۱۳۹۷/۷/۱۷   0:6  ویزیٹ:1603     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


25 محرم 1440(ھ۔ ق) مطابق با 05 /10/ 2018 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدو للہ رب العالمین الصلاۃ والسلام  علی محمد و آله طیبین الطاهرین المعصومین اما بعد فقد  قال اللہ تبارک  وتعالیٰ فی کتابه الکریم 

بسم الله الرحمن الرحیم

تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

 آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بالادستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور (نیک) انجام تو تقویٰ والوں کے لیے ہے۔

سب سے پہلے میں آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی سفارش کرتا ہوں میرا موضوع ہے عاقبت و  آخرت یعنی ہمارے زندگی کا پایان اور آخرت اچھا ہو عاقبت بخیری یہ وہ چیز ہے جس کے لیے انبیائے الہی اور اولیائے الہی دعا کیا کرتے تھے جب حضرت امام علی علیہ سلام کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی کہ آپ مسجد میں قتل کیے  جائیں گے تو امام علی علیہ السلام نے پوچھا کہ اس وقت میرا دین سالم ہوگا یا نہیں یعنی میرا عاقبت  بخیر ہوگا یا نہیں تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یا علی آپ عاقبت بخیر ہونگے آپ اللہ کی راہ میں شہید کیے جائیں گے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے  عاقبت  بخیری سب سے ضروری سمجھی  ہے۔

 اس دنیا میں لوگوں کی  چار قسم ہیں

 ایک قسم وہ ہے کہ جو اس دنیا میں مکمل شر بنے ہے فساد ہے اچھے لوگ نہیں ہیں جیسا کہ فرعون یزید وغیرہ

دوسرا وہ گروہ  ہے  جو اچھا یی ہی اچھائی ہے اچھے لوگ ہیں جیسے کہ انبیاء اور معصومین اور اولیاء اعلیہم السلام۔

 تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں کہ جو  زندگی کی ابتدایی ایام  میں آچھا نہ رہا ہوں یعنی زندگی کے اول عرصے میں وہ اچھے نہیں تھے لیکن پھر زندگی کے آخری آیام  میں اچھے بن گئے جیسے کہ زہیر بن قین ہے۔

 چوتھے نمبر پر وہ لوگ ہیں کہ جو زندگی کے ابتدایی آیا م میں آچھے رہتے ہیں  لیکن زندگی کی آخری عرصے میں بگڑ جاتے ہیں یعنی زندگی کے اول ایام میں  اچھے  لوگوں شمار ہوتے تھیں  لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ برائی کی طرف چلے جاتے ہیں  اور انکا عاقبت بہت برا اور خوفناک بن جاتا۔ کہ  خدا ہم سب کو اس قسم  رسواییسے بچائیں  اس کے لئے ایک مثال ذکر کرتاہوں قرآن سے قرآن میں آیا ہے کہ جو قارون کا واقعہ ہے ۔

کہتے ہیں کہ قاروں حضرت موسی علیہ السلام کے رشتہ داروں میں سے تھے  اور قاری تورات  تھے  اور آچھے لوگوں میں انکا حساب ہوتا تھالیکن جب انکو فرعون نے ایک منصب دیا اور انکو وزیرے خزانہ بنایا  اور اس طرح انکے پاس بہت زیادہ دولت آیا تو بٹھک گیا اور اللہ کے راستے کو چھوڑ کر شیطان اور فرعون کا راستہ آپنالیا۔

جب  حضرت موسی علیہ السلام نے زکا‏ۃ کے ليئے آپنے بندے کو قارون کے پاس بھیجا تو قارون  مقابلے پر اتر آيا اور دوسرے لوگوں کو بھی ساتھ ملایا اور زکاۃ دینے سے انکار کیا اور کہنے لگے کہ ہم نے موسی کی سب باتیں مان کی لیکن یہ اب ہمارے دولت کو غارت کرنا چاہتا ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا  اس طرح اس نے انکا رکیا اور طاغوتوں میں حساب ہوا  ، اور اس کا عاقبت خراب اور خوفناک بن گيا۔

قرآن  نے اس کو دیئے گئے نعمات اور اسکے آخرت کی بربادی اس طرح ذکر کی ہے۔

76- إِنَّ قَارُونَ کَانَ مِن قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْکُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ 
77 - وَابْتَغِ فِيمَا آتَاکَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَکَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن کَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ 
78 - 
قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَکَ مِن قَبْلِهِ مِنَ القُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَکْثَرُ جَمْعًا وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ 
79 - 
فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ 
80 - 
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَکُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ 
81 - 
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا کَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا کَانَ مِنَ المُنتَصِرِينَ 
82 - 
وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَکَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْکَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَيْکَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْکَافِرُونَ 

 بے شک قارون کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان سے سرکش ہو گیا اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بارگراں تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا: اترانا مت یقینا اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا، 
77 - 
اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد نہ کر یقینا اللہ فسادیوںکو پسند نہیں کرتا 

قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر ملا ہے جو مجھے حاصل ہے، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا جو اس سے زیادہ طاقت اور جمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے تو ان کے گناہ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا 
79  -(ایک روز) قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیا پسند لوگوں نے کہا: اے کاش! ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیاہے، بے شک یہ تو بڑا ہی قسمت والا ہے 
80 - اورجنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: تم پر تباہی ہو! اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والے ہی حاصل کریں گے 
81 - 
پھر ہم نے قارون اور اس کے گھر والوں کو زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے سوا کوئی گروہ اس کی نصرت کے لیے موجود نہ تھا اور نہ ہی وہ خود کوئی مدد حاصل کر سکا 
82 - 
اور جو لوگ کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے وہ کہنے لگے: دیکھتے نہیں ہو! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے روزی کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے، اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، دیکھتے نہیں ہو! کافر فلاح نہیں پا سکتے

اس طرح قارون بہت برے انجام کو پہنچ گيا۔

لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم آپنے عاقبت کو آچھا بنا لے اور ہم  عاقبت با خیر بنے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
دوسرا خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدو للہ رب العالمین الصلاۃ والسلام  علی محمد و آله طیبین الطاهرین المعصومین اما بعد
اس ہفتہ میں 25 محرم کو حضرت امام سجاد علیہ السلام کا تاریخ شھادت ہے۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام وہ ھستی ہے کہ جس نے تحریک کربلاکوآگے بڑھایا اور فرد فرد تک پہنچایا
اس لیئے بہتر ہے کہ میں اس خطبے میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی مختصر طور پر بیان کرو۔

 

حضرت امام سجاد(ع)
آپ کا  نام’’ علی‘‘  

القاب: ’’ زین العابدین‘‘،’’سجاد‘‘، ’’سیدالساجدین‘‘
 کنیت:’’ ابومحمد‘‘ اور’’ ابوالحسن‘‘
عمر : 57 سال

ولادت :15 جمادی الاول سنہ 38 ( امیرالمؤمنین (ع) کی شہادت کے دو سال بعد) 23سال تک والد کے سائے میں رہے اور آپ کی مدت امامت 4برس ہے۔
والد ریحانۃ الرسول سیدالشہداء (ع) اور والدہ شاہ ایران کی بیٹی شہربانو ہیں، جو نو ائمہ معصومین (ع) کی ماں ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں جیسا کہ آپ کے والد امام حسین (ع) ،نو ائمہ معصومین (ع) کے باپ ہیں۔

امام سجاد (ع) کی ذاتی ہیبت
آپ تھے تو بڑے متواضع لیکن آپ کی ہیبت اپنی جگہ محفوظ تھی۔ تاریخ میں ہے کہ اموی بادشاہ ہشام بن عبدالملک حج کے لئے آیا اور طواف کعبہ کے بعد حجر الاسود تک پہنچنا چاہا مگر حاجیوں کی بھیڑ رکاوٹ بنی اور جاکر ایک کونے میں بیٹھ گیا، اسکے ہمراہی بھی ساتھ تھے کہ اسی دوران امام سجاد (علیہ السلام) طواف کے بعد حجرالاسود کی جانب آئے لوگ ہٹ گئے اور امام( علیہ السلام) نے کئی مرتبہ حجرالاسود کو بوسہ دیا ۔ یہ بات ہشام کو گراں گذری،  اسکے ہمراہیوں میں سے ایک نے کہا: یہ مرد کون ہے جو لوگوں کے نزدیک اتنا احترام رکھتا ہے؟

ہشام جانتا تھا مگر لاعلمی ظاہر کی؛ عرب کے اس وقت کے مشہور شاعر فرزدق ساتھ کھڑے سن رہے تھے چنانچہ انھوں نے فوری طور پر ایک قصیدے کی صورت میں جواب دیا؛ یہاں اس قصیدے کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

هَذا الَّذي تَعرِفُ البَطحاءُ وَطأَتَهُ

وَالبَيتُ يَعرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ

یہ وہ ہیں جس کو سرزمین بطحاء (سرزمین حجاز) جانتی اور پہچانتی ہے
اور بیت اللہ ان کو جانتا اور حل و حرم بھی

ما قالَ لا قَطُّ إِلّا في تَشَهُّدِهِ

لَولا التَشَهُّدُ کانَت لاءَهُ نَعَمُ

کبھی بھی ’’لا‘‘ نہ کہا سوائے تشہد کے  لاالہ الا اللہ کہتے ہوئے
اور اگر تشہد نماز میں نہ ہوتے تو وہ صرف ’’نعم‘‘ ہی کہتے

يُغضي حَياءً وَيُغضى مِن مَهابَتِهِ

فَما يُکَلَّمُ إِلّا حينَ يَبتَسِمُ

لوگوں کے سامنے حیاء اور پاکدامنی کی وجہ سے آنکھیں جھکا دیتے ہیں
پس کوئی بھی ان سے بات نہیں کرسکتا سوائے اس وقت کے جب وہ مسکراتے ہیں
مــن مـعـشرٍ حـبـهم دیــن ٌوبـغضهم
کــفــر وقـربـهـم مـنـجـى ومـعـتـصمُ
ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کی محبت دین ہے اور ان کا بغض کفر ہے
 ان کی قربت نجات دینے والی اور بچانے والی ہے

مـــقــدمٌ بــعــد ذکــــر الله ذکــرهــم
فــی کــل بــدء ومـخـتوم بــه الـکـلمُ

مقدم ہے ان کا ذکر اللہ کے ذکر کے بعد( بالخصوص حالت نماز میں)
اور ان کے نام سے شروع ہونے والا کلام انجام بخیر ہوتا ہے۔
 
امام سجاد (ع) کی حیات طیبہ
امام سجاد ((علیہ السلام) )کی زندگی طوفانوں سے بھری ہوئی ہے آپ جنگ صفین کے ایام میں پیدا ہوئے؛ معاویہ کے جرائم بھرے کارناموں کے شاہد تھے اور مدینہ پر اس کے دہشت گردوں کے حملے دیکھے؛ معاویہ کے ہاتھوں شیعیان امیرالمؤمنین (ع) کو گروہ در گروہ قتل عام ہوتے دیکھا؛ معاویہ کے حکم پر سبّ امیرالمؤمنین (ع) کی ترویج دیکھی؛ قیام کربلا دیکھا اور اسارت کاٹی؛ مجلس ابن زیاد اور دربار یزید دیکھا؛ یزید لعین کے ہاتھوں اہل مدینہ کے مال و جان و ناموس کو لٹتا دیکھا جبکہ اس کے صرف بنو ہاشم کو امان دی گئی تھی جس کی وجہ کربلا کے واقعے میں یزید کی جگ ہنسائی اور رسوائی تھی۔ ایک بار یزید کے ہاتھوں اور ایک بار عبدالملک بن مروان کے ہاتھوں کعبہ کی شہادت دیکھی۔

امام سجاد (علیہ السلام) کی شہادت
امام سجاد کے فرزند، حسین بن علی(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے  سنہ94 میں جام شہادت نوش کیا لیکن ابوبصیر نے امام صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ امام سجاد 57 سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں چنانچہ اس حساب سے آپ کی شہادت کا سال سنہ پچانوے ہجری بنتا ہے۔

زندگی کی آخری رات
امام (علیہ السلام) نے اپنی شہادت کی رات اپنے فرزند ارجمند امام محمد باقر (علیہ السلام) سے فرمایا: بیٹا! پانی لاؤ تا کہ میں وضو کروں۔
امام باقر (علیہ السلام) اٹھے اور پانی سے بھرا برتن لے آئے۔
امام (ع) نے فرمایا: بیٹا! اس پانی میں ایک مردہ جانور گرا ہوا ہے چنانچہ اس سے وضو کرنا درست نہیں ہے۔
امام باقر (علیہ السلام) نے چراغ اٹھا کر پہلے والے برتن میں ایک مرا ہوا چوہا دیکھا اور پانی کا دوسرا برتن لے آئے۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: بیٹا یہ وہی رات ہے جس کا مجھے وعدہ دیا گیا ہے۔
اس کے بعد امام (علیہ السلام) نے گھر والوں کو ہدایت کی آپ کے اس اونٹ کا خوب خیال رکھیں اور اس کو خوب کھلائیں پلائیں جس پر سوار ہوکر آپ کئی بار حج مشرف ہوئے تھے۔[1]

شہادت
آپ کی  شہادت 18 یا22 یا 25 محرم ذکر ہوئی ہے لیکن25 محرم زیادہ مشہور ہے۔
’’والسلام علیه یوم ولد ویوم استشهد ویوم یبعث حیاً‘‘
امام سجاد (علیہ السلام) نے خود فرمایا: میں نے اپنی عمر کے دو سال امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی امامت میں،10 سال چچا امام حسن (علیہ السلام) کی امامت میں اور 10 سال اپنے والد امام حسین (علیہ السلام) کی امامت میں بسر کئے۔
امام سجاد (علیہ السلام) کی مدت امامت 35 سال ہے۔ [2]
امام سجاد (علیہ السلام) کا مدفن
مدینہ والوں نے آپ کی شہادت کے بعد آپ کا جسم مبارک نہایت شان و شوکت سے بقیع میں دفن کیا آپ کو امام حسن (علیہ السلام) کے پہلو میں سپرد خاک کیاگیا۔ بقیع کے اسی حصے میں عباس بن عبدالمطلب بھی مدفون تھے اور پھر امام باقر اور امام صادق( علیہما السلام )بھی آپ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اس قطعے پر قبہ و بارگاہ تھی جس کو وہابیوں نے منہدم کردیا۔ [3]

امام سجاد (علیہ السلام) کا قاتل
حضرت علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ولید بن عبدالملک کی بادشاہی کے زمانے میں شہید ہوئے۔ چنانچہ عمر بن عبدالعزیز بادشاہ بنا تو کہا: ولید ایک جابر و ظالم شخص تھا جس نے خدا کی زمین کو ظلم و جور سے بھر دیا تھا۔ اس شخص کے دور میں پیروان آل محمد (ص)، خاندان رسالت اور بالخصوص امام سجاد (علیہ السلام) کے ساتھ مروانیوں اور امویوں کا رویہ بہت ظالمانہ اور سفاکانہ تھا۔

گو کہ مدینہ کا والی ہشام بن اسماعیل مروان کے زمانے سے مدینہ منورہ پر مسلط تھا لیکن ولید کے دور میں اس کا رویہ بہت ظالمانہ تھا اور اس نے امام سجاد (علیہ السلام) کے ساتھ شدت آمیز برتاؤ روا رکھا۔ اس نے اہل مدینہ پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ولید بن عبدالملک نے اس کو منصب سے ہٹا دیا اور اپنے باپ مروان کے گھر کے دروازے کے ساتھ رکھا تا کہ لوگ اس سے اپنے بدلہ لے سکیں۔ یہ شخص خود کہا کرتا تھا کہ امام سجاد (علیہ السلام) سے خوفزدہ ہے اور اس کو ڈر تھا کہ امام سجاد (ع) اس کی شکایت کریں گے، امام سجاد (علیہ السلام) اپنے اصحاب کے ہمراہ مروان کے گھر کے سامنے سے گذرے جہاں ہشام بن اسماعیل کی شکایتیں ہورہی تھیں لیکن امام اور آپ کے ساتھیوں نے ایک گرے ہوئے منکوب شخص کی کسی سے کوئی شکایت نہیں کی اور ہشام چلا اٹھا کہ: ’’الله اعلم حیث یجعل رسالته‘‘ خدا خود ہی جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قرار دے۔ بلکہ روایت میں ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) نے معزول مروانی گورنر کو اس کے تمام مظالم اور جرائم بھلا کر پیغام بھیجا کہ "اگر تم تنگدست ہو تو ہم مدد کے لئے تیار ہیں"۔

مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے؛ بعض کا کہنا ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) ولید بن عبدالملک کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ آپ کو ولید کے بھائی ہشام بن عبدالملک نے مسموم کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ ہشام ہی امام کا قاتل کیوں نہ ہو، وہ یہ کام ولید کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا تھا چنانچہ ولید بن عبدالملک بن مروان بن العاص روسیاہ ہی امام سجاد (علیہ السلام) کا قاتل ہے۔ [4]

مدینہ منورہ کے عوام اور امام سجاد (علیہ السلام) کی شہادت کا سوگ
امام (علیہ السلام) کو شدید دور کا سامنا تھا لیکن آپ نے 35 سالہ انسانی اور الہی سیرت و روش کے ذریعے لوگوں کو اپنا مجذوب بنا رکھا تھا اور امامت کی خوبصورت تصویر ان کی نظروں کے سامنے رکھی تھی چنانچہ آپ کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے شہر مدینہ میں پھیل گئی اور لوگ جنازے میں شرکت کے لئے جمع ہوگئے۔
سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں کہ جب امام سجاد (علیہ السلام) شہید ہوگئے تو مدینہ کے تمام باشندے نیک انسانوں سے لے کر بد کردار انسانوں تک، سب آپ کے جنازے میں شریک ہوئے، سب آپ کی تعریف و تمجید کررہے تھے اور اشکوں کے سیلاب رواں تھے، جلوس جنازہ میں سب نے شرکت کی حتی کہ مسجد النبی (ص) میں ایک شخص بھی نہیں رہا تھا۔

امام سجاد (علیہ السلام) کا ایک اونٹ تھا جو بائیس مرتبہ آپ کے ہمراہ سفر حج پر گیا تھا اور حتی کہ امام نے ایک بار بھی اس کو تازیانہ نہیں مارا تھا۔ امام نے اپنی شہادت کی شب سفارش کی کہ اونٹ کا خیال رکھا جائے۔ جب امام (علیہ السلام) نے شہادت پائی تو اونٹ اٹھ کر سیدھا امام (ع) قبر مطہر پر پہنچا اور قبر پر گرگیا جبکہ اپنی گردن زمین پر ماررہا تھا اور اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ امام محمد باقر (علیہ السلام) اطلاع پا کر اپنے والد کی قبر پر پہنچے اور اونٹ سے کہا: آرام ہوجاؤ یا پرسکوں ہوجاؤ، اٹھو خدا تجھ کو مبارک قرار دے۔

اونٹ پرسکوں ہوگیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد واپس لوٹا اور اپنی پہلے والی حرکتیں دہرا یں۔ اور امام باقر (علیہ السلام) نے آکر اس کو لوٹا دیا لیکن تیسری مرتبہ وہ پھر بھی قبر پر پہنچا تو امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا۔ اونٹ کو اپنے حال پر چھوڑو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب مر جائے گا۔ روایت میں ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) کی شہادت کے تین دن مکمل نہیں ہوئے تھے کہ اونٹ بھی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ [6] 
اور اس اونٹ کے ليئے زمین گھاڑ دی گئی اور اس اونٹ کو دفن کیا۔


حوالہ جات:
1۔ بحارالانوار، ‌ج 46، ص 148، حدیث 4
2۔ بحارالانوار،‌ ص 151، حدیث 10 (به نقل از کشف الغمه ) و ص 152 الی ،154 اصول کافی،‌ ج 1، ص 468، حدیث 6
3۔ بحارالانوار، ‌ج 46، ص 151، حدیث 10
4۔ بحارالانوار،‌ج 46، ص 152، حدیث 12 و ص 153 و 154
5۔ بحارالانوار، ‌ج 46، ص 150
6۔ حارالانوار، ‌ج 46، ص147 و 148، حدیث 2 و 3 و 4 به نقل از بصائر الدرجات و اختصاص و اصول کافی ج 1، ص 467، حدیث 2 و 3 و4