۱۳۹۷/۵/۱۶   0:34  ویزیٹ:1907     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


6 اگست 2018 کونماز جمعہ کی خطبیں

 


6 اگست 2018 کوحجت الاسلام والمسلمین سید حسینی  صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کی گئی

آپ نے  نماز جمعہ کےپہلے خطبے کی ابتدا  حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اس فرمان سے کی (اتقوا معاصی   فی الخلوات فان شاھد ہو الحاکم)   کہ ائے بندگان خدا تنہا‏ئیوں میں اللہ کی نا فرمانیوں سے بچھو۔  کیونکہ جو دیکھ رہا ہے اسی نے قیامت کے دن فیصلہ کرنا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے اّپنے سابقہ موضوع  (جو کہ متقین کے علامات کے تھا ) کو آگے بڑھاتے ہوئے   فرمایا:

کہ  میں نے اب  اس سلسلے میں جو بھی گفتگوں کی ہے اسکو علامہ شہید  مرتضی مطہری کی کتاب  وحی نبوت سے اخذ کیا ہے کہ جہاں پر انہوں نے متقین کی تقریبا 24 صفات کو بیان فرمایا ہے۔

اسکے بعد  انہوں نے متقین کی اگلی صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: کہ متقین کی اگلی  صفت یہ کہ وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ   کا‏ئنات کا نظام علت اور معلول کا نظام ہے۔

ہر فعل ہر چیز کی ایک علت ہوتی ہے کہ جسکے بغیر وہ وجود میں نہیں آسکتا۔

اور جب کسی چیز کے اسباب اور عوامل مکمل ہو جائے وہ اسباب جو اسکے وجود میں دخیل ہے۔  جب بھی وہ وجود میں آجائیں گے  تو  پھر اس معلول کا وجود میں آنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا کہ  اللہ تعالی کے فضل اور کرم اور رحمت کے بھی کچھ  اسباب عوامل اور علتیں ہیں۔

کہ جن کے بغیرکسی بھی شخص کو فضل الہی نصیب نہیں ہو سکتا۔

یہاں تک کی بحث میں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے مسلمان بھی  کائنات کی نظام  کو علت اور معلول کا نظام کہتا ہے اور غیر مسلمان بھی کائنات کی نظام  کوعلت اور معلول کا نظام کہتا ہے۔

لیکن مسلمان اور  غیر مسلمان میں ایک بنیادی فرق ہے  غیر مسلمان علت اور معلول کی نظام صرف مادی علتوں میں منحصر قرار دیتا ہے۔

جبکہ مسلمان اس بات پر عقیدہ رکھتا ہے کہ  اسباب اور علتیں دو طرح کی  ہے ان میں کچھ اسباب مادی ہے اور کچھ معنوی ہے ۔ آپ نے اس باتوں  کی  وضاحت کرنے کے ليئے   فرمایا کہ میں چند مثالیں آپ لوگوں کی خدمت میں ذکر کروں گا۔  پہلی مثال   جو انہوں نے بیان فرمائی وہ نزول بارش سے متعلق تھا۔  کہ اگر ہم کسی مادی اور کیمیایی سائنسدان سے پوچھتے ہے کہ بارش کیسے تشکیل پاتی ہے کیسے نازل ہوتی ہے   تو اسکا جواب یہ ہوگا  کہ سورج سمندروں پر چمکھتا ہے اور سورج کی دھوپ سمندروں کی پانی کو  بخارات میں تبدیل کر لیتی ہے  اور  ہوا ان بخارات کو اٹھا کر  اوپر لے جاتے ہے جہاں پر یہ بخارات  مل کر بادلو ں کو تشکیل دیتے ہیں  اور پھر دو طرح کے بادل ہوتے ہیں  کچھ  بار مثبت رکھنے والے ہوتے ہے اور کچھ بار منفی رکھنے والے ہوتے ہیں ۔

اگر اسان لفظوں میں کہے تو کچھ بادل مؤنث کی حثیت رکھتے ہیں اور کچھ مذکر کی  اور ہوائیں پھر انکو آپس میں ملاتے ہیں۔ اور ان کے آپس میں ٹکرانے سے 15000 ہزار  درجہ سائینٹی گرد  حرارت پیدا کرلیتی ہیں۔ اور بادلوں میں موجود بخارات پگل کر  بارش کی صورت میں زمین پر نازل ہونا شروع کرلیتا ہے ۔ یہ مادی اسباب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

اور غیڑ مسلمان بارش کے برسنے کو انہی عوامل میں منحصر کر لیتے ہیں لیکن ہم مسلمان   کہتے ہیں کہ ان اسباب کے علاوہ کچھ معنوی اسباب بھی موجود ہیں ۔  کہ جن پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

پرودگار عالم  نے بھی ان ماد ی اسباب کی طرف ایشارہ کیا ہے  (وأرسلنا الرياح لواقح  فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ) ہم نے ہواؤں کو بھیجا جو بادلوں میں میلاپ کرواتی ہیں۔ اور پھر  ہم نے آسمان سے پانی کو نازل کیا۔( وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ (28) وہ خدا ہے کہ جو آسمان سے بارشوں کو نازل کرتا ہے۔۔۔

 یہ اسباب آپنی جگہ صحیح ہے لیکن ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے  اسباب ہے  جو بارش کی نازل ہونے یا نازل نہ ہونے کی وجہ بنتے ہیں۔

اگر آپ کتاب  الرسالہ کی طرف رجوع کریں تو وہاں پر ایک نماز ہے کہ جسے نماز استسقاء کہا جاتا ہے۔ یہ نماز تب پڑ ی جاتی ہے کہ جب بارش نازل نہ ہو رہی ہو تو طلب باران کے لیئے اس نماز کو پڑھا جاتا ہے ۔ امام خمینی (رہ) اور دوسرے علاماء نے  نماز استسقاء سے پہلے کئی بنیادی نکات کا ذکر کیا ہے۔ ان میں  سے مندرجہ ذیل ہے بارش برسنا بند ہو جاتی ہے  کیونکہ گناہ عام ہو جاتا ہے ۔ کفران نعمت عام ہو جاتا ہے۔ ایک  دوسرے کے حقوق غصب کرنا لوگوں میں عام ہو جاتا ہے۔  کم تولنا کم ناپنا کم بھیچنا۔۔۔ عام ہو جاتا  ہے  ظلم عام ہو جاتا ہے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک ہو جانا۔ ذکات کو اداء نہ کرنا۔ قرآن اور حدیث کے خلاف لوگ احکام صادر کرنے لگتے ہیں   تب غضب الہیہ کی وجہ سے بارش کا نزول رکھ جاتا ہے۔ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے آپنے کتاب ثواب الاعمال  و عقاب الاعمال میں  امام صادق علیہ السلام سے اس روایت کو نقل فرمایا ہے۔  کہ اگاہ  رہو ہر سال میں بارش مساوی ہوتے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک سال میں دوسرے سال سے بارش زیادہ برسے  ،ولکن  حدا بارش کو وہا نازل کرتا ہے کہ جہا وہ چاہتا ہے ۔  جب کوئی قوم گناہوں میں ڈوب جاتی ہے  تو اللہ انکی حصے کی بارش کو وہاں سے ہٹا کر دوسری جگوں پر نازل کر دیتا ہے  سمندروں میں پہاڑوں پر صحراؤں میں ۔

پس  اس مثال سے ہم نتیجہ یہ اخذ کرتے ہیں ۔ کہ اس کا‏ئنات کا نظام علت اور معلول کا نظام ہے  یہ اسباب  اور یہ علتیں دو طرح کی ہوتی مادی اور معنوی  ا ور معنوی عوامل مادی عوامل کی بنسبت زیادہ  اھمیت کے حامل  ہے لہذا اگر کوئی ان معنوی عوامل کی انکار کریں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ غیر مسلم ایسا  کرتے ہے۔

دوسری مثال یہ کہ مثلا ہماری اقتصادی حالات خراب ہو جائیں ہمارے معشی حالات خراب ہو جائیں تو اس میں دو طرح کے عوامل ہے کچھ مادی اور کچھ معنوی مادی عوامل یہ کہ ہماری اقتصادی ٹیمیں  ماہرین اقتصادیات   اس بات کی تحقیق کریں  کہ  کونسی چیزیں  ہیں کہ جو ہمیں اقتصادی لحاظ سے نقصان پہنچا رہی ہے۔ اور اپنی اقتصادی بہتری کے لیئے ہمیں  کیا راہ حل اختیار کرنا چاہئے اس مشکل پر  قابو  پانے کے لیئے  ہمیں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے۔ ہمیں اداری امور میں کام کرنے والے لوگوں پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ آپنی اداری اوقات میں آپنے کاموں کوصحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ کہے وقت کو ضایع تو نہیں کر رہے ہیں  جس کے ذمے جو جو ذمہ داری لگی ہوئی ہے  وہ  ذمہ داریا پوری کی جا رہی ہے یانہیں  کونسی ایسی چیزں موجود ہے کہ جن سے استفادہ کرکے ہم اپنے  معاشی حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں آپنی جگہ پر صحیح ہے  لیکن کافی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ  ساتھ ہمیں معنوی اسباب پر بھی توجھ کرنی ہو گی۔

اللہ تعالی سورہ طہ میں ارشاد فرماتا ہے کہ (وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِي فَإِنَ  لہ مَعِيشَةً ضَنکًا) جو ہماری ذکر سے ہماری یاد سے رو گردانی کریگا  تو اسکی رزق تنگ ہو جائیگی  پس اقتصادی حالات  کی خرابی کا ایک سبب ذکر خدا سے غافل ہونا ہے۔

کوئی فرد منہ موڑے گا تو اسکی اقتصادی حالات خراب ہونگے کوئی ملک   منہ موڑے گا تو ملک کی اقتصادی حالات خراب ہوجائینگے۔

ذکر سے رو گردانی اس بات کا سبب بنتا ہے  کہ اللہ آپنے ان نافرمان  بندوں کا اقتصادی بائیکاٹ کر لے لیتا ہے   ظالم حکومتوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرنا خوف ناک نہیں ہے خوناک یہ ہےاللہ کسی قوم کا اقتصادی بائیکاٹ کرلے۔  لہذا وسعت روق کے لیئے احادیث نے بہت ساری عوامل کا ذکر کیا ہےاقتصادی حالات کی بہتری کے لیئے احادیث میں کہا گیا ہے کہ صبح سورہ یس اور سورہ ملک کی تلاوت کی جائیں۔ نماز عشاء کے بعد سورہ واقعہ کی تلاوت کی جائیں 

(ہر روز لا الہ اللہ الملک حق المبین  ) کا ورد سو مرتبہ کیا  جائیں۔ دستر خوان پر اصراف نہ کریں  نماز اول وقت میں ادا کریں یہ ساری مادی عوامل ہےکہ جو اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں تاثیر گزار ہے۔ اور ان سب مضبوط اور قوی سبب یہ ہے کہ ہم آپنے امام  سے اپنے تعلق کو مضبو‍ط بنائیں۔ ان سے توسل کو مضبوط بنا‏ئیں اسکا منطقی دلیل جسا کہ میں نے پہلے بھی بعض خطبوں میں عرض کیا  کہ شہید مرتضی مطہری نے   آپنی کتاب آزادی معنوی میں بیان فرمایا ہےکہ جو بندہ اللہ کا واقعی بندہ بننا چاہتا ہے اور مقام عبودیت پر فایز ہونا چاہتا ہے۔ اس چاہئے کہ وہ آپنے اندرن5 چیزون پر قدرت پیدا کریں

  1. نفس پر قابو پانا
  2. خیال پر قابو پانا
  3.  روح کو آپنے بدن سے جدا کرنے کا قدرت پیدا کرنا۔
  4. خود آپنے وجود میں تصرف کی قدرت پیدا کرنا
  5.  آپنے باہر کی کائنات میں تصرف کرنا ۔

وسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔
 

دوسرا خطبہ

مولانا حسینی  صاحب نے دوسرے خطبے میں سب سے پہلے تقوی الہی آپنانے کی سفارش کی اور اسکے بعد انہوں نے آپنے سابقہ موضوع کو جو کہ صفات متقین سے متعلق تھا آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ امام سجاد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ

(وَ لِينِ الْعَرِيکَة)  کہ متقیوں کی اگلے صفت یہ ہے کہ وہ دوسروں سے  محبت امیز سلوک کرتے ہیں  دوسروں سے خوش اخلاقی سے  پیش آتے ہیں نرمی سے برتاو کرتے ہیں ۔ اور جیسا کہ پہلے بھی بارھا بتایا گیا ہے۔ کہ متقین کی یہ صفات زندگی کی کسی ایک شعبے سے محصوص نہیں ہے ۔ بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں   ان صفات کو آپنانے کی ضرورت ہے  لہذا   چاہئے کہ انسان  آپنے گھرکے افراد سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور گھر کے افراد ایک دوسرے کیساتھ محبت سے پیش آ‏ئیں۔

شہر ملک  ہر جگہ پر یہ محبت امیز برتاؤ عام ہونا چاہئے۔

لہذا متقی انسان جہاں بھی  جائیں لوگوں سے محبت آمیز طریقے سے پیش آتا ہے۔   رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ لوگو ں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔  اسی وجہ سے اللہ تعالی نے آپنے حبیب کو  اموررسالت میں کامیابی کا وجہ بتاتے ہو‏ئے ارشاد فرمایا:  (فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِک) کہ میرا حبیب   تبلیغ اسلام میں کامیاب ہو آپنے محبت انگیز برتاؤ کی وجہ سے ۔

پھر آپنے دو مناسباتوں کو ذکر  کرتے ہوئے فرمایا کہ 23 ذی القعدہ کی دن زیارت امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے  اور اسمیں زیارت  جامعہ کبیرہ پڑھنے کی بہت زیادہ ثواب بیان کی گئی ہے۔

دوسری مناسبت 25 ذی القعدہ کو دحو الارص کا ہے  کہ جسمیں دو رکعت نماز پڑھنی ہے کہ جس  کے دونوں رکعت میں الحمد کے  بعد سورت الشمس 5 مرتبہ پڑھنی ہے۔

السلام علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ