حضرت امام حسین علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ
حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے برادر بزرگوار کے بعد حکم خد ا اور اپنے بھائی کی وصیت سے امامت کے عہدہ پرفائز ہوئے او رمعاویہ کی خلافت کے دوران تقریباًدس سال زندگی گزاری اوراس مدت میں اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے رہے اور جب تک معاویہ زندہ تھا امام کوئی موثرکام انجام نہ دے سکے ۔تقریباً ساڑھے نوسال کے بعد معاویہ مر گیا ،اورخلافت جوسلطنت میں تبد یل ہو چکی تھی اس کے بیٹے یزید کو ملی ۔
یزید ،اپنے ریاکار باپ کے برعکس ،ایک مست ،مغرور،عیاش،فحاشی میں ڈوبا ہوا اور لاابالی جوان تھا ۔یزید نے حکومت کی باگ ڈورسنبھالتے ہی مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے اس کے لئے بیعت لے ورنہ ان کا سر قلم کر کے اس کے پاس بھیجدے ۔اس کے بعد مدینہ کے گورنر نے حکم کے مطابق امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت کا تقاضا کیا،آپ نے مہلت چاہی اور رات کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ راہی مکہ ہوئے ۔اورحرم خدا میں ،جواسلام میں ایک سرکاری پناہ گاہ ہے ،پناہ لی ،لیکن وہاں پر کچھ مہینے گزار نے کے بعد ،سمجھ گئے کہ یزید کسی قیمت پر آپ سے دست بردارہونے والا نہیںہے ،اوربیعت نہ کرنے کی صورت میں ،آپ کاقتل ہونا قطعی ہے۔اور دوسری جانب سے اس مدت کے دوران عراق سے کئی ہزار خطوط حضرت کی خدمت مین پہنچے تھے کی جن میں آپ کی مدد کاوعدہ دے کر ظالم بنی امیہ کے خلاف تحریک چلانے کی دعوت د ی تھی ۔
امام حسین علیہ السلام عمومی حالات کے مشاہدہ سے اورشواہدوقرائن سے سمجھ چکے تھے کہ آپ کی تحریک ظاہری طورپر آگے نہیں بڑھ سکتی ہے،اس کے باوجود یزید کی بیعت سے انکار کرکے قتل ہونے پر آمادہ ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تحریک کا آغاز کر کے مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستہ میں سرزمین کربلا (کوفہ سے تقریبا ً ستر کلومیٹر پہلے) دشمن کے ایک بڑے لشکر سے آپ کی مڈ بھیڑ ہوئی۔
امام حسین علیہ السلام راستہ میں لوگوں کو اپنی مدد کے لئے دعوت دے رہے تھے اوراپنے ساتھیوں سے تذکرہ کرتے تھے کہ اس سفر میں قطعی طورپر قتل ہونا ہے اور اپنا ساتھ چھوڑ نے پر اختیا ر دیتے تھے، اسی لئے جس دن آپ کا دشمن سے مقابلہ ہوا توآپ کے گنے چنے جان نثار ساتھی باقی بچے تھے جنہوں نے آپ پر قربان ہونے کا فیصلہ کیا تھا ،لہٰذاوہ بڑی آسانی کے ساتھ دشمن کی ایک عظیم فوج کے ذریعہ انتہائی تنگ محاصرہ میں قرار پائے اور یہاں تک کہ ان پر پانی بھی بندکیاگیا ،اور ایسی حالت میں امام حسین علیہ السلام کو بیعت کرنے یا قتل ہونے کے درمیان اختیار دیاگیا ۔
امام حسین علیہ السلام نے بیعت کرنے سے انکار کیااورشہادت کے لئے آمادہ ہوگئے۔ ایک دن میں صبح سے عصر تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن سے لڑتے رہے ۔اس جنگ میں خود امام،آپ کے بیٹے، بھائی ،بھتیجے ،چچیرے بھائی اورآپ کے اصحاب کہ جن کی کل تعدادتقریباستر افراد کی تھی، شہید ہوئے ۔صرف آپ کے بیٹے امام سجاد علیہ السلام بچے،جو شدیدبیمار ہونے کی وجہ سے جنگ کرنے کے قابل نہیں تھے ۔
دشمن کے لشکر نے،حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مال کو لوٹ لیا اورآپ کے خاندان کو اسیر بنا لیا اورشہداء کے کٹے ہوئے سروں کے ہمراہ اسیروں کو کوفہ اور کوفہ سے شام لے جایا گیا ۔
اس اسیری میں امام سجاد علیہ السلام نے شام میں اپنے خطبہ سے اسی طرح حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے کوفہ کے مجمع عام میں اور کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار میں اور شام میں یزید کے دربار میں اپنے خطبوں سے حق سے پردہ اٹھایا اور بنی امیہ کے ظلم وستم کو دنیا والوں کے سامنے آشکار اور واضح کردیا ۔
بہرحال امام حسین علیہ السلام کی تحریک ،ظلم ، و زیادتی اورلاابالی کے مقابلہ میں خود آپ اورآپ کے فرزندوں ،عزیزوں اوراصحاب کے پاک خون کے بہنے اورمال کی غارت اورخاندان کی اسیری پر ختم ہو ئی ۔یہ تحریک اپنی خصوصیات و امتیازات کے پیش نظر اپنی نوعیت کا ایک ایسا واقعہ ہے انقلاب کی تاریخ کے صفحات پر رقم ہے ۔یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اس واقعہ سے زندہ ہے اور اگریہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو بنی امیہ اسلام کا نام ونشان باقی نہ رکھتے۔
اس جانکاہ واقعہ نے نمایاں طور پر پیغمبرۖ کے اہل بیت علیہم السلام کے مقاصد کو بنی امیہ اوران کے طرفداروں کے مقاصد سے جدا کر کے حق وباطل کوواضح وروشن کردیا۔
یہ واقعہ نہایت کم وقت میں اسلامی معاشرہ کے کونے کونے میں منتشر ہوا اورشدیدانقلابوں اور بہت زیادہ خونریزوں کا سبب بنا جو بارہ سال تک جاری رہے وآخر کاربنی امیہ کے زوال کا ایک بنیادی سبب بنا۔
اس واقعہ کا واضح ترین اثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی معنوی پرورش کے نتیجہ میں رونما ہوا جن کے دلوں میں علی بن ابیطالب کی ولایت نے جڑ پکڑ لی اوران لوگوں نے خاندان رسالت کی دوستی کواپنالائحہ عمل بنالیا اور دن بدن ان کی تعداد اور طاقت بڑھتی گئی ۔اور آج کی دنیامیں تقریباًدس کروڑمسلمان شیعہ کے نام سے موجود ہیں ۔
|