۱۳۹۷/۵/۲۱   6:35  ویزیٹ:1728     معصومین(ع) ارشیو


امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 


امام محمد تقی علیہ السلام کا نام "محمد" اور کنیت "ابو جعفر" اور لقب "جواد" تھا۔ وہ 195 ہجری قمری میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد امام علی رضا علیہ السلام اور والدہ گرامی "سبیکہ" خاتون تھیں جو حضرت ماریہ قبطیہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ مکرمہ کی نسل سے تھیں۔
شیعیان خاص طور پر علویان جنکی سربراہی ائمہ معصومین علیھم السلام کے ہاتھوں میں تھی بنی امیہ کے دور حکومت اور منصور عباسی اور مہدی عباسی کی حکومت میں شدید ترین حالات سے روبرو تھے۔ شیعہ تحریکیں مسلسل اور یکے بعد دیگرے اٹھتی تھیں اور حکومت کی جانب سے کچل دی جاتی تھیں۔ شیعہ ہونا بہت بڑا جرم بن چکا تھا جسکی پاداش میں قید کر دینا، قتل کر دینا، تمام اموال کا ضبط کر لینا اور انکے گھروں کو مسمار کر دینا حکومت کا قانونی حق بن چکا تھا۔ ائمہ معصومین علیھم السلام بھی تقیہ کی حالت میں تھے اور شیعیان کے ساتھ انکے روابط مخفیانہ طور پر انجام پاتے تھے۔
لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد جب ائمہ معصومین علیھم السلام کی زیر نگرانی سیاسی فعالیت کے نتیجے میں شیعیان ایک حد تک طاقتور ہو چکے تھے، وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ اظہار وجود کر سکیں اور انکی تعداد بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی۔ لہذا شیعیان کئی سال تک ائمہ معصومین علیھم السلام سے کھل کر اظہار عقیدت کرنے کی طاقت سے محروم ہونے کے بعد اب ایسے مرحلے تک پہنچ چکے تھے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کی اجتمای منزلت اس حد تک بلند ہو چکی تھی کہ خلفای بنی عباس اعلانیہ طور پر ان سے اپنی دشمنی کا اظہار کرنے سے کتراتے تھے۔ دوسری طرف بنی عباس ائمہ معصومین علیھم السلام کو اپنے حال پر بھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے تاکہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے جو چاہیں انجام دی سکیں۔ لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کو اپنے قریب رکھیں تاکہ انکی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھ سکیں۔
چنانچہ مامون عباسی نے امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے طوس آنے پر مجبور کر دیا۔ یہی چیز علویان کے اجتماعی اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بنی۔ امام علی رضا علیہ السلام خراسان میں مستقر ہوئے اور آپ اور اپکے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام کے وکلاء کا نیٹ ورک اسلامی سرزمین کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ شیعیان اس قابل ہو گئے کہ ہر سال حج کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں امام جواد علیہ السلام سے براہ راست ملاقات کر سکیں۔
امام محمد تقی علیہ السلام کے ماننے والے بغداد، مدائن، عراق اور مصر تک پھیل گئے اور خراسان اور ری دو بڑے شیعہ مراکز کے طور پر ظاہر ہوئے۔ شیعیان امام جواد علیہ السلام کے وکلاء کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کے علاوہ حج کے موقع پر خود امام علیہ السلام سے بھی ملاقات کرتے رہتے تھے اور ان سے براہ راست رابطہ قائم رکھتے تھے۔ قم شیعوں کے بڑے اور اصلی مراکز میں سے ایک تھا۔ قم کے شیعوں نے بھی امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ براہ راست رابطہ برقرار کر رکھا تھا۔ دوسری طرف قم کے لوگ مامون عباسی کی حکومت کی مخالفت کا بھی اظہار کرتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مامون عباسی نے علی ابن ھشام کی سربراہی میں قم پر فوجی حملے کا حکم دے دیا لیکن اسے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح فارس، اہواز، سیستان اور خراسان میں مختلف شیعہ گروہ وجود میں آئے جو امام جواد علیہ السلام سے مکمل رابطے میں تھے۔
مامون عباسی جو بنی عباس کا سب سے زیادہ چالاک اور دوراندیش حکمران تھا خود کو علم اور آزادی بیان کا حامی ظاہر کرتا تھا جسکا مقصد اقتدار پر اپنے قبضے کو باقی رکھنا اور ایسے حقائق کو مسخ کرنا تھا جو بنی عباس کی سیاسی بقا کیلئے خطرہ تھے۔ مامون عباسی امام محمد تقی علیہ السلام کے دوران امامت میں حکمفرما تھا اور انکی زندگی کا بڑا حصہ مامون کے دوران حکومت میں گزرا۔ مامون عباسی نے شیعہ تفکر پر مکمل غلبہ پانے کیلئے امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے دوران امامت میں بہت سے اقدامات انجام دیئے۔ اس نے کوشش کی کہ گذشتہ حکمرانوں کے رویے کے برعکس ائمہ معصومین علیھم السلام کے ساتھ نئے انداز سے پیش آئے اور انہیں اپنے زمانے کے نامور دانشور اور علماء حضرات کے ساتھ علمی مناظروں کی دعوت دیتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ امام علی رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام جنکی عمر بھی کم تھی کو کسی طرح علمی میدان میں شکست سے دوچار کر سکے۔ مامون عباسی ائمہ معصومین علیھم السلام کی علمی شخصیت کو خدشہ دار کر کے تشیع کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کی سازشوں میں مصروف تھا۔
امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بھی بنی عباس کی شیعہ مخالف سازشیں جاری رہیں۔ مامون عباسی کا طریقہ یہ تھا کہ اس نے ہر شخص پر ایک جاسوس مقرر کر رکھا تھا اور یہ کام وہ اپنی کنیزوں سے لیا کرتا تھا۔ وہ جسکی جاسوسی کرنا چاہتا تھا اسے اپنی ایک کنیز تحفے کے طور پر پیش کرتا تھا، یہی کنیز اسکے بارے میں تمام معلومات مامون عباسی تک پہنچاتی رہتی تھی۔ لہذا امام محمد تقی علیہ السلام کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے مامون عباسی نے انکی شادی اپنی بیٹی ام الفضل سے کروا دی جیسا کہ امام علی رضا علیہ السلام کے دور میں بھی انکی شادی اپنی دوسری بیٹی ام حبیبہ سے کروا چکا تھا۔
امام محمد تقی علیہ السلام کا وجود بابرکت جو چھوٹی عمر ہونے کے باوجود امامت کے منصب پر فائز تھے اور قیادت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے نظام حاکم کیلئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مامون عباسی اہل تشیع کی جانب سے بغاوت سے سخت خوفزدہ تھا لہذا انہیں اپنے ساتھ ملانے کیلئے مکاری اور فریبکاری سے کام لیتا تھا۔ اس مقصد کیلئے اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو عمر میں خود سے کہیں زیادہ بڑا ہونے کے باوجود اپنا ولیعہد بنایا اور انکے نام کا سکہ جاری کیا اور اپنی بیٹی سے انکی شادی کروائی۔ مامون نے امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی یہ رویہ اختیار کیا اور 211 ھجری میں انہیں مدینہ سے بغداد بلوا لیا تکہ انکی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھ سکے۔
مامون عباسی چاہتا تھا کہ دھمکیوں اور لالچ جیسے سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے امام جواد علیہ السلام کو اپنا حامی بنائے۔ اسکے علاوہ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اہل تشیع کو خود سے بدبین نہ ہونے دے اور امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کرنے کا الزم بھی اپنے دامن سے دھو سکے۔
امام محمد تقی علیہ السلام اسکی توقعات کے برعکس اپنی تمام سرگرمیاں انتہائی ہوشیاری اور دقیق انداز میں انجام دیتے تھے۔ وہ حج کے بہانے بغداد سے خارج ہو کر مکہ آ جاتے تھے اور واپسی پر کچھ عرصہ کیلئے مدینہ میں رہ جاتے تھے تاکہ مامون کی نظروں سے دور اپنی ذمہ داریاں انجام دی سکیں۔
مامون عباسی کے بعد اسکا بھائی معتصم برسراقتدار آیا۔ اس نے مدینہ کے والی عبدالملک ابن زیاد کو لکھا کہ امام محمد تقی ع اور انکی اہلیہ ام الفضل کو بغداد بھجوا دے۔ معتصم عباسی کے اقدامات کے باوجود امام محمد تقی علیہ السلام کی محبوبیت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حکومت کیلئے جو چیز سب سے زیادہ ناگوار تھی وہ یہ کہ امام جواد علیہ السلام چھوٹی عمر کے باوجود سب کی توجہ کے مرکز بنتے جا رہے تھے اور دوست اور دشمن انکے علم اور فضیلت کے قائل ہو رہے تھے۔ جب امام جواد علیہ السلام بغداد کی گلیوں میں جاتے تھے تو سب لوگ آپکی زیارت کیلئے چھتوں اور اونچی جگہوں پر جمع ہو جاتے۔
اسی طرح بنی عباس کے حکمرانوں کی سازشوں کے باوجود امام محمد تقی علیہ السلام کے اثر و رسوخ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ معتصم انتہائی پریشان تھا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ امام جواد علیہ السلام انتہائی عقلمندی سے اسکے تمام منصوبوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ سیستان کا رہنے والا بنی حنیفہ قبیلے کا ایک شخص کہتا ہے: ایک بار امام جواد علیہ السلام کے ساتھ حج پر گیا ہوا تھا۔ ایک دن دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے، معتصم کے دربار کے کچھ افراد بھی موجود تھے۔ میں نے امام جواد علیہ السلام سے کہا کہ ہمارا حکمران اہلبیت ع سے محبت رکھنے والا شخص ہے، اس نے مجھ پر کچھ ٹیکس لگائے ہیں، آپ مجھے اسکے نام ایک خط لکھ دیں تاکہ میرے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرے۔ امام جواد علیہ السلام نے لکھا: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ اس خط کا حامل شخص تمہارے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے۔ تمہارے لئے فائدہ مند کام یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نیکی سے پیش آو۔
وہ شخص کہتا ہے کہ جب میں سیستان آیا اور حکمران کو خط دیا تو اس نے وہ خط اپنی آنکھوں سے لگایا اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟۔ میں نے کہا کہ تمہارے افراد نے مجھ پر بہت بھاری ٹیکس لگایا ہے، آپ دستور دیں کہ یہ ٹیکس ختم کر دیا جائے۔ اس نے کہا کہ جب تک میں حکمران ہوں تم ٹیکس ادا نہ کرو۔
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام کا اثر و رسوخ کس حد تک تھا۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے امامت کی بنیادوں کو مستحکم کیا اور اہلبیت ع کی موقعیت کو حفظ کیا۔ اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء اور دانشور حضرات جیسے یحیی بن اکثم جو ایک بڑی فقیہ تھا، کے ساتھ مناظروں کے ذریعے امام جواد علیہ السلام نے اہلبیت ع کا پیغام سب لوگوں تک پہنچایا۔ بنی عباس کے حکمران کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ امام جواد علیہ السلام کی عظیم شخصیت سے لوگ آشنائی پیدا کریں لہذا انکو شہید کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔
معتصم عباسی نے اپنے ایک وزیر کے ذریعے امام محمد تقی علیہ السلام کو زہر کھلا کر شہید کروا دیا۔ شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام کی عمر 25 سال اور کچھ ماہ تھی۔