۱۳۹۷/۳/۱۰   10:4  ویزیٹ:2177     مضامین


ماہ رمضان میں شب و روز کے اعمال / آغاز ماہ مبارک رمضان کی دعا

 


رمضان کے مبارک مہینہ کے آغاز پر امام سجاد ـ علیه السلام ـ کی دعا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَانَا لِحَمْدِهِ، وَ جَعَلَنَا مِنْ أَهْلِهِ لِنَکُونَ لِإِحْسَانِهِ مِنَ الشَّاکِرِینَ، وَ لِیَجْزِیَنَا عَلَى ذَلِکَ جَزَاءَ الْمُحْسِنِینَ (2) وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی حَبَانَا بِدِینِهِ، وَ اخْتَصَّنَا بِمِلَّتِهِ، وَ سَبَّلَنَا فِی سُبُلِ إِحْسَانِهِ لِنَسْلُکَهَا بِمَنِّهِ إِلَى رِضْوَانِهِ، حَمْداً یَتَقَبَّلُهُ مِنَّا، وَ یَرْضَى بِهِ عَنَّا
 
(3) وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَ مِنْ تِلْکَ السُّبُلِ شَهْرَهُ شَهْرَ رَمَضَانَ، شَهْرَ الصِّیَامِ، وَ شَهْرَ الْإِسْلَامِ، وَ شَهْرَ الطَّهُورِ، وَ شَهْرَ التَّمْحِیصِ، وَ شَهْرَ الْقِیَامِ الَّذِی أُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ، هُدىً لِلنَّاسِ، وَ بَیِّناتٍ مِنَ الْهُدى‏ وَ الْفُرْقانِ
 
(4) فَأَبَانَ فَضِیلَتَهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ بِمَا جَعَلَ لَهُ مِنَ الْحُرُمَاتِ الْمَوْفُورَةِ، وَ الْفَضَائِلِ الْمَشْهُورَةِ، فَحَرَّمَ فِیهِ مَا أَحَلَّ فِی غَیْرِهِ إِعْظَاماً، وَ حَجَرَ فِیهِ الْمَطَاعِمَ وَ الْمَشَارِبَ إِکْرَاماً، وَ جَعَلَ لَهُ وَقْتاً بَیِّناً لَا یُجِیزُ- جَلَّ وَ عَزَّ- أَنْ یُقَدَّمَ قَبْلَهُ، وَ لَا یَقْبَلُ أَنْ یُؤَخَّرَ عَنْهُ.
 
(5) ثُمَّ فَضَّلَ لَیْلَةً وَاحِدَةً مِنْ لَیَالِیهِ عَلَى لَیَالِی أَلْفِ شَهْرٍ، وَ سَمَّاهَا لَیْلَةَ الْقَدْرِ، تَنَزَّلُ الْمَلائِکَةُ وَ الرُّوحُ فِیها بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلامٌ، دَائِمُ الْبَرَکَةِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ عَلَى مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ بِمَا أَحْکَمَ مِنْ قَضَائِهِ. (6) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَلْهِمْنَا مَعْرِفَةَ فَضْلِهِ وَ إِجْلَالَ حُرْمَتِهِ، وَ التَّحَفُّظَ مِمَّا حَظَرْتَ فِیهِ، وَ أَعِنَّا عَلَى صِیَامِهِ بِکَفِّ الْجَوَارِحِ عَنْ مَعَاصِیکَ، وَ اسْتِعْمَالِهَا فِیهِ بِمَا یُرْضِیکَ حَتَّى لَا نُصْغِیَ بِأَسْمَاعِنَا إِلَى لَغْوٍ، وَ لَا نُسْرِعَ بِأَبْصَارِنَا إِلَى لَهْوٍ (7) وَ حَتَّى لَا نَبْسُطَ أَیْدِیَنَا إِلَى مَحْظُورٍ، وَ لَا نَخْطُوَ بِأَقْدَامِنَا إِلَى مَحْجُورٍ، وَ حَتَّى لَا تَعِیَ بُطُونُنَا إِلَّا مَا أَحْلَلْتَ، وَ لَا تَنْطِقَ أَلْسِنَتُنَا إِلَّا بِمَا مَثَّلْتَ، وَ لَا نَتَکَلَّفَ إِلَّا مَا یُدْنِی مِنْ ثَوَابِکَ، وَ لَا نَتَعَاطَى إِلَّا الَّذِی یَقِی مِنْ عِقَابِکَ، ثُمَّ خَلِّصْ ذَلِکَ کُلَّهُ مِنْ رِئَاءِ الْمُرَاءِینَ، وَ سُمْعَةِ الْمُسْمِعِینَ، لَا نُشْرِکُ فِیهِ أَحَداً دُونَکَ، وَ لَا نَبْتَغِی فِیهِ مُرَاداً سِوَاکَ. (8) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ قِفْنَا فِیهِ عَلَى مَوَاقِیتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ بِحُدُودِهَا الَّتِی حَدَّدْتَ، وَ فُرُوضِهَا الَّتِی فَرَضْتَ، وَ وَظَائِفِهَا الَّتِی وَظَّفْتَ، وَ أَوْقَاتِهَا الَّتِی وَقَّتَّ (9) وَ أَنْزِلْنَا فِیهَا مَنْزِلَةَ الْمُصِیبِینَ لِمَنَازِلِهَا، الْحَافِظِینَ لِأَرْکَانِهَا، الْمُؤَدِّینَ لَهَا فِی أَوْقَاتِهَا عَلَى مَا سَنَّهُ عَبْدُکَ وَ رَسُولُکَ- صَلَوَاتُکَ عَلَیْهِ وَ آلِهِ- فِی رُکُوعِهَا وَ سُجُودِهَا وَ جَمِیعِ فَوَاضِلِهَا عَلَى أَتَمِّ الطَّهُورِ وَ أَسْبَغِهِ، وَ أَبْیَنِ الْخُشُوعِ وَ أَبْلَغِهِ. (10) وَ وَفِّقْنَا فِیهِ لِأَنْ نَصِلَ أَرْحَامَنَا بِالْبِرِّ وَ الصِّلَةِ، وَ أَنْ نَتَعَاهَدَ جِیرَانَنَا بِالْإِفْضَالِ وَ الْعَطِیَّةِ، وَ أَنْ نُخَلِّصَ أَمْوَالَنَا مِنَ التَّبِعَاتِ، وَ أَنْ نُطَهِّرَهَا بِإِخْرَاجِ الزَّکَوَاتِ، وَ أَنْ نُرَاجِعَ مَنْ هَاجَرَنَا، وَ أَنْ نُنْصِفَ مَنْ ظَلَمَنَا، وَ أَنْ نُسَالِمَ مَنْ عَادَانَا حَاشَى مَنْ عُودِیَ فِیکَ وَ لَکَ، فَإِنَّهُ الْعَدُوُّ الَّذِی لَا نُوَالِیهِ، وَ الْحِزْبُ الَّذِی لَا نُصَافِیهِ. (11) وَ أَنْ نَتَقَرَّبَ إِلَیْکَ فِیهِ مِنَ الْأَعْمَالِ الزَّاکِیَةِ بِمَا تُطَهِّرُنَا بِهِ مِنَ الذُّنُوبِ، وَ تَعْصِمُنَا فِیهِ مِمَّا نَسْتَأْنِفُ‏ مِنَ الْعُیُوبِ، حَتَّى لَا یُورِدَ عَلَیْکَ أَحَدٌ مِنْ مَلَائِکَتِکَ إِلَّا دُونَ مَا نُورِدُ مِنْ أَبْوَابِ الطَّاعَةِ لَکَ، وَ أَنْوَاعِ الْقُرْبَةِ إِلَیْکَ. (12) اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِحَقِّ هَذَا الشَّهْرِ، وَ بِحَقِّ مَنْ تَعَبَّدَ لَکَ فِیهِ مِنِ ابْتِدَائِهِ إِلَى وَقْتِ فَنَائِهِ: مِنْ مَلَکٍ قَرَّبْتَهُ، أَوْ نَبِیٍّ أَرْسَلْتَهُ، أَوْ عَبْدٍ صَالِحٍ اخْتَصَصْتَهُ، أَنْ تُصَلِّیَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَهِّلْنَا فِیهِ لِمَا وَعَدْتَ أَوْلِیَاءَکَ مِنْ کَرَامَتِکَ، وَ أَوْجِبْ لَنَا فِیهِ مَا أَوْجَبْتَ لِأَهْلِ الْمُبَالَغَةِ فِی طَاعَتِکَ، وَ اجْعَلْنَا فِی نَظْمِ مَنِ اسْتَحَقَّ الرَّفِیعَ الْأَعْلَى بِرَحْمَتِکَ.
 
(13) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ جَنِّبْنَا الْإِلْحَادَ فِی تَوْحِیدِکَ، وَ الْتَّقْصِیرَ فِی تَمْجِیدِکَ، وَ الشَّکَّ فِی دِینِکَ، وَ الْعَمَى عَنْ سَبِیلِکَ، وَ الْإِغْفَالَ لِحُرْمَتِکَ، وَ الِانْخِدَاعَ لِعَدُوِّکَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ۔ (14) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ إِذَا کَانَ لَکَ فِی کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ لَیَالِی شَهْرِنَا هَذَا رِقَابٌ یُعْتِقُهَا عَفْوُکَ، أَوْ یَهَبُهَا صَفْحُکَ فَاجْعَلْ رِقَابَنَا مِنْ تِلْکَ الرِّقَابِ، وَ اجْعَلْنَا لِشَهْرِنَا مِنْ خَیْرِ أَهْلٍ وَ أَصْحَابٍ. (15) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ امْحَقْ ذُنُوبَنَا مَعَ امِّحَاقِ هِلَالِهِ، وَ اسْلَخْ عَنَّا تَبِعَاتِنَا مَعَ انْسِلَاخِ أَیَّامِهِ حَتَّى یَنْقَضِیَ عَنَّا وَ قَدْ صَفَّیْتَنَا فِیهِ مِنَ الْخَطِیئَاتِ، وَ أَخْلَصْتَنَا فِیهِ مِنَ السَّیِّئَاتِ. (16) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ إِنْ مِلْنَا فِیهِ فَعَدِّلْنَا، وَ إِنْ زُغْنَا فِیهِ فَقَوِّمْنَا، وَ إِنِ اشْتَمَلَ عَلَیْنَا عَدُوُّکَ الشَّیْطَانُ فَاسْتَنْقِذْنَا مِنْهُ.
 
(17) اللَّهُمَّ اشْحَنْهُ بِعِبَادَتِنَا إِیَّاکَ، وَ زَیِّنْ أَوْقَاتَهُ بِطَاعَتِنَا لَکَ، وَ أَعِنَّا فِی نَهَارِهِ عَلَى صِیَامِهِ، وَ فِی لَیْلِهِ عَلَى الصَّلَاةِ وَ التَّضَرُّعِ إِلَیْکَ، وَ الْخُشُوعِ لَکَ، وَ الذِّلَّةِ بَیْنَ یَدَیْکَ حَتَّى لَا یَشْهَدَ نَهَارُهُ عَلَیْنَا بِغَفْلَةٍ، وَ لَا لَیْلُهُ بِتَفْرِیطٍ. (18) اللَّهُمَّ وَ اجْعَلْنَا فِی سَائِرِ الشُّهُورِ وَ الْأَیَّامِ کَذَلِکَ مَا عَمَّرْتَنَا، وَ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ الَّذِینَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِیها خالِدُونَ، وَ الَّذِینَ یُؤْتُونَ ما آتَوْا وَ قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ، أَنَّهُمْ إِلى‏ رَبِّهِمْ راجِعُونَ، وَ مِنَ الَّذِینَ یُسارِعُونَ فِی الْخَیْراتِ وَ هُمْ لَها سابِقُونَ. (19) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، فِی کُلِّ وَقْتٍ وَ کُلِّ أَوَانٍ وَ عَلَى کُلِّ حَالٍ عَدَدَ مَا صَلَّیْتَ عَلَى مَنْ صَلَّیْتَ عَلَیْهِ ، وَ أَضْعَافَ ذَلِکَ کُلِّهِ بِالْأَضْعَافِ الَّتِی لَا یُحْصِیهَا غَیْرُکَ ، إِنَّکَ فَعَّالٌ لِمَا تُرِیدُ . [1] ماہ رمضان کے آغاز پر آپ کی دعا کا ترجمه: 1 ) ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں حمد کی ہدایت دی اور اس کا اہل قرار دیا ہے اکہ ہم اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے والوں میں شامل ہو جائیں اور وہ ہمیں اس بات پر نیک کرداروں جیسی جزا دے سکے ۔ 2 ) ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنا دین عطا فرمایا اور اپنی ملت کا امتیاز بخشا اور اپنے احسان کے راستوں پر لگا دیا تاکہ اس کے احسان کے سہارے اس کی مرضی تک پہنچ جائیں ۔ ایسی حمد جسے وہ ہم سے قبول کر لے اور اس کے ذریعہ سے ہم سے راضی ہو جائے ۔ 3 ) ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں خیر کے راستوں میں سے ایک راستہ اپنے مہینہ کو قرار دیا ہے جو رمضان کا مہینہ ہے روزہ کا مہینہ ہے اور راتوں کو قیام کا مہینہ جس میں اس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور اسے لوگوں کے لئے ہدایت اور ہدایت کے ساتھ حق و باطل میں امتیاز کی کھلی نشانی قرار دیا ہے ۔ 4 ) اور اس کے بعد فراوان عزتوں اور مشہور فضیلتوں کے ذریعہ تمام مہینوں پر اس کی فضیلت کا اظہار کیا ہے اس کے احترام میں ان چیزوں کو بھی حرام کر دیا ہے جو دوسرے مہینوں میں حلال تھیں اور اس کے اکرام میں کھانے پینے کو بھی ممنوع قرار دےا دیا ہے اور اس نے اس کے لئے ایک واضح وقت قرار دیا ہے جس سے نہ مقدم کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ مؤخر کرنے پر راضی ہے ۔ 5 ) اس مہینہ کی ایک رات کو ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل قرار دے دیا ہے اور اس کا نام شب قدر رکھ دیا ہے ۔ جس میں ملائکہ اور روح پرور دگار کے اذن سے تمام امور لے کر نازل ہوتے ہیں اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی اور دوام برکت کا سبب رہتی ہے ۔ وہ اپنے جس بندے کے لئے برکت چاہے اور جس طرح اس نے محکم فیصلہ کر دیا ہے ۔ 6 ) خدایا محمد و آل محمد (ص) پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس کی فضیلت کی معرفت اور اس کی حرمت و جلالت اور اس میں تمام ممنوعہ امور سے تحفظ کا الہام عطا فرما اور اس کے روزوں پر ہماری امداد فرما کہ ہم اپنے اعضا کو تیری نا فرمانی سے روک سکیں اور ان اعمال میں لگا سکیں جو تجھے راضی کر سکے تاکہ ہم کسی لغو بات پر کان نہ دھریں اور کسی لہو کی طرف جلدی سے نگاہ نہ کریں ۔ اور نہ کسی ممنوع شے کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور نہ کسی حرام کی طرف قدم اٹھائیں ۔ 7 ) یہاں تک کہ ہمارے پیٹ بھی انہیں چیزوں سے بھریں جنھیں تو نے حلال قرار دیا ہے اور ہماری زبان بھی انھیں باتوں سے گویا ہو جنھیں تو نے بیان کیا ہے اور ہم صرف انھیں اعمال کی زحمت اٹھائیں ، ثواب سے قریب تر بنا دیں اور وہی افعال انجام دیں جو تیرے عذاب سے بچا سکے ۔ اس کے بعد ان تمام اعمال کو ریاکاروں کی ریا کاری اور ستانے والوں کے جذبہ شھرت سے پاک بنا دے تاکہ ہم تیرے علاوہ کسی کو شریک نہ کریں اور تیرے ما سوا کسی مطلوب کی آرزو نہ کریں ۔ 8 ) خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ہمیں پانچوں نمازوں کی اوقات کی توفیق دے ان حدود کے ساتھ جو تو نے معین کی ہیں اور ان واجبات کے ساتھ جنھیں تو نے فرض کیا ہے اور ان وظائف کے ساتھ جنھیں تو نے مقرر کیا ہے اور ان اوقات کے ساتھ جنھیں تو نے معین کیا ہے ۔ 9 ) اور اس منزل نماز میں ہمیں ان کے مرتبے تک پہنچا دے جو اس کی منزلوں کو حاصل کرنے والے اس کے ارکان کی حفاظت کرنے والے اور اسے بر وقت ادا کرنے والے ہیں جس طرح تیرے بندے اور رسول نے رکوع و سجود اور تمام آداب کو مقرر کیا ہے مکمل طہارت اور پوری پاکیزگی اور کامل ون مایاں خضوع و خشوع کے ساتھ ۔ 10 ) اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس ماہ رمضان میں اپنے قرابتداروں کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کا برتاؤ کریں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ انعام و بخشش کا برتاؤ کریں اور اپنے اموال کو زکات کے ذریعہ پاک کریں اور جو قطع تعلق کرے اس سے تعلقات قائم کریں اور جو ظلم کرے اس کے ساتھ انصاف کریں اور جو دشمنی کرے اس کے ساتھ مسالمت آمیز برتاؤ کریں علاوہ ان کے جن سے میری دشمنی تیرے بارے میں اور تیرے لئے ہے کہ ایسے دشمنوں سے ہم کسی وقت بھی محبت نہیں کر سکتے ہیں اور یہ وہ گروہ ہے جس سے کسی قیمت پر صفائی نہیں ہو سکتی ہے ۔ 11 ) اور ہمیں توفیق دے کہ اس مہینے میں پاکیزہ اعمال کے ذریعہ تیرا قرب حاصل کریں جو ہمیں گناہوں سے پاک بنا دے اور مستقبل کی زندگی میں عیوب سے بچا لے تاکہ کوئی بھی فرشتہ تیری بارگاہ میں اس سے بہتر عمل نہ پیش کر سکے ۔ 12 ) خدایا میں تجھے اس مہینے کے حق اور ان بندوں کے حق کا واسطہ دے کر سوال کر رہا ہوں جنھوں نے اس مہینے میں ابتداء سے لے کر انتہا تک تیری عبادت کی ہے چاہے وہ ملک مقرب ہو یا نبی مرسل یا وہ بندہ صالح جسے تو نے اپنا بنا رکھا ہے کھ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس کرامت کا اہل قرار دے دے جس کا تو نے اپنے اولیاء سے وعدہ کیا ہے اور ہمارے لئے لازم قرار دئے ہیں جو تیری انتہائی اطاعت کرنے والے ہیں اور ہمیں اس جماعت میں شامل کر دے جو تیری رحمت کی بنا پر تیری رفاقت کی بلند ترین منزل پر فائز ہیں ۔ 13 ) خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنی توحید کے بارے میں ہر طرح کی بے راہ روی اور اپنی بزرگی کے اقرار کے ذیل میں ہر طرح کی کوتاہی اور اپنے دین میں ہر طرح کے شک اور اپنے راستے سے ہر طرح کی گمراہی اور اپنی حرمت سے ھر طرح کی غفلت اور اپنے دشمن شیطان رجیم سے ہر طرح سے دھوکہ کھانے سے محفوظ فرما دے ۔ 14 ) خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اگر تیرے پاس اس مہینے کی ہر رات میں کچھ گرفتار عذاب گردنیں ہیں جنھیں تو آزاد کرتا ہے یا اپنی مہربانی سے معاف کرتا ہے تو ہماری گردنوں کو بھی انھیں گردنوں میں سے قرار دے دے اور ہمیں اس مہینے کے بہترین اہل و اصحاب میں شمار کر لے ۔ 15 ) خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس چاند کے تمام ہوتے ہوتے ہمارے گناہوں کو بھی محو کر دے اور اس کے ایام کے گزرتے گزرتے ہمیں تمام صعوبتوں سے باھر نکال لے تاکھ یہ مہینہ اس عالم میں تمام ہو کھ تو ھمیں خطاؤں سے اور گناھوں سے آزاد کر چکا ہو ۔ 16 ) خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اگر اس مہینے میں ہمارے اندر کوئی کجی پیدا ہو گئی ہو تو اسے سیدھا کر دینا اور اگر ہم بہک جائیں تو ہماری اصلاح کر دینا اور اگر شیطان ہم پر غالب آجائے تو ہمیں اس سے نجات دلا دینا ۔ 17 ) خدایا اس مہینے کو ہماری عبادتوں سے معمور کر دے اور ہمارے سارے اوقات میں اس کی نماز تضرع و زاری و خشوع و تذلل پر ہماری امداد فرما تاکھ نہ اس کا دن ہماری غفلت کا گواہ بنے اور نہ اس کی رات ہماری کوتاہیوں کی شھادت دے ۔ 18 ) خدایا اور جب تک ہمیں زندہ رکھنا تمام مہینوں اور دنوں میں ہمارے لیل و نہار کو ایسا ہی رکھنا اور ہمیں ان نیک بندوں میں قرار دے دینا جو تیری جنت کے وارث ہوں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہوں تیرے دئے ہوئے کو تیری ہی راہ میں خرچ کریں اور ان کے دل تیرے خوف سے لرز رہے ہوں کھ انھیں اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں واپس جانا ہے اور ان لوگوں میں قرار دے دے جو نیکیوں کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے والے اور سبقت کرنے والے ہیں ۔ 19 ) خدایا محمد و آل محمد پر ہر وقت ہر آن اور ہر حال میں اتنی رحمت نازل فرما جس قدر تو نے اپنے کسی بھی بندے پر نازل کی ہو اور پھر اسے اس قدر دوگنا کر دے جس کا شمار نہ کیا جا سکے کھ تو جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اسے کر دینا ۔ 
 
-----------------------------------------------------------------------------
[1] . امام سجاد علیه السلام؛ الصحیفة السجادیة، ص188- 192؛ الهادى، قم، اول، 1418 ق. یہ دعا کتاب مصباح ‏المتهجد، ص 607 و الإقبال ‏بالأعمال ‏الحسنة فیما یعمل ‏مرة فی ‏السنة، ج1، ص 111 میں بھی آیا ہے .
ماہ رمضان میں شب و روز کے اعمال
 سید ابن طاؤس نے امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ماہ مبارک رمضان میں ابتدا سے آخر تک ہر فریضہ  کے بعد یہ دعا پڑھے :

اَللّھُمَّ ارْزُقْنى حَجَّ بَيْتِکَ الْحَرامِ فى ھذا وَفى کُلِّ عامٍ ما اَبْقَيْتَنى

خدایا مجھے بیت الحرام کےحج کی توفیق عطا فرما اس سال اور ہر سال جب تک تو مجھ کو باقی رکھے

فى يُسْرٍ مِنْکَ وَعافِيَۃٍ وَسَعَۃِ رِزْقٍ وَلا تُخْلِنى مِنْ تِلْکَ الْمواقِفِ الْکَريمَۃِ

آسائش اور عافیت اور وسعت رزوق میں اور دور نہ رکھ اس مکرم اور موقف اورمشاہد مقدسہ اور اپنے نبی کی قبر کی زیارت

وَالْمَشاھِدِ الشَّريفَۃ وَزِيارَۃِ قَبْرِ نَبِيِّکَ صَلَواتُکَ عَلَيْہِ وَ الِہِ وَفى جَميعِ

سے (تیرا درودہو ان پر اور ان کی آل پر )اور تمام دنیا و آخرت کی حاجتوں میں مدد کر خدایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس کے بارے میں جو

حَوائِجِ الدُّنْيا وَالا خِرَۃِ فَکُنْ لى اَللّھُمَّ اِنّى اَسْئَلُکَ فيما تَقْضى وَتُقَدِّرُ

اپنی قضا و قدر سے حتمی امور کو شب وقدر میں قرار دیا ہے جو نہ رد ہوتا ہے اورنہ تبدیل ہوتا ہے کہ تو مجھ کو بیت

مِنَ الاَمْرِ الْمَحْتُومِ فى لَيْلَۃِ الْقَدْرِ مِنَ الْقَضاَّءِ الَّذى لا يُرَدُّ وَلا يُبَدَّلُ اَنْ

الحرام کے حجاج میں لکھ دے جن کا حج مقبول ہو اور جن کی کوشش قابل شکر یہ ہو جن کا گناہ

تَکْتُبَنى مِنْ حُجّاجِ بَيْتِکَ الْحَرامِ الْمَبْرُورِ حَجُّھُمُ الْمَشْکُورِ سَعْيُھُمُ

بخشا ہوا ہو جن کی برائیاں بخشی ہوئی ہوں اوراپنے قضا و قدر سے میری عمر کو اطاعت میں طولانی

الْمَغْفُورِ ذُنُوبُھُمُ الْمُکَفَّرِ عَنْھُمْ سَيِّئاتُھُمْ وَاجْعَلْ فيما تَقْضى وَتُقَدِّرُ

بنادے اور میرے وزق میں وسعت عطا کر اور میری امانت اور قرض کو ادا کر دے اے عالمین کے رب دعا کو قبول کر

اَنْ تُطيلَ عُمْرى وَتُوَسِّعَ عَلَىَّ رِزْقى وَتُؤ دِّى عَنّى اَمانَتی وَدَيْنى آمينَ رَبَّ الْعالَمينَ

اور واجب نماز کے بعد پڑھے :

: يا عَلِىُّ يا عَظيمُ يا غَفُورُ يا رَحيمُ اَنْتَ الرَّبُّ الْعَظيمُ الَّذى لَيْسَ کَمِثْلِہِ شَى ءٌ وَھُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ وَھذا شَھْرٌ عَظَّمْتَہُ وَکَرَّمْتَہُ وَشَرَّفْتَہُ وَفَضَّلْتَہُ عَلَى الشُّھُورِ وَھُوَ الشَّھْرُ الَّذى فَرَضْتَ صِيامَہُ عَلَىَّ وَھُوَ شَھْرُ رَمَضانَ الَّذى اَنْزَلْتَ فيہِ الْقُرْآنَ ھُدىً لِلنّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْھُدى وَالْفُرْقانِ وَجَعَلْتَ فيہِ لَيْلَۃَ الْقَدْرِ

وَجَعَلْتَھا خَيْراً مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ فَيا ذَالْمَنِّ وَلا يُمَنُّ عَلَيْکَ مُنَّ عَلَىَّ بِفَکاکِ رَقَبَتى مِنَ النّارِ فيمَنْ تَمُنُّ عَلَيْہِ وَاَدْخِلْنِى الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِکَ يا اَرْحَمَ الرّاحِمينَ

اے بلند اے عظیم اے بخشنے والے اے رحم کرنے والے توعظیم پروردگار ہےجس کے مثل کوئی نہیں ہے وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے روزہ کو مجھ پر فرض کیا ہے اور یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں تو نے قرآن کو نازل کیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت اور ہدایت کی نشانیاں ہیں اورحق و باطل میں فرق کرنے والا ہے اور اس میں تونے شب قدر قراردی ہے اور اس کو ہزار مہینہ سے بہتر قرار دیا ہے تو اے احسان والے خدا جس پر کسی نے احسان نہیں کیا مجھ پر احسان کر مجھ کو جہنم سے آزادی دلانے کے ذریعہ جن پر تو نے احسان کیا ہے اور مجھ کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے -

شیخ کفعمی نے مصباح و بلد الامین اور شیخ شھید نے اپنے مجموعہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:کہ اس دعا کو رمضان المبارک میں ہر واجب نماز کے بعد پڑھے  خداوند عالم اس کے گناہوں کو روز قیامت تک کے  بخش دے گا ۔ دعا یہ ہے:

  اَللّھُمَّ اَدْخِلْ عَلى اَھْلِ الْقُبُورِ السُّرُورَاَللّھُمَّ اَغْنِ کُلَّ فَقيرٍ اَللّھُمَّ اَشْبِعْ کُلَّ جايِعٍ اَللّھُمَّ اکْسُ کُلَّ عُرْيانٍاَللّھُمَّ اقْضِ دَيْنَ کُلِّ مَدينٍ اَللّھُمَّ فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوبٍ اَللّھُمَّ رُدَّکُلَّ غَريبٍ اَللّھُمَّ فُکَّ کُلَّ اَسيرٍ اَللّھُمَّ اَصْلِحْ کُلَّ فاسِدٍ مِنْ اُمُورِالْمُسْلِمينَ اَللّھُمَّ اشْفِ کُلَّ مَريضٍ اَللّھُمَّ سُدَّ فَقْرَنا بِغِناکَ اَللّھُمّ َغَيِّرْ سُوءَ حالِنا بِحُسْنِ حالِکَ اَللّھُمَّ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَاَغْنِنا مِنَالْفَقْرِ اِنَّکَ عَلى کُلِّشَى ءٍ قَديرٌ

اے خدا تو اہل قبور کو شرور و نشاط عطا فرما خدایا توہر فقیر کو مستغنی کر خدا یا توہر بھوکے کو سیر کر خدایا توہر برہنہ کو لباس پہنا خدا یا توہر قرضدار کا قرضہ ادا کردے خدایا ہر غمگین کے غم کو دور کر خدایا ہر مسافر کواس کے وطن پہنچا دے خدایا ہر اسیر کو آزاد کر خدایا مسلمانوں کے جملہ فاسد امور کی اصلاح فرما خدا یا ہر مریض کو شفا عطا کر خدایا ہمارے فقر کو اپنی مالدار ی سے تبدیل  کر دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ 

 بہترین عمل شب وروز ماہ مبارک رمضان ميں زیادہ سے زایادہ  قرآن  کا پڑھنا ہے کیونکہ قرآن اسی میں ہوا ہے ۔اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ہر چیز کے لۓ بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ مبارک رمضان ہے اور دوسرے مہینوں میں ہر ماہ  میں ایک بار قرآن  ختم کرنا مستحب ہے اور کم سے کم چھ روز ہے اور ماہ مبارک میں ہر تیسرے روز ایک قرآن ختم کرنا مستحب ہے اور اگر روزانہ ایک قرآن ختم کرسکے تو بہتر  ہے ۔علامہ مجلسی رہ نے فرمایا ہے کہ حدیث میں ہے کہ بعض ائمہ علیھم السلام اس ماہ چالیس قرآن اور اس سے زیادہ پڑھتے تھے اوراگر ہر ختم قرآن کا ثواب چہاردہ معصومین علیھم السلام میں کسی ایک کی روح پاک کوہدیہ کرے تو اس کا ثواب کئی گنا ہو جا‎ۓ گااور روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا اجر یہ ہے کہ وہ ان معصومین (ع) کے ساتھ روز قیامت ہوگا ۔

اور اس ماہ میں زیادہ دعا، صلوات اور استغفار کرناچاہئے اور لا الہ الا اللہ زیادہ کہنا چاہئے ۔

ماہ رمضان میں صحت کے لیے مشورے
ماہ مبارک رمضان میں ہماری غذا پہلے کی نسبت زیادہ تبدیل نہیں ہونا چاہیے اور حتی الامکان سادہ ہونا چاہیے۔ اسی طریقے سے غذائی نظام اس طرح منظم کیا جانا چاہیے کہ طبیعی وزن پر کوئی زیادہ اثر نہ پڑے۔

دن میں طولانی مدت کی بھوک کے بعد ایسی غذائیں استعمال کریں جو دیر ہضم ہوں۔ دیر ہضم غذائیں کم سے کم 8 گھنٹے ہاضمہ کے سسٹم میں باقی رہتی ہیں۔ حالانکہ جلدی ہضم ہو جانے والی غذائیں صرف 3 یا 4 گھنٹے معدہ میں ٹک سکتی ہیں اور انسان بہت جلدی بھوک کا احساس کرنے لگتا ہے۔

دیر ہضم غذائیں عبارت ہیں: حبوبات، اناج جیسے جو، گندم، لوبیا، دالیں، چاول کہ جنہیں " کمپلیکس کاربوہائیڈریٹ" کہتے ہیں۔

غذا کا متعادل ہونا ضروری ہے۔ یعنی ہر نوع غذا کو استعمال کیا جائے جیسے پھل، سبزیاں، گوشت، مرغ ، مچھلی، روٹی، دودھ، اور دیگر دودھ سے بنی چیزیں۔

تلی ہوئی چیزوں کو بہت کم استعمال کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ ہضم نہ ہونے، معدہ میں سوزش پیدا ہونے اور وزن میں خلل ایجاد ہونے کا سبب بنتی ہیں۔

کن چیزوں سے پرہیز کریں؟

1: تلی ہوئی اور چربی دار غذاوں سے

2: زیادہ میٹھی چیزوں سے

3: سحر کے وقت زیادہ کھانا کھانے سے

4: سحر کے وقت زیادہ چائے پینے سے۔ چائے زیادہ پیشاب کا باعث بنتی ہے اور زیادہ پیشاب بدن سے نمک کو خارج کر دیتا ہے۔

5: سیگرٹ: اگر سیگرٹ کو ایک بار چھوڑنا آپ کے لیے سخت ہے تو ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک دو ہفتہ پہلے اس کام کی مشق کریں۔

کن غذاوں کا استعمال کریں؟

1: سحر کے وقت کمپلیکس کاربوہائیڈریٹ والی غذاوں کا استعمال کرنا مفید ہے اس لیے کہ یہ دیر ہضم ہوتی ہیں۔

2: حلیم کہ جو پروٹین رکھنے والی ایک بہترین غذا ہے اور دیر سے ہضم ہوتی ہے سحر کے وقت اس کا استعمال کرنا مفید ہے۔

3:خرما کہ جس میں شوگر ، کاربوہائیڈریت، پوٹاشیم اور میگنیشم ہوتے ہیں کا سحر میں استعمال کرنا مفید ہے۔

4:بادام اور کیلا بھی کافی حد تک مفید ہیں

5: زیادہ پانی یا مایعات کا استعمال افطار سے سحر تک فاصلہ کے ساتھ استعمال کرنا دن میں بدن کی ضرورت کو پورا کر دیتا ہے۔

ماہ رمضان، ماہ فضیلت و تربیت
 روزے کے کئی جہات سے گوناگوں مادی، روحانی، طبی اور معاشرتی آثار ہیں، جو اس کی ذریعے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھنا اگرچہ ظاہراً سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لئے راحت و آسائش اور آرام و سلامتی کا باعث ہے، یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لئے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ تکلیف و تنگی، روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح خدا کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام تر فوائد خود انسانوں کیلئے ہیں، ذٰلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔

 روزے کے نتیجے میں جو اثرات روزہ دار پر مرتب ہوتے ہیں، ان میں سے اہم ترین اخلاقی و تربیتی پہلو ہے، روزے روح انسانی کو لطیف تر، ارادے کو قوی تر اور مزاج انسانی کو معتدل تر بنا دیتے ہیں، روزہ دار حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح وہ تمام جنسی لذات سے دوری و اجتناب اختیار کر لیتا ہے اور عملی طور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے اور اختیار میں ہے، ہوس و شہوت و خواہشات نفسانی اس کے کنٹرول میں ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔

حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی و معنوی اثر ہے، وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہوتی ہیں، جب اسے بھوک و پیاس محسوس ہوتی ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ نکلتا ہے، لیکن یہی روزہ وقتی پابندی کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اس انسان کو سخت سے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتا ہے، غرض کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔

حضرت امام علی (ع) سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں کہ جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے، آپ (ص) نے فرمایا: الصوم یسود وجھہ، روزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ الصوم جنۃ من النار، روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔ امام علی (ع) روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو، پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے، اس میں سے صرف روزہ دار داخل جنت ہونگے، روایت میں ہے کہ روزے دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے جب روزہ درار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی بھی پیاس و تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔

حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری (ع) کو خط لکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے روزے کو کیوں فرض کیا ہے؟ تو آپ (ع) نے جواب میں فرمایا: تاکہ غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہوجائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے (من لا یحضر الفقیہ جلد 2 ص 55) ایک اور مشہور حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی و مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور دولتمند کو بھی بھوک، اور رنج کا ذائقہ چکھائے، تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔ غرض کہ روزے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں و معاشرے کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکتے ہیں اور اپنے شب و روز کی غذا میں بچت کرکے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔

روزے تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی پر طبی لحاظ سے بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں، طب کی جدید تحقیقات کی روشنی میں روزہ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے، روزے سے انسانی معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس فعال ترین مشینری (معدے) کو آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ حکم اسلامی کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری و افطاری کے کھانے میں افراط و اضافہ سے کام لے، تاکہ روزہ سے مکمل طبی نتیجہ حاصل کیا جاسکے، روزے کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ’’روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو‘‘، ایک اور حدیث آپ سے مروی ہے کہ ’’معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک و فاقہ اعلٰی ترین دوا ہے‘‘ (بحار الانوار جلد 14 ص 34)
ماہ مبارک رمضان آسمانی کتب کے نزول اور تعلیم و تدریس کا مہینہ ہے، اس ماہ اللہ کی یاد میں قلوب نیکی کی جانب مائل ہوتے ہیں، اس لئے روح انسانی کی تربیت آسانی سے ہو جاتی ہے، سانسیں تسبیح کی مانند ہوتی ہیں اور سونا عبادت ہوتا ہے، اعمال و دعائیں قبول ہوتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) نے ماہ مبارک رمضان کی فضائل و برکات کے حوالے سے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ اے لوگو! یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن دوسرے ایام سے بہتر، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی مانند ہیں، تمہاری نیند عبادت ہے اور تمہارے اعمال و دعائیں مستجاب ہیں۔
لہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعائیں مانگو، تاکہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینے خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے، اپنے فقراء و مساکین پر احسان کرو، اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر مہربان ہو جاو، رشتہ داروں کے روابط کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہوں سے پاک رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے باز رکھو، جن کا دیکھنا حلال نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں سے شفقت و مہربانی سے پیش آجاو، تاکہ وہ بھی تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔ ( وسائل الشیعہ جلد 8 باب احکام شہر رمضان)

رمضان المبارک اپنی تمام برکتوں کے ساتھ سعادتمندی کا پیغام لیکر آپہنچاہے ۔ یہ مبارک مہینہ ہمارے لئے ضیافت آسمانی کی سوغات لیکر آیا ہے،اس مبارک مہینےمیں بہشت کے دروازے کھل جاتےہیں اور شیاطین کو قید کردیاجاتاہے ۔ ہماری رحمت خدا دعوت دے رہی ہےکہ اپنی توانائي بھر اس مبارک مہینے سے فائدہ اٹھائيں اور اپنے لئے توشہ آخرت مہیا کرلیں ۔ اس چشمہ رحمت ابدی سے جتنا چاہتےہیں سیراب ہولیں تاکہ دل میں حسرت نہ رہ جائے کہ اے کاش ہم نے اس مبارک مہینے کے سہنری موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیاہوتا۔ انسان کس قدر محتاج ہے ایسے موقعوں کا تاکہ اپنے خدا کے ساتھ رازونیاز کرسکے اور اپنی بندگي جلا دے سکے کیونکہ اس کا سب سے بڑا ہنرہی بندہ اور عبد ہونا ہے ۔
ماہ مبارک رمضان، ہمیں زندگی کی یکرنگي سے الگ ہوکریکسوئي سے اپنے معبود کی عبادت کرنے کا موقع عطاکرتاہے۔ ہمیں اس سنہری موقع کو غنمیت سمجھتےہوئے عبادت خداوندی سے اپنے ذھن و روح کو آلودگيوں سے پاک کرناچاہیے ۔ ماہ مبارک رمضان میں خدا ہمیں یہ موقع عطا کرتاہےکہ ہم مادیات سے ہٹ کر روحانی ماحول میں زندگي کو دیکھیں اور خود گناہوں کے سنگين بوجھ سے نجات دلائیں۔رحمت خدا ملاحظہ ہو کہ، اس ماہ میں روزہ دار کی نیند بھی عبادت شمارہوتی ہے تو، اگربندہ، خدا کی بارگاہ میں مناجات کرے اور گڑگڑا کراپنے گناہوں کی معافی طلب کرے تو کیا رحمان ورحیم اپنے بندوں کو معاف نہيں کرے گا؟
ماہ مبارک رمضان گویا ایک نادر کیمیا ہے جس کی برکت سے گناہ جھڑجاتےہیں اور برائیاں زائل ہوجاتی ہیں اور نیک اعمال کا کئی گنا ثواب ملتاہے ۔ رمضان مبارک ایک آشنا مسافر ہے جو ڈھیروں بشارتوں کےساتھ آتاہے ۔سلام ہوتجھ پراے خداکے مہینے، اھل زمیں کےپاس سے جلد نہ گذرنا ، ہمارے پاس رک جا اورجلد نہ جا۔ سلام ہوتجھ پراے عشق خداوندی کے مظہر ، اے خوان رحمت الھی جو سب کے لئے کھلاہے ۔ تیر ی آمد اس بات کی نشاندھی کرتی ہےکہ انسانوں کےلئے راہ ھدایت ہمیشہ ہموار ہے ، آئيں ہمت کریں اور خود کو غفلت کے گرد وغبار سے پاکیزہ کرلیں ، خدا ہمارا انتظار کررہاہےکہ کہ ہم اس کے لطف و کرم کے سائے میں پناہ لیں اور اسکی محبت و شفقت کے سائے میں زندگي کے شیریں لمحات گذاریں۔
خدایا ہم تیراشکراداکرتےہیں کہ ایک بارپھرہمارے دیدہ ودل، ماہ مبارک رمضان کے ہلال پور سے منورہوئے ۔ ہمیں توفیق عطافرماکہ ہم روزے رکھ سکیں اور شوق و جذبے سے تیری اطاعت بجالاسکیں۔ خدایا تیرا شکر کہ تونے ایک بارپھر ہمیں ان نورانی لمحوں میں سانس لینے کی توفیق عطا کی ، خدایا ہم اس ماہ رحمت میں اپنے دل کے صحرا کو تیری رحمت کی بارش سے سیراب کرکے اسےعشق و ایمان کا گلزار بناناچاہتےہیں ۔ہم تیری بارگاہ میں آئےہیں کیونکہ تیرے سواکوئي بھی اس بات کا اہل نہیں ہےکہ اس سے دل لگایاجائے۔ ہم تیری یادکی شمیم دل انگیز سے اپنے وجود کو طراوت بخشنا چاہتےہیں ۔ہم نے حاجتوں اور آرزوں سے بھرے اپنے ہاتھ تیری طرف پھیلادئےہیں کہ توہی غفار و جواد ہے اور توہی مائدہ آسمانی سے اس ماہ مبارک میں ہمیں اپنی منزل نجات تک پہنچانے والاہے ۔
ماہ مبارک رمضان کی مبارک باد کے ساتھ آپکی عبادتوں کی قبولیت کی دعاؤں کی تمنا لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث شریف کی طرف آپکی توجہ مبذول کراناچاہتےہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوبصورت اور دلنشین تعبیروں سے ماہ مبارک کے بارےمیں فرمایاہے ، ایھاالناس! ماہ خدا اپنی تمام رحمتوں ، برکتوں اورعفو ودرگذشت کا سامان لیکر آن پہنچاہے ۔ یہ ایسا مہینہ ہے جو خدا کے نزدیک سب مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن بہترین دن اور اسکی گھڑیاں بہتریں گھڑیاں ہیں ۔ ایسا مہینہ ہے جسمیں آپ کو ضیافت خدا کی دعوت دی گئي ہے ۔
اس ماہ میں آپ کے اعمال مقبول اور دعائيں مستجاب ہیں لھذا اپنے خدا سے سچی نیتوں اور پاک دلوں سے روزے رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق کی درخواست کریں ۔ اس ماہ میں غریبوں اور بےنواؤں کی مددکریں، بزرگوں کا احترام کریں، بچوں سے محبت سے پیش آئيں اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کريں ( ان کی احوال پرسی کرتےرہیں) اپنی زبان کو ناشایستہ گفتگو سے بچائيں، اپنی آنکھوں کو حرام سے بچائيں، اور اپنے کانوں کو بھی حرام چیزوں سےبچائيں رکھیں ۔
ایھاالناس! جوبھی اس ماہ میں اپنا اخلاق سدھارلے گااس دن جب پل صراط پرقدم لڑکھڑا جائيں گے وہ آسانی سے گذرجائے گا۔اور جوبھی اس ماہ میں صلہ رحم کرے گااور اپنے رشتہ داروں سے ناطہ نہيں توڑے گا خدا قیامت کےدن اسے اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ مبارک رمضان کے بارےمیں اس ماہ میں نمازکے اوقات میں دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھالو کیونکہ نماز کا وقت بہترین وقت ہے اور نماز کے اوقات میں حق تعالی اپنے بندوں پرنظررحمت فرماتاہے اگر آپ اسے پکاریں گے تو وہ آپ کا جواب ضروردیے گا۔
ایھاالناس اس ماہ میں بہشت کےدروازے کھول دئے جاتے ہیں اپنے پروردگارسے دعاکریں کہ ان دروازوں کو آپ پربند نہ کرے ۔ اس ماہ میں جہنم کے دروازے بند کردئے جاتےہیں اپنےپروردگارسے دعا کریں کہ انہيں آپ پرنہ کھولے۔ ایک دن خدانے حضرت داود علیہ السلام کو حکم دیا کہ حلاوہ نام کی عورت کاپتہ لگائيں اور اس کو جنت کی بشارت دیں اوریہ کہیں کہ تیری جگہ جنت میں ہے اور تو میرے ساتھ جنت میں رہے گي ۔حضرت داود علیہ السلام اس عورت کے گھر تشریف لے گئے اور دق الباب کیا ، عورت گھرسے نکل کر باہر آئي دیکھا دروازے پر داود (نبی اللہ) اس کے دروازے پرکھڑےہیں تعجب سے پوچھتی ہےکہ اے نبی اللہ کیا چیز آپ کو میرے در پرلائي ہے ۔حضرت داود(ع) نے کہا تیرے بارےمیں خدا نے وحی فرما کر مجھے تیری فضیلت سے آگاہ کیا ہے ۔اس عورت نے کہا شاید وہ عورت میں نہیں ہوں میری کوئی ہمنام ہوگی۔خدا کی قسم میں نے کوئي ایسا نیک کام انجام نہيں دیاہے جس سے میں اتنے اعلی رتبوں کی مستحق بن جاؤں ۔ حضرت داود علیہ اسلام نے فرمایا وہ عورت تو ہی ہے جس کےبارےمیں خدا نے بشارت دی ہے ، اب مجھے اپنی زندگي کے بارےمیں کچھ بتا ۔اس عورت نے کہا اے نبی اللہ میں نے اپنی زندگي میں بڑی مصیبتیں جھیلی ہیں ، بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے جب بھی میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتی توصبر سے کام لیتی اور خداکا شکر بجالاتی اور ان ہی حالات میں زندگي گذارتی ۔ مجھے یاد نہيں کہ میں نے خدا سے دعا کی ہوکہ مجھے کسی رنج و مصیبت سے نجات دے بس اس سے یہ دعا کرتی ہوں کہ مجھے مسائل کو برداشت کرنے کی طاقت اور صبر عطا فرما ۔حضرت داود (ع) نے جب یہ سنا توفرمایا کہ بس اسی وجہ سے خدا نے تجھے جنت میں اعلی مقام عطاکرنے کی بشارت دی ہے ۔
ماہ مبارک رمضان آپہنچاہے ۔خدا نے ہمیں دوبارہ روزے رکھنے کی توفیق عطافرمائي ہے۔سورہ بقرہ کی آیت ایک سو ستاسی میں روزے کے واجب ہونے کا حکم آیا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے کہ روزہ کی اولین شرط کھانے پینے سے امساک کرنا ہے لیکن کیا کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لینا ہی روزہ کہلاتاہے ؟ اگرروزہ دار اپنے اعضاء وجوارح کو گناہوں سے محفوظ نہ رکھے تو کیا اسے روحانی کمالات اور انسانی فضائل حاصل ہوسکتےہیں؟ روزے دار جب دن میں کچھ گھنٹوں کےلئے کھانے پینے سے امساک کرتاہے درحقیقت اپنی قوت صبر میں اضافہ کرتاہے کہ کہيں کوئي گناہ نہ کربیھٹے یہ خصلت دھیرے دھیرے ایک ملکے میں تبدیل ہوجاتی اور اس کے دل و دماغ کو برائيوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔
روزہ دار میں شیطان کے وسوسوں کا مقابلہ کرنےکی طاقت آجاتی ہے وہ یہ اچھی طرح سے سمجھتاہےکہ تقوی الھی کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی خود کو ہرطرح کی آلودگي سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں کہ (روزے کی حالت میں )بھوک مومن کے دل کا نورہے آپ کے ارشاد کا یہ مطلب ہےکہ جب انسان حکم خدا کی بجاآوری میں بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرتاہے اور مادی لذتوں سے پرہیز کرتاہے تو یہ راہ اسے اپنی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کی جانب لے جاتی ہےیہانتک کہ وہ بھرپورطرح سے خواہشات نفسانی پرغلبہ کرنے کی توانائي حاصل کرلیتاہے اور بندہ محض بن جاتاہے ، اسی کا نام تقوی ہے اور اسی کو تہذیب نفس سے بھی تعبیر کیا جاتاہے بنابریں ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتےہیں کہ روزہ درحقیقت تربیت روح اور و تہذیب نفس کا باعث ہے اور اس طرح انسان کی ابدی سعادت کے دروازے کھولتاہے تاکہ انسان اپنے قفس نفس سے رہاہوکر راہ کمال پرگامزن ہوسکے۔
رب العزت نے ہمیں روزےیا دراصل اپنی ضیافت کی دعوت دیکر ہمیں کمال کی منزلیں طے کرنی کی دعوت دی ہے وہ چاہتاہےکہ ہم کمال حقیقت تک پہنچ جائيں اور خلافت حق کا مقام حاصل کرلیں۔بشارت ہوان لوگوں کو جو ضیافت الھی میں سفرہ بیکران الھی سے فیض یاب ہورہےہیں اور آخرت میں بھی اس سے سیراب ہونگے۔فرزند رسول اللہ (ص) حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتےہیں کہ رمضان خدا کا مہینہ ہے اور روزے رکھنےوالوں پرخاص نظرکرم فرماتاہے ۔

رمضان المبارک کے پہلے دن کی دعا یہ ہے؛

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صِیامِی فِیہِ صِیامَ الصَّائِمِینَ وَقِیامِی فِیہِ قِیامَ الْقائِمِینَ وَنَبِّھْنِی فِیہِ عَنْ نَوْمَۃِ الْغافِلِینَ، وَھَبْ لِی جُرْمِی فِیہِ یَا إلہَ الْعالَمِینَ، وَاعْفُ عَنِّی یَا عافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ ۔

التماس دعا