۱۴۰۰/۴/۲۶
0:40
ویزیٹ:2475
معصومین(ع) ارشیو
امام محمد باقر علیہ السلام کی شخصیت اور انکے علمی کمالات |
|
امام محمد باقر علیہ السلام کی شخصیت اور انکے علمی کمالات
امام محمد باقر (ع) اہلبیت کے پاکیزہ اور نورانی سلسلے کے ایک فرد ہیں۔ آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار
اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا اس لئے آپ کا لقب ''باقر العلوم'' قرار پایا۔
١۔ابتدائیہ:
قرآن ہمیں لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ کے ذریعہ خلقت کے بہترین نمونوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کوئی مکتب فکر اس وقت تک پائیدار نہیں
ہوسکتا اگر اس میں کوئی عملی نمونہ نہ ہو۔ زیرِ نظر مقالے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ابو جعفر امام محمد باقر(ع) ؑساتویں معصوم اور پانچویں آفتاب امامت ہیں۔ ان کی زندگی تمام تر عقل و دانش سے تعبیر ہے اور اسی حوالے سے آپ کو باقر
العلوم کہا جاتا ہے یعنی عقلی مشکلات کو شگافتہ کرنیوالے اور معرفت کی پیچیدگیوں کو آسان کرنیوالے ۔ آفتاب کی خصلت یہ ہے کہ وہ تاریکی کا پیچھا کرتا
ہے اور جیسے ہی زمانہ کے افق پر جہل کے تاریک لمحات نمایاں ہوتے ہیں ان کو روشنی سے بدل دیتا ہے۔ امام محمد باقر (ع) کا سب سے بڑآ فیض ملوکیت
کے ظلم و جور کے ماحول میں معرفت کے پیغام کو پھیلانا ہے۔
٢۔ مختصر احوال:
امام محمد باقر (ع) کی ولادت یکم رجب ٥٧ھ بمقام مدینہ ہوئی، سنہ پیدائش میں ٥٦تا ٥٩ ھ میں ٥٧ پر مورخین کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ
کربلا کے وقت آپ کا سن ٤ سال تھا۔ یہ بھی ایک مصلحت خداوندی ہے کہ بیک وقت تین معصومین میدان کربلا میں موجود تھے۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے
اس بات کا انتظام ہے کہ روز حشرجب اس ظلم کا انصاف ہو تو دو معصومین بطور شاہد عینی موجود ہوں۔
ماں اور باپ کی جانب سے آپ کا شجرہ پاکیزہ ہے آپ کی والدہ فاطمہ بنت امام حسن علیہ السلام ہیں ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ پہلے علوی خاتون ہیں جن کے
بطن سے علوی فرزند کی پیدائش ہوئی اس حوالہ سے آپ کو'' ابن الخیر تین'' بھی کہا جاتا ہے یعنی نیکوں کی اولاد ۔ (ذیشان حیدر جوادی۔١)
امام باقر (ع) کی دو ازواج تھیں ایک ام فروہ دختر قاسم بن محمد ابن ابی بکر اور دوسری ام حکیم دختر ولید بن مغیرہ ، ہر چند ام فروہ نسل ابو بکر سے تھیں
لیکن اپنے والد قاسم کی طرف اماموں کے حق اور معصومین کی ولایت کی قائل تھیں۔ (احمد ترابی۔٢) امام محمد باقر (ع) کے ٥ فرزند یعنی امام صادق(ع) (
جن کی والدہ ام فروہ) عبداﷲ، ابراہیم، عبیداﷲ اور علی اور دو بہنیں زینب اور ام سلمہ تھیں۔
آپ کی شہادت ٧ ذی الحجہ ١١٤ھ میں واقع ہوئی جبکہ آپ کا سن ٥٧ سال کا تھا۔ ہشام بن عبدالملک نے زہر دیا اور امام کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی ۔
امام باقر (ع) کی زندگی کے واقعات کے سن و سال میں کچھ اتفاقی ربط اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ ٥٧ ھ کی ولادت کے لحاظ سے ٦١ھ میں واقعہ کربلا کے
وقت آپ کی عمر ٤ سال تھی یعنی ابتدائی ٤ سال اپنے دادا امام حسین (ع) کے دور امامت میں گزارے۔ اس کے بعد ٦١ھ سے ٩٥ھ تک یعنی ٣٤ سال اپنے والد
امام زین العابدین کے ساتھ گزارے اس طرح کل ٣٨ سال کا عرصہ ہے۔ ١١٤ھ میں شہادت کے لحاظ سے امام باقر (ع) کی امامت کا دورانیہ ١٩ سال بنتا ہے۔
(یعنی ٩٥ تا ١١٤ھ) اس طرح امام کی زندگی کے اہم واقعات کا دورانیہ (یعنی ١٩،٣٨،٥٧ سال) ١٩ کے ہند سے کے اضعاف ہیں۔ اور پھر ١٩ کا ہندسہ بسم اﷲ
الرحمن الرحیم کے حروف کا ہم عدد بھی ہے جن کے خواص پر بے شمار بحث کی گئی ہے۔ ہر علم کی ابتدا بسم اﷲ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے اور امام خود
باقر العلوم ہیں۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے۔ المختصر یہ کہ امام باقر ان بارہ اماموں میں شامل ہیں جن کو خالق کائنات نے نظام اسلام کی ترویج و تحفظ کے لئے
منتخب کر کے ان کے حوالے امت کی ہدایت کا کام کیا ہے۔
٣۔ تاریخ کا سفر
امام باقر علیہ السلام کی شخصیت اور فیوض کے جائزہ کے لئے ہم تھوڑی دیر کے لئے تاریخ کے اوراق کے ہمسفر بن جاتے ہیں۔ یہ نظر آتا ہے کہ دعوت
ذوالعشیرہ کے نتیجہ میں اس وقت کا عرب معاشرہ دو طبقوں میں بٹ گیا، ایک رسول کا ہمنوا اور دوسرا مخالف، دیکھتے دیکھتے آنحضرت کی رسالت کے
٢٣ سال گزر گئے۔ ذی الحجہ ١١ھ یعنی اپنی وفات سے ٢ ماہ قبل حضرت نے ''حکم بّلغ'' کی تعمیل میں حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کردیا۔
یوں تو اس اعلان پر بہت مبارکیں پیش کی گئیں لیکن دلوں کے راز سقیفہ میں کھل کر سامنے آگئے اور جو فیصلے ہوئے وہ سب جانتے ہیں اور پھر چشم روز
گار نے دیکھا کہ ٢٥ سال کے عرصے میں امام وقت کو مدینہ میں اپنے ہی مکان میں محصور ہونا پڑا اور اہلبیت(ع) کے مخالفین کی ہمتیں اتنی بڑھ گئی کہ
مولائے کائنات کو مسجد کوفہ میں حالت نماز میں شہید کردیا گیا۔ اس ٢٥ سال کے عرصہ میں ظلم و استبداد کے ایسے مناظر نظرآتے ہیں کہ ﷲ اکبر کے
نعرے لگاتے ہوئے ہنستی بستی آبادیوں کو خدا اور رسول کے نام پر ویران کرتے چلے گئے۔ اسلامی مملکت کے وسعتوں میں اضافے نے غرض مندوں کی
فوج در فوج کو اسلام کی طرف مائل کیا۔ اس تمام عرصہ میں واقعات کے دھاروں نے متذکرہ بالا دونوں گروہوں کو اپنے خود ساختہ اصول اور مقاصد میں
پختگی پر مجبور کیا۔ بالخصوص سیرت شیخین کی اتباع ہیرو پرستی کے طور پر ابھر کر اسلام کے بیمار جسم میں سرایت کر گئی ، زمانہ کے رجحان کا
اندازہ اس حقیقت سے لگاسکتے ہیں کہ امیرالمومنین کی شہادت کے صرف ٢٠ سال بعد جب سانحہ کربلا واقعہ ہوا تو یزید کے لشکر کی تعداد ٣٠ ہزار سے
ایک لاکھ تک بتائی جاتی ہے جبکہ فرزند رسول کے ساتھ صرف ٧٢ جاں نثار تھے ۔ اس دوران اسلام کی شکل اس طرح بگاڑ دی گئی کہ دربار شام میں
سینکڑوں سر برآوردہ ہستیوں کی موجودگی میں یزید کو یہ کہنے کی جرات ہوئی کہ (نعوذ باﷲ) محمد نے ایک کھیل کھیلا تھا نہ کوئی وحی نہ خبر آئی تھی۔
شیعوں کے لئے معاویہ اور یزید کا ٢٤ سالہ دور بہت مشکل زمانہ تھا امام سجاد (ع) اور امام باقر (ع) مسلسل محاصرہ میں رہے۔ (محمد حسین طباطبائی۔٣)
متذکرہ ماحول کے باوجود شیعہ ائمہ نے رشد و ہدایت کے کارنامے انجام دیئے ہیں جو غیبت کبریٰ کے طویل زمانہ میں ہماری رہبری کے لئے روشنی کے
مینار ہیں، امام باقر (ع) کی ایسی ہی چند خصوصیات اس مقالہ کی زینت ہیں۔ ان گزارشات کو ہم دلیل امامت سے شروع کرتے ہیں۔
٤۔ دلیل امامت :
شیعہ عقیدہ کے بموجب امامت کوئی انتخابی عہدہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک خدا دادی وصف ہے جس کا تعین خود ﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام اپنے بعد آنے والی
شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے اس عمل کو نص کہتے ہیں یعنی منشائے الہیٰ کا اظہار ، امام علی ابن الحسین مناسب اوقات پر اپنے فرزند محمد کی امامت کے
متعلق بیان فرماتے تھے۔ (اصول کافی۔٤)
امام باقر کی دلیل امامت میں امام کے نام آنحضرت(ص) کے سلام کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ نے جابر ابن عبداﷲ انصاری کے ذریعہ امام باقر (ع) کو پہونچایا۔
اس سلام کی اہمیت یہ ہے کہ جس رسول کو سلام کرنا ساری انسانیت اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہو وہ ذات مقدس امام باقر (ع) کو سلام پہنچاتی ہے۔ جابر ابن
عبداﷲ انصاری کا شمار معزز اصحاب رسول میں ہوتا ہے ۔ آبان بن تغلب جو کہ امام جعفر صادق(ع) کے صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ جابر مسجد میں
اکثر صدا دیتے تھے۔ ''اے باقر العلم ، اے باقر العلم '' لوگوں کے پوچھنے پر جابر جواب دیتے تھے کہ رسول خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ تم اپنی عمر کے
آخری حصہ میں میرے ایک فرزند سے ملاقات کرو گے جو میرا ہمنام ہوگا اور علوم حقائق کو شگافتہ کریگا۔ (اصول کافی)
محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ وہ جابرکے ہمراہ بیٹھے تھے تو امام سجاد اپنے کمسن بیٹے محمد کے ساتھ آئے اور امام نے اپنے فرزند سے کہا کہ اپنے
چچا کے سر کا بوسہ لو، اسو قت جابر بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔ جابر کے پوچھنے پر امام نے فرمایا کہ یہ میرا بیٹا محمد ہے۔ جابر نے امام باقر کو
اپنی آغوش میں لیا اور کہا کہ '' اے محمد رسول خدا نے تجھ کو سلام بھیجا ہے۔'' محمد باقر نے ''وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر جواب دیا ۔ ( اسی قسم سے ملتی جلتی
روایت احمد حجر مکی کی مشہورکتاب صوائق محرقہ میں بھی ملتی ہیں)۔
ان روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آنحضرت ان آنے والے حالات سے آگاہ تھے کہ عہد امامت سید سجاد(ع) تک پہونچنے تک امت کا مزاج اس قدر بگڑ
جائیگا کہ امام مفترض الطاعۃ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا امام بنالیں گے۔
٥۔ امامت کے جواز کی کشمکش:
واقعہ کربلا نے دنیائے شیعیت میں اہلبیت(ع) کے دوستوں کے مذہبی اور اخلاقی جذبات کو جھنجوڑ دیا اور ایک احساس ندامت کے نتیجہ میں مختلف تحریکیں
معرض وجود میں آ گئیں۔ ان میں ایک گروہ توابین کا بھی ہے۔ اس ضمن میں عہدہ امامت کی وراثت کے جواز (legitimacy) کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ دور امیر
المومنین سے لیکر شہادت امام حسین(ع) تک عمل درآمد سے اس نظریہ امامت کی توثیق ہوتی ہے کہ سلسلہ امامت اولاد علی(ع) میں رہے گا لیکن اس
خصوصیت کے ساتھ کہ یہ اولاد حضرت زہراؑ(ع) یا نسل حسین (ع) سے ہو ۔ حدیث آنحضرت :'' اے حسین تمہاری نسل میں ﷲ نے ٩ امام چنے ہیں ان میں
نویں حضرت قائم ہیں یہ سب کے سب فضل و منزلت میں خدا کے نزدیک مساوی و برابر ہیں۔''
توابین نے بہ حیثیت ایک گروہ انتقام خون حسینی کے لئے مختار کا ساتھ دینے سے محض اس بناء پر انکار کردیا کہ حضرت مختار چند سیاسی مصلحتوں کے
پیش نظر امام حسین (ع) کے بعد محمد ابن حنفیہ کو اپنا سر دار مانتے تھے۔ مورخین حضرت مختار کے اس عمل کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہ امام زین
العابدین (ع) نے اپنے آپ کو امور سلطنت سے دور رکھا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب ادعائے امامت ضروری سمجھا گیا تو امام سجاد نے حجر اسود سے
اس کی گواہی لی جس کو محمد ابن حنفیہ نے کھلے دل سے قبول کرلیا امام کے اس اقدام نے مستقبل میں ہمیشہ کے لئے امامت کو علی اور فاطمہ علیہما السلام
کی اولاد میں مرکوذ کردیا تاکہ کوئی جھوٹا مدعی کامیاب نہ ہوسکے۔ (حسین محمد جعفری ۔٥)
٦۔امام باقر کی سیاسی شخصیت
واقعہ کربلا کے بعد ائمہ اہلبیت(ع) کی ذمہ داریوں کا ایک نیا باب کھلتا ہے ان کی اولین ذمہ داری ان نظریات کا تحفظ اور اشاعت جن کے لئے کربلا میں
قربای دی گئی تھی۔ لیکن ائمہ معصومین اپنے آپ کو سیاسی ماحول سے لا تعلق بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ اصلاح اخلاق، عقائد، خاندانی اور اجتماعی تعلقات
اور تنازعات اور اقتصادیات ایسے امور ہیں کہ ان کو ملوکیت کے استبداد اور جہل کے سایہ سے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا۔ وقت ضروری جب ان امور
میں امام سے مدد یا مشورہ طلب کیا گیا تو امت کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر امام وقت نے حکومت کی مدد کی۔
امام باقر کی سیاسی بصیرت سے متعلق ایک اہم واقعہ اسلامی سکہ کی تیاری اور رواج کا ہے۔ مختصر واقعہ یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان کے حکومت کے
دور میں مسلم ممالک کا اپنا کوئی سکہ نہیں تھا بلکہ رومی سکہ کا رواج تھا ۔ حکومتی استعمال کے لئے کاغذ مصر میں تیار ہوتا تھا جہاں نصرانی حکمراں
تھے کاغذوں پر واٹر مارک کا ٹھپہ عام رواج تھا۔ نصرانی بادشاہوں نے واٹر مارک کے طور پر رب، ابن 'روح القدس ، کا نشان بنایا جو باپ، بیٹا اور روح
القدس کے عقیدہ تثلیث کا پر چار کرتا تھا۔ جب اس امر کی اطلاع عبدالملک کو ملی تو اس نے گو رنر مصر کو لکھا کہ رومی ٹریڈ مارک کی جگہ اسلامی کلمہ
''اشھداً لا الہ الا ھو'' لکھو۔ یہ فیصلہ قیصر روم کے لئے نا گوار تھا اس نے عبدالملک کو دھمکی دی کہ اگر رومی ٹریڈ مارک دوبارہ رائج نہیں کیا گیا تو تمام
سکوں پر رسول اکرم (ص) کے بارے میں ناسزا لکھ کر تمام اسلامی ممالک میں بھیج دیگا جو مسلمانوں کے لئے انتہائی تحقیر اور ہتک آمیز ہوگا۔ اس بات
سے تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ آج خاکوں کے ذریعہ سے آنحضرت کی تحقیر کی جا رہی ہے چونکہ یہ ان کی درینہ روش ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
خاکے بنانا ان کا آبائی پیشہ تھا۔ ٣٠٠ سال پہلے قیصر کے اس فیصلہ پر عبدالملک بیحد پریشان ہوا تو آخر کار مشیروں کے کہنے پر حضرت امام باقرعلیہ
السلام کی طرف رجوع کیا جو ابھی ظاہری امامت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ امام نے مشورہ دیا کہ سفیر روم کو شام کے پایہ تخت میں روک لیا جائے اور نئے
اسلامی سکے ڈھال دیئے جائیں جس میں ایک طرف کلمہ توحید ہو، دوسری طرف کلمہ رسالت ہو اور سنہ ایجاد لکھ دیا جائے، یہ علم امامت کی برکت تھی آپ
نے تمام سکوں کے نمونہ ، وزن اور سائز سب اپنی نگرانی میں بنوا کر رائج کردیا۔ قیصر روم بالکل لا چار ہو گیا، اس طرح امام باقرعلیہ السلام کی مدد سے
اسلامی سکوں کا رواج عمل میں آیا۔ (حیواۃ الحیوان دمیری ۔٦)
٧۔ شخصیت علمی
ائمہ اطہار کی زندگی کا تجزیہ کرتے وقت اس نکتہ کو ذہن میں رکھا جائے کہ معصوم کے یہاں زندگی کے طور طریقے اور لوگوں کے ساتھ معاشرت اور
فکری لحاظ سے کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ واحد اختلاف جو ان حضرات کے درمیان نظر آتا ہے وہ موقعیت کا اختلاف (Situational Difference) ہے اس
لئے کہ ہرزمانے میں نئی اور مختلف مشکل وجود میں آتی ہے اور فکر اور سیاسی تقاضے مختلف ہوتے ہیں جبکہ مقاصد یکساں ہوتے ہیں۔ صلح امام حسن اور
قیام امام حسین علیہما السلام کے مقاصد ایک ہی تھے صرف طریقہ کار یعنی حکمتِ عملی (Strategy ) مختلف تھی۔
شیعہ ائمہ کی شخصیت کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان کی علمی ،معنوی ار سیاسی زندگانی کا جائزہ ضروری ہے۔ ہر امام اپنے پیش رو کی طرح ہدایت و رشد
اور دعوت الی اﷲ اور افہام و تبلیغ دین کا منشور عام کرتا رہا۔ آنحضرت کی وفات کے بعد امیر المومنین نے مسجد کوفہ کے منبر سے بار بار کہا '' سلونی قبل
ان تفقدونی'' ( پوچھ لو مجھ سے قبل اس کے کہ تم مجھے گم کردو )۔ حسن بن علی علیہ السلام کو حکومت معاویہ نے مسلسل اجتماعی اور انفرادی دباؤ میں
رکھا امام حسین نے یزیدی حکومت کے شریعت کے خلاف اقدامات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوگئے ان حالات میں بعد کربلا امام
زین العابدینؑ نے معارف قرآنی کو دعا و زاری کے قالب میں ڈھال کر اس کا اظہار کیا، امام سجاد کی شہادت (٩٥ھ) کے بعد امام باقر کو ١٩ سال کا عرصہ ملا
(١١٤ھ تک ) اس عرصہ میں چونکہ بنی امیہ اور بنی عباس میں مملکتی چپقلش ہو رہی تھی توامام باقر (ع) کے لئے ایسے ساز گار حالات پیدا ہوگئے کہ وہ
عوام الناس کو علم و دانش کی راہ پر لگاسکے، یہ امام باقر (ع) کا بہت بڑا احسان ہے کہ تعلیم و تربیت اور شریعت کے مقام کی اہمیت کا احساس دلایا۔ اس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے رجحانات اہل بیت رسول کی طرف بڑھتے ہی گئے اور تقریباً ٤ ہزار افراد آپ کے درس سے فیضیاب ہوتے تھے۔ ( ملک آفتاب
حسین مجلہ ثقلین ٥/٤ ۔ اسلام آباد۔ ١٩٩٨ئ۔٧)
امام باقر (ع) کا یہ بنیادی کام مستقبل میں امام صادق کو فقہ، تفسیر اور اخلاقی امور پر تالیف و تدوین کا موقع ملا جو آج فقہ جعفری کے لئے ایک قیمتی اثاثہ
ہے۔ شعبہ تعلیم سے تعلق کے باعث ان ائمہ کے تقسیم کار کو راقم یہ سمجھتا ہے کہ امام سجاد نے صحیفہ کاملہ کے ذریعہ دعاؤں کی شکل میں ایک نصاب یا
(Curriculum) بنایا ، اس کو ایک جامع شکل میں امام باقر نے اپنی تعلیمات میں شامل کیا جو بالآخر امام صادق(ع) نے ایک جامعہ یا یونیورسٹی کے کلچر
سے متعارف کروایا۔
٨۔ امام باقر فقہا کی نظر میں:
اگر ہزاروں افراد بھی آفتاب کے منکر ہوں لیکن جب وہ طلوع ہو کر اپنی روشنی اور گرمی دیتا ہو تو خود اپنے بہترین وصف کو ظاہر کرتا ہے یعنی آفتاب آمد
دلیل آفتاب ، جو لوگ تعصب کے پردوں میں آنکھیں بند کر لیں تو از خود آفتاب کی روشنی سے محروم رہیں گے اور جو اپنے تعقل کے آئینہ کو کھلا رکھیں تو
انہیں فرق معلوم ہو جائیگا۔ انہی نا مساعد حالات میں یہ امر لائق ذکر ہے کہ ایسے محققین جو مذہب حقہ امامیہ پر سخت تنقید سے نہیں جھجکتے وہ بھی امام
باقر (ع) کے آثار علمی کے قائل ہیں اور اپنا ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں ان میں چند قابل ذکر نام ذیل میں دیئے جاتے ہیں۔
١۔ حافظ ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی ، کتاب حلیۃ الدولیا و طبقات الاوصیائ
٢۔ علامہ سبط ابن جوزی، کتاب التذکرہ
٣۔ ابن کثیر ، کتاب البدایۃ و النھایۃ
٤۔ شمس الدین محمد بن احمد ، کتاب سیر العلوم النبلائ
٥۔ احمد بن حجر مکی المھیتمی ۔ کتاب صوائق محرقہ
٩۔ آراء کا خلاصہ
ان فقہا کی آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ :
'' ابو جعفر محمد بن علی پیکر علم و عمل و سیادت شرف و متانت اور شائستگی میں خلافت رسول اﷲ کے حقدار تھے۔۔۔۔۔۔ وہ شیعوں کے بارہ اماموں میں سے
ایک تھے۔۔۔۔۔۔ اہل دانش محمد بن علی ابن الحسین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ علم کو شگافتہ کرنیوالے اور دانش کو تقسیم کرنیوالے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ پرچم علم و
دانش کو بلند کرنیوالے، صاف قلب ، علم و عمل، پاکیزہ اور نفس طاہر کے حامل تھے۔۔۔۔۔۔ عارفوں کی زبان ان کی تعریف سے قاصر ہے (مختلف کتب)''۔
آپ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئے کہ آپ نے علم کو شگافتہ کیا اور اس کی ارزش و قیمت کو حد مطلوب تک پہونچایا ہے۔ محمد بن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد
بن علی دانش کو شگافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں ۔ آپ کی حکمت آشکار اور علم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا اقوال بزرگ اسلامی دانشوروں کے اظہار کے بعض حصے ہیں جو آپ کے مقام کی بلندی و عظمت کی تشریح کرتے ہیں۔
صدر اسلام کے فقیہوں میں اکثر امام باقر (ع) اور صادق(ع) کے اصحاب تھے، زرارۃ بن اعین، معروف المکی، ابوبصیر الاسدی، فضیل بن یسار، محمد بن مسلم، (حوالہ: مناقب شہر آشوب) محمد بن مسلم ( صحیح مسلم میں) امام باقر سے ٣٠ ہزار حدیثیں اور بابر جعفی نے ٧٠ ہزار، شیخ الطائفہ محمد بن حسن طوسی نے اپنی کتاب رجال میں ٤٩٢ افراد کے نام نقل کئے ہیں جنہوں نے امام سے فیض حاصل کیا تھا۔
١٠۔ علمی فیوض ۔ باقر العلوم
امام کے علمی مبارزوں میں کفر و شرک ، ظلم وستم، جابر حاکموں کی تنبیہ، بے راہ روی اور اصلاح ، اجتماعی کی کوشش، جابر حکمرانوں کی ہدایات،
اجتماعی عدل، تقیہ اور اس کی ضرورت شامل ہے۔ تقیہ کے متعلق امام نے فرمایا کہ :
''تقیہ میرے اور میرے آباء کے دین کا حصہ ہے اور کسی نے وقت ضرورت اس پر عمل نہیں کیا تو وہ صاحب ایمان نہیں۔ مومن کے لئے تقیہ حق سے چشم
پوشی نہیں بلکہ حق کے حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ ''( بحار الانوار ۔٨)
امام باقر(ع) کے دیگرعلمی فیوض میں احکام فقہ کی تدوین، اجتہاد اور استنباط کے احکام کا مرتب کرنا، تقیہ کی موجودگی میں شیعی اعتقاد اور سیاسی شعور
کی تربیت ، فقہ، کلام اور مباحث اخلاق میں شاگردوں کی تربیت شامل ہے۔
امام باقر کے القاب میں باقر سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ بقر کے معنی واشگاف کرنے کے ہیں ۔ آپ نے اسرار و رموز اور علوم وفنون کو اس قدر وسعت دی
کہ اور ان کی اس طرح تشریح کی ہے کہ دوسرے افراد کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شہید ثالف علامہ نور اﷲ شوشتری کا کہنا ہے کہ آنحضرت
نے ارشاد فرمایا کہ امام محمد باقر علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کریں گے جس طرح زراعت کے لئے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔ (مجالس المومنین ۔٩)
کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا بہت دشوار ہے کیونکہ معصوم اور امام کا علم لدنی ہوتا ہے۔ وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھر پور
متولد ہوتا ہے ۔ ان کے علم کا احصاء ممکن نہیں البتہ مثال کے طور پر کچھ آراء اور واقعات پر اکتفا کیا جاتاہے۔ امام محمد باقر (ع) اہلبیت کے پاکیزہ اور
نورانی سلسلہ کی ایک فرد ہیں آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا۔ اس لئے آپ کا لقب ''باقر العلوم ''قرار پایا۔
علامہ طبری لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عام ہے کہ امام باقر علم و زہد اور شرف میں ساری دنیا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے
علم القرآن ، علم الآثار، علم السنن اور دیگر علوم میں کوئی بھی برتر نہیں ہے۔ آپ پر آنحضرت(ص) نے جابر بن عبداﷲ انصاری کے ذریعہ سلام کہوایا تھا اور
اس کی پیشنگوئی فرمائی کہ میرا فرزند''باقر العلوم '' ہوگا۔
حوالہ جات
١۔ ذیشان حیدر جوادی ۔ نقوش عصمت
٢۔ احمد ترابی
٣۔ محمد حسین طباطبائی
٤۔ یعقوب کلینی ۔ اصول کافی
٥۔ حسین محمد جعفری
The Origin and Early Developnement of Shia Islam Qum 1976
٦۔ دمیری ۔ حیواۃ الحیوان
٧۔ ملک آفتاب حسین ۔ مجلہ ثقلین ٥/٤ ۔ اسلام آباد۔ ١٩٩٠ئ
٨۔ علامہ مجلسی ۔ بحار الانوار
٩۔ قاضی نور اﷲ شوستری ۔ مجالس المومنین
محقق: ڈاکٹر میر محمد علی
|
|