيں اورظالموں کومخالفت پرآمادہ کرنے والے ہيںـ(تحف العقول ص 237) ـ

لوگو! رسول خداکاارشادہے : جوديکھے کسي ظالم بادشاہ کوکہ اس نے حرام خداکوحلال کردياہے، پيمان الہي کوتوڑدياہے سنت رسول کي مخالفت کرتاہے، بندگان خداکے درميان ظلم وگناہ کرتاہے اورپھربھي نہ عمل سے اورنہ قول سے اس کي مخالفت کرتاہے توخداپرواجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کي جگہ اس کوڈال دےـ(مقتل خوارزمي،ج 1 ص 234) ـ

لوگ دنياکے غلام ہيں ،اوردين ان کي زبانوں کے لئے چٹني ہے ،جب تک (دين کے نام پر) معاش کادارومدارہے دين کانام ليتے ہيں ليکن جب مصيبتوں ميں مبتلاہوجاتے ہيں تو دينداروں کي تعدادبہت کم ہوجاتي ہےـتحف العقول ص 445) ـ

جوشخص خداکي نافرماني کرکے اپنامقصدحاصل کرناچاہتاہے اس کے حصول مقصدکاراستہ بندہوجاتاہے اوربہت جلدخطرات ميں گھرسکتاہےـ

(تحف العقول ص 248) ـ
کياتم نہيں ديکھ رہے ہوکہ حق پرعمل نہيں ہورہاہے ،اورباطل سے دوري نہيں اختيارکي جارہي ہے،ايسي صورت ميں مون کاحق ہے کہ لقائے الہي کي رغبت کرےـ(تحف العقول ص 245) ـ

ميں موت کوسعادت اورظالموں کے ساتھ زندگي کواذيت سمجھتاہوںـ(تحف العقول ص 245) ـ



(1)وہ چيزجو خود اپنے وجود کے لئے تيرى محتاج ھے، تيرے وجود کے لئے کس طرح دليل ھو سکتى ھے؟

کيا تيرى ذات سے بڑہ کر بھى کوئى آشکار چيز ھو سکتى ھے کہ جو تجھے آشکار کرے؟تو کب پوشيدہ ھے کہ مجھے ڈھونڈھنے کے لئے اس دليل کى ضرورت پڑے جو مجھ پر دلالت کرے ؟ اور اب تو کب دور ھے کہ تيرے آثار کے ذريعے مجھ تک پھونچائے ؟ نابينا ھو جائے وہ آنکہ جو تجھے اپنى طرف ناظر نہ سمجھے ـ ( 1)

(2)جس نے تجھے پا ليا اس نے کيا کھويا، اور جس نے تجھے کھوديا اس نے کيا پايا؟

جو انسان تيرے علاوہ کسى اور چيز کو دوست رکھتا ھو اور اسى پر راضى وخوشنود ھو، وہ يقينا گھاٹے ميں ھےـ (2)

(3)جو لوگ خدا کى خوشنودى کو بندوں کى رضايت کے بدلے خريدتے ھيں، وہ کبھى کامياب نہ ھوں گےـ (3)

(4)روز قيامت کسى بھى شخص کے لئے امان نھيں ھے مگر وہ شخص کہ جو باتقويٰ ھوـ (4)

(5)خداوند عالم فرماتا ھے: ”مومن مردو وعورت ايک دوسرے کے ساتھى ھيں، جو امر بالمعروف اور نھى عن المنکر کرتے ھيںـ“ 
خدا وند عالم نے سب سے پھلے امر بالمعروف اور نھى عن المنکر کو ايک فريضے کے طور پربيان کيا ھے، اس لئے کہ وہ يہ جانتا ھے کہ اگر يہ فرائض انجام پا جائيں تو دوسرے تمام وظائف بھى خواہ وہ سخت ھوں يا آسان، انجام پا ھى جائيں گےـ کيونکہ امر بالمعروف اور نھى عن المنکردين اسلام کى تبليغ کا ايک بھترين ذريعہ ھے، جومظلوموں کو، ظالموں کے مقابلہ ميں اپنا حق لينے کے لئے اکساتا رھتاھےـ (5)

(6)رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: اے لوگو! جو شخص ظالم بادشاہ کو ديکھے کہ جو حرام خدا کو حلال کررھا ھے، خداوند عالم کے حکم کى خلاف ورزى کررھا ھے، الله کے رسول کے لائے ھوئے قوانين کى مخالفت کررھا ھے، بندگان کے درميان ظلم وستم، معصيت ونافرمانى اور دشمنى کا بازار گرم کئے ھوئے ھے، اور وہ شخص اپنے فعل و عمل کے ذريعہ اس کى مخالفت نہ کرے، تو خداوند عالم پر لازم ھے کہ اس شخص کا ٹھکانہ بھى اسى ظالم کے ساتھ قرار دےـ (6)

(7)لوگ دنياکے غلام ھيں، اور دين کو اپنى زندگى کے وسائل فراھم کرنے کے لئے ايک لعاب کے طور پر استعمال کرتے ھيں،جو ان کى زبانوں سے چمٹا ھوا ھےـ ليکن جب آزمائش وامتحان کا وقت آجاتا ھے تو ديندار لوگ کم ياب ھو جاتے ھيںـ (7)

(8)جوشخص گناھوں کے ذريعہ اپنے مقصد تک پھونچنا چاھتا ھے، اس کى آرزوئيں بھت دير سے پورى ھوتى ھيں، اور جس چيز سے ڈرتا ھے سب سے پھلے اسى ميں گرفتار ھوجاتا ھےـ (8)

(9)کيا تم نھيں ديکہ رھے ھو کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کيا جا رھا ھے، اور کوئى باطل کا مقابلہ کرنے والا نھيں؟ لھٰذا ايسے ميںمومن اگر حق پر ھے تو اس کو چاھئے کہ خدا سے ملاقات کى تمنا کرےـ (9)

(10) موت سے بڑہ کر ميرے لئے کوئى سعادت نھيں ھے، ستمگروں اورظالموں کے ساتھ زندگى بسر کرنے سے بڑہ کر ميرے لئے کوئى عذاب نھيں ھےـ (10)

(11)تمھارى مصيبتيں وپريشانياں تمام لوگوں سے زيادہ اس لئے ھيں کہ دانشمندوں کا عھدہ ( اگر تم سمجھتے ھو يا بالفرض اگر تمھارے اندر اس کى لياقت ھے تو) تمھارے ھاتھوں سے لے ليا گيا ھےـ

يہ مصيبتيں وپريشانياںاس وجہ سے ھيں چونکہ حل وعقد امور اور نفاذ احکام الٰھى ان خدا شناس دانشمندوں کے ھاتھ ميں ھونا چاھئے جو حلال وحرام الٰھى کے امين ھيںـ

ليکن يہ مقام ومنزلت تم سے اس لئے لے ليا گيا ھے کہ تم نے حق سے کنارہ کشى اختيار کي،واضح اور آشکار دليلوںکے باوجود تم نے سنت پيغمبر(ص) ميںاختلاف پيدا کردياـ اگرتم ان آزار واذيت کے مقابلہ ميں صبر سے کام ليتے اور ان مصيبتوں اور سختيوں کو خدا کى راہ ميں قبول کر ليتے تو تمام امور الٰھى کى باگڈور تمھارے ھاتھوں ميں تھما دى جاتى اور اس کا مرجع و مآخد تم ھى قرار پاتےـ ليکن تم نے ظالموں اور ستمگروں کواپنے اوپر مسلط کرليا اور تمام امور الٰھى کى باگڈور ان کے ھاتھ ميں تھما دى جب کہ وہ شبھات پر عمل کرتے ھيں اور شھوت وھوس رانى کو اپنا پيشہ بنائے ھوئے ھيں، تمھاراموت سے فرار اور اس ناپائدار زندگى پر راضى ھونا،ھى ستمگاروں کى قدرت طلبى کا باعث بنا ھےـ (11)

(12)خداوندا ! تو گواہ رھنا کہ ھم نے جو کچہ انجام ديا ھے نہ مقام ومنزلت حاصل کرنے کے لئے انجام ديا ھے اور نہ ھى دنيا کى پست اور بيکار چيزوں کے حاصل کرنے کے لئےـ ھم نے جو کچہ انجام دياصرف اس لئے تاکہ لوگ تيرے دين کى نشانيوں کو سمجھيں، اور تيرے شھروں ميں بسنے والے بندوں کو مفاسد سے روکيں ، تاکہ تيرے مظلوم بندے امن وامان ميں رھيں اور تيرے احکام کى پابندى کرسکيںـ ( 12)


(13)حق يہ ھے کہ ميں بے مقصد ايک باغي، ظالم اورستمگرکى حيثيت سے قيام نھيںکر رھاھوں، بلکہ ميں نے اپنے جد محمد مصطفےٰ صلى الله عليہ وآلہ وسلم کى امت کى اصلاح کے لئے قيام کيا ھے ، ميں چاھتا ھوں کہ امر بالمعروف اور نھى عن المنکر انجام دوں ، اوراپنے جد محمد مصطفےٰ صلى الله عليہ وآلہ وسلم اور اپنے بابا على مرتضى عليہ السلام کى روش پر گامزن رھوںـ (13)

(14)اگر دنيا کو باارزش سمجھ ليا جائے تو جان لو کہ منزل آخرت اور خداوند عالم کى جانب سے ملنے والا ثواب اس سے کھيں زيادہ ارزشمند اور بھتر ھےـ

انسان اگر مرنے کے لئے ھى پيدا کيا گيا ھے تو خدا کى قسم شھادت سے بڑہ کر کوئى اور موت بھتر نھيں ھوسکتيـ

جب انسان کا رزق معين ھو چکا ھے تو انسان کے لئے بھتر يھى ھے کہ وہ رزق و روزى کى طلب ميںحرص سے کام نہ لے ـ

اگر مال کو جمع کرنے کا مقصد اس کو ترک کرنا ھى ھے تو پھر کيوںايک آزاد انسان ان چيزوں کے سلسلہ ميں بخل سے کام ليتا ھے کہ جو باقى رھنے نھيں والى ھيںـ (14)

(15)اى آل ابى سفيان تم پر وائے ھو! اگر تمھارا کوئى دين نھيں ھے اور اگر معاد اور روز قيامت کا تمھيں کوئى خوف نھيںھے تو کم از کم دنيا ميں ھى آزاد اور جوانمردانسان بن کر زندگى گزاروـ (15)

(16)کچہ لوگ حرص ولالچ کى بنا پر خدا کى عبادت کرتے ھيں، يہ سودا گروں کى عبادت ھےـ

کچہ لوگ ڈر اور خوف کى وجہ سے خدا کى عبادت کرتے ھيں، يہ غلاموں کى عبادت ھےـ

کچہ لوگ خدا وندعالم کا شکر بجا لانے کے لئے اس کى عبادت کرتے ھيں،يہ عبادت سب سے بھترين اور آزاد مردوں کى عبادت ھےـ (16)

(17)آگاہ ھو جاؤ! لوگوں کا تمھارے پاس اپنى حاجتوں کا لے کر آنا، يہ خداوند عالم کى بھترين نعمتوں ميں سے ايک نعمت ھےـ لھٰذا اس نعمت سے غافل نہ رھو، کھيں ايسا نہ ھو کہ يہ نعمت تمھارے پاس سے پلٹ کر کسى اور کے پاس چلى جائےـ (17)


(18)اى لوگو!ان ملامت وسرزنش سے عبرت حاصل کرو جو خدا وند نے علماء يھود کو پند ونصيحت کے طور پر کى تھيںـجب خداوند عالم فرمايا: ”علمائے يھود نے اھل يھود کو گناہ آلود باتوں سے کيوں نھيں روکا ؟“ اور ارشاد فرماتا ھے: ”گروہ بنى اسرائيل سے وہ لوگ جو کافر ھوگئے،(جناب داؤد اور جناب عيسيٰ کى زبان پر)ملعون قرار پائےـ“ يھاں تک کہ ارشاد ھوتا ھے: ”وہ کتنے ناپسنديدہ کاموں کو انجام ديتے تھےـ“ يھى وجہ تھى کہ خدا وندعالم کو ان کى يہ بات ناگوار گذرى کہ وہ ستمگروں اور ظالموں کے ناروا افعال کو ديکھتے تھے اور اس سے منع نہ کرتے تھے، کيونکہ وہ ستمگروں کى طرف سے ملنے والے مال پر حريص ھو جاتے، اور اعتراض کى صورت ميں وہ اس کے انجام سے ڈرتے تھےـ اسى لئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے: ”مجھ سے ڈرو لوگوں سے نہ ڈروـ“ اور يہ بھى فرماتا ھے: ” مومن مردو عورت ايک دوسرے کے بھائى ھيں، جو نيکى کا حکم ديتے ھيں اور برائيوں سے روکتے ھيںـ“ (18)

(19)اگر کوئى شخص لوگوں کى رضايت وخوشنودى حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم کے غيض وغضب کا باعث بنے تو خداوند عالم بھى اس کو لوگوں کے حوالے کرديتا ھےـ (19)

(20)اس شخص پر ظلم وستم کرنے سے ڈرو جس کا خدا کے علاوہ کوئى اور مدد گار نہ ھوـ (20)

(21)جوتم پر زيادہ تنقيد کرتا ھے وہ تمھارا واقعى اور حقيقى دوست ھے ، اور جو تمھارى تعريفيں کرتا ھے وہ گويا تمھارا دشمن ھےـ (21)

(22)حق کى پيروى سے ھى عقل کامل ھوتى ھےـ (22)

(23)فاسقوں کى صحبت اختيار کرنا، انسان کو معرض اتھام ميںکھڑا کر ديتا ھےـ (23)

(24)خدا وند متعال کے خوف کى وجہ سے گريہ کرنا، آتش جھنم سے نجات کا باعث ھوتاھےـ (24)

(25)ايک شخص امام حسين عليہ السلام کے پاس آيا اور کھنے لگا: ”ميں ايک گناگار انسان ھوں اور خدا کى معصيت سے پرھيز نھيں کرتا، مجھے کچہ نصيحت کيجئےـ“ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا: ”پانچ کام بجا لاؤ اس کے بعد جو چاھے کروـ پھلے يہ کہ خداوند عالم کا عطا کردہ رزق استعمال نہ کرو اور جو تمھارا دل چاھے گنا ہ کروـ دوسرے يہ کہ خداوند عالم کى حکومت سے خارج ھو جاؤ اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے کرو ـ تيسرے يہ کہ کسى ايسى جگہ چلے جاؤ کہ خدا تمھيں نہ ديکہ سکے اور جو تمھارا دل چاھے گناہ کروـ چوتھے يہ کہ جب عزرائيل تمھارى روح قبض کرنے کے لئے آئيں تو انھيں اپنے پاس سے بھگا دو پھر جو تمھارا دل چاھے گناہ انجام دوـ پانچويں يہ کہ جس وقت جھنم کا مالک وحاکم تمھيں آگ ميں ڈالے ، تم آگ ميں نہ کودو اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے گناہ کروـ (25)

(26)جس کام کے سلسلہ ميں تمھيں عذر خواھى کرنا پڑے اس کام سے پرھيز کرو، مومن نہ بدى کرتا ھے اور نہ عذر خواھى کرتا ھےـ اور منافق ھر روز بدى کرتا ھے اور ھر روز عذر خواھى کرتا ھےـ (26)

(27)جلدى کرنا کم عقلى کى علامت ھےـ (27 )
(28)کسى بھى شخص کواس وقت تک بات کرنے کى اجازت نہ دو جب تک کہ وہ سلام نہ کرلےـ (28)

(29)فکر نہ کرنے والے افراد کے ساتھ بحث وتکرار کرنا، جھل ونادانى کى ايک علامت ھےـ (29)

(30)تنقيد، فکر اور مختلف نظريات کے سلسلہ ميں جاننا، عالم کى نشانيوں ميں سے ايک ھےـ (30)

(31)امام حسين عليہ السلام سے پوچھا گيا: يابن رسول الله (ص) آپ روز وشب کيسے گزارتے ھيں؟؟ آپ نے فرمايا: اس حالت ميںکہ خداوند متعال ھمارے اعمال پر ناظر ھوتا ھے اور ھم آتش جھنم کو اپنى آنکھوں سے مشاھدہ کرتے ھيں، موت ھمارا پيچھا کررھى ھے،اپنے اعمال کے سلسلہ ميں حساب وکتاب سے کوئى چھٹکارا نظر نھيں آتا، اپنى دلخواہ چيزوں پر دسترس نھيں رکھتا، اپنے اندر اپنے ارد گرد کى تکاليف کو دور کرنے کى قدرت نھيںپاتا، تمام امور کسى اور کے ھاتھ ميں ھيں، اگر وہ چاھے تو مجھ پر عذاب نازل کرسکتا ھے اور اگر چاھے تو مجھے معاف کرسکتا ھے، اس بنا پر ايسا کون مسکين ھے جو مجھ سے بھى زيادہ ناتواں اور عاجز ھوـ (31)

(32)جو بخش دے وہ بزرگ سمجھا جاتا ھے اور جو شخص بخل سے کام ليتا ھے وہ ذليل ورسوا ھو جاتا ھےـ (32)

(33)لوگوں ميں سب سے زيادہ مھربان شخص وہ ھے جو ايسے شخص کو معاف کردے جو اس سے اس بات کى اميد نہ رکھتا ھوـ (33)

(34)جو شخص ايک برادر مومن کى مشکل کو حل کرے اور اسے اضطراب سے نجات دلائے تو خداوند عالم دنيا وآخرت کے اضطراب وپريشانيوں کو اس سے دور کرديتا ھےـ (34)

(35)جب کسى شخص کو ديکھو کہ لوگوں کى عزت و آبرو پر حملہ کررھا ھے تو کوشش کرو کہ وہ تمھيں نہ پھچانےـ (35)

(36)اپنى حاجتوں کو متدين ، جواں مرد اور نجيب وشريف انسان سے بيان کروـ (36)

(37)اس شخص کى طرح عمل کرو جو گناھوں پر عذاب اور نيکى پر اجرو ثواب کا عقيدہ رکھتا ھوـ (37)
(38)سلام کرنے کا اجروثواب ستر نيکيوں کے برابر ھے، جس ميں سے69/ اس شخص کے لئے ھيں جو سلام کرتا ھے اور ايک نيکى سلام کا جواب دينے والے کے لئے ھوتى ھےـ (38)

(39)اگر يہ تين چيزيں ، فقر، مرض اور موت نہ ھوتى تو بنى آدم کسى کے سامنے سر نہ جھکاتاـ (39)

(40)تمھارى قيمت بھشت کے سوا اور کچہ نھيں ھے، پھر کيوں اپنے آپ کو اس کے غير سے بيچتے ھوـ اس لئے کہ جو شخص دنيا پر راضى ھو جائے ( گويا اس کا مقصد صرف اور صرف دنيا ھے) وہ ايک پست چيز پر راضى ھوا ھےـ (40)

(41)گذشتہ نعمتوں پر شکر ، خداوند متعال کى طرف سے نئى اور تازہ نعمتوں کے عطيہ کا سبب ھوتا ھےـ ( 41)

(42)جو شخص خوف خدا رکھتا ھو وھى امين ھو سکتا ھےـ (42)

(43)آنحضرت سے پوچھا گيا فضيلت کيا ھے؟ تو آپ نے فرمايا: ” زبان کو قابو ميں رکھنا اور نيکى کرناـ“ (43)

(44)اى لوگو! نيک اور اچھے صفات ميں ايک دوسرے کے رقيب ھو جاؤ، اچھے وقت کو ھاتھ سے نہ جانے دو، وہ عمل خير جس کى انجام دھى ميں تم نے سستى سے کام ليا، اسے اچھا نہ گردانوـ کاميابى اور کامرانى حاصل کر کے دوسروں کا شکريہ اور ستائش حاصل کروـ نيک کاموں ميںسستى اور کاھلى کى وجہ سے اپنے آپ کو مورد ملامت قرار نہ دوـ (44)

(45)وہ تمام بڑى نعمتيں جو خدا نے تمھيں عطا کى ھيں جان لو کہ يہ ان ضروريات ميں سے ھيں جس کى لوگ تم سے توقع رکھتے ھيںـبچو! کھيں ايسا نہ ھو کى ضرورتمندوں کى طرف سے بے توجھى تم سے يہ نعمتيں واپس لے لے اور يہ بلا اور مصيبت کى صورت اختيار نہ کر ليںـ جان لو کہ نيک کام کى انجام دھى کے بعد لوگوں کے لئے حمدوستائش کا سبب بننے کے علاوہ خدا وند عالم کى طرف سے بھى اس کے اجروثواب کے حقدار ھوـاگرکسى نيک کام کو انسانى شکل ميں مشاھدہ کرتے تو اس کو بھت ھى نيک اور بھت ھى خوبصورت شکل ميں ديکھتے اس طرح سے کہ ھر ديکھنے والا اس کو ديکھتا ھى رہ جائےـاور اگر تم کسى برے کام کو کسى انسانى شکل ميں ديکھتے تو تمھارى نظر ميں اس کا تصور ايک بد صورت اور بھدى شکل والے انسان کا ھوتااس طرح سے کہ دلوں ميں اس سے نفرت پيدا ھوجاتى اوراس نحس شکل کو ديکھتے ھى آنکھيں بند کرليتےـ (45)

(46)لوگوں ميں قدرتمند ترين شخص وہ ھے جو اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود اسے معاف کردےـ (46)

(47)صلہ رحم ميںوہ شخص سب سے اچھا ھے جو ان رشتہ داروں کى بہ نسبت دلجوئى اور صلھٴ رحم کرے جنھوں نے اس سے قطع رحم کيا ھےـ ( 47)
(48)جان لو کہ جو شخص برادر مومن کے غم کو ھلکا کرے تو خداوند عالم بھى دنيا وآخرت کے غموں کو اس سے دور کردے گاـ اور جو شخص دوسروں کے ساتھ نيکى کرے تو خداوند عالم بھى اس کے ساتھ نيکى کرے گا اس لئے کہ خداوند عالم نيک افراد کو دوست رکھتا ھےـ (48)

(49)بردبارى انسان کى زينت ھے، اور وعدہ کو وفاکرنا جوان مردى کى علامت ھےـ (49)

(50)تکبر،ايک طرح کى خود پسندى اور بے جا خود ستائى ھےـ کاموں ميں جلدى کرنا، کم عقلى کى علامت ھےـ کم عقلى روح کى کمزورى کى علامت ھےـ ھر چيز ميں زيادہ روى سے کام لينا ھلاکت کا باعث ھوتا ھےـ (50)

(51)آگاہ ھو جاؤ، جنگ ايک ايسا فتنہ ھے جس کى سختياں انسان کو خوف ميں مبتلا کرديتى ھيں جس کا مزہ حد سے زيادہ تلخ اور کڑوا ھوتا ھے کہ جسے گھونٹ گھونٹ کرکے پيا جاتا ھےـ مرد ميدان اور جنگ کا فاتح وھى ھوتا ھے جو ھر وقت جنگ کے لئے آمادہ ھو، لشکر کى کثرت ،جنگ کے سازوسامان اور جنگ شروع ھونے سے پھلے ھى دشمن سے خوف زدہ نہ ھو جائے، اور جنگ ميں جو بھى شخص وقت کے آنے سے پھلے ،کام ميں دقت نظرى اور سازوسامان پر نظر رکھنے سے پھلے ميدان ميں آجائے اس نے اپنى قوم وقبيلہ کو کوئى فائدہ نہ پھونچايا ھوچاھے خواہ وہ اپنى جان جوکھم ميں ھى کيوں نہ ڈال دےـ (51)

(52)ميں تمھيں خدا سے ملاقات کے دن (روز قيامت) سے ڈراتے ھوئے تمھيں تقويٰ و پرھيزگارى کى وصيت کرتا ھوں ،اس وقت کا تصور کرو کہ جب موت ايک وحشتناک شکل وصورت ميں آئے گي، اس کا آنا اچانک اور ناگوار انداز ميں ھوگا، تمھارى روح کو اپنے پنجوں ميں جکڑ لے گااس وقت تمھارے اور عمل کے درميان فاصلہ پيدا ھو جائے گا، ليکن پھر بھى تم طول عمر اور اپنے تن کى فکر ميں ھوـ ميں تمھيں ديکہ رھا ھوں کہ اچانک موت نے تمھارا گريبان پکڑ ليا ھے اور تمھيں زمين سے اپنے اندر کھينچ رھى ھے، تمھيں زمين کى بلندى سے پستى پر لا پٹخا ھے ، دنيا کى الفت ومحبت سے تمھيں قبر کى تاريکى ميںڈھکيل ديا ھے، دنيا کى خوبصورتى اور چکاچوندھنى سے قبر کى ظلمت وتاريکى کى طرف لے جا رھى ھے ، کشادگى سے قبر کى تنگى کى طرف کھينچ رھى ھے ،ايک ايسے زندان ميں جھاں کسى نزديک ترين عزيز سے بھى ملاقات ناممکن ھے، اس جگہ جھاں بيمارى کى عيادت بھى نھيں کى جاسکتي، جھاں کسى کى نالہ وفرياد نھيں سنى جاتيـ

ان مشکل ايام ميںپروردگار ھميں اور تمھيں کاميابى عطا فرمائےـ ھميں اور تمھيں اس دن کے عذا ب سے نجات عطا فرمائے، اور ھم سب کو ايک عظيم انعام سے نوازےـ (52)

(53)ميں وصيت کرتا ھوں تقويٰ الٰھى اختيار کرو، اس لئے کہ خداوند عالم نے اس بات کى ضمانت لى ھے کہ وہ افراد جو با تقويٰ ھيں انھيں ناپسنديدہ چيزوں سے نيک اور اچھى چيزوںکى طرف رھنمائى کرےـ ”اور وہ اس طرح سے تمھيں روزى عطا کرتا ھے کہ جس کا تم تصور بھى نھيں کرسکتےـ“ (53)

(54)کھيں ايسا نہ ھو جائے کہ تم گناھگار لوگوں سے پرھيز کرو اور خود اس کام کے انجام سے غافل رھوـ اس لئے کہ خدا وندعالم بھشت دے کرکے دھوکہ نھيں کھائے گا، اس نے جن انعامات کا وعدہ کيا ھے سوائے اس کے فرمانبرداروں کے کوئى اور اس کا حقدار نھيں ھوسکتاـ (54)

(55)اے بنى آدم! تھوڑا سا سوچو ، غور کرو اور يہ بتاؤ کہ دنيا پر حکومت کرنے والے بادشاہ وحکمراں کھاں ھيں؟جنھوں نے دنيا کى سونى جگھوں کو آباد کياھےـ


حوالے
1 ـ دعائے عرفہ ، بحار الانوار ج/ 98 ص/266
2 ـ دعاى عرفھ/بحار الانوار،ج/98، ص/228
3 ـ مقتل خوارزمي، ج/1، ص/239
4 ـ بحارالانوار/ج/44، ص/192
5 ـ تحف العقول، ص/237
6 ـ مقتل خوارزمي: ج/1،ص/234
7 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/117
8 ـ بحارالانوار،ج/78، ص/120
9 ـ بحارالانوار، ج/78،ص/116
10 ـ تحف العقول، ص/245
11 ـ تحف العقول، ص/238
12 ـ تحف لالعقول، ص/239
13 ـ بحارالانوار، ج/44، ص/329
14 ـ بحارالانوار، ج/44، ص/374
15 ـ بحارالانوار، ج/45، ص/51
16 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/117
17 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/121
18 ـ تحف العقول، ص/237
19 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/126
20 ـ بحارلانوار، ج/78، ص/118
21 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/128
22 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/127
23 ـ بحارالانوا، ج/78، ص/122
24 ـ مستدرک الاوسائل، ج/11، ص/245
25 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/126
26 ـ تحف العقول، ص/248
27 ـ بحار الانوار، ج/78،ص/122
28 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/117
29 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/119
30 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/119
31 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/116
32 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/121
33 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/121
34 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/122
35 ـ بلاغت الحسين( ع)، ص/284
36 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/118
37 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/127
38 ـ بحار الانوار، ج/78، ص/120
39 ـ نزھة الناظر وتنبيہ الخاطر،ص/80
40 ـ بلاغة الحسين (ع)، ص/308
41 ـ نزھة الناظر وتنبيہ الخاطر، ص/80
42 ـ بلاغة الحسين (ع) ص/292
43 ـ بلاغة الحسين (ع)، ص/332
44 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/121
45 ـ بحارالانوا، ج/78، ص/121
46 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/121
47 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/121
48 ـ بحار الانوار، جب78، ص/122
49 ـ بحارالانوا، ج/78، ص/122
50 ـ بحارالانوار،ج/78، ص/122
51 ـ بحارالانوار، ج/32، ص/405
52 ـ بحارالانوار، ج/78، ص/120
53 ـ بحارالانوا، ج/78، ص/121
54 ـ بحارالانوا، ج/78، ص/121