ذہن میں امام خمینی )رح(کا نام آتے ہی ایک ایسے سیاسی اور انقلابی شخص کی تصویر آنکھوں میں مجسم ہوجاتی ہے جس کی حریت و بیداری کے نعروں نے دنیا کی تمام مظلوم و محروم قوموں اور ملتوں کو سامراجی طاقتوں سے جہاد و مقابلے کا جذبہ اور حوصلہ عطا کردیا ہو جس نے مردہ دلوں اور دماغوں میں آزادی و خود مختاری کی تڑپ اور ہمت بخشی ہو۔جی ہاں یہ تمام کمالات امام خمینی ؒ میں بیک وقت جمع ہوگئے تھے وہ سب کچھ تھے مگر خود کو کسی بھی خطاب و القاب کا اسیر نہیں کیا ۔وہ اس نورانی سفر کو طے کرتے وقت کسی بھی منزل میں کبھی نہیں گبھرائے ہر میدان کے شہسوار ثابت ہوئے ۔
2431 ہجری قمری کا محرم۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوامی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں انتہائی تاریخی خطاب کیا جو تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔ سب سے پہلے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون)کو صبح ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز نے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا گیا۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو پندرہ دنوں تک قصر جیل میں رکھنے کے بعد عشرت آباد کی فوجی چھاؤنی میں منتقل کردیا کیا ۔
تحریک کے رہبر اور عوام کے وحشیانہ قتل عام کے بعد بظاہر تحریک کچل دی گئی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قید کے دوران شاہ کی خفیہ پولیس کے اہلکاروں کے ایک بھی سوال کا جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ ایران کی حکومت اور عدلیہ غیرقانونی ہے اپریل کے مہینے میں کسی پیشگی اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو آزاد کردیا گیا اور قم میں ان کے گھر پہنچا دیا گیا ۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی کی اطلاع ملی پورے شہر اورمدرسہ فیضہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئی دنوں تک جشن منایا گیا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے چار اکتوبر کو اپنا انقلابی بیان جاری کیا کہ دنیا کوجان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے ۔۔۔ یہ امریکہ ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے ۔۔۔ یہ امریکہ ہے جو اسرائیل کومضبوط بنا رہا ہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائیں۔
نومبر4691ء کی صبح کو ایک بار پھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور ان کو اسی وقت گرفتارکیا گیا جس وقت ایک سال پہلے انہیں گرفتارکیا گیا تھا اس وقت بھی آپ نمازشب میں مشغول تھے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کوگرفتارکرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گیا اورپھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کردیا گیا اور پھر اسی دن شام کو شاہ کی خفیہ پولیس ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کروائی کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کردیا گیا ۔ اس خبرکے شائع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کے ماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں،عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوکانیں اورتجارتی مراکزدینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے ۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے تھی۔ اس دوران شاہی حکومت نے انتہائی سختی کے ساتھ انقلابی عناصرکو کچلنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عدم موجودگی میں امریکہ کی مرضی کی اصلاحات پر تیزی کے ساتھ عمل کرنا شروع کردیا ۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی جبری جلاوطنی سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ بہترین موقع ملا کہ آپ نے اپنی معروف فقہی کتاب تحریرالوسیلہ کی تدوین کا کام شروع کیا ۔
5 اکتوبر4691ء کو امام خمینی ؒ اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا زمانہ ایک ایسے عالم میں شروع ہوا کہ اگرچہ بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ دنیا پرست علماء کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائی سخت اورتلخ ترین ادوار سے تعبیر کیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مصائب و آلام آپ کو آپ کے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے دروس خارج فقہ کا سلسلہ آبان نومبر5691ء میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جلد وطنی کے برسوں میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ عراق کی بعثی حکومت نے اس بات کی بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ ایران کی شاہی حکومت سے امام خمینی (رح) کی دشمنی سے فائدہ اٹھائے ۔ امام خمینی (رح) کی چار برسوں تک تدریس، سعی و کوشش نے لوگوں بالخصوص طلباء میں آپ کے ذریعہ پیدا کی گئی آگاہی و بیداری سے کسی حد تک علمیہ نجف کے ماحول کو بدل دیا تھا ایران کے اندر انقلابیوں کے علاوہ خود عراق، لبنان اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی امام خمینی کے بیشمار مخاطبین پیدا ہوگئے تھے جو آپ کی تحریک کو اپنے لئے نمونہ اور آئیڈیل سمجھتے تھے ۔(جاری ہے)
عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اس صورتحال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے ان حالات میں حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں کو استعمال کرنا حرام ہے ۔اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کیلنڈراستعمال کرنے کی مخالفت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستا خیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر7531ہجری شمسی میں شاہنشاہی تاریخ سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔
امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعدآپ کی قوم کوآزادی کے لئے جدوجہد کرنے کی اپیل6531 میں اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی تحریک امام خمینی ؒ نے جو دنیا اور ایران کے حالات پر انتہائی گہری نظر رکھے ہوئے تھے ہاتھ آتے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آپ نے مرداد ماہ 6531میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا اب ملکی اور غیرملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی ثقافتی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہیے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔ یکم آبان6531 کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزیتی جلسے ایران کے حوزہ ہای علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائی حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔اس مقالے کی اشاعت کے خلاف91دی ماہ6531 کو قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ جاری انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کا باعث بنا، اگرچہ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔
نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ۔آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کیا اور آپ پیرس پہنچ گئے ۔
امام چار مہینے فرانس میں رہے اس مدت میں ایک چھوٹا دیہات دنیا کے اہم ترین خبر ی مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ خبرنگاروں ، مفکروں اور خارجی طالب علموں کی جماعتوں سے امام کی مختلف ملاقاتوں اور انٹرویوز نے حکومت اسلامی کے حوالے سے آپ کے نظریات اور اہداف و مقاصد تحریک کو پوری دنیا کے لوگوں تک پہنچایا۔ اس طرح سے دنیا کے بہت سارے لوگ آپ کے تفکر اور قیام سے آشنا ہوئے ۔ حضرت امام نے اسی چھوٹے سے دیہات سے ایران میں بحرانی ترین دوران تحریک کی رہبری کی۔
شاہ بھی سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد16 جنوری 1979 کو ملک سے فرار ہوگیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔
ادھر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں ۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے 14برسوں تک انتظار کیا تھا ۔ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان تقدیر ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بختیار کی حکومت نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔ مگر بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیک دئیے ۔ بالآخر امام خمینی (رح) یکم فروری 1979 چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینیؒ کا والہانہ استقبال کیا ۔
اس دن میں ایران کی بیدار عوام نے آپکا بے نظیر استقبال کیا اور یہ کہا جا سکتا ھے کہ تاریخ میں لوگوں نے اپنے کسی بھی محبوب قائد کا اس پیمانے پر استقبال نہیں کیا تھا۔
شہدائے انقلاب اسلامی کے قبرستان بہشت زہرا میں ایرانی عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امام خمینی ؒ نے شاہ کی ظالم و جابر حکومت کی سب سے بڑی پشت پناہ امریکی حکومت کے خلاف اپنے کھلے موقف کا اظہار کیا تھا ۔
2 فروری کو امریکی وزارت خارجہ نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کے ایران پہنچنے کے بعد آپ کے سب سے پہلے عوامی خطاب پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس تقریر کو امریکہ مخالف قرار دیا ۔
امریکی وزارت خارجہ کے بیان کے بعد صیہونی حکومت نے بھی حضرت امام خمینی ؒ کی ایران واپسی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھی کہ ایران کی انقلابی حکومت غاصب صیہونی نظام کی سخت ترین مخالف ہوگی۔
3 فروری کو جب ایران میں حضرت امام خمینی ؒ کی واپسی پر ہر جگہ جشن منائے جارہے تھے امام خمینی ؒ نے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ وہ جلد ہی عبوری حکومت کی تشکیل کا حکم دینے والے ہیں ۔جس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ انتخابات کی راہ ہموار کرے اور آئین مرتب کرکے اسے ریفرنڈم کے لئے عوام کے سامنے پیش کرے اسی کے ساتھ امام خمینی ؒ نے شاہی حکومت کو خبردار کیا کہ اگر لوگوں کو زد و کوب کرنے کا سلسلہ حسب دستور جاری رہا تو وہ لوگوں کو جہاد کا حکم دے دیں گے ۔
6 فروری کو ایران میں انقلابی عبوری حکومت کے تشکیل دیئے جانے کے اعلان کے بعد ایران کے لاکھوں مسلمان عوام نے امام خمینی ؒ کے اس انقلابی فیصلے کی حمایت کا اظہار کرنے کے لئے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے ۔
اسی دن ایرانی عوام کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر امریکی جنرل واپس امریکہ روانہ ہوگیا جو پہلوی حکومت کی بقا کی خاطر خاص طور سے تہران آیا تھا لیکن وہ اپنے مشن میں ناکام رہا ۔
7 فروری کو ایران کے مسلمان عوام نے بڑی تعداد میں امام خمینی ؒ سے ان کی رہائش گاہ میں ملاقات کرکے آپ سے تجدید عہد اور وفاداری کا اعلان کیا ۔اسی دن عوام کے علاوہ فوجیوں کا ایک باوردی گروہ امام خمینی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام خمینی ؒ کو فوج کا سپریم کمانڈر تسلیم کرتے ہوئے اپنی وفاداری کا اعلان کیا ۔
8 فروری کو ایرانی فضائیہ کے افسروں کی ایک کثیرتعداد امام خمینی ؒ کی خدمت میں پہونچی اور امام خمینی ؒ اور انقلاب اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ۔ اسی مناسبت سے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے 8 فروری کو ایران میں یوم فضائیہ منایا جاتا ہے ۔یہ تاریخی ملاقات فوج میں انقلابی اور نظریاتی افراد کی موجودگی کا ثبوت تھی اور یہ ملاقات شاہی حکومت کے لئے خوف و ہراس کا باعث بنی ۔
11 فروری کا دن کتنا خوبصورت تھا جب ریڈیو سے اعلان کیا گیا کہ توجہ فرمائیے :" یہ انقلاب کی آواز ہے " یہ اعلان کرتے ہوئے ریڈیو نے در حقیقت 2500 سالہ ظالم شاہی نظام کی سرنگونی کی نوید اور باطل پر حق کی کامیابی کی خوشخبری دی ۔اس دن ایران کی انقلابی عوام نے اللہ اکبر کے نعروں کے ذریعے شہنشاہت کا خاتمہ کیا اوراس طرح سالہا سال کی جد وجہد کے بعد انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔
اس دن عورتوں ، مردوں ، بوڑھوں اور جوانوں غرض یہ کہ سب لوگوں نے اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ شاہ کا تختہ الٹنے میں بھر پور حصہ لیا ۔انہوں نے فوجی ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سڑکوں پر محاذ بنائے اور فوج کا مقابلہ کرکے زخمیوں کو امداد پہونچائی ۔ اس طرح ایرانی عوام نے مل جل کر انقلاب کو کامیاب بنایا ۔جب ریڈیو سے امریکہ کی پٹھو شہنشاہی حکومت کی سرنگونی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو سارا ایران خوشی میں ڈوب گیا ۔
یکم اپریل 1979 جس دن ایران میں جمہوری اسلامی کے قیام کیلئے ریفرنڈم ہوا۔ انقلاب کے پچاس دن بعد جب اس بات کی نوبت آئی کہ انقلاب قائم تو ہوا اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ عوامی حکومت کس قسم کی ہونی چاہئے ۔ امام خمینیؒ نے کوئی نیا موقف بیان نہیں کیا بلکہ اپنا دیرینہ موقف دہرایا "جمہوری اسلامی" نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ ۔98 فیصد سے زائد لوگوں نے جمہوری اسلامی کی حمایت میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور عوام کی حمایت سے جمہوری اسلامی ایران کا قیام عمل میں آیا۔
22کچھ عرصے بعد 1980 کو صدام نے ایران پرحملہ کیا اور جنگ شروع کی جو کہ آٹھ سال تک جاری رہی ۔ عراق کے آمر صدام حسین کی طرف سے ایران پر ٹھونسی جانے والی جنگ، جو کہ نومولود ایرانی بچے سے لیکر رہبر انقلاب تک کے لئے ایک سخت امتحان تھا جس میں امام ؒ اور امت کا میاب، سرفراز اور ثابت قدم نکلے ۔ آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران ایرانی عوام نے جہاں دفاع میں ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اورامام اور امت ثابت قدم رہے ۔
صدام کو یقین تھاکی ایران کی نئی اسلامی حکومت عراقی حملے کے سامنے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت جلد سرنگوں ہوجائے گی اور عالمی سامراج ب?ی اس کی پشت پناہی کرے گا ۔مگر ایسا نہ ہو سکا۔
27 جون 1981 کوحضرت آیت اللہ خامنہ ای کو مسجد ابوذر میں شہید کرنے کی کوشش کی گئی جہاں وہ صرف زخمی ہوئے اور اللہ نے انہیں اسلام اور مسلمین کیلئے ذخیرہ رکھا ۔
بالآخر صدام اور اس کی پشت پناہی کرنے والے سامراج کے ارادے خاک میں مل گئے ۔عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے بعد ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہوا جب کہ ایسی جنگ کے تباہ کن اثرات سے قومیں طویل مدت تک سنبھل نہیں پاتیں لیکن ایران نے ترقی و پیش رفت کے ذریعے اس تباہ کن صورتِ حال کا ازالہ کیا ۔
اور ایران نے تمام تر بین الاقوامی پابندیوں اور صدام حسین کی طرف سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی، صنعتی و تجارتی میدانوں اور سروسز کے شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ۔
اسلامی نظام کے قائد اور قیادت کی صلاحیتوں کے تعین کیلئے مجلس خبرگان ( ماہرین کی کونسل) کا قیام ، امام خمینیؒ کی آراء کی بنیاد ر پر اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں تجویز اور پھر منظور کئے جانے والے پیشرفتہ اصول میں سے ایک ہے ، خبرگان ایسے فقہا اور اہلیت رکھنے والے مجتہدین ہیں جوبراہ راست عوامی و و ٹوں سے منتخب ہوتے ہیں ، اس طرح عوام اپنی آراء سے منتخب ہونے والے ماہرین کے ذریعے اسلامی معاشرے کے سب سے اہم اور مقدر ساز معاملہ یعنی رہبر کے انتخاب میں شریک ہوکر کاروبار مملکت پر نگرانی رکھ سکتے ہیں۔
ا مام خمینی ؒ کی عمر کے آخری برسوں کے پیغامات اور خطابات سابقہ ادوار کے بیانات سے مختلف ہیں جو اپنی جگہ امام ؒ کی دور اندیشی اور اپنے بعد میں آنے والے زمانے سے متعلق ذمہ داریوں کے احساس کی غمازی کرتے ہیں امام ؒ کو احساس ہورہاتھا کہ وہ اس دنیاسے جانے والے ہیں ، لہذا آخری ایام میں آپؒ کی کوشش تھی کہ اسلامی جمہوری نظام اور عالمی اسلامی انقلاب کی ترجیحات کو انہی امنگوں ، اغراض و مقاصد اور اقدار کے ڈھانچے پر استوار اور تشریح کریں جن کے حصول کیلئے اسلامی تحریک کی بنیاد ڈالی گئی تھی ۔
امام خمینیؒ نے اپنے وصال سے چند سال پہلے انہی محرکات کے تحت تفصیل سے اپنا سیاسی الٰہی وصیت نامہ لکھا ، حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے مشن، نصب العین، نظریات اور وہ تمام باتیں جو لوگوں تک پہنچانی تھیں سب کچھ پہنچا دیا تھا اور عملی میدان میں بھی اپنی تمام ہستی اور پورا وجود الہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کردیا تھا ۔
چار جون1989 کووہ اپنے آپ کو اس عزیز ہستی سے ملاقات کے وصال کے لئے تیار کر رہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کی ذات کی بلندی اس عظیم ہستی کے حضور کے علاوہ کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوائی اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزی نہیں کی تھی ۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں فرمایا ہے : پرسکون دل، مطمئن قلب، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ خدا کے فضل و کرم سے بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب سفر کرتا ہوں اور آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتا ہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کر دے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گی اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔
3جون1989 کی رات10 بجکر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا۔ وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا ۔اس خفیہ کیمرے کی مدد سے جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں نے اسپتال میں نصب کررکھا تھا آپ کی علالت، آپریشن اور لقائے حق کے لمحات سبھی کو ریکارڈ کیا ۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا میں متحرک تھے ۔ زندگی کی آخری راتوں میں اور اس وقت جب آپ کے کئی آپریشن ہوچکے تھے اور عمر بھی87برس کی تھی، ہاتھوں میں گلوکوز کی بوتلیں لگی ہوئی تھیں تب بھی آپ نماز شب بجا لاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے رہے ۔عمر کے آخری لمحات میں آپ کے چہرے پر غیر معمولی اور روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون تھا اور ایسے معنوی حالات میں آپ کی روح نے ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کی۔جب رحلت جانگداز کی خبر نشر ہوئی ۔ لوگوں میں ضبط کا یارانہ رہا اور پوری دنیا میں وہ لوگ جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے تھے سب رو دئے ایرانی عوام اور انقلابی مسلمان غم و اندوہ کے اس طرح کے جذباتی مناظر خلق کررہے تھے ۔ اپنے رہبر و قائد کو آخری رخصت اور انہیں الوداع کہنے کے لئے سوگواروں کا امڈتا ہوا اتنا بڑا سیلاب تاریخ نے اپنی آنکھوں سے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ۔
آج لوگوں کا محبوب قائد، مرجع تقلید اور حقیقی اسلام کا منادی ان سے جدا ہوگیا تھا ۔ حقیقت میں ایران کے عوام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عاشق تھے ۔
5جون 1989کے روز و شب تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے لاکھوں سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ (عیدگاہ)میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خدا پرستی اور انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا الوداع کہنے کے لئے آئے تھے ۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا تھا ۔ ساری چیزیں عوامی، عاشقانہ اور بسیجی (رضاکارانہ) تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کر رہا تھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہا رہا تھا ۔
سیاہ پرچم درو دیوار پر لگائے گئے تھے اور فضا میں چاروں طرف سے صرف تلاوت کی ہی آواز سنائی دے رہی تھی اور جیسے ہی رات آئی ہزاروں شمعیں اس مشعل فروزان کی یاد میں جسے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے روشن کیا تھا مصلّی بزرگ (عیدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹیلوں پر روشن ہوگئیں۔ صبح ہوتے ہی6 جون1989 کو لاکھوں سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی ۔
یکم فروری1979کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی فاتحانہ وطن واپسی اور ان کے استقبال میں شاندار و عدیم المثال اجتماع اور پھر آپ کی آخری رسومات میں سوگواروں کا اس سے بھی عظیم اجتماع تاریخ کے حیران کن واقعات میں سے ہے ۔ خبر رساں ایجنسیوں نے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کے موقع پر عاشقوں اور انقلابیوں کی تعداد60لاکھ بتائی تھی اور آپ کے جنازے میں شریک سوگواروں کی تعداد90لاکھ بتائی ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سوگواروں کا جم غفیر )بہشت زہرا( میں بھی تدفین کے وقت اپنے مقتدا کو آخری بار ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی اس صورتحال کے پیش نظر ریڈیو سے باربار اعلان کیا گیا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تدفین کی رسومات بعد میں ہوں گی جس کا اعلان بھی بعد میں کیا جائے گا ۔
حکام کو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہ تھی کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا مزید لاکھوں عاشقان امام جو دیگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہیں تشییع جنازہ اور تدفین کی رسومات میں شامل ہو جائیں گے لہذا اسی دن سہ پہر سوگواروں کے شدّت جذبات کے دوران ہی اگرچہ کافی دشواریاں پیش آئیں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جسد مطہر کی تدفین عمل میں آئی اور دنیا کے ذرائع ابلاغ و خبررساں ادارے ان رسومات کے کچھ مناظر ہی اپنے ناظرین و سامعین تک پہنچا سکے ۔ یوں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ہمیشہ زندہ و لافانی ہوتی ہے ۔
|