۱۳۹۶/۱۱/۱۲   14:30  ویزیٹ:2027     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


26/1/2018 کو نماز جمعہ حجۃ الاسلام مولانا موسوی صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئی۔

 


26/1/2018 کو نماز جمعہ حجۃ الاسلام مولانا موسوی صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئی۔

آپ نے سب سے پہلے مؤمنین کو تقوی الہی اپنانے کی تلقین کی اور پھر  اسلامی طور و طریقے کو اپنا موضوع بنا کر ان میں (سلام) پر روشنی ڈالا اور فرمایا کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت یا دوسروں کے نزدیک سے گزرتے وقت  اسلام نے سلام کر نے کا حکم دیا ہے یہ حکم مستحب ہے پر سلام کا جواب دینا واجب قرار دیا  گیا ہے۔

قرآن مجید کی سورہ نساء میں یہ حکم آیا :

﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُ‌دّوها ۗ ... ﴿٨٦﴾...سوةر النساء

"اور جب تمہیں کوئی سلام کہے تو اسے سلام کا بہتر جواب دو یا کم سے کم اتنا ہی ضرور لوٹا دو"

سلام تسلیم کا اسم ہے اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد دو یا دو سے زیادہ مسلمانوں کی آپس میں ملاقات کے وقت کی دعا یعنی السلام علیکم کہنا ہے۔ جواب کے لیے وعلیکم السلام کے الفاظ ہیں۔ سلام کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں و رحمتہ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ کے کلمات کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔

اسلام کی نظر سے آپس میں ملنے کے وقت سلام سے بہتر کوئی اور لفظ نہیں تھا اور اگر ہوتا تو ضرور اسکا انتخاب کیا جاتا۔

سلام کے معا نی

سلام سلم کے مصدر سے لیا گیا ہے۔

سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت  اور کسی دوسرے کو اذیت اور آزار نہ دینے کا ہے ۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں ۔

پس جب ہم کسی کو "السلام علیکم " کہتے ہیں تو اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ " تم جسمانی ،ذہنی اور روحا نی طور پر عافیت میں رہو "تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں ۔

ایک دوسرے کو زندگی کی دعا دینا۔آفات ظاہری اور باطنی سے امن میں رہنے کی دعا ہے۔

سلام کا معنی  ہے امنیت اور صلح کرنا ۔ اسی وجہ سے میدان جنگ میں دشمن پر سلام نہ کہنے کا کہا گیاہے۔حضرت امام خمینی (رہ) نے جو خط گورباچوف کے نام لکھاتھا اس میں سلام نہیں کہا گیا تھا۔ کیونکہ گورباچوف کافر تھا۔

پس ہمیں سلام سے پہلے کچھ نہیں بولنا چاہئے  اگر کسی سے کچھ مانگنا ہو یا کچھ یاد دلانا ہو یا اور کام ہو سب حالات میں پہلے سلام کرنا چاہئے اور پھر اس بات کو کہنا چاہئے۔

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا  کہ جو سلام کرنے سے پہلے بات شروع کرے اسکا جواب مت دینا۔

حضرت محمد مصطفی (ص) نے ارشاد فرمایا: البخیل من بخل السلام)   بہت بخیل ہے وہ شخص جو سلام نہ کرے ۔

سلام کے آداب میں یہ ہے کہ چھوٹے پر لازم ہے کہ وہ اپنے سے بڑے کو سلام کہے اور جو آدمی پیدل چل رہا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے کو سلام کہے جو تعدادمیں تھوڑے ہوں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ کو سلام کہیں ،اور سوار پیدل کو سلام کہے ۔"

قرآن پاک میں 46  مختلف جگوں پر سلام کا ذکرآ یا ہے۔ اس میں سے کچھ  مندرجہ زیل ہیں۔

﴿سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّ‌بٍّ رَّ‌حِيمٍ ﴿٥٨﴾...سورۃ یٰس

"پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائے گا)"

یعنی سلامتی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ ہے جو انسانوں کی مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔حضرت نوح علیہ السلام پر جب مشکل وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ﴿٧٩﴾...سورة الصافات

"تمام جہانوں میں نوح پر سلامتی ہو" دوسری جگہ فرمایا:

﴿قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَ‌کَاتٍ عَلَيْکَ...٤٨﴾...سورة هود

"حکم ہوا ،اے نوح !ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اتر جاؤ "

جب زمین پانی اگل رہی تھی ،آسمان سے موسلا دھار بارش جاری تھی ۔اس طوفانی موسم  میں جبکہ سب پہاڑوں کی چوٹیاں زیر آب آچکی تھیں ،تو اگر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ان متلاطم موجوں پر سلامت تھی تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام تھا جو لفظ سلامتی کے ناطے سے حضرت نوح علیہ السلام کو پہنچا تھا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام پر زندگی میں سب سے مشکل وقت وہ تھا جب نمرود نے آپ کو آگ میں ڈالا ، اللہ تعالی ٰ کی طرف سے فوراََ "پیغام سلامتی "آن پہنچا :

﴿قُلْنَا يَا نَارُ‌ کُونِي بَرْ‌دًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ ﴿٦٩﴾...سورة الانبياء

"ہم نے حکم دیا ،اے آگ !تو سردہو جا اور ابراہیم کے لیئے موجب سلامتی بن جا !"

حضرت یحییٰ کی پیدائش پر اللہ جل شانہ کی طرف سے "پیغام سلامتی "یوں سنایا گیا:

اور جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پا ئیں گے اور جس دن زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ان پر سلام اور رحمت ہے"

بن باپ پیداہونے کے ناطے سے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازک وقت آیا تو ان کی زبان پر اللہ تعالی ٰ کی طرف سے سلامتی کا اعلان اس طرح ہوا:

﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾...سورة مريم

اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مجھے موت آئے گی اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام اور رحمت ہے۔

فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہ کے دربار میں جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام گئے تو اللہ تعالی ٰ نے انہیں سلامتی کا پیغام سنایا :

﴿سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ ﴿١٢٠﴾...سورة الصافات

"موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام پر سلام ہو "

حضرت الیاس علیہ السلام پر سلامتی کا اعلان اس طرح ہوا:

﴿سَلَامٌ عَلَىٰ آلِ يَاسِينَ ﴿١٣٠﴾...سورة الصافات "اور الیاسین پر سلام ہو"

اللہ جل شانہ نے تمام پیغمبروں کو سلامتی سے نوازا ، فرمایا :

﴿وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٨١﴾...سورة الصافات "پیغمبروں پر سلام ہو"

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دائمی سلامتی کا اعلان اس طرح ہو ا:

﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِکَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾...سورة الاحزاب

"اللہ جل شانہ اور اس کے فرشتے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ،اے اہل ایمان !تم بھی پیغمبر صلی علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو"

معصومؑ کا ارشاد ہے کہ "تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور اس وقت تک مومن نہ ہو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو گے کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤ ں کہ جس پر عمل کرنے سے تم باہم محبت کرنے لگو  وہ یہ  ہے  کہ  سلام کو خوب پھیلاؤ"

قرآن مجید میں ہے کہ  اہل جنت پر بھی  داروغہ جنت سلام بھیجے گا۔

﴿وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴿٧٣﴾...سورة الزمر

"تو داروغہ جنت ان سے کہے گا ۔تم پر سلام ہو ،تم بہت اچھے رہے ۔اب اس میں ہمیشہ کے لیئے داخل ہو جاؤ۔"

﴿ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِکَ يَوْمُ الْخُلُودِ ﴿٣٤﴾... سورة ق

اس (جنت ) میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔"

﴿وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْکُمْ...٤٦﴾ ...سورة الأعراف

"تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔"

﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَکَ اللَّـهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ...١٠﴾...سورة يونس

"جب وہ ان کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو بے ساختہ کہیں گے "سبحان اللہ "اور آپس میں ان کی دعا "سلام " ہو گی"۔

(لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا ﴿٢٥﴾ إِلَّا قِيلًا سَلَـٰمًا سَلَـٰمًا ﴿٢٦﴾)

"وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ،وہاں ان کا کلام سلام ،سلام ہو گا۔"

(سَلَـٰمٌ عَلَيْکُم بِمَا صَبَرْ‌تُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ‌)

(کہیں گے ) تم پر سلامتی یہ تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر بہت خوب ہے۔"

(خَـٰلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَ‌بِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ)

اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ ان (باغات )میں رہیں گے وہاں ان کا ملنا سلام ،سلام ہو گا۔"

﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾...سورة الحجر

"جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔ان سے کہا جائے گا کہ ان میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔"

﴿يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾...سورة النحل

"فرشتے بوقت نزع مسلمانوں کو یہ خوشخبری سناتے ہیں ۔"

وہ "سلام علیکم " کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہو جاؤ۔"

﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ...٥٩﴾...سورة النمل

"آپ صلی علیہ وسلم کہہ دیجیے سب تعریف اللہ جل شانہ ہی کو سزا وار ہے اور اس کے منتخب بندوں پر سلام ہے۔"دوسری جگہ فرمایا:

﴿تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرً‌ا کَرِ‌يمًا ﴿٤٤﴾...سورة الأحزاب

" جس روز وہ ان سے ملیں گے ان کا تحفہ (اللہ کی طرف سے ) سلام ہو گا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیئے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔"اور جگہ فرمایا :

﴿أُولَـٰئِکَ يُجْزَوْنَ الْغُرْ‌فَةَ بِمَا صَبَرُ‌وا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴿٧٥﴾...سورة الفرقان

"ان کے صبر کی وجہ سے انہیں بالا خانہ عطا کئے جائیں گے اور انہیں دعا اور سلام کے تحفے ملیں گے۔"

 سلام کا بہتر جواب

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !سلام کا بہتر جواب کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو آدمی آپ کو "السلام علیکم " کہے ،آپ اسے یوں جواب دیں " وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ" اگر کوئی آپ کو "السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہے " تو آپ اس کو جواب دیں "وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ " تو صحابہ نے عرض کیا اگر کوئی اس طرح کرے "السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ " تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چونکہ اس نے آپ کے لئے فضیلت کا کوئی کلمہ نہیں چھوڑا ،لہٰذا آپ اسے کہیں "وعلیکم "(یعنی جتنا سلام تم نے مجھے کیا اتنا ہی آپ پر ہو۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

دوسرا خطبہ:

مولانا صاحب نے دوسرے خطبےمیں فرمایاکہ خداوند متعالی نے انسان کو جفت پید کیا ہے۔ جفت یعنی (مرد اور عورت) پس بہترین زندگی کے لئے میا ں بیوی دونوں کو مثبت قدم اٹھانا چاہئے۔  اور خداوند متعال جو کہ بہترین تدبیر کا مالک ہے، نے میا ں بیوی دونوں کو بہترین لائحہ عمل سے نوازا ہے ۔

بیوی پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہرکا احترام کرے اور مرد کی مردانگی اور مرد کی غیرت کو سمجھے  اور تحمل کرے ۔ تو ایسے خاندان جاویدان رہتے ہیں۔

عورت کے مثبت  قدم سے خاندان سالم رہتے ہیں او رمعاشرے اپنی بلندیوں کوچھو لیتے ہیں ، جب عورت مثبت کردار اداکرے اور خداوند متعال کے بتائے  ہوئے راستے پر چلے۔

بہترین عورتوں  میں سے  جو قرآن نے نمونے کی طور پر ذکر کیا ہے  فرعون کی بیوی آسیہ ہے۔ کہ  جس نے نبی خدا کی تربیت کی ۔  یعنی عورت کے معاشرے کے لیئے  بہترین کرداروں میں سے ایک کردار صالح فرزند کا تربیت کرنا ہے۔

امام خمینی (رہ) نے فرمایا : کہ عورت(ماں) کی گود سے ہی  ایک آدمی اپنی معراج میں پہنچ جاتا ہے۔

نبی پاک (ص) کا فرمان ہے: کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ہمیں اپنی  ماں کا احترام کرنا چاہئے اور اسکے حکم کو کسی بھی حالت میں نہیں ٹالنا چاہئے۔

حضرت اویس قرنیؓ  جو کہ محب رسول گرامی اسلام تھے، آپ(ص) کے ساتھ ملنے کے لئے مدینے آئے تو  آکر انہیں  پتہ چلا کہ رسول خدا(ص) مدینے سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ اور چونکے ان کی  ماں بوڑھی تھی اور ان کے علاوہ کوئی اور ان کی  ماں کی  دیکھ بھال کے لیئے نہ تھا  لہذا  نبی اکرمؐ سے شدیدمحبت کے با وجود وہ وہاں نہیں ٹھرےاور واپس چلے گئےکیونکہ  انہیں ماں نے کہا تھا کہ رات تک واپس آجائیں۔

 جب رسول خدا (ص) تشریف لائے  تو فرمانے لگے کہ کیا ماجراء ہے کہ آج جنت کی خوشبو قرن کی طرف سے آرہی ہے۔ تو لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ آج اویس قرنی آپ سے ملنے آئے تھے  لیکن ماں کےحکم کے باعث آپ سے ملے بغیر  ہی انہیں واپس جانا پڑا۔

ہمارے لئے نمونہ اور آئیڈیل  حضرت الزہرا‏ء (س) ہیں   کہ جنہوں نے  ایک بیٹی ، بیوی  اور ماں ہونے کے ناطے بہترین مثالیں قائم کیں۔

حضرت الزہراء (س) نے فرمایا ہے  کہ مجھے اس دنیا  میں تین چیزیں بہت پسند ہیں۔

1-   قرآن پاک کی قرائت

2-   اپنے بابا رسول خدا (ص) کے جمال کی طرف دیکھنا۔

3-   اور اللہ کی راہ میں انفاق(خرچ) کرنا۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ