امام(ع) کی عمومی مرجعیت
اس زمانے کے تمام سیاہ دل اور شیطان صفت دشمنوں کی پھیلائی ہوئی تاریکی کے باوجود آپ(ع) کا وجودِ ذی جود اس طرح نور پھیلاتا تھا کہ کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اہلسنت کے بزرگ عالم، ذہبی، آپ (ع) کے بارے میں کہتے ہیں:
’’وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے علم و عمل، بزرگی و عظمت اور وثاقت و متانت کو اپنے اندر جمع کر لیا تھا اور خلافت کے لئے اہل تھے۔‘‘
نیز ایک اور بزرگ عالمِ اہلسنت، ابوزہرہ، امام (ع) کی مرجعیت عمومی کے بارے میں کہتے ہیں:
’’امام باقر(ع) امامت اور ہدایت میں وارثِ امام سجاد (ع) تھے۔ اسی لئے، سرزمینِ اسلام کے تمام خطوں سے لوگ آپ کے حضور شرفیاب ہوتے اور جو کوئی بھی مدینہ آتا وہ آپ(ع) کی خدمت میں ضرور پہنچتا اور آپ (ع) کے علم کے سمندر سے استفادہ کرتا تھا۔‘‘
امام باقر(ع) کی فعالیت
تاریکی میں روشنی کا مینار: پہلی صدی ہجری کے اختتام اور کشورکشائی کے آغاز کے ساتھ مسلمانوں کی اسلام سے بے خبری اپنے عروج تک پہنچ گئی تھی۔ جنگی امور اور مالی معاملات نے لوگوں کو علمی و تہذیبی فعالیت اور دینی تربیت سے غافل کر دیا تھا۔ بعض تاریخیں تو یہ تک بتاتی ہیں کہ بہت سے لوگ تو نماز اور حج بجا لانے کے صحیح طریقے سے بھی واقف نہیں تھے۔ ٹھیک اسی زمانے میں امام باقر (ع) نے دربارِ خلافت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالا اور علمی و فرہنگی مکتب کی بنیادیں رکھنا شروع کردیں جسے آپ (ع) کے بعد آپ (ع) کے فرزند، امام صادق(ع) نے عظیم یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا اور عظیم دانشوروں کی تربیت ہونے لگی۔
سیاسی اور فرہنگی سرگرمیاں:
پہلی صدی ہجری کے آخری برسوں میں امام باقر (ع) کی علمی کاوشیں دنیائے اسلام کے لئے حیاتِ نو کی نوید تھیں۔ اس زمانے کے سیاسی حالات امام(ع) کو یہ موقع فراہم کرتے تھے کہ آپ (ع) علومِ اہلبیت (ع) کے فروغ کے لئے جدوجہد کریں۔ جو روایات آج ہمارے پاس ہیں، ان کا ایک بڑا حصہ آپ(ع) ہی سے منقول ہے۔ تاریخ میں یہاں تک مرقوم ہے کہ: ’’امام حسن(ع) اور امام حسین (ع) کی اولاد میں تفسیر، کلام، فتوی اور حلال و حرام کے احکام کے بارے میںجو روایات آپ (ع) سے نقل ہوئی ہیں، وہ کسی اور سے صادر نہیں ہوئیں۔‘‘ علومِ اسلامی کا یہ جامع اور کامل مجموعہ ایسی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے جس پر مکتبِ تشیع کی وسیع و مستحکم اور ہر مکتبِ فکر سے بے نیاز عمارت تعمیر ہوئی ہے۔
سلام و درود خدا ہو اس چراغ پر جو تمام انسانوں کے لئے باعثِ ہدایت ہے!
فقہِ تشیع کے موسس:
رسولِ خدا0 کی وفات کے بعد پہلی صدی ہجری کے آخر تک تدوینِ حدیث پر پابندی کے سبب احکامِ فقہی گوشہ گیر اور عوام الناس احکامِ دین سے غافل ہوگئے تھے۔ آخرکار امام محمد باقر (ع) کے ہم عصر خلیفہ، عمر بن عبد العزیز نے احادیث لکھنے کا حکم دیا جس کے بعد تقریباً سو سال پہلے فراموش ہو جانے والی احادیث مختلف راویوں کے ذریعے لکھی جانے لگیں۔ اس عمل نے سوسائٹی میں فقہی اختلافات کا طوفان برپا کر دیا اور معاشرہ حیران و سرگرداں ہو گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب امت اسلامی کی کشتی کے ناخدا، حضرت امام محمد باقر (ع) نے اپنی الہی ہدایت کا اظہار کیا۔ آپ(ع) نے، جو کہ مکتبِ اہلبیت (ع) کے نمائندے اور شیعہ فقہ کے اولین موسس تھے، اپنے اجداد کی درست روایات کو بیان کر کے مکتبِ تشیع کی فقہ کی بنیاد ڈالی۔۔ ایک ایسا بھرپور مکتب کہ جو دینِ مبین اسلام کا جامع اور کامل دستور العمل اور انسانی زندگی کے لئے مکمل رہنما ہے۔
غلو کا مقابلہ:
پہلی صدی ہجری کے اواخر میں مقامِ امامت کے حوالے سے لوگوں کا اندازِ فکر شدید اختلافات کا شکار ہو گیا تھا۔ ایک جانب سے کچھ لوگ خلافت کو بنوامیہ کا حق سمجھتے تھے اور مقامِ عصمت سے یکسر غافل تھے تو دوسری جانب سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے مقامِ امامت کے بارے میں غلو سے کام لینے لگے تھے۔ یہ لوگ معرفت امام کا نام لے کر اپنے آپ کو اسلامی ذمہ داریوں سے بری الذمہ سمجھنے لگتے تھے اور کامیابی کے لئے امام کی شناخت کو کافی سمجھتے تھے۔ امام محمد باقر (ع) ائمہ کرام کے مقامِ عصمت پر تاکید کرتے ہوئے عملِ صالح کی بھی تلقین کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہماری، ہمارے آثار کی اور ہمارے اعمال کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ مضبوط ایمان کے ساتھ ساتھ شیعوں کو عمل کی جانب راغب کرنے کے لئے امام (ع) کی یہ تاکید‘ ان تمام فرقوں کے مقابلے میں امام (ع) کا اہم اقدام تھا جو عمل کے لئے کسی اہمیت کے قائل نہ تھے اور شناختِ امام کو اپنی سستی اور غفلت پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
|