۱۳۹۷/۵/۶   8:16  ویزیٹ:2447     مضامین


 ماہ ذیقعد  کے اہم ایّام اور اعمال

 


 ماہ ذیقعد  کے اہم ایّام اور اعمال

  2014اس ماہ کے اتوار کے خصوصی اعمال- 30 اگست اور 7، 14، 21 ستمبر    
1-ذی القعدہ  ولادت حضرت معصومہ قم      

 6 - ذی القعدہ ، صلح حدیبیہ-

 11۔ ذی القعدہ ولادت امام علی رضا علیہ السلام 

25- ذی القعدہ  شب دہورالارض  ولادت حضرت ابراہیم علیہ السلام

  15  ذی القعدہ کی رات - مغفرت اور معافی مانگنے کی رات

 23 ۔ ذی القعدہ   شہادت   امام علی رضا علیہ السلام

29- ذی القعدہ شہادت امام محمد تقی علیہ السلام  

ماہ ذی القعد ، ذی الحج، محرم اور رجب میں جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کے روزوں کی بھی تاکید کی گئی ہے

ماہ ذیقعد کے اعمال

قرآن میں جن مہینوں کو حرمت والے ماہ قرار دیا گیا ہے یہ ان میں سے پہلا مہینہ ہے، سید ابن طاؤس راوی ہیں کہ ماہ ذیقعد میں تنگی دور ہونے کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔ اس ماہ میں اتوار کے دن کی ایک نماز ہے کہ جو بڑی فضیلت رکھتی ہے، حضرت رسول الله ﷺکا فرمان ہے کہ جو شخص اس نماز کو بجا لائے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے، گناہ بخشے جاتے ہیں، قیامت میں دشمن اس سے راضی ہوجائیں گے، اس کی موت ایمان پر ہوگی اور اس کا دین سلامت رہے گا۔ اس کی قبر وسیع و روشن ہوگی اس کے والدین اس سے راضی ہوں گے، اس کے والدین اور اولاد کو مغفرت حاصل ہوگی، اس کے رزق میں وسعت ہوگی، ملک الموت اس کی روح نرمی سے قبض کرے گا اور اس کی موت آسان ہوگی۔ اس نماز کا طریقہ یہ ہے:اتوار کے دن غسل اور وضو کرکے چار رکعت نماز پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورۃ توحید اور ایک ایک مرتبہ سورۃ فلق و سورۃ ناس کی قرائت کرے، ستر مرتبہ استغفار کرے آخر میں یہ دعا پڑھے:

نہیں ہے کوئی طاقت و قوت مگر وہی جو بلند و برتر خدا سے ملتی ہے۔

 لَاْ حَوْلَ وَلَاْ قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ اْلعَلِیِ الْعَظِیْمِ

کہے اور پھر یہ دعا پڑھے :

 اے غالب اے بہت بخشنے والے بخش دے میرے گناہ اور بخش دے تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے گناہ کیونکہ تیرے سواکوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں ہے۔

یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ اِغْفِرْلِیْ ذُنُوبِیْ

وَذُنُوِبِ جَمِیعِ اِلمُوْٴمِنِیْنَ وَالْمُوٴمِنَاتِ فَاِنَّہ لَا یَغْفِرُ الذُنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ

مؤلف کہتے ہیں کہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ استغفار اور دعا نماز کے بعد ہے۔ لہذا ان کو نماز کی قرائت میں نہ پڑھے:واضح رہے جیسا کہ روایت میں ہے کہ جو شخص حرمت والے مہینوں میں سے کسی ایک مہینے میں تیں دن یعنی جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کو یکے بعد دیگرے روزے رکھے تو اس کیلئے نوسو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا، شیخ اجل علی بن ابراہیم قمی نے فرمایا کہ تین حرمت والے مہینوں میں جیسے نیکی کئی گنا زیادہ شمار ہوتی ہے ویسے ہی گناہ بھی کئی گنا زیادہ کرکے لکھے جاتے ہیں۔
گیارہویں ذیقعد کا دن

                11 ذیقعد 148ھ میں امام علی رضا (ع)کی ولادت باسعادت ہوئی۔

پندرھویں رات

یہ بر کت والی رات ہے خدا اپنے مومن بندوں پر رحمت کی نگاہ ڈالتا ہے اور جو شخص اس رات میں خدا وند عالم کی عبادت میں مشغول رہتا ہے اس کے لئے سو ایسے روزے دار کا اجر ہو تا ہے جو مسجد میں رہا ہو اور خدا کی معصیت پلک جپھکنے پر بھی نہ کی ہو جیسا کہ پیغمبر کی روایت میں ہے ۔لہذا اس رات کو غنیمت سمجھو اور اپنی اطاعت اور عبادت۔ نماز اور خدا سے طلب حاجت میں مشغول رہو۔یہ بھی روایت ہے جو شخص اس رات میں سوال کرے گا خدا سے حاجت کا خدا اسے بہر حال عطا کرے گا
تئیسویں ذیقعد کا دن
ایک قول کے مطابق 203 ھ میں اسی دن امام علی رضا (ع)کی شہادت واقع ہوئی، اس دن دور و نزدیک سے حضرت کی زیارت کرنا سنت ہے۔ سید ابن طاؤس نے اقبال میں مزید فرمایا ہے کہ میں نے اپنے بعض علماء کی کتب میں دیکھا کہ 23 ذیقعد کے دن دور و نزدیک سے امام علی رضا (ع)کی زیارت مستحب ہے۔
پچیسویں ذیقعد کی رات

                یہ دحوالارض کی رات ہے کہ اس میں خانہ کعبہ کے نیچے زمین پانی پر بچھائی گئی تھی۔ یہ بڑی فضیلت والی رات ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا اس میں مصروف عبادت رہنا باعث اجر و ثواب ہے۔ حسن بن علی وشا سے روایت ہے کہ میں کم سن تھا کہ ایک مرتبہ 25 ذیقعد کی رات کو اپنے والد کے ساتھ امام علی رضا (ع)کے ہاں گیا اور رات کا کھانا حضرت کے ساتھ کھایا۔ تب آپ نے فرمایا کہ آج کی رات ہی میں حضرت ابراہیم (ع)اور حضرت عیسیٰ (ع)متولد ہوئے اور روئے زمین کو خانہ کعبہ کے نیچے بچھایا گیا ۔ جو شخص اس دن روزہ رکھے تو گویااس نے ساٹھ مہینوں کے روزے رکھے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ وہ یہی دن ہے جس میں قائم آل محمد (ع)کا قیام شروع ہوگا۔

 

پچیسویں ذیقعد کا دن
                یہ سال بھر کے ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ جن میں روزہ رکھنے کی خاص فضیلت ہے، ایک روایت میں ہے کہ اس دن کا روز ہ ستر سال کے روزے کی مانند ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اس دن کا روزہ ستر سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، جو شخص اس دن روزہ رکھے اور اس کی رات میں عبادت کرے تو اس کیلئے سو سال کی عبادت لکھی جائے گی۔آج کے دن روزہ رکھنے والے کے لیے ہر وہ چیز استغفار کرے گی جو زمین و آسمان میں ہے۔ یہ وہ دن ہے، جس میں خدا کی رحمت دنیا میں عام ہوتی ہے، اس دن ذکر و عبادت کیلئے جمع ہونے کا بہت بڑا اجر ہے۔ آج کے دن میں غسل ،روزہ اور ذکر و عبادت کے علاوہ دو عمل ہیں ۔ ان میں سے پہلاعمل وہ نماز ہے جو قمی علماء کی کتب میں مروی ہے اور یہ دو رکعت نماز ہے جو بوقت چاشت(ظہر کے قریب) پڑھی جاتی ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد پانچ مرتبہ سورۃ شمس پڑھے اور نماز کا سلام دینے کے بعد یہ دعا پڑھے:

نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند و برتر خدا سے ملتی ہے۔

لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ،

پھر دعا کرے اور یہ پڑھے:

 اے لغزشوں کے معاف کرنے والے

میری ہر لغزش معاف فرما اے دعاؤں کے قبول کرنے والے میری دعا قبول کرلے اے آوازوں کے سننے والے میری آواز سن لے مجھ پر رحم

کر میرے گناہوں اور جو کچھ مجھ سے سرزد ہوا ہے اس سے درگذر فرما اے جلالت اور بزرگی کے مالک۔

یَا مُقِیلَ الْعَثَراتِ أَقِلْنِی عَثْرَتِی،

یَا مُجِیبَ الدَّعَوَاتِ أَجِبْ دَعْوَتِی، یَا سامِعَ الْاَصْواتِ اِسْمَعْ صَوْتِی وَاِرْحَمْنِی وَتَجاوَزْ عَنْ

سَیِّئاتِی وَمَا عِنْدِی یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ ۔

دوسرا عمل اس دعا کا پڑھنا ہے کہ بقول شیخ اس کا پڑھنا مستحب ہے:

اے اللہ! اے زمین کعبہ کے بچھانے والے دانے کو شگافتہ کرنے والے سختی دور کرنے والے اور ہر تنگی سے نکالنے والے

میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس دن میں جو تیرے ان دنوں میں سے ہے تو نے جن کا حق عظیم قرار دیا انکے شرف کو بڑھایا اور انہیں

مومنوں کے پاس اپنی امانت بنایا اور اپنی جانب ذریعہ قرار دیا اور بواسطہ تیری وسیع رحمت کے سوالی ہوں کہ اپنے بندہ محمد پر رحمت نازل فرما جو برگزیدہ

ہیں اور میثاق میں تیرے نزدیک تر ہیں قیامت میں ہر گرفتار کو چھڑانے والے اور رہ حق کیطرف بلانے والے ہیں نیز ان کے پاکیزہ اہل بیت

پر رحمت فرما جو چراغ ہدایت، خدا کے بنائے ہوئے ستون اور جنت و جہنم کے حاکم ہیں اور یہ کہ آج ہماری عید کے روزہمیں اپنی عطاؤں کے خزانے

سے وہ عطا کر جو کبھی ختم نہ ہو اور نہ اس کو روکا جائے اس کے ساتھ ہمیں توبہ اور اچھی بازگشت بھی دے اے بہترین پکارے گئے اور شریف تر امید کیے گئے

اے پورا کرنے والے اے وفا کرنے والے اے وہ جس کا کرم نہاں ہے اپنی کریمی سے مجھ پر کرم فرما اور اپنی پردہ پوشی سے مجھے نیک بختی دے اپنی

 نصرت سے مجھے قوی کر اور بواسطہ اپنے والیان امر اور اپنے رازداروں کے مجھے اپنا ذکر پاک نہ بھلا حشر و نشر کے دن تک مجھے زمانے کی سختیوں سے

اپنی حفاظت میں رکھ مجھے اپنے اولیاء کی زیارت کا شرف بخش اس وقت جب میری جان نکلے جب مجھے قبر میں اتارا جائے، جب

میرا عمل بند ہوجائے اور میری عمر تمام ہوجائے اے معبود! مجھے یاد رکھنا جب مجھ پر آزمائش کے لمبا ہونے پر کہ جب میں زمین کی

تہوں میں پڑا ہوں گا اور لوگوں میں سے بھولنے والے مجھے بھول چکے ہونگے تب مجھے رہنے کی جگہ دے اور باعزت ٹھکانہ عطا فرما مجھے اپنے اولیاء کے

 رفیقوں میں رکھ اپنے منتخب افراد میں قرار دے اور اپنے پسندیدہ لوگوں میں داخل کر اپنی ملاقات میرے لیے مبارک کر موت سے پہلے اچھے اچھے اعمال

 بجا لانے کی توفیق دے لغزشوں سے بچائے رکھ اور برے کاموں سے دور کر۔ اے معبود! مجھے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے حوض کوثر پر وارد فرما اور اس

 میں سے خوش مزہ گواراپانی سے سیراب فرما کہ اس کے بعد نہ مجھے پیاس لگے اور نہ اس سے روکا جاؤں نہ اس سے ہٹایا جاؤں اور اسے میرا بہتر توشہ قرار

دے اس دن کے لیے جب وعدے کا دن آپہنچے گا اے معبود! اگلے اور پچھلے ستم گار لوگوں پر لعنت کر اور ان پر

جنہوں نے تیرے اولیاء کے حقوق غصب کیے اے معبود! ان کے سہارے توڑ دے اور ان کے

پیروکاروں اور کارندوں کو ہلاک کر دے اور انکی تباہی میں اور ان کی حکومتیں چھیننے میں جلدی کر اور ان کے لیے راستے تنگ کردے اور ان کے

ہمکاروں اور حصہ داروں پر لعنت کر اے معبود! اپنے اولیاء کو جلد کشادگی دے ان کے چھنے ہوئے حقوق واپس دلا قائم آل(ع) محمد کا جلد ظہور فرما اور انہیں اپنے

دین کا مددگار اور اپنے اذن سے اپنے دشمنوں پر مسلط فرما اے معبود! ان کے گرد میں مدد گار فرشتوں کو کھڑ اکردے اور شب قدر میں جو حکم تو نے اان

کو دیا اس کے مطابق انہیں اپنی طرف سے بدلہ لینے والا قرار دے یہاں تک کہ تو راضی ہو تیرا دین ان کے ذریعے پلٹ آئے اور انکے ہاتھوں نئی قوت و

غلبہ پاکر حق نکھر کے سامنے آئے اور باطل پوری طرح مٹ جائے اے معبود! امام العصر(ع) پر رحمت فرما اور ان کے تمام بزرگوں پر اور ہمیں ان کے مددگاروں

 اور ساتھیوں میں قرار دے ہمیں ان کی آمد ثانی پر مبعوث فرما یہاں تک کہ ہم ان کے عہد میں ان کے حامیوں میں ہوں اے معبود! ہمیں انکے قیام تک پہنچا اور

ان کی حکومت کے دن دکھا اور ان پر رحمت فرما اور ان کی دعا ہم تک پہنچا اور ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔

اَللّٰھُمَّ داحِیَ الکَعْبَةِ، وَفالِقَ الْحَبَّةِ، وَصارِفَ اللَّزْبَةِ، وَکاشِفَ کُلِّ کُرْبَةٍ أَسْأَلُکَ فِی ھذَا

الْیَوْمِ مِنْ أَیَّامِکَ الَّتِی أَعْظَمْتَ حَقَّھا، وَأَقْدَمْتَ سَبْقَھا، وَجَعَلْتَھا عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ وَدِیعَةً، وَ

إِلَیْکَ ذَرِیعَةً، وَبِرَحْمَتِکَ الْوَسِیعَةِ، أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ الْمُنْتَجَبِ فِی الْمِیثاقِ

الْقَرِیبِ یَوْمَ التَّلاقِ فاتِقِ کُلِّ رَتْقٍ،وَداعٍ إِلی کُلِّ حَقٍّ وَعَلَی أَھْلِ بَیْتِہِ الْاَطْہارِ،الْھُداةِ الْمَنارِ،

دَعایِمِ الْجَبَّارِ، وَوُلاةِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ،وَأَعْطِنا فِی یَوْمِنا ھذَا مِنْ عَطائِکَ الْمَخْزُونِ غَیْرَ مَقْطُوعٍ

وَلاَ مَمْنُوعٍ، تَجْمَعُ لَنا بِہِ التَّوْبَةَ وَحُسْنَ الْاَوْبَةِ، یَا خَیْرَ مَدْعُوٍّ، وَأَکْرَمَ مَرْجُوٍّ، یَا کَفِیُّ یَا وَفِیُّ،

یَا مَنْ لُطْفُہُ خَفِیٌّ، اُلْطُفْ لِی بِلُطْفِکَ، وَأَسْعِدْنِی بِعَفْوِکَ، وَأَیِّدْنِی بِنَصْرِکَ، وَلاَ تُنْسِنِی

کَرِیمَ ذِکْرِکَ،بِوُلاةِ أَمْرِکَ،وَحَفَظَةِ سِرِّکَ،وَاحْفَظْنِی مِنْ شَوایِبِ الدَّھْرِ إِلی یَوْمِ الْحَشْرِ

وَالنَّشْرِ،وَأَشْھِدْنِی أَوْ لِیائَکَ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِی،وَحُلُولِ رَمْسِی،وَانْقِطاعِ عَمَلِی،وَانْقِضاءِ

أَجَلِی۔اَللّٰھُمَّ وَاذْکُرْنِی عَلَی طُولِ الْبِلی إِذا حَلَلْتُ بَیْنَ أَطْباقِ الثَّریٰ، وَنَسِیَنِی النَّاسُونَ مِنَ

الْوَری،وَأَحْلِلْنِی دارَ الْمُقامَةِ، وَبَوِّئْنِی مَنْزِلَ الْکَرامَةِ وَاجْعَلْنِی مِنْ مُرافِقِی أَوْ لِیائِکَ وَأَھْلِ

اجْتِبائِکَ وَاصْطِفائِکَ وَبارِکْ لِی فِی لِقائِکَ، وَارْزُقْنِی حُسْنَ الْعَمَلِ قَبْلَ حُلُولِ الْاَجَلِ

بَرِیْئاً مِنَ الزَّلَلِ وَسُوءِ الْخَطَلِ۔اَللّٰھُمَّ وَأَوْرِدْنِی حَوْضَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ

وَاسْقِنِی مِنْہُ مَشْرَباً رَوِیّاً سائِغاً ھَنِیئاً لاَ أَظْمَأُ بَعْدَہُ، وَلاَ أُحَلَّأُ وِرْدَہُ، وَلاَ عَنْہُ أُذادُ، وَاجْعَلْہُ

لِی خَیْرَزادٍ،وَأَوْفی مِیعادٍ یَوْمَ یَقُومُ الْاَشْھادُ۔اَللّٰھُمَّ وَالْعَنْ جَبابِرَةَ الْاَوَّلِینَ وَالْاَخِرِینَ وَبِحُقُوقِ

أَوْلِیائِکَ الْمُسْتَأْثِرِینَ۔اَللّٰھُمَّ وَاقْصِمْ دَعائِمَھُمْ،وَأَھْلِکْ أَشْیاعَھُمْ وَعامِلَھُمْ،وَعَجِّلْ مَھالِکَھُمْ،

وَاسْلُبْھُمْ مَمالِکَھُمْ،وَضَیِّقْ عَلَیْھِمْ مَسالِکَھُمْ،وَالْعَنْ مُساھِمَھُمْ وَمُشارِکَھُمْ۔اَللّٰھُمَّ وَعَجِّلْ

فَرَجَ أَوْلِیائِکَ،وَارْدُدْ عَلَیْھِمْ مَظالِمَھُمْ، وَأَظْھِرْ بِالْحَقِّ قائِمَھُمْ، وَاجْعَلْہُ لِدِینِکَ مُنْتَصِراً،

وَبِأَمْرِکَ فِی أَعْدائِکَ مُؤْتَمِراً ۔ اَللّٰھُمَّ احْفُفْہُ بِمَلائِکَةِ النَّصْرِ، وَبِما أَلْقَیْتَ إِلَیْہِ مِنَ الْاَمْرِ

فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ مُنْتَقِماً لَکَ حَتّی تَرْضی وَیَعُودَ دِینُکَ بِہِ وَعَلَی یَدَیْہِ جَدِیداً غَضّاً، وَیَمْحَضَ

الْحَقَّ مَحْضاً، وَیَرْفُضَ الْباطِلَ رَفْضاً۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلَی جَمِیعِ آبائِہِ وَاجْعَلْنا مِنْ صَحْبِہِ

وَأُسْرَتِہِ، وَابْعَثْنا فِی کَرَّتِہِ، حَتّی نَکُونَ فِی زَمانِہِ مِنْ أَعْوانِہِ اَللّٰھُمَّ أَدْرِکْ بِنا قِیامَہُ، وَأَشْھِدْنا 

أَیَّامَہُ وَصَلِّ عَلَیْہِ، وَارْدُدْ إِلَیْنا سَلامَہُ، وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْہِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکاتُہُ ۔

معلوم ہو کہ میرداماد نے اپنے رسالہ اربعہ ایام میں دحوالارض کے دن کے اعمال میں فرمایا ہے کہ آج کے دن امام علی رضا(ع) کی زیارت کرنا مستحب اور مسنون آداب کے ساتھ مؤکد ہے اسی طر ح یکم رجب کو امام علی رضا (ع) کی زیارت بھی زیادہ تاکید ہے

ذیقعد کا آخری دن

بنابر مشہور 220ھ میں ذیقعد کے آخری دن امام محمد تقی (ع) معتصم کے دیئے ہوئے زہر سے شہر بغداد میں شہیدہوئے، یہ واقعہ مامون کی موت سے قریباً اڑھائی سال بعد پیش آیا، جیسا کہ حضرت خود فرماتے تھے کہ تیس ماہ کے بعد کشائش ہوگی۔ آپ کے یہ کلمات آپ کے ساتھ مامون کے برے سلوک پر دلالت کرتے ہیں اور اس کی طرف سے آپ کو حد درجہ کی اذیت اور صدمہ پہنچانے کو ظاہر کر رہے ہیں۔کیونکہ آپ اپنی موت کو کشائش سے تعبیر فرماتے ہیں جیسا کہ آپکے والد ماجد امام علی رضا (ع)نے ولی عہدی کو ایسے ہی تعبیر فرمایا تھاچنانچہ ہر جمعہ کو جب آپ جامع مسجد سے واپس آتے تو اسی پسینے اور غبارآلود حالت میں ہاتھوں کو بار گاہ الہی میں بلند کرتے تھے اور دعا فرماتے اے میرے مالک! اگر میری کشائش و راحت میری موت میں ہے تو اس گھڑی میری موت میں تعجیل فرما! پس اسی غم و اندوہ میں آپ کا وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی۔جب امام محمد تقی (ع)کی شہادت ہوئی تو آپکا سن مبارک پچیس سال اور کچھ مہینے تھا، آپکی قبر مبارک کاظمین میں اپنے جد بزرگوار امام موسیٰ کا ظم (ع) کے پشت سر کی طرف ہے