۱۳۹۷/۵/۲۱   7:8  ویزیٹ:1790     معصومین(ع) ارشیو


حالات زندگی حضرت امام جواد علیہ السلام

 



حالات زندگی حضرت امام جواد علیہ السلام

نام ونسب اسم گرامی : محمد (ع)
لقب : جواد ، تقی
کنیت : ابو جعفر
والد کا نام : علی (ع)
والدہ کا نام : خیزران
تاریخ ولادت : 10 /رجب 159ھء
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت: 17/ سال
عمر : 25/سال
تاریخ شھادت : آخر ذیقعدہ 220ھء
شھادت کی وجہ : آپ کی زوجہ نے زھر دیکر شھیدکیا
روضہ اقدس : عراق ( کاظمین )
اولاد کی تعداد :2 / بیٹے اور2/بیٹیاں
بیٹوں کے نام : (1) علی (2) موسی مبرقع
بیٹیوں کے نام : (1) فاطمہ (2) امامہ
بیویاں : 2
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : ” حسبی اللھ“


ولادت 10

رجب 195ھ کو مدینہ منورہ میں ولادت ھوئی . اس وقت بغداد کے دارلسلطنت میں ارون رشید کابیٹا امین تخت حکومت پر تھا


نشو و نما اور تربیت

یہ ا یک حسرت ناک واقعہ ھے کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کو نھایت کمسنی ھی کے زمانے میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ھوجانا پڑا .انھیں بھت کم ھی اطمینان اور سکون کے لمحات میں باپ کی محبت , شفقت اور تربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کاموقع مل سکا .آپ کا صرف پانچواں برس تھا جب حضرت امام رضا علیہ السّلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ھوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمدتقی علیہ السّلام سے جدا ھونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السّلام کی وفات ھوگئی . دنیا سمجھتی ھوگی کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے لئے علمی وعملی بلندیوں تک پھنچنے کاکوئی ذریعہ نھیں رھا اس لئے اب امام جعفر صادق علیہ السّلام کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتھا نہ رھی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پھلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ حدیث، تفسیراور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ھوجاتے دیکھا . اس کی حیرت اس وقت تک دور ھوناممکن نہ تھی , جب تک وہ مادی اسباب کے آگے ایک مخصوص خدا وندی مدرسہ تعلیم وتربیت کے قائل نہ ھوتے , جس کے بغیر یہ معمہ نہ حل ھوا اور نہ کبھی حل ھوسکتا ھے .


عراق کاپھلاسفر

جب امام رضا علیہ السّلام کو مامون نے ولی عھد بنایا اور اس کی سیاست اس کی مقتضی ھوئی کہ بنی عباس کو چھوڑ کر بنی فاطمہ سے روابط قائم کئے جائیں اور اس طرح شیعیان اھل بیت علیہ السّلام کو اپنی جانب مائل کیا جائے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ خلوص واتحاد کے مظاھرے کے علاوہ اس قدیم رشتے کے جو ھاشمی خاندان میں سے ھونے کی وجہ سے ھے , کچہ جدید رشتوں کی بنیاد بھی قائم کردی جائے چنانچہ اسی جلسہ میں جھاں ولی عھدی کی رسم ادا کی گئی،اس نے اپنی بھن ام حبیبہ کاعقد امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیاا ور اپنی بیٹی ام الفضل کی نسبت کاامام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ اعلان کیا . غالباً اس کا خیال تھا کہ اس طرح امام رضا علیہ السّلام اپنے ھمنوا بنائے جا سکیں گے مگر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ اپنے ان منصبی فرائض کو جو رسول کے ورثہ دار ھونے کی بنا پر ان کے ذمہ ھیں کسی قیمت پر چھوڑنے کے لئے تیار نھیں ھوسکتے اور اب عباسی سلطنت کارکن ھونے کے ساتھ ان اصول پر قائم رھنا مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکرنے سے کھیں زیادہ خطر ناک ھے تو اسے اپنے مفاد سلطنت کے تحفظ کی خاطر اس کی ضرورت ھوئی کہ وہ زھر دے کر حضرت علیہ السّلام کی زندگی کاخاتمہ کردے مگر وہ مصلحت جوامام رضا علیہ السّلام کوولی عھد بنانے کی تھی یعنی ایرانی قوم اور جماعت شیعہ کو اپنے قبضے میں رکھنا وہ اب بھی باقی تھی اس لئے ایک طرف تو امام رضا علیہ السّلام کے انتقال پر اس نے غیر معمولی رنج وغم کااظھار کیا تاکہ وہ اپنے دامن کو حضرت کے خون ناحق سے الگ ثابت کرسکے . اور دوسری طرف اس نے اپنے اعلان کی تکمیل ضروری سمجھی کہ جو وہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے ساتھ اپنی لڑکی سے منسوب کرنے کا کرچکا تھا , اس نے اس مقصد سے امام محمدتقی علیہ السّلام کو مدینہ سے عراق کی طرف بلوایا . اس لئے کہ امام رضا علیہ السّلام کی وفات کے بعد وہ خراسان سے اب اپنے خاندان کے پرانے دارالسلطنت بغداد میں آچکا تھا اور ا س نے یہ تھیّہ کرلیا کہ وہ ام الفضل کاعقد اس صاحبزادے کے ساتھ بھت جلد کردے .


علماء سے مناظرہ

بنی عباس کو مامون کی طرف سے امام رضا علیہ السّلام کا ولی عھد بنایا جانا ھی ناقابل برداشت تھا امام رضا علیہ السّلام کی وفات سے ایک حد تک انھیں اطمینان حاصل ھوا تھا اور انھوں نے مامون سے اپنے حسبِ دلخواہ اس کے بھائی موتمن کی ولی عھدی کااعلان بھی کرادیا جو بعد میں معتصم بالله کے نام سے خلیفہ تسلیم کیا گیا . اس کے علاوہ امام رضا علیہ السّلام کی ولی عھدی کے زمانہ میں عباسیوں کامخصوص شعار یعنی کالالباس تبدیل ھو کر سبز لباس کارواج ھورھا تھا اسے منسوخ کرکے پھر سیاہ لباس کی پابندی عائد کردی گئی , تاکہ بنی عباس کے روایات قدیمہ محفوظ رھیں . یہ باتیں عباسیوں کو یقین دلا رھی تھیں کہ وہ مامون پر پورا قابو پاچکے ھیں مگر اب مامون یہ ارادہ کہ وہ امام محمد تقی علیہ السّلام کو اپنا داماد بنائے، ان لوگوں کے لئے پھر تشویش کاباعث بنا . اس حد تک کہ وہ اپنے دلی رجحان کو دل میں نہ رکہ سکے اورایک وفد کی شکل میں مامون کے پاس آکر اپنے جذبات کااظھار کر دیا , انھوں نے صاف صاف کھا کہ امام رضا کے ساتھ جو آپ نے طریقہ کار استعمال کیا وھی ھم کو ناپسند تھا . مگر خیر وہ کم از کم اپنی عمر اور اوصاف وکمالات کے لحاظ سے قابلِ عزت سمجھے بھی جاسکتے ھیں مگر ان کے بیٹے محمد تو ابھی بالکل کم سن ھیں ایک بچے کو بڑے بڑے علماء اور معززین پر ترجیح دینا اور اس قدر اس کی عزت کرنا ھر گز خلیفہ کے لئے زیبا نھیں ھے پھر ام حبیبہ کانکاح جو امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے ھم کو کیا فائدہ پھنچا . جو اب ام الفضل کانکاح محمد ابن علی علیہ السّلام کے ساتھ کیا جارھا ھے .
مامون نے ان تمام تقریر کا یہ جواب دیا کہ محمد کمسن ضرور ھیں مگر میں نے خوب اندازہ کرلیا ھے . اوصاف وکمالات میں وہ اپنے باپ کے پورے جانشین ھیں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے علماء جن کا تم حوالہ دے رھے ھو علم میں ان کا مقابلہ نھیں کرسکتے . اگر تم چاھو تو امتحان لے کر دیکہ لو . پھر تمھیں بھی میرے فیصلے سے متفق ھونا پڑے گا . یہ صرف منصفانہ جواب ھی نھیں بلکہ ایک طرح کا چیلنج تھا جس پر مجبوراً ان لوگوں کو مناظرے کی دعوت منظور کرنا پڑی حالانکہ خود مامون تمام سلاطین بنی عباس میں یہ خصوصیت رکھتا ھے کہ مورخین اس کے لئے یہ الفاظ لکھ دیتے ھیں : کان بعد من کبار الفقھاء یعنی اس کا شمار بڑے فقیھوں میں ھے . اس لئے اس کا فیصلہ خود کچہ کم وقعت نہ رکھتا تھا مگر ان لوگوں نے اس پر اکتفا نھیں کی بلکہ بغداد کے سب سے بڑے عالم یحییٰ بن اکثم کو امام محمدتقی علیہ السّلام سے بحث کے لئے منتخب کیا .
مامون نے ایک عظیم الشان جلسہ اس مناظرے کے لئے منعقد کیا اور عام اعلان کرادیا . ھر شخص اس عجیب اور بظاھر غیر متوازی مقابلے کے دیکھنے کا مشتاق ھوگیا جس میں ایک طرف ایک اٹھ برس کابچہ تھا اور دوسری طرف ایک آزمود کار اور شھرۂ آفاق قاضی القضاة . اسی کا نتیجہ تھا کہ ھر طرف سے خلائق کا ھجوم ھوگیا .مورخین کا بیان ھے کہ ارکان ُ دولت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نوسوکرسیاں فقط علماء وفضلاء کے لئے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نھیں اس لئے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اوربالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دارالسلطنت تھا جھاں تمام اطراف سے مختلف علوم وفنون کے ماھرین پھونچ کر جمع ھوگئے تھے . اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نھیں ھوتی-
مامون نے حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لئے اپنے پھلو میں مسند بچھوائی تھی اور حضرت کے سامنے یحییٰ ابن اکثم کے لئے بیٹھنے کی جگہ تھی- ھر طرف کامل سناٹا تھا- مجمع ھمہ تن چشم و گوش بنا ھوا گفتگو شروع ھونے کے وقت کا منتظر ھی تھا کہ اس خاموشی کو یحییٰ کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ھو کر کھا تھا-» حضور کیا مجھے اجازت ھے کہ میں ابو جعفر سے کوئی مسئلہ دریافت کروں؟
مامون نے کھا,» تم کو خود ان ھی سے اجازت طلب کرنا چاھئے-«
یحیٰی امام کی طرف متوجہ ھوا اور کھا-»کیا آپ اجازت دیتے ھیں کہ میں آپ سے کچہ دریافت کروں؟
فرمایا-» تم جو پوچھنا چاھو پوچھ سکتے ھو-«
یحیٰی نے پوچھا کہ »حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ھے؟ «اس سوال سے اندازہ ھوتا ھے کہ یحیٰی حضرت امام محمد تقی کی علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا- وہ اپنے غرور علم اور جھالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادےھی تو ھیں- روزمرہ روزے نماز کے مسائل سے واقف ھوں تو ھوں مگر حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ھے ان کے کفاروں سے بھلا کھاں واقف ھوں گے-
امام علیہ السّلام نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی, جس سے اصل مسئلے کا جواب دئے بغیر آپ کے علم کی گھرائیوں کا یحیٰی اور تمام اھل محفل کو اندازہ ھو گیا, یحیٰی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع بھی اس کا سبک ھونا محسوس کرنے لگا- آپ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارا سوال بالکل مبھم اور مجمل ھے- یہ دیکھنے کی ضرورت ھے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں، شکار کرنے والا مسئلے سے واقف تھا یا ناواقف، اس نے عمداً اس جانور کو مار ڈالا یا دھوکے سے قتل ھو گیا، وہ شخص آزاد تھا یا غلام، کمسن تھا یا بالغ، پھلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پھلے بھی ایسا کر چکا تھا، شکار پرندکا تھا یا کوئی اور، چھوٹا تھا یا بڑا ، وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ھے یا پشیمان ھے، رات کو یا پوشیدہ طریقہ پر اس نے شکار کیا یا دن دھاڑے اورعلانیہ، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں اس مسئلہ کا کوئی ایک معین حکم نھیں بتایا جا سکتا-
یحییٰ کتنا ھی ناقص کیوں نہ ھوتا بھرحال فقھی مسائل پربھی کچھ نہ کچھ اس کی نظر تھی- وہ ان کثیر التعداد شقوں کے پیدا کرنے ھی سے خوب سمجہ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لئے آسان نھیں ھے- اس کے چھرے پر ایسی شکستگی کے آثار پیداھوئے جن کاتمام دیکھنے والوں نے اندازہ کر لیا- اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچہ جواب نہ دیتا تھا- مامون نے اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ کر کے اس سے کچہ کھنا بیکار سمجھا اور حضرت علیہ السّلام سے عرض کیا کہ پھر آپ ھی ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجئے , تاکہ سب کو استفادہ کا موقع مل سکے- امام علیہ السّلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے یحیٰی ھکا بکا امام علیہ السّلام کا منہ دیکہ رھا تھا اور بالکل خاموش تھا- مامون کو بھی ضد تھی کہ وہ اتمام حجت کو انتھائی درجے تک پھنچا دے اس لئے اس نے امام علیہ السّلام سے عرض کیا کہ اگر مناسب معلوم ھو تو آپ بھی یحییٰ سے کوئی سوال فرمائیں- حضرت علیہ السّلام نے اخلاقاً یحییٰ سے یہ دریافت کیا کہ »کیا میں بھی تم سے کچہ پوچہ سکتا ھوں?«یحییٰ اب اپنے متعلق کسی دھوکے میں مبتلا نہ تھا, اپنا اور امام علیہ السّلام کا درجہ اسے خوب معلوم ھو چکا تھا- اس لئے طرز گفتگو اس کا اب دوسراھی تھا- اس نے کھا کہ حضور دریافت فرمائیں اگر مجھے معلوم ھو گا تو عرض کر دوں گا ورنہ خود حضور ھی سے معلوم کر لوں گا, حضرت نے سوال کیا- جس کے جواب میں یحییٰ نے کھلے لفظوں میں اپنی عاجزی کا اقرار کیا اور پھر امام نے خود اس سوال کا حل پیش فرما دیا- مامون کو اپنی بات کے بالا رھنے کی خوشی تھی- اس نے مجمع کی طرف مخاطب ھو کر کھا:
دیکھو میں نہ کھتا تھا کہ یہ وہ گھرانا ھے جو قدرت کی طرف سے علم کا مالک قرار دیا گیا ھے- یھاں کے بچوں کا بھی کوئی مقابلہ نھیں کر سکتا- مجمع میں جوش و خروش تھا- سب نے یک زبان ھو کر کھا کہ بے شک جو آپ کی رائے ھے وہ بالکل ٹھیک ھے اور یقیناً ابو جعفر محمد ابن علی کا کوئی مثل نھیں ھے- مامون نے اس کے بعد ذرا بھی تاخیر مناسب نھیں سمجھی اور اسی جلسے میں امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ ام الفضل کا عقد کر دیا- نکاح سے قبل جو خطبہ ھمارے یھاں عموماً پڑھا جاتا ھے وھی ھے جو کہ امام محمد تقی نے اس عقد کے موقع پر اپنی زبان مبارک پر جاری کیا تھا- یھی بطور یادگار نکاح کے موقع پر باقی رکھا گیا ھے مامون نے اس شادی کی خوشی میں بڑی فیاضی سے کام لیا- لاکھوں روپیہ خیر و خیرات میں تقسیم کیا گیا اور تمام رعایا کو انعامات و عطیات کے ساتھ مالا مال کیا گیا-


مدینہ کی طرف واپسی

آپ شادی کے بعد تقریباً ایک سال تک بغداد میں مقیم رھے اس کے بعد مامون نے بھت اھتمام کے ساتھ ام الفضل کو حضرت کے ساتھ رخصت کر دیا اور امام مدینہ میں واپس تشریف لےآئے-


اخلاق و اوصاف امام محمد تقی علیہ السّلام

اخلاق واوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرہ امتیاز تھی کہ ھر ایک سے جھک کر ملنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، مساوات اور سادگی کو ھر حالت میں پیش نظر رکھنا، غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رھنا . مھمانوں کی خاطر داری میں انھماک اور علمی اور مذھبی پیاسوں کے لئے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پھلو تھا . بالکل ویسا ھی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا جس کے حالات اس سے پھلے لکھے جاچکے ھیں .
اھل دنیا کو جو کہ آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے ، یہ تصور ضرور ھوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شھنشاہ کا داماد ھوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال اورطور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی.حقیقت میں یہ ایک بھت بڑا مقصد ھوسکتا ھے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا .بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاھوں کا آل رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا کہ جتنا ان کے صفات سے ۔ وہ ھمیشہ اس کے درپے رھتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ھے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ھوا ھے ، کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے. امام حسین علیہ السّلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رضا علیہ السّلام کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ , فقط ظاھری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادات مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی . جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے بیعت نہ کی تو وہ شھید کر ڈالے گئے , اسی طرح امام رضا علیہ السّلام ولی عھد ھونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زھر کے ذریعے سے ھمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا .
اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا علیہ السّلام کا جانشین تقریباً آٹھ برس کابچہ ھے جو تین برس پھلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا . حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کھہ رھی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نھایت آسان ھے اوراس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتھائی خطرناک قائم ھے ھمیشہ کے لئے ختم ھوجائے گا .
مامون امام رضا علیہ السّلام کو ولی عھد ی کی مھم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کاسبب نھیں تصور کرتا تھا ,ا س لئے کہ امام رضا علیہ السّلام کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی .ا س میں تبدیلی اگر نھیں ھوتی تو یہ ضروری نھیں کہ امام محمد تقی علیہ السّلام جو آٹہ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر بر قرا ر رھے .
سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے .اس وقت کا ھر شخص یقیناً مامون ھی کا ھم خیال ھوگا . مگر دنیا تو حیران ھوگئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شھنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ھے اس عمر میں اپنے خاندانی رکہ رکھاؤ اور اصول کااتنا پابند ھے کہ وہ شادی کے بعد شاھی محل میں قیام سے انکار کردیتا ھے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رھتا ھے تو ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتا ھے . اس سے بھی امام علیہ السّلام کی مستحکم قوتِ ارادی کا اندازہ کیا جاسکتا ھے . عموماً مالی اعتبار سے لڑکی والے کچہ بھی بڑا درجہ رکھتے ھوتے ھیں تو وہ یہ پسند کرتے ھیں کہ جھاں وہ رھیں وھیں داماد بھی رھے . اس گھر میں نہ سھی تو کم از کم اسی شھر میں اس کا قیام رھے . مگر امام محمد تقی علیہ السّلام نے شادی کے ایک سال بعد ھی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا . یقیناً یہ امر ایک چاھنے والے باپ اور مامون ایسے بااقتدار کے لئے انتھائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام علیہ السّلام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے .
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وھی انداز رھا جو اس سے پھلے تھا . نہ پھریدار نہ کوئی خاص روک ٹوک , نہ تزک واحتشام نہ اوقات ملاقات، نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤں میں کوئی تفریق . زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رھتی تھی جھاں مسلمان حضرات کی وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے . راویان حدیث دریافت کرتے تھے . طالب علم مسائل پوچھتے تھے . صاف ظاھر تھا کہ آپ امام جعفرصادق علیہ السّلام ھی کے جانشین ھیں جو اسی مسند علم پر بیٹھے ھوئے ھدایت کاکام انجام دے رھے ھیں .
امور خانہ داری اور ازدواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے ا پنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ھی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا . آپ نے اس کی مطلق پروا نھیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شھنشاہ وقت کی بیٹی ھیں . چنانچہ ام الفضل کے ھوتے آپ نے حضرت عمار یاسرکی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا . یھی امام علی نقی علیہ السّلام کی ماں ھوئیں . ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکہ کر بھیجی . مامون کے د ل کے لئے بھی یہ کچہ کم تکلیف دہ امر نہ تھا . مگر اسے اب اپنے کیے کو نباھنا تھا . اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابو جعفر علیہ السّلام کے ساتھ اس لئے نھیں کیا ھے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں . مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا.
جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ھے . ھمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ھیں کہ اگر مذھبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ھوئی ھے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نھیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لئے جناب خدیجة کبریٰ علیہ السّلام اور حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کے لئے جناب فاطمہ زھرا علیھا السّلام مگر شھنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لئے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ھے، اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے اس لئے امام محمدتقی علیہ السّلام نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا .


تبلیغ وھدایت

آپ کی تقریر بھت دلکش اور پر تاثیر ھوتی تھی . ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ھو کر آپ نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علماء دم بخود رہ گئے اور انھیں اقرار کرنا پڑا کہ ھم نے ایسی جامع تقریر کبھی نھیں سنی۔ . امام رضا علیہ السّلام کے زمانہ میں ایک گروہ پیدا ھوگیا تھا جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام پر توقف کرتا تھا یعنی آپ کے بعد امام رضا علیہ السّلام کی امامت کاقائل نھیں تھا اور اسی لئے واقفیہ کھلاتا تھا . امام محمد تقی نے اپنے کردار سے اس گروہ میں ایسی کامیاب تبلیغ فرمائی کہ سب اپنے عقیدے سے تائب ھوگئے اور آپ کے زمانہ ھی میں کوئی ایک شخص ایسا باقی نہ رہ گیا جو اس مسلک کا حامی ھو بھت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اھل بیت علیہ السّلام کی تعلیم حاصل کی . آپ کے ایسے مختصر حکیمانہ اقوال کابھی ایک ذخیرہ ھے جیسے آپ کے جدِ بزرگوار حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے کثرت سے پائے جاتے ھیں. جناب امیر علیہ السّلام کے بعد امام محمدتقی علیہ السّلام کے اقوال کو ایک خاص درجہ حاصل ھے . الٰھیات اور توحیدکے متعلق آپ کے بعض بلند پایہ خطبے بھی موجود ھیں


عراق کاآخری سفر

218ھ میں مامون نے دنیا کو خیر باد کھا .اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کاچچا موتمن جو امام رضا کے بعد ولی عھد بنایاجاچکا تھا تخت سلطنت پر بیٹھا اور معتصم بالله عباسی کے نام سے مشھور ھوا . اس کے بیٹھتے ھی امام محمد تقی علیہ السّلام سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتار بڑھ گئی . جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کو بھیجے تھے . مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ کردیا تھا اس لئے اپنی بات اور کیے کی لآج رکھنے کی خاطر ا س نے ان شکایتوں پر کوئی خاص توجہ نھیں کی بلکہ مایوس کردینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کردی تھی مگر معتصم کو جو امام رضا علیہ السّلام کی ولی عھدی کاداغ اپنے سینہ پراٹھائے ھوئے تھا اور امام محمدتقی علیہ السّلام کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پھلے ھی اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش رہ چکا تھا ، اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اھمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا ، حق بجانب ثابت کرنا تھا , پھر سب سے زیادہ امام محمدتقی علیہ السّلام کی علمی مرجعیت، آپ کے اخلاقی اثر کی شھرت جو حجاز سے بڑھ کر عراق تک پھونچی ھوی تھی وہ بنائے مخاصمت جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی علیہ السّلام کے بزرگوں سے رہ چکی تھی او ر پھر اس سیاست کی ناکامی اور منصوبے کی شکست کا محسوس ھوجانا جو اس عقد کامحرک ھوا تھا جس کی تشریح پھلے ھوچکی ھے یہ تمام باتیں تھیں کہ معتصم مخالفت کے لئے آمادہ ھوگیا . اپنی سلطنت کے دوسرے ھی سال امام محمدتقی علیہ السّلام کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلو ابھیجا . حاکم مدینہ عبدالمالک کو اس بارے میں تاکید ی خط لکھا . مجبوراً امام محمد تقی علیہ السّلام اپنے فرزند امام علی نقی علیہ السّلام اور ان کی والدہ کو مدینہ میں چھوڑ کر بغداد کی طرف روانہ ھوئے .


شہادت

بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباً ایک سال تک معتصم نے بظاھر آپ کے ساتھ کوئی سختی نھیں کی مگر آپ کا یھاں کا قیام خود ھی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے علاوہ اور کیا کھا جاسکتا ھے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا، آپ کی زندگی کاخاتمہ کردیا گیا اور 29ذی القعدہ 220ھ میں زھر سے آپ کی شھادت ھوئی ۔ اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے پاس دفن ھوئے .آپ ھی کی شرکت کالحاظ کرکے عربی کے قاعدے سے اس شھر کانام کاظمین (دوکاظم یعنی غصہ کوضبط کرنے والے) مشھور ھوا ھے . اس میں حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے لقب کوصراحةً سامنے رکھا گیا جبکہ موجودہ زمانے میں اسٹیشن کانام جوادّین (دوجواد یعنی فیاض) درج ھے جس میں صراحةً حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لقب کو ظاھرکیاجارھا ھے . چونکہ آپ کالقب تقی بھی تھا اور جواد بھی .
 

رضوی سیّد

یہ ایک حقیقت ھے کہ جتنے سادات رضوی کھلاتے ھیں وہ دراصل تقوی ھیں یعنی حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کی اولاد ھیں . اگر حضرت امام رضا علیہ السّلام کی اولاد امام تقی علیہ السّلام کے علاوہ کسی اور فرزند کے ذریعے سے بھی ھوتی تو امتیاز کے لئے وہ اپنے کو رضوی کھتی اور امام محمد تقی علیہ السّلام کی اولاد اپنے کو تقوی کھتی مگر چونکہ امام رضا علیہ السّلام کی نسل صرف امام محمد تقی علیہ السّلام سے چلی اور حضرت امام رضا علیہ السّلام کی شخصی شھرت سلطنتِ عباسیہ کے ولی عھد ھونے کی وجہ سے جمھور مسلمین میں بھت ھوچکی تھی اس لئے تمام اولاد کاحضرت امام رضا علیہ السّلام کی طرف منسوب کرکے تعارف کیاجانے لگا اور رضوی کے نام سے مشھور ھوئے ۔