۱۳۹۶/۱۰/۲۴   2:26  ویزیٹ:2055     استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای


طبی مسائل / حمل روکنا

 


حمل روکنا

س1248 :  ١۔ کيا صحت مند خاتون کے لئے وقتى طور پر مانع حمل طريقوں يا مواد کے ذريعے نطفہ نہ ٹھہرنے دينا جائز ہے؟
٢۔ وقتى طور پرمانع حمل آلات جنہيں آئي،يو،ڈى (I.U.D)(10)کہا جاتا ہے استعمال کرنے کا کيا حکم ہے؟ جس کے مانع حمل ہونے کى کيفيت پورى طرح ابھى تک معلوم نہيں ہوسکى ہے ليکن معروف يہ ہے کہ وہ نطفہ کو ٹھہرنے نہيں ديتا۔
٣۔ کيا ايسى بيمار عورت کے لئےدائمى طور پر حمل روکنا جائز ہے جسےجان کا خطرہ ہو ؟
٤۔ کيا ايسى عورتوں کے لئے دائمى طور پر حمل روکنا جائز ہے جن ميں جسمانى اور نفسانى موروثى بيماريوں کے حامل معذور بچے پيدا کرنے کى قابليت ہو؟  
ج:  ١ ۔ شوہر کى اجازت کے ساتھ جائز ہے۔
٢۔ اگر نطفے کے ٹھہرنے کے بعد اسقاط کا سبب بنے تو جائز نہيں ہے يا اگرحرام طور پر لمس کرنے يا نظر کرنے کا سبب ہو تو بھى جائز نہيں ہے۔
٣۔ مذکورہ فرض ميں منع حمل جائز ہے بلکہ اگر ماں کى جان کے لئے خطرہ ہو تو اختيارى طور پر حاملہ ہونا جائز نہيں ہے۔
٤۔ اگر غرض عقلا ئى اور قابل توجہ ضرر سے محفوظ رہنے کے لئے ہو تو شوہر کى اجازت کے ساتھ جائز ہے۔

س1249 :  کيا مرد کے لئے نس بندى کرکے نسل کے اضافہ کو روکنا جائز ہے؟
ج:  اگر عقلائى مقاصد کے تحت ہو تو بذات ِ خود مذکورہ عمل ميں کوئى حرج نہيں ہے اس شرط کے ساتھ کہ قابل توجہ ضرر سے محفوظ رہے۔

س1250 : کيا ايسى صحت مند خاتون کے لئے جسے حمل سے کوئى نقصان نہيں ہے، عزل،(١١) پيچ نما آلے، دوائيوں اور رحم کے راستے کو بند کرکے منع حمل کرنا جائز ہے يانہيں ؟کيا شوہرعزل کے علاوہ دوسرى راہوں سے منع حمل کے لئے زوجہ کو مجبور کرسکتا ہے؟
ج:  عزل اور دوسرى اشياءکے ذريعہ ذاتى طور پر منع حمل کرنے ميں بذات ِ خودکوئى حرج نہيں ہے .اور اسی طرح اگر عقلائى غرض کے لئے ہو اور قابل توجہ ضرر سے بھى محفوظ رہنے کا سبب ہو ليکن شوہر کے لئے بيوى کو مذکورہ عمل پر مجبور کرنے کا حق نہيں ہے۔

س1251 :  کيا حاملہ عورت کے لئے آپريشن کرنا جائز ہے تاکہ آپريشن کے دوران رحم کا راستہ بند کردياجائے؟
ج: رحم کے بند کرنے کا مسئلہ گزر چکاہے۔ آپريشن کا جواز ضرورت يا حاملہ عورت کے مطالبہ پر متوقف ہے بہر حال آپريشن کے دوران اور رحم کے راستے کو بند کرنے کے دوران نامحرم کا لمس کرنا اور  ديکھنا حرام ہے۔

س1252 :بعض مياں بيوى کى خونى بيمارى ميں مبتلا ہوتے ہيں اور انکے جنين معيوب ہوجاتے ہيں جسکى نتيجے ميں وہ بچوں ميں بھى بيمارى منتقل کرديتے ہيں اسطرح کے والدين کے بچوں ميں شديد اور سخت بيماريوں ميں مبتلا ہونے کا احتمال زيادہ ہوتاہے لہذا يہ بچے پيدائش سے ليکر آخرى عمر تک بہت ہى مشقت آور صورت ميں رہيں گے مثال کے طور پر ہوموفيليا ميں مبتلاءبيمار معمولى سى چوٹ لگنے سے شديد قسم کى خونريزى کے نيتجے ميں پافوت ہوجائيں گے يا مفلوج ہوجائيں گے ۔ اب اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ حمل کے ابتدائى ، ہفتوں ميں اس قسم کى بيمارى کى تشخيص ممکن ہے تو کيا ايسے مواقع پر اسقاط حمل جائز ہے ؟
ج: اگر بچے کى بيمارى کى تشخيص يقينى ہو اور اس قسم کے بچے کى نگہداشت حرج کا باعث تو اس صورت ميں روح آنے سے پہلے اسقاط جائز ہے ليکن بنابر احتياط اسکى ديت ادا رکرنا چاہيئے۔

س1253 :کيا زوجہ کے لئے شوہر کى اجازت کے بغير منع حمل کے طريقوں کا استعمال کرنا جائز ہے؟
ج:  اشکال رکھتا ہے۔

س1254 : چار بچوں کے با پ نے منى کى نالى کو بند کرواليا ہے آيا وہ گناہگار ہے اگر اس کى بيوى مذکورہ فعل سے راضى نہ ہو؟
ج:  گناہ گار نہيں ہے اور مذکورہ عمل زوجہ کى رضايت پر متوقف نہيں ہے۔