۱۳۹۶/۹/۱۷   1:55  ویزیٹ:2954     معصومین(ع) ارشیو


حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی پر اجمالی نظر

 


نام ونسب:

اسم گرامی : جعفر
لقب : صادق
کنیت: ابو عبد اللہ
والد کا نام : محمد

والدہ کانام : ام فروہ ( قاسم کی بیٹی )
تاریخ ولادت : 17ربیع الاول 83ھ۔
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : 34 سال
 عمر : 65 سال
تاریخ شھادت : 25 ماہ شوال 148ھ۔
شھادت کاسبب : منصور دوانقی نے زھر سے شھید کیا
مزار اقدس : مدینہ منورہ جنة البقیع
اولاد کی تعداد : 7 بیٹے اور 3 بیٹیاں
بیٹوں کے نام: ( 1) اسماعیل (2) عبد اللہ افطح (3) موسیٰ کاظم (ع) (4) اسحٰق (5) محمد دیباج (6) عباس (7) علی
بیٹیوں کے نام : (1) فاطمھ(2) اسماء (3) ام فروہ
بیویاں : 1
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : " اللہ خالق کل شئی"

ولادت
83ھجری میں 17ربیع الاول کو آپ نے جدِ بزرگوار رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی تاریخ کو آپ کی ولادت ھوئی . اس وقت آپ کے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام بھی زندہ تھے . آپ کے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی , خاندان آلِ محمد میں اس اضافہ کاانتھائی خوشی سے استقبال کیا گیا .
نشرونما اور تربیت
 بارہ برس آپ نے آپ نے جدِ بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کے زیر سایہ تربیت پائی . شھادت امام حسین علیہ السّلام کے بعد سے پینتیس برس امام زین العابدین علیہ السّلام کامشغلہ عبادتِ الٰھی اورآپ نے مظلوم بآپ حضرت سید الشھداء کو رونے کے سوا اور کچھ نہ تھا . واقعہ کربلا کو ابھی صرف بائیس برس گزرے تھے .اس مدت میں کربلا کا عظیم الشان واقعہ آپ نے تاثرات کے لحاظ سے ابھی کل ھی کی بات معلوم ھوتا تھا امام جعفر صادق علیہ السّلام نے انکھ کھولی تو اسی غم واندوہ کی فضا میں شب و روز شھادت حسین علیہ السّلام کا تذکرہ اور اس غم میں نوحہ وماتم اور گریہ وبکا کی آوازوں نے ان کے دل ودماغ پر وہ اثر قائم کیا کہ جیسے وہ خود واقعہ کربلا میں موجود ھوتے. پھر جب وہ یہ سنتے تھے کہ ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر علیہ السّلام بھی کمسنی ھی کے دور میں سھی اس جھاد میں شریک تھے تو ان کے دل کو یہ احساس بھت صدمہ پھونچاتا ھوگا کہ خاندان عصمت کے موجودہ افراد میں ایک میں ھی ھوں جو اس قابل فخر یاد گار معرکہ ابتلا میں موجود نہ تھا . چنانچہ اس کے بعد ھمیشہ اور عمر بھر امام جعفرصادق علیہ السّلام نے جس جس طرح آپ نے جدِ مظلوم امام حسین علیہ السّلام کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی ھے وہ آپ نے آپ ھی مثال ھے .
 بارہ برس کی عمر جب 95ھ میں امام زین العابدین علیہ السلام کا سایہ سر سے اٹھا . اس کے بعد انیس برس آپ نے آپ نے والدمآجد حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کے دامان تربیت میں گزارے ، یہ وہ وقت تھا جب سیاست بنی امیہ کی بنیادیں ھل چکی تھیں اور امام محمدباقر علیہ السّلام کی طرف فیوضِ علمی حاصل کرنے کے لئے خلائق رجوع کررھی تھی . اس وقت آپ نے پدرِ بزرگوار کی مجلس درس میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام ھی ایک وہ طالب علم تھے جو قدرت کی طرف سے علم کے سانچے میں ڈھال کر پیدا کئے گئے تھے . آپ سفر اور حضر دونوں میں آپ نے والد بزرگوار کے ساتھ رھتے تھے چنانچہ ھشام ابن عبدالملک کی طلب پر حضرت امام محمدباقر علیہ السّلام کے ساتھ تھے.

 دورِ امامت
 114ھ میں حضرت امام محمدباقر علیہ السّلام کی شھادت ھوئی . اب امامت کی ذمہ داریاں امام جعفرصادق علیہ السّلام کی طرف عائد ھوئیں . اس وقت دمشق میں ھشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی . اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بھت زیادہ ھوچکا تھا . مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ھورھا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لئے تیار ھوگئے تھے ، ان میں نمایاں ھستی حضرت زید(رض) کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بزرگ مرتبہ فرزند تھے .ان کی عبادت زھد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شھرہ تھا . مستند اور مسلّم حافظ قرآن تھے . بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آکر انھوں نے میدانِ جھاد میں قدم رکھا .
 امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لئے یہ موقع نھایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاھر ھے کہ آپ زید (رض)کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دوررس نگاہ دیکھ رھی تھیں کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نھیں پھنچ سکتا . اس لئے عملی طور سے آپ ان کاساتھ دینامناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ھوتے ھوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتھائی ھمدردی تھی . آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت بینی کی دعوت دی مگر اھل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرار اطاعت ووفاداری نے جناب زید(رض) کو کامیابی کے توقعات پیدا کردیئے اور اخر 120ھ میں ظالم فوج شام سے تین روز تک بھادری کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد شھید ھوئے . دشمن کا جذبهِ انتقام اتنے ھی پر ختم نھیں ھوا بلکہ دفن ھوچکنے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالآگیا اور سر کو جدا کرکے ھشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازۂ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح اویزاں رکھا گیا . جناب زید(رض) کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید علیہ السّلام بھی شھید ھوئے .یقیناً ان حالات کا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر گھرا اثر پڑ رھا تھا . مگر وہ جذبات سے بلند فرائض کی پابندی تھی کہ اس کے باوجود آپ نے ان فرائض کو جو اشاعت علوم اھلبیت علیھم السّلام اورنشرشریعت کے قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے برابر جاری رکھا تھا .

انقلابِ سلطنت
  بنی امیہ کا آخری دور ھنگاموں اور سیاسی کشمکشوں کا مرکز بن گیا تھا . اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بھت جلدی جلدی حکومتوں میں تبدیلیاں ھورھی تھیں اور اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السّلام کو بھت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا . ھشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبدالملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اس کے بعد ابراھیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ھوگیا .
 جب سلطنت کی داخلی کمزوریاں قھر وغلبہ کی چولیں ھلا چکی ھوں تو قدرتی بات ھے کہ وہ لوگ جو اس حکومت کے مظالم کا مدتوں نشانہ رہ چکے ھوں اور جنھیں ان کے حقوق سے محروم کرکے صرف تشدد کی طاقت سے پنپنے کا موقع نہ دیا گیا ھو ، قفس کی تتلیوں کو کمزور پا کر پھڑ پھڑانے کی کوشش کریں گے اور حکومت کے شکنجے کو ایک دم توڑ دینا چاھیں گے ، سوائے ایسے بلند افراد کے جو جذبات کی پیروی سے بلند ھوں . عام طور پر اس طرح کی انتقامی کوششوں میں مصلحت اندیشی کادامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے کا امکان ھے مگر وہ انسانی فطرت کا ایک کمزور پھلو ھے جس سے خاص خاص افراد ھی مستثنیٰ ھوسکتے ھیں .
 بنی ھاشم میں عام طور پر سلطنت بنی امیہ کے اس آخری دور میں اسی لئے ایک حرکت اور غیر معمولی اضطراب پایا جارھا تھا.اس اضطراب سے بنی عباس نے فائدہ اٹھایا . انھوں نے آخری دور امویت میں پوشیدہ طریقے سے ممالکِ اسلامیہ میں ایک ایسی جماعت بنائی جس نے قسم کھائی تھی کہ ھم سلطنت کو بنی امیہ سے لے کر بنی ھاشم تک پھنوچائں گے جن کا وہ واقعی حق ھے . حالآنکھ حق تو ان میں سے مخصوص ھستیوں ھی میں منحصر تھا جو خدا کی طرف سے نوع انسانی کی رھبری اور سرداری کے حقدار بنائے گئے تھے مگر یہ وھی جذبات سے بلند انسان تھے جو موقع کی سیاسی رفتار سے ھنگامی فوائد حاصل کرنا آپ نا نصب العین نہ رکھتے تھے . سلسلہ بنی ھاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رھنے کے ساتھ اس ھمدردی کو جو عوام میں خاندان ھاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی ، بنی عباس نے آپ نے لئے حصول سلطنت کاذریعہ قرار دیا . حالآنکھ انھوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ھاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ھی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے . یہ واقعات مختلف اماموں کے حالات میں آیندہ آپ کے سامنے آئیں گے.
  بنی عباس میں سے سب سے پھلے محمد بن علی بن عبدالله بن عباس نے بنی امیہ کے خلاف تحریک شروع کی اور ایران میں مبلغین بھیجے جو مخفی طریقہ پر لوگوں سے بنی ھاشم کی وفاداری کاعھدوپیمان حاصل کریں . محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراھیم قائم مقام ھوئے .جناب زید(رض) اور ان کے صاحبزادے جناب یحییٰ(رض) کے دردناک واقعات شھادت سے بنی امیہ کے خلاف غم وغصہ میں اضافہ ھوگیا . اس سے بھی بنی عباس نے فائدہ اٹھایا اور ابو سلمہ خلال کے ذریعہ سے عراق میں بھی آپ نے تأثرات قائم کرنے کا موقع ملا . رفتہ رفتہ اس جماعت کے حلقئہ اثر میں اضافہ ھوتا گیا اور ابو مسلم خراسانی کی مدد سے عراق عجم کا پورا علاقہ قبضہ میں آگیا اوربنی امیہ کی طرف سے حاکم کو وھاں سے فرار اختیار کرنا پڑا . 129ھ سے عراق اورخراسان وغیرہ میں سلاطین بنی امیہ کے نام خطبہ سے خارج کرکے ابراھیم بن محمد کانام داخل کردیا گیا .
 ابھی تک سلطنت بنی امیہ یہ سمجھتی تھی کہ یہ حکومت سے ایک مقامی مخالفت ھے . جو ایران میں محدود ھے مگر اب جاسوسوں نے اطلاع دی کہ اس کا تعلق ابراھیم ابن محمد بن عباس کے ساتھ ھے جو مقام جابلقا میں رھتے ھیں . اس کانتیجہ یہ تھا کہ ابراھیم کو قید کردیا گیا اور قید خانہ ھی میں پھر ان کو قتل کرادیا گیا . ان کے پس ماندگان دوسرے افراد بنی عباس کے ساتھ بھآگ کر عراق میں ابو سلمہ کے پاس چلے گئے . ابو مسلم خراسانی کو جب ان حالات کی اطلاع ھوئی تو ایک فوج کو عراق کی طرف روانہ کیا جس نے حکومتی طاقت کو شکست دے کر عراق کو آزاد کرالیا .
 ابوسلمہ خلال جو وزیر آل محمد کے نام سے مشھور ھے بنی فاطمہ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے ، انھوں نے چند خطوط اولاد رسول میں سے چند بزرگوں کے نام لکھے اور ان کو قبول خلافت کی دعوت دی. ان میں سے ایک خط حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کے نام بھی تھا . سیاست کی دنیا میں ایسے مواقع آپ نے اقتدار کے قائم کرنے کے لئے غنیمت سمجھے جاتے ھیں مگر وہ انسانی خود داری واستغنی کامثالی مجمسہ تھا جس نے آپ نے فرائض منصبی کے لحاظ سے اس موقع کو ٹھکرا دیا ور بجائے جواب دینے کے حقارت آمیز طریقہ پرا س خط کو آگ کی نذر کردیا .
ادھر کوفہ میں ابو مسلم خراسانی کے تابعین اوربنی عباس کے ھوا خواھوں نے عبدالله سفاح کے ھاتھ پر 14ربیع الثانی 132ھ کو بیعت کرلی اور اس کو امت اسلامیہ کا خلیفہ اور فرمانروا تسلیم کر لیا . عراق میں اقتدار قائم کرنے کے بعد انھوں نے دمشق پر چڑھائی کردی . مروان حمارنے بھی بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ کیامگر بھت جلد اس کی فوج کو شکست ھوئی . مروان نے فرار کیا اور اخر میں افریقہ کی سر زمین پر پھونچ کر قتل ھوا .اس کے بعد سفاح نے بنی امیہ کاقتل عام کرایا . سلاطین بنی امیہ کی قبریں کھدوائیں اور ان لاشوں کے ساتھ عبرتناک سلوک کئے گئے . اس طرح قدرت کاانتقام جو ان ظالموں سے لیا جاناضروری تھا بنی عباس کے ھاتھوں دنیا کی نگاہ کے سامنے ایا . 136ھ میں ابو عبدالله سفاح بنی عباس کے پھلے خلیفہ کا انتقال ھوگیا . جس کے بعداس کا بھائی ابو جعفر منصور تخت خلافت پر بیٹھا جو منصور دوانقی کے نام سے مشھور ھے .

سادات پر مظالم
یہ پھلے لکھا جاچکا ھے کہ بنی عباس نے ان ھمدردیوں سے جو عوام کو بنی فاطمہ کے ساتھ تھیں نآجائز فائدہ اٹھایا تھا اور انھوں نے دنیا کو یہ دھوکا دیا تھا کہ ھم اھلبیتِ رسول (ص)کی حفاظت کے لئے کھڑے ھوئے ھیں چنانچہ انھوں نے رضائے الِ محمد ھی کے نام پر لوگوں کو آپ نی نصرت وحمایت پر آمادہ کیاتھا اور اسی کو آپ نانعرۂ جنگ قرار دیا تھا . اس لئے انھیں برسر اقتدار آنے کے بعد اور بنی امیہ کو تباہ کرنے کے بعد سب سے بڑا اندیشہ یہ تھا کہ کھیں ھمارایہ فریب دنیا پر کھل نہ جائے اور تحریک پیدا نہ ھوجائے کہ خلافت بنی عباس کے بجائے بنی فاطمہ کے سپرد ھونا چاھئے ، جو حقیقت میں آلِ رسول ھیں . ابو سلمہ خلال بنی فاطمہ کے ھمدردوں میں سے تھے اس لئے یہ خطرہ تھا کہ وہ اس تحریک کی حمایت نہ کریں ، لھذا سب سے پھلے ابو سلمہ کو راستے سے ھٹا یا گیا وہ باوجود ان احسانات کے جو بنی عباس سے کرچکا تھا سفاح ھی کے زمانے میں تشدد بنا اور تلوار کے گھاٹ اتارا گیا . ایران میں ابو مسلم خراسانی کااثر تھا ، منصور نے انتھائی مکاری اور غداری کے ساتھ اس کی زندگی کا بھی خاتمہ کردیا۔
اب اسے اپنی من مانی کاروائیوں میں کسی بااثر اور صاحبِ اقتدار شخصیت کی مزاحمت کا اندیشہ نہ تھالٰھذا اس کا ظلم وستم کا رخ سادات بنی فاطمہ کی طرف مڑ گیا . مولانا شبلی سیر ت نعمان میں لکھتے ھیں :"صرف بد گمانی پر منصور نے سادات علویئین کی بیخ کنی شروع کردی . جو لوگ ان میں ممتاز تھے ان کے ساتھ بے رحمیاں کی گئیں . محمد ابن ابراھیم کہ حسن وجمال میں یگانہ روز گار تھے اور اسی وجہ سے دیباج کھلاتے تھے زندہ دیواروں میں چنوادیئے گئے . ان بے رحمیوں کی ایک داستان ھے جس کے بیان کرنے کو بڑا سخت دل چاھئے. "
 حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر ان حالات کابھت اثرھوتا تھا . چنانچہ جب سادات بنی حسین طوق وزنجیر میں قید کرکے مدینہ سے لے جائے جارھے تھے تو حضرت ایک مکان کی آڑ میں کھڑے ھوئے ان کی حالت کو دیکھ دیکھ کر رورھے تھے اورفرمارھے تھے کہ افسوس مکہ ومدینہ بھی دار الامن نہ رھا . پھر آپ نے اولادِ انصار کی حالت پر افسوس کیا کہ انصار نے رسالت مابقی اس عھدوپیمان پر مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی تھی کہ ھم آپ کی اورآپ کی اولاد کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح آپ نے اھل وعیال اور جان ومال کی حفاظت کرتے ھیں مگر آج انصار کی اولاد باقی ھے اورکوئی ان سادات کی امداد نھیں کرتا , یہ فرما کر آپ بیت الشرف کی طرف وآپ س ھوئے اوربیس دن تک شدت سے بیمار رھے .
 ان قیدیوں میں امام حسین علیہ السّلام کے صاحب زادے عبدالله محض بھی تھے . جنھوں نے کبرسنی کے عالم میں عرصہ تک قید کی مصیبتیں اٹھائیں . ان کے بیٹے محمد نفسِ زکیہ نے حکومت کامقابلہ کیااور 154ھ میں دشمن کے ھاتھ سے مدینہ منورہ کے قریب شھید ھوئے . جوان بیٹے کاسر بوڑھے باپ کے پاس قید خانہ میں بھیجا گیا اور یہ صدمہ ایساتھا کہ جس سے عبدالله محض پھر زندہ نہ رہ سکے اور ان کی روح نے جسم سے مفارقت کی . اس کے بعد عبدالله کے دوسرے صاحبزادے ابراھیم بھی منصور کی فوج کے مقابلہ میں جنگ کرکے کوفہ میں شھید ھوئے . اسی طرح عباس ابن حسن ، عمر ابنِ حسن مثنیٰ, علی وعبدالله فرزندانِ نفسِ زکیہ ، موسیٰ اور یحییٰ برادران نفس زکیہ وغیرہ بھی بے دردی اور بے رحمی سے قتل کئے گئے . بھت سے سادات عمارتوں میں زندہ چنوادیئے گئے .

امام کے ساتھ بدسلوکیاں
ان تمام نآگوار حالات کے باوجود جن کاتذکرہ انتھائی اختصار کے ساتھ اوپر لکھا گیا ھے امام جعفر صادق علیہ السّلام خاموشی کے ساتھ علوم اھلبیت علیھم السّلام کی اشاعت میں مصروف رھے اور اس کانتیجہ یہ تھا کہ وہ لوگ بھی بحیثیت امامت حقہ آپ کی معرفت نہ رکھتے تھے یا اسے تسلیم کرنا نھیں چاھتے تھے وہ بھی آپ کی علمی عظمت کو مانتے ھوئے آپ کے حلقئہ درس میں داخل ھونے کو فخر سمجھتے تھے .
 منصور نے پھلے حضرت کی علمی عظمت کااثر عوام کے دل سے کم کرنے کے لئے ایک تدبیر یہ کی کہ آپ کے مقابلے میں ایسے اشخاص کو بحیثیت فقیہ اور عالم کے کھڑا کردیا جو آپ کے شآگردوں کے سامنے بھی زبان کھولنے کی قدرت نہ رکھتے تھے اور پھر وہ خود اس کا اقرار رکھتے تھے کہ ھمیں جو کچھ ملا وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کی محبت کا دم بھرتا ھے اسے گرفتار کیا جائے .
 چناچہ معلیٰ ابن خنیس ان ھی شیعوں میں سے تھے جو گرفتار کئے گئے اور ظلم وستم کے ساتھ شھید کئے گئے . خود حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کو تقریباً پانچ مرتبہ مدینہ سے دربار شاھی میں طلب کیا گیا جو آپ کے لئے سخت روحانی تکلیف کاباعث تھا . یہ اوربات ھے کہ کسی مرتبہ آپ کے خلاف کوئی بھانہ اُسے ایسا نہ مل سکا کہ آپ کے قید یاقتل کئے جانے کا حکم دیتا . بلکہ اس سلسلہ میں عراق کے اندر ایک مدت کے قیام سے علوم اھلبیت علیھم السّلام کی اشاعت کاحلقہ وسیع ھوا اور اس کو محسوس کرکے منصور نے پھر آپ کو مدینہ بھجوادیا . اس کے بعد بھی آپ ایذارسانی سے محفوظ نھیں رھے . یھاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگادی گئی . قدرت خدا تھی کہ وہ آگ جلد فرد ھوگئی اور آپ کے متعلقین اور اصحاب کوکوئی صدمہ نھیں پھنچا .

اخلاق واوصاف
آپ اسی عصمت کی ایک کڑی تھے جسے خداوندِ عالم نے نوعِ انسانی کے لئے نمونہ کامل بناکر ھی پیدا کیا تھا . ان کے اخلاق واوصاف زندگی کے ھر شعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے تھے .خاص خاص جن کے متعلق مورخین نے مخصوص طور پر واقعات نقل کئے ھیں مھمان نوازی , خیروخیرات , مخفی طریقہ یاغربا کی خبر گیری ، عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک . عفو جرائم ، صبر وتحمل وغیرہ ھیں .
ایک مرتبہ ایک حآجی مدینہ میں وارد ھوا اور مسجد رسول(ص) میں سوگیا .آنکھ کھلی تو اسے شبہ ھوا کہ اس کی ایک ھزار کی تھیلی موجود نھیں . اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، کسی کو نہ پایا . ایک گوشئہ مسجد میں امام جعفر صادق علیہ السّلام نماز پڑہ رھے تھے . وہ آپ کوبالکل نہ پھچانتا تھا . آپ کے پاس اکر کھنے لگا کہ میری تھیلی تم نے لی ھے . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا :"اس میں کیا تھا ؟"اس نے کھا"ایک ھزار دینار. حضرت نے فرمایا :" میرے ساتھ میرے مکان تک آؤ وہ آپ کے ساتھ ھوگیا . بیت الشرف پر تشریف لاکر ایک ھزار دینار اس کے حوالے کردیئے . وہ مسجد میں واپس آگیا اور اپنا اسباب اٹھانے لگا تو خود اس کے دیناروں کی تھیلی اسباب میں نظرائی . یہ دیکھ کر وہ بھت شرمندہ ھوا اور دوڑتا ھوا پھر امام علیہ السّلام کی خدمت میں آیا اور عذر خواھی کرتے ھوئے وہ ھزار دینار واپس کرنا چاھے امام(ع) نے فرمایا :"ھم جو کچھ دے دیتے ھیں وہ پھرواپس نھیں لیتے ."

 موجودہ زمانے میں یہ حالات سب ھی کی آنکھوں کے دیکھے ھوئے ھیں کہ جب یہ اندیشہ پیدا ھوتا ھے کہ اناج مشکل سے ملے گا تو جس کو جتنا ممکن ھو وہ اناج خرید کر رکھ لیتا ھے مگر امام جعفرصادق علیہ السّلام کے کردار کاایک واقعہ ھے کہ ایک مرتبہ آپ نے آپ نے وکیل معتب سے ارشادفرمایا کہ غلہ روز بروز مدینہ میں گراں ھوتا جارھا ھے .ھمارے یھاں کس قدر غلہ ھوگا ؟ معتب نے کھا کہ ھمیں اس گرانی اور قحط کی تکلیف کا کوئی اندیشہ نھیں ھے ، ھمارے پاس غلہ کا اتنا ذخیرہ ھے کہ جو بھت عرصہ تک کافی ھوگا . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا :" تمام غلہ فروخت کر ڈالو . اس کے بعد جو حال سب کا ھو وہ ھمارا بھی ھو " جب غلہ فروخت کر دیا گیا تو فرمایا:"اب خالص گیھوں کی روٹی نہ پکا کرے بلکہ آدھے گیھوں اور آدھے جو، جھاں تک ممکن ھو ھمیں غریبوں کاساتھ دینا چاھیے ."
 آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرے تھے . مزدوروں کی بڑی قدر فرماتے تھے . خود بھی تجارت فرماتے تھے اور اکثر آپ نے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت بھی کرتے تھے . ایک مرتبہ آپ بیلچہ ھاتھ میں لئےباغ میں کام کررھے تھے اور پسینہ سے تمام جسم تر ھوگیا . کسی نے کھا :یہ بیلچہ مجھے عنایت فرمائیے کہ میں یہ خدمت انجام دوں . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا: طلبِ معاش میں دھوپ اور گرمی کی تکلیف سھنا عیب کی بات نھیں . غلاموں اورکنیزوں پر وھی مھربانی فرماتے تھے جو اس گھرانے کی امتیازی صفت تھی. اس کاایک حیرت انگیز نمونہ یہ ھے جسے سفیان ثوری نے بیان کیا ھے کہ میں ایک مرتبہ امام جعفرصادق علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ھوا . دیکھا کہ چھرہ مبارک کارنگ متغیر ھے . میں نے سبب دریافت کیا . فرمایا میں نے منع کیا تھا کہ کوئی مکان کے کوٹھے پر نہ چڑھے .اس وقت جو گھر میں گیا تو دیکھا کہ ایک کنیز جو ایک بچہ کی پرورش پر معیّن تھی اسے گود میں لئے زینہ سے اوپر جارھی تھی .مجھے دیکھا تو ایساخوف طاری ھوا کہ بد حواسی میں بچہ اس کے ھاتھ سے چھوٹ گیا اور صدمے سے جان بحق ھوا . مجھے بچے کے مرنے کااتنا صدمہ نھیں ھوا جتنا اس کا رنج ھے کہ اس کنیز پر اتنا رعب وھراس کیوں طاری ھوا . پھر حضرت علیہ السّلام نے اس کنیز کو پکا رکر فرمایا :"ڈرو نھیں ، میں نے تمھیں راہ خدا میں آزاد کردیا" اس کے بعد حضرت علیہ السّلام بچے کی تجھیز وتکفین کی طرف متوجہ ھوئے .

نشرعلوم
 تمام عالم اسلامی میں آپ کی علمی جلالت کا شھرہ تھا . دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ھوتے تھے ، یھاں تک کہ آپ کے شآگردوں کی تعداد چار ھزار تک پھونچ گئی ان میں فقہ کے علماء بھی تھے ،تفیسر کے متکلمین بھی تھے اور مناظرین بھی ، آپ کے دربار میں مخالفین مذھب آکر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے اور ان سے مناظرے ھوتے رھتے تھے جن پر کبھی کبھی نقد وتبصرہ بھی فرماتے تھے اورا صحاب کو ان کی بحث کے کمزور پھلو بتلا بھی دیتے تھے تاکہ آئندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں .کبھی آپ خود بھی مخالفین مذھب اور بالخصوص دھریوں سے مناظرہ فرماتے تھے . علاوہ علوم و فقہ و کلام وغیرہ کے علوم عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی بعض شآگردوں کوتعلیم دی تھی . چنانچہ آپ کے اصحاب میں سے جابر بن حیان طرسوسی سائنس اور ریاضی کے مشھور امام فن ھیں جنھوں نے چار سو رسالے امام جعفرصادق علیہ السّلام کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کئے .آپ کے اصحاب میں سے بھت سے بڑے فقھا تھے جنھوں نے کتابیں تصنیف کیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پھونچتی ھے .
شھادت
ایسی مصروف زندگی رکھنے والے انسان کو جاہ سلطنت حاصل کرنے کی فکروں سے کیا مطلب ؟ مگر آپ کو علمی مرجعیّت اور کمالات کی شھرت سلطنت وقت کے لئے ایک مستقل خطرہ محسوس ھوتی تھی . جب کہ یہ معلوم تھا کہ اصلی خلافت کے حقدار یھی ھیں جب حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود کوئی بھانہ اسے آپ کے خلاف کسی کھلے ھوئے اقدام اور خونریزی کا نہ مل سکا تو آخر خاموش حربہ زھر کا اختیار کیا گیا اور زھر الود انگور حاکم مدینہ کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے ، جن کے کھاتے ھی زھر کااثر جسم میں سرایت کر گیا اور 25شوال148ھ میں 65سال کی عمر میں شھادت پائی . آپ کے فرزند اکبر اور جانشین حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے تجھیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی او جنت البقیع کے اس احاطہ میں جھاں اس کے پھلے امام حسن علیہ السّلام ،امام زین العابدین علیہ السّلام اور امام محمد باقر علیہ السّلام دفن ھوچکے تھے آپ کو بھی دفن کیا گیا