۱۳۹۷/۵/۲۶   1:19  ویزیٹ:1483     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


27 ذی القعدہ 1439(ھ۔ ق) مطابق با 08/10/ 2018 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بسمه تعالی

10 اگست 2018 کو نماز جمعہ حجت الاسلام والمسلمین مولانا حسینی صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئی.

آپ نے سب سے پہلے تقوی الہی کی سفارش کی اور پھر سورۃ زلزال کی  آیت نمبر( يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (4))   اس دن وہ(زمین)   اپنے سب معلومات  اور خبریں بیان کرے گی. اس آیت کے ذیل میں فرمایا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس زمین سے بچو زمین سے بچو  کیونکے زمین قیامت کے دن ہر وہ شے کی خبردی گئی جو زمین پر انجام ہوچکی ہے چاہے وہ اچھا کام ہو یا برا کام اور برا عمل۔

 اسی وجہ سے ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ جب آپ لوگ صحرا میں جاتے ہوں تو وہاں انچے آواز سے اذان دیاں کریں کیونکہ میں نے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنا ہے کہ کہ آپ کا یہ اذان جتنے بھی جن اور انس، درخت  یا پتھر جو بھی سنیں گے تو وہ سب پھر قیامت کے دن گواہی دیں گے لہذا اگر ہم نے اچھے اعمال بجا لائے ہو تو اچھے اعمال کی گواہی دی جائیگی اور اگر برے اعمال انجام دیے ہو تو برے اعمال کی شہادت دیں گے مگر یہ کہ اگر  انسان نے ان برے اعمال سے توبہ کرلیا، تو  توبہ کے بارے میں امیرالمومنین علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر ہم نے سچے دل سے حقیقی  معنو میں توبہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ ان تمام گواہوں کو حکم دیتے ہیں کہ اس آدمی کی گناہیں فراموش کرے تو وہ سب گواہ بھی وہ سب کچھ بھول جائیں گے اس طرح  پھر قیامت کے دن  ان کے پاس گواہی دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ہم نے گزشتہ چھ جمعوں کے خطبوں میں سے پہلے خطبے میں یہ عرض کیا کہ دین اسلام کی کچھ صفات اور امتیازات ہیں ان میں سے ایک عبودیت تھا اس خطبے میں بھی چاہتا ہوں کہ عبودیت پر اور  بات کرو اور میں نے عرض کیا تھا کہ خلقت کے کچھ مقاصد ہے جو کہ ہم نے سلسلہ وار ذکر کیا  تھا  کہ خلقت کے اھداف عبادت کرنا ہے عبادت کے اھداف ہے متقی بننا اور تقوی کے اھداف ہے کامیاب ہونا لہذا  خلقت کا تضا یہ کہ  وہ ہمیشہ کامیاب اور پیروز ہو ۔

بس اس سے پتہ چلتا ہے کہ ھدف کی کئی قسمیں ہے ابتدائی ہدف جسے عبودیت متوسط ھدف جیسے تقوی اور پرہیزگاری اور نہایی ھدف جیسے کامیابی اخروی

بس اب تک یہ مطلب واضح ہو گیا کہ ہم عبد ہے اور عبد کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی مولا کسی شئی کو انجام دینے کے بارے میں امر فرمائیں تو ہم انجام دے اور اگر منع کریں توہم منع ہوجائے  ابن ابی العوجاء جو کہ ایک ماٹریالیسٹ تھا حضرت امام صادق کے پاس آکر بولا:

فَأَتَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام فَجَلَسَ إِلَيْهِ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ نُظَرَائِهِ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ إِنَّ الْمَجَالِسَ أَمَانَاتٌ وَ لَا بُدَّ لِکُلِّ مَنْ بِهِ سُؤالٌ أَنْ يَسْألَ

أَفَتَأْذَنُ فِي الْکَلَامِ فَقَالَ تَکَلَّمْ فَقَالَ إِلَى کَمْ تَدُوسُونَ هَذَا الْبَيْدَرَ وَ تَلُوذُونَ بِهَذَا الْحَجَرِ وَ تَعْبُدُونَ هَذَا الْبَيْتَ الْمَعْمُورَ بِالطُّوبِ وَ الْمَدَرِ وَ تُهَرْوِلُونَ حَوْلَهُ هَرْوَلَةَ الْبَعِيرِ إِذَا نَفَرَ إِنَّ مَنْ فَکَّر فِي هَذَا وَ قَدَّرَ عَلِمَ أَنَّ هَذَا فِعْلٌ أَسَّسَهُ غَيْرُ حَکِيمٍ وَ لَا ذِي نَظَرٍ فَقُلْ فَإِنَّکَ رَأْسُ هَذَا الْأَمْرِ وَ سَنَامُهُ وَ أَبُوکَ أُسُّهُ وَ تَمَامُهُ.

 فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عدة جملات فی جوابه اذکر لکم واحدة منها:

هَذَا بَيْتٌ اسْتَعْبَدَ اللَّهُ بِهِ خَلْقَهُ لِيَخْتَبِرَ طَاعَتَهُمْ فِي إِتْيَانِه‏» (ابن بابويه، محمد بن على‏، من لا یحضره الفقیه، 2/249)

فلا یعبد الناس البیت بل جعله الله وسیلة و طریقا لامتحان الناس لیعلم المطیع من العاصی.

کیا اجازت ہے کہ میں کچھ سوالات پوچھ لو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ پوچھ  لو۔ تو اس نے کہا کہ کب تک آپ لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاؤ گے اور کب تک اس پتھر کو چھومو نگے  او رکب تک اس گھر کی عبادت کروں گے ۔  اور کب تک اونٹ کی طرح  اوچھلتے رہونگے لہذا اگر کوئی بھی اس کام میں غور کریں گا تو اس کو پتہ چل جائیگا کہ یہ ایک  حکیم او رصاحب نظر   کا کام نہیں ہے  پس آپ بولو اس کی وجہ بتاؤ کہ آپ انکے بڑے  ہو اور اور آپکے والد  صاحب نے اس کا بنیاد رکھا  ہے۔

تو اس آدمی کے جواب میں امام صادق علیہ السلام نے کچھ جملے بولے: کہ اس میں  سے  کچھ آپ لوگوں کے خدمت میں عرض کرتا ہو۔

اس گھر کی عبادت کا حکیم دیا کہ  آپنے مخلوق کی امتحان لے کہ کیا میرا مخلوق میر ی  بات کو مانتا ہے  یا نہیں  پس سمجھو کہ لوگ اس گھر کی عبادت نہیں  کرتے بلکہ یہ امتحان لینے کا ایک ذریع ہے۔

مستدک الوسائل ج 10 میں آیا ہیں کہ شبیلی  نے اما م سجاد علیہ السلام  کی خدمت میں عرض کیا کہ مولا میں حج کرنے گیا تھا تو حضرت نے فرمایا :کہ بتاؤ جس طرح میں بولتا ہو کیا تم نے ویسا حج کیا  یا نہیں ؟

(«أَنَّهُ لَمَّا رَجَعَ مَوْلَانَا زَيْنُ الْعَابِدِينَ علیه السلام مِنَ الْحَجِّ اسْتَقْبَلَهُ الشَّبْلِيُّ فَقَالَ علیه السلام لَهُ: حَجَجْتَ يَا شَبْلِيُّ؟ قَالَ نَعَمْ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ فَقَالَ علیه السلام أَ نَزَلْتَ الْمِيقَاتَ وَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِيطِ الثِّيَابِ وَ اغْتَسَلْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ علیه السلام فَحِينَ نَزَلْتَ الْمِيقَاتَ نَوَيْتَ أَنَّکَ خَلَعْتَ ثَوْبَ الْمَعْصِيَةِ وَ لَبِسْتَ ثَوْبَ الطَّاعَةِ قَالَ لَا قَالَ فَحِينَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِيطِ ثِيَابِکَ نَوَيْتَ أَنَّکَ تَجَرَّدْتَ مِنَ الرِّيَاءِ وَ النِّفَاقِ وَ الدُّخُولِ فِي الشُّبُهَاتِ قَالَ لا قَالَ علیه السلام فَحِينَ اغْتَسَلْتَ نَوَيْتَ أَنَّکَ اغْتَسَلْتَ مِنَ الْخَطَايَا وَ الذُّنُوبِ قَالَ لَا قَالَ علیه السلام فَمَا نَزَلْتَ الْمِيقَاتَ وَ لَا تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِيطِ الثِّيَابِ وَ لَا اغْتَسَلْتَ ثُمَّ قَالَ علیه السلام تَنَظَّفْتَ وَ أَحْرَمْتَ وَ عَقَدْتَ بِالْحَجِّ قَالَ نَعَمْ قَالَ علیه السلام فَحِينَ تَنَظَّفْتَ وَ أَحْرَمْتَ وَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَيْتَ أَنَّکَ تَنَظَّفْتَ بِنُورَةِ التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ لِلَّهِ تَعَالَى قَالَ لَا قَالَ علیه السلام فَحِينَ أَحْرَمْتَ نَوَيْتَ أَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَى نَفْسِکَ کُلَّ مُحَرَّمٍ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ لَا قَالَ فَحِينَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَيْتَ أَنَّکَ قَدْ حَلَلْتَ کُلَّ عَقْدٍ لِغَيْرِ اللَّهِ قَالَ لَا قَالَ لَهُ علیه السلام مَا تَنَظَّفْتَ وَ لَا أَحْرَمْتَ وَ لَا عَقَدْتَ الْحَجَّ قَالَ علیه السلام لَهُ أَ دَخَلْتَ الْمِيقَاتَ وَ صَلَّيْتَ رَکْعَتَيِ الْإِحْرَامِ وَ لَبَّيْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ علیه السلام فَحِينَ دَخَلْتَ الْمِيقَاتَ نَوَيْتَ أَنَّکَ بِنِيَّةِ الزِّيَارَةِ قَالَ لَا قَالَ فَحِينَ صَلَّيْتَ الرَّکْعَتَيْنِ نَوَيْتَ أَنَّکَ تَقَرَّبْتَ إِلَى اللَّهِ بِخَيْرِ الْأَعْمَالِ مِنَ الصَّلَاةِ وَ أَکْبَرِ حَسَنَاتِ الْعِبَادِ قَالَ لَا قَالَ فَحِينَ لَبَّيْتَ نَوَيْتَ أَنَّکَ نَطَقْتَ لِلَّهِ سُبْحَانَهُ بِکُلِّ طَاعَةٍ وَ صُمْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِيَةٍ قَالَ لَا قَالَ لَهُ علیه السلام مَا دَخَلْتَ الْمِيقَاتَ وَ لَا صَلَّيْتَ وَ لَا لَبَّيْتَ ثُمَّ قَالَ لَهُ أَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَ رَأَيْتَ الْکَعْبَةَ وَ صَلَّيْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَحِينَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ نَوَيْتَ أَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَى نَفْسِکَ کُلَّ غِيبَةٍ تَسْتَغِيبُهَا الْمُسْلِمِينَ مِنْ أَهْلِ مِلَّةِ الْإِسْلَامِ قَالَ لَا قَالَ فَحِينَ وَصَلْتَ مَکَّةَ نَوَيْتَ بِقَلْبِکَ أَنَّکَ قَصَدْتَ اللَّهَ قَالَ لَا قَالَ علیه السلام فَمَا دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَ لَا رَأَيْتَ الْکَعْبَةَ وَ لَا صَلَّيْتَ ثُمَّ قَالَ طُفْتَ بِالْبَيْتِ وَ مَسِسْتَ الْأَرْکَانَ وَ سَعَيْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ علیه السلام فَحِينَ سَعَيْتَ نَوَيْتَ أَنَّکَ هَرَبْتَ إِلَى اللَّهِ وَ عَرَفَ مِنْکَ ذَلِکَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ قَالَ لَا قَالَ فَمَا طُفْتَ بِالْبَيْتِ وَ لَا مَسِسْتَ الْأَرْکَانَ وَ لَا سَعَيْتَ ثُمَّ قَالَ لَهُ صَافَحْتَ الْحَجَرَ وَ وَقَفْتَ بِمَقَامِ إِبْرَاهِيمَ علیه السلام وَ صَلَّيْتَ بِهِ رَکْعَتَيْنِ قَالَ نَعَمْ فَصَاحَ علیه السلام صَيْحَةً کَادَ يُفَارِقُ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ آهِ آهِ ثُمَّ قَالَ علیه السلام مَنْ صَافَحَ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ فَقَدْ صَافَحَ اللَّهَ تَعَالَى‏» (نورى، حسين بن محمد تقى‏، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل‏، 10/166-168))

آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آپ سیے ہو ئےکپڑے نکال رہے تھے اور  احرام بند رہے تھے تو کیا آپ نے یہ نیت کیا میں ریا  حسد اور کینہ اور شبھات میں پڑنے سے نکل رہا ہو۔ اس نے کہا نہیں  ۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہ جب  آپ غسل کر رہے تھے تو کیا آپ نے نیت کیا کہ آپ گناہوں  اور پلیدیوں سے آپنے آپ کو  دھو رہے ہو؟ کہا نہیں۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: پس نہ آپ میکات پر گئے او ر نہ آپنے احرام باندھا اور نہ غسل کیا ۔

پھر فرمایا: کیا آپ پاک صاف ہو کر  آپ نے احرام باندھا   اور حج کرنے کا  نیت کیا تو اس کہا ہاں ۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا : کہ جب آپ احرام باندھ رہے تھے تو کیا یہ نیت کیا کہ  یہ اطاعت اور بندگی کی لباس پہن رہا ہو۔ کہا نہیں  یا مولاہ۔  آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آپ پر میکات پر گئے اور وہاں لبیک کہنے لگے تو کیا آپ یہ نیت کیا کہ میرا زبا  ن آب  وہی بولے گا جو اللہ مجھے  سے چاہتا ہے اور سب گناہ اور معصیت پر گونگ ہوگا؟ کہا نہیں یا مولاہ۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: جب آپ حرم میں داخل ہو رہے تھے تو کیا یہ نیت کیا کہ آپ کسی مسلمان  کا غیبت کرنا  آپنے اوپر حرام کیا ہو کہا نہیں یا مولاہ ۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہ جب آپ سعی کر رہے تھے تو کیا آپ نے یہ نیت کیا میں تمام  گناہ ، معصیت  اور شیطان سے بھاگ رہا ہو؟  کہا نہیں  یا مولاہ۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: جب آپ حجر اسود کو چھوم رہے تھے تو کیا آپ نے یہ نیت کیا کہ گویا آپ اللہ سے مصافحہ کر رہے ہو۔ کہا نہیں یا مولاہ ۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہ حجر اسود کو چھومنا اللہ سے مصافحہ کرنے کے برابر ہے۔ یہ حدیث طولانی ہے لیکن ایک اور جواب جو امام صادق علیہ السلام نے ابن ابی العوجا کا دیا تھا آپ لوگوں کے خدمت میں عرض کروں۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہ   ان لوگو ں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان پتھروں کی طواف کریں او رحجر اسود کوچھومنے کے بعد  ہم اھل بیت کے پاس آکر آپنے مدد  کا اظہار کرتے ہوئے اللہ اور اور اسکے رسول اور اسکے اہلبیت کی بیعت کریں  اور مدد کیلئے لبیک بھولے ۔

یاد  رہے کہ یہ لبیک اب امام زمان علیہ السلا م کے لیئے ہیں۔