۱۳۹۶/۱۰/۲۴   2:28  ویزیٹ:1830     استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای


طبی مسائل / اسقاطِ حمل

 


اسقاطِ حمل


س1255 :  آيا معاشى مشکلات کى وجہ سے حمل ساقط کرنا جائز ہے؟

ج:  صرف معاشى مشکلات کى وجہ سے اسقاط حمل جائزنہيں ہے۔

س 1256 :حمل کے پہلے ماہ ميں ڈاکٹر نے خاتون کا معائنہ کرنے کے بعد يہ کہا کہ اگر حمل باقى رہا تو ماں کى جان کو خطرہ ہے اور حمل کے باقى رہنے کى وجہ سے بچہ معذور پيدا ہوگا لہذا ڈاکٹر نے حمل کو اسقاط کرنے کا حکم ديا کيا مذکورہ عمل جائز ہے؟ اور آيا حمل ميں روح آنے سے پہلے اسقاط کرنا جائز ہے؟
ج:  بچے کا معذور ہونا حتى قبل از روح اسقاط کا جواز فراہم نہيں کرتا ہاں ماں کى جان کا خطرہ اگر اسپيشلسٹ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق ہو تو قبل از روح اسقاط حمل ميں کوئى حرج نہيں ہے۔

س1257 :   اسپيشلسٹ ڈاکٹر جديد آلات کو استعمال کرتے ہوئے اثناءحمل بچے کى بہت سے ناقص اعضاء کى تشخيصپر قادر ہيں پيدائش کے بعد معذور بچے جن مشکلات کا شکار ہوتے اس مسئلہ کو سامنے رکھتے ہوئے کيا ايسے حمل کا ساقط کرنا جائز ہے جس کے ناقص رہنے کى تشخيص مورد اعتماد اسپيشلسٹ ڈاکٹر نے کردى ہو ؟ اورکيا اس کے لئے کوئى عمر معين ہے؟
ج:  صرف معذور ہونے کى وجہ سے اور يہ کہ زندگى ميں کن مشکلات کا سامنا اسے کرنا پڑے گا اسقاط حمل کا جواز نہيں بنتا۔

س1258 :  کيا مستقر اور ٹھہرے ہوئے نطفے کو علقہ بننے سے پہلے ساقط کيا جاسکتا ہے؟ جبکہ مذکورہ مدت چاليس روز ميں پورى ہوتى ہے بنيادى طور پر درج ذيل مراحل ميں سے کونسے مرحلے ميںاسقاط حمل جائز ہے؟ 
  ١۔    رحم ميں نطفہ ٹھہرنے کے مرحلے ميں 
  ٢۔   علقہ
  ٣۔  مضغہ 
  ٤۔   ہڈى بننے کا مرحلہ قبل از روح
ج:  رحم ميں نطفے کے ٹھہرنے اور اسکے بعد کے مراحل ميں سے کسى مرحلہ ميں بھى اسقاط جائز نہيں ہے۔

س1258 :  بعض شوہروں کو تھيلى سيما کا موروثى مرض ہوتاہے چنانچہ يہ بيمارى ان کى اولاد ميں بھى منتقل ہوتى ہے اور اس کا احتمال زيادہ ہے کہ اولاد ميں بيماريوں کى شدت زياد ہ ہو اور ايسے بچے ولادت سے لے کر اپنى آخرى عمر تک مسلسل مشق آور کيفيت ميں زندگى بسر کريں گے مثلاً تھيلى سيما کے بيمار کا معمولى سى چوٹ سے بھى اتنا خون بہنے لگتاہے کہ بعض اوقات موت يا مفلوج ہونے تک نوبت آپہنچتى ہے سوال يہ ہے کہ کيا حاملگى کے پہلے چند ہفتوں ميں اگر اس بيمارى کو تشخيص دے ديا جائے تو ايسے مورد ميں سقط جنين جائز ہے؟ 
ج: اگر جنين ميں بيمارى کى تشخيص قطعى ہو اور ايسے فرزند کا ہونا اور اسکا رکھنا حرج کا سبب ہو تو جائز ہے کہ روح آنے سے پہلے جنين کو ساقط کرديں ليکن احتياط کى بناپر اسکى ديت ادا کى جائے۔

س1259 :  بذات خود حمل کے اسقاط کا کيا حکم ہے؟ اور اگر حمل کا باقى رکھنا ماں کے لئے جان ليوا ہو تو کيا حکم ہے؟ اور جواز کى صورت ميں روح پيدا ہونے سے پہلے اور بعد ميں فرق ہے يا نہيں؟
ج:  اسقاط حمل شرعاً حرام ہے اور کسى بھى حال ميں جائز نہيں ہے۔ ہاں اگر حمل کى بقاءماں کے لئے خطرناک ہو تو اس حالت ميں روح آنے سے پہلے اسقاط ميں کوئى حرج نہيں ہے ليکن روح پيدا ہونے کے بعد جائز نہيں ہے اگر چہ حمل کا باقى رہناماں کى جان کے لئے خطرناک ہى کيوں نہ ہو۔ ليکن اگر حمل کے باقى رہنے ميں دونوں کى موت کا خطرہ ہو تو اس صورت ميں اگر کسى صورت سے بچے کو بچانا ممکن نہ ہو اور تنہا ماں کى زندگى بچائى جاسکتى ہو تو اسقاط جائز ہے۔

س1260 :  ايک عورت نے زنا کے نتيجے ميں حاصل ہونے والے سات ماہ کے بچے کا حمل اپنے باپ کے کہنے پر گراديا ہے تو کيا اس صورت ميں ديت واجب ہے؟ واجب ہونے کى صورت ميں کيا بچے کى ماں پر ديت واجب ہے يا اس عورت کے باپ پر؟
ج:  اسقاط حمل جائز نہيں ہے اگرچہ زنا کے ذريعہ ہو اور والد کا مطالبہ ، اسقاط کا جواز مہيا نہيں کرتا اور اگر ماں نے خود يا کسى کى مدد سے اسقاط کيا ہو تو اس پر ديت واجب ہے۔ جبکہ مورد سوال صورت ميں ديت کى مقدار ميں تردد ہے اور احتياط يہ ہے کہ مصالحہ کيا جائے اور يہ ديت اس  وراثت کا حکم رکھتى ہے جس کا کوئى وارث نہ ہو۔

س1261 :  ڈھائى ماہ کے حمل کو اگر عمداً اسقاط کرديا جائے تو ديت کى مقدارکتنى ہے اور يہ ديت کسے دى جائے گي؟
ج:  اگر علقہ ہو تو اس کى ديت چاليس 40دينار ہے اور اگر مضغہ ہو تو ساٹھ 60 دينار ہے اور اگر بغير گوشت کے ہڈياں ہوں تو اسّي80 دينار ہے اور مذکورہ ديت حمل کے وارث کو دى جائے گى اور ارث کے طبقات کى رعايت کى جائے گى ۔ ليکن اسقاط کرنے والا وارث، ارث سے محروم رہے گا۔

س1262 :  اگر حاملہ عورت دانتوں اور مسوڑوں کے علاج پر مجبور ہو اور اسپيشلسٹ کى تشخيص کے مطابق آپريشن کى ضرورت ہو تو کيا اس کے لئے حمل کو اسقاط کرنا جائز ہے؟ جبکہ يہ بات بھى معلوم ہے کہ دوران حمل بے ہوشى اور ايکس رے کے ذريعے تصوير اتروانے کى وجہ سے بچہ (جنين) معذور ہوجائے گا۔
ج:  مذکورہ سبب اسقاط حمل کا جواز فراہم نہيں کرتا۔

س1263 :  اگر رحم ميں بچہ يقينى موت کے قريب ہوجائے اور اس کے رحم ميں باقى رہنے کى وجہ سے ماں کى زندگى بھى خطرہ ميں ہو تو کيا حمل کو ساقط کيا جاسکتا ہے ؟ اگر خاتون کا شوہر کسى ايسے مجتہد کى تقليد کرتا ہے جو مذکورہ صورت حال ميں اسقاط کو جائز نہيں سمجھتا جبکہ خاتون اور اس کے اہل خانہ ايسے مرجع کى تقليد کرتے ہيں جو مذکورہ حالت ميں اسقاط کو جائز سمجھتا ہے تو مذکورہ صورت ميں شوہر کى کيا ذمہ دارى ہے؟
ج:   مذکورہ سوال ميں يہ فرض کيا گيا ہے کہ يا بچہ يقينا مرجائے گا يا بچہ اور ماں دونوں کى يقينى موت ہوجائے تو اسى صورت ميں اسقاط کے ذريعے کم از کم ماں کى زندگى بچانا ضرورى ہے ۔ مذکورہ فرض ميں شوہر بيوى کو اسقاط سے نہيں روک سکتا ، ليکن اسقاط کا عمل تا حدِ امکان اس طرح سے انجام دينا واجب ہے کہ بچے کا قتل کسى کى طرف منسوب نہ ہونے پائے۔

س1264 : کيا ايسے حمل کواسقاط کرنا جائز ہے جس کا نطفہ غير مسلم کے وطى بالشبھہ مشتبہ مباشرت يا زنا سے ٹھہرا ہو  ؟
ج:   جائز نہيں ہے۔