پہلے خطبے کا موضوع ہے
پیغمبر اکرم ص کی سیرت
آپ (ص) کی سیرت میں سے ایک بات مشورت کرنا : فرمایا: اَشيروا إِليّ أيّها الناس؛
قریش کے ساتھ جنگ کرتے وقت فرمایا کہ اس جنگ کے بارے میں آپنے نظریات بیان کریں ۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ (وشاوِرهم فِيالاَمر فَاذا عزَمت فَتوکَّل عَليالله اِنَّ اللهَ يُحب المُتوکِلين؛ آل عمران/159)
آپنے اصحاب سے مشورہ لے لو اور جب آپنے ارادہ کیا تو پھر اللہ پر توکل کر لو بیشک اللہ تعالی توکل کرنے والو کو پسند کرتا ہے۔
اورفرمایا (والَذِين استَجابوا لِربِّهم و اَقاموا الصَلاه و اَمرهُم شُوري بينهم و مِمّا رَزقناهم يُنفقون؛ شوري/38 )
مؤمنین وہ ہے کہ جو اپنے پروردگار کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
کہتے کہ «ﺭﺃﻱ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻋﻠﻲ ﻗﺪﺭ ﺗﺠﺮﺑﺘﻪ»
ہر کوئی آپنے تجربہ کےمطابق مشورہ دے سکتا ہے
لیکن ہمیں ہر کسی سے مشورہ نہیں لینا چاہئے بلکہ :«ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺣﺮّﺍً ﻣﺘﺪﻳّﻨﺎً ﺻﺪﻳّﻘﺎً ﻭ ﺍﻥ ﺗﻄﻠﻌﻪ ﻋﻠﻲ ﺳﺮّﻙ»
ایسے لوگوں سے مشورہ کرو کہ جو آزاد سچا اور متدین ہو اور اگر آپ اسے آپنا راز بیان کریں تو وہ اس بات پر مشورہ دینےپر قدرت رکھتا ہو ۔
«ﻣﺸﺎﻭﺭﺓ ﺍﻟﻌﺎﻗﻞ ﺍﻟﻨﺎﺻﺢ ﺭﺷﺪ ﻭ ﻳﻤﻦ ﻭ ﺗﻮﻓﻴﻖ ﻣﻦ ﺍﻟﻠّﻪ»
عاقل اور خیر خواہ لوگوں سے مشورت کرنے میں اللہ سے برکت توفیق الہی شامل ہے۔
فرمایا:«ﺷﺎﻭﺭ ﻓﻲ ﺍﻣﻮﺭﻙ ﻣﻦ ﻓﻴﻪ ﺧﻤﺲ ﺧﺼﺎﻝ...»
آپنے کامو ں میں ان لوگوں سے مشورہ کروں کہ جن میں پنج صفات ہو
1-عاقل ہو 2- عالم ہو 3- تجربہ کار ہو 4- خیرخواہ ہو 5- متقی ہو
مؤمنین وہ لوگ ہے کہ ہر کام کو انجام دینے سے پہلے مشورہ کرتے ہیں صحیح نظریہ ڈھونڈنے کے لیئے دقت سے کام لیتے ہیں ۔
اور اس کے لیئے صاحبان عقل سے رجوع کرتے ہیں ۔
جو لوگ مہم اور ضروری کامیں مشورت سے انجام دیتے ہیں اوراس میں اس فن کے تجربہ کار لوگو ں سے مشورت لیتے ہیں ایسے لوگ بہت کم ناکام ہو جاتے ہیں۔
اور جو مشورت نہیں کرتے ایسے لوگ اکثر پھنس جاتے ہیں ۔
اس سے ہٹ کر خود سے کام کرنے والے لوگ معاشرے میں لوگوں کی افکار کو رکے رکھتے ہیں اور جو لوگ رائ اور مشورہ دینے کی قابلیت رکھتے ہو اس سے وہ لوگ برباد ہو جاتے ہیں اور اس طرح معاشرے بہت بڑے نقصان اٹھاتے ہوئے عظیم انسانو ں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ : «إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِیَارَکُمْ وَ أَغْنِیَاؤُکُمْ سُمَحَاءَکُمْ وَ أَمْرُکُمْ شُورَى بَیْنَکُمْ فَظَهْرُ الْأَرْضِ خَیْرٌ لَکُمْ مِنْ بَطْنِهَا وَ إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَ أَغْنِیَاؤُکُمْ بُخَلَاءَکُمْ ْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَیْرٌ لَکُمْ مِنْ ظَهْرِهَا»؛[9]
اگر حکومت کرنے والے آچھے لوگ ہو اور ثروتمند لوگ سخی ہو اور کامیں مشورت کے ذریع انجام دیتے رہے تو پھر آپ لوگو ں کے لیئے ظاہری زمین ( زندگی ) بہتر ہے لیکن اگر حکومت کرنے والےشریر لوگ ہو اور ثروتمند لوگ بخیل اور کنجوس ہو اور کامیں مشورت کے بغیر انجام دیتے ہو تو پھر آپ لوگو ں کے لیئے باطن زمین ( موت ) بہتر ہے یا نہ ہونا بہتر ہے ۔
1- پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: «ما شقى عبد قطّ بمشورة و ما سعد باستغناء برأی»
کوئی بھی مشورہ کرتے ہوئے نقصان میں نہیں رہا اور مشورہ کیے بغیر کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا
2 -اسی طرح فرمایا: کہ ہلاک ہو گیا وہ شخص کہ جو آپنے ہی بات پر عمل کرتا ہو اور جن لوگوں نے عاقل لوگو ںسے مشورہ لیا تو گویا اسکے ساتھ اسکے عقل میں شریک ہو گیا ہے۔
4. امام صادق(ع) نے فرمایا: کہ عاقل اور اھل فکر لوگوں سے مشورت کرنا ایسا ہے کہ جیسا کوئی آسمان اور زمین کی خلقت کے بارے میں اور انکی فنا کے بارے میں فکر کریں کہ کیسے ان کو بغیر ستون کے بنایا ہے
یعنی ان چیزوں کے بارے میں فکر کرنا سبب بنتا ہے کہ آپ علم کی نورانی دریا میں تہرتے رہے اور اس کی وجہ سے آپ کا خالق کی وجود پر یقین اور زیادہ محکم ہو جاتا ہے۔
اور اسی طرح عاقل لوگوں کے ساتھ مشورہ کرنے سے انسان کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں یقین حاصل ہو جاتا ہے اور کسی بھی کام کرنے میں اس کے لئے کوئی شک اور تردید نہیں رہتا
مشورہ دینے والے لوگوں کی صفات پانچ ہیں۔
امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا :کہ اپنے کاموں میں ان لوگوں سے مشورہ لے لو کے جن میں یہ پانچ صفات موجود ہو
پہلا- عاقل ہو۔ دوسرا- عالم ہو تیسرا- تجربہ کار ہو چوتھا -خیرخواہ ہوں پنچواں جو متقی ہو ۔
ظاہر ہے کہ ہر کسی سے انسان مشورہ نہیں کرسکتا۔
امام علی علیہ السلام نے بھی مالک اشتر کو مصر کا گورنر بناتے ہوئے فرمایا تھا کہ تین قسم کے لوگوں سے کھبی بھی مشورہ نہیں لینا
ایک«وَ لَا تُدْخِلَنَّ فِی مَشُورَتِکَ بَخِیلًا یَعْدِلُ بِکَ عَنِ الْفَضْلِ وَ یَعِدُکَ الْفَقْرَ») وہ کہ جو کنجوس ہو کیونکہ وہ آپ کو لوگوں کے ساتھ مدد کرنے سے رکھتا ہے اور آپ کو تنگ دستی سےڈراتا ہے ۔
دو –«وَ لَا جَبَاناً یُضْعِفُکَ عَنِ الْأُمُورِ» وہ لوگ کہ جو ڈرپوک ہو؛ کیونکہ ڈرپوک لوگ بھی مہم کاموں سے انسان کو روکتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر «وَ لَا حَرِیصاً یُزَیِّنُ لَکَ الشَّرَهَ بِالْجَوْر»حریص اور لالچی لوگوں سے بھی مشورہ مت لو کیونکہ وہ اپنے مال اور دولت کو جمع کرنے کیلئے ظلم کو آپ کی نظر میں اچھا دیکھاتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جس کے عاقل ہو نے کے بارے میں آپ کو یقین نہ ہو کہ یہ مشورہ دے سکتا ہے اگرچہ وہ لوگوں کے درمیان عاقل اور باہوش مشہور ہو تب بھی ان جیسے لوگوں سے مشورہ لینے میں گریز کریں۔
البتہ امام صادق علیہ السلام نےاس بات کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے کہ جو لوگ مشورہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی مشورت سے آپ مخالفت نہ کریں اگر چہ ان کا مشورہ آپ کے نظریے کے مخالف ہو کیونکہ انسان حق کو قبول کرنے سے گریز کرتا ہے اور کھبی بھی حاضر نہیں ہوتا کہ حقیقت کو تسلیم کرے۔
چونکہ حقائق کے ساتھ مخالفت کرنے سے بہتر ہے کہ انسان آپنے نفس کے ساتھ مخالفت کریں۔
اسی وجہ سےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے : کہ جس نے بھی اپنے کاموں میں مشورہ لیا وہ صحیح اور مطلوب راستے کی طرف ہدایت ہوا ۔
اگر کوئی آپ لوگوں سے مشورہ لینا چاہیں تو آپ لوگ آچھے مشورے اور خیرخواہی سے گریز نہ کریں اور مشورہ دینے میں خیانت بھی نہ کرے کیونکہ یہ گناہان کبیرہ میں سے ہے۔
اور یہی حکم غیر مسلمانوں کیلئے بھی ہے غیر مسلمین اگر آپ سے مشورہ لینا چاہے تو اس کو بھی اچھا مشورہ دے اور اپنی دیانتداری کی ثبوت دیں۔
رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام میں آیا ہے۔«وَ أَمَّا حَقُّ الْمُسْتَشِیرِ فَإِنْ عَلِمْتَ أَنَّ لَهُ رَأْیاً حَسَناً أَشَرْتَ عَلَیْهِ وَ إِنْ لَمْ تَعْلَمْ لَهُ أَرْشَدْتَهُ إِلَى مَنْ یَعْلَمُ وَ حَقُّ الْمُشِیرِ عَلَیْکَ أَنْ لَا تَتَّهِمَهُ فِیمَا لَا یُوَافِقُکَ مِنْ رَأْیِه»؛[17]
کہ مشورہ لینے والی کی آپ پر حق بنتا ہے کہ اگر آپ اسکے کام کے بارے میں کوئی اچھا نظر رکھتے ہے تو ان کے لیے بیان کریں اگر آپ نہیں جانتے ہیں تو پھر ایسی آدمی کی طرف ان کی راہنمائی کرے کہ وہ مشورہ دینے کی قابلیت رکھتا ہو۔
لیکن جس سے آپ مشورہ لینا چاہتے ہو اس کا آپ پر یہ حق بنتا ہے کہ آپ اس پر غلت مشورہ دینے کی الزام نہ لگائیں اگرچہ ان کا مشورہ آپ کے نظریے کے مخالف ہی کیو نہ ہو۔
دوسرا خطبہ
دوسرے خطبے کا موضوع استخاره ہے
استخارہ کا معنی ہے اللہ سے طلب خیر کرنا۔ بہتر ہے کہ ہم سب کاموں میں اللہ سے خیر مانگے۔ اور ہم سب کامیں اللہ پر ہی چھوڑ دے ۔
اس بات کی لحاظ کرتے ہوئے استخارہ کے لیئے کوئی خاص وقت یا جگہ نہیں ہے اور یہا ں استخارہ دعا کی معنی میں ہیں نہ کہ مشاورت کی معنی میں۔
علماء میں کچھ استخارہ کو سرے سے مانتے ہی نہیں ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ استخارہ کاسب سے کم درجہ ہے ۔
کچھ لوگ استخارہ کو فال سمجھ کر انجام دیتے ہیں کہ مثلا میں اس امتحان میں پاس ہو جاؤں گا یا نہیں یہ غلط ہے استخارہ فال نہیں ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ : قرآن سے فال مت لینا۔(کافی، ج2، ص629)
فال آیندہ کے بارے میں بتاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے البتہ یہ سب جھوٹ ہے۔ لیکن استخارہ لیٹری جیسی ہے کہ اس پر قرآن کی واضح آیات موجود ہے جسا کہ حضرت یونس (ع) کی واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں۔ یہ صحیح ہے۔
استخارہ میں پہلی بات یہ ہے کہ استخارہ پیشگوئی ( آیندہ کاخبر) نہیں دیتا ہے۔
اور دوسرا مشکل یہ ہے کہ لوگ ہر بات پر جلدی جلدی استخارہ لیتے ہیں۔
تیسرا مشکل یہ ہے کہ لوگ اپنے نظریہ کا قرآن سے تایید لیتے ہیں۔
چھوتا مشکل یہ ہے کہ پھر استخارہ پر عمل بھی نہیں کرتے ۔
ایک تو ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی کام کا نتیجہ استخارے میں بیان نہیں ہوتا ہے۔
بلکہ استخارہ میں بندہ آپنے کام کو اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اس سے طلب خیر ہے
طبق روایات سب سےبہتر یہ ہے کہ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے خوب سوچھنا چاہیے۔دقت کرنا چاہئے ، تدبیر کرنا چاہئے اور ان سے جو نتیجہ نکلے اس پر عمل کرنا چاہئے۔
کوئی بھی استخارہ کے ذریع غیب کا خبر نہیں دے سکتے یہ صرف معصومین (ع) ہی کا کام ہے کیونکہ انکے سامنے سب کچھ اشکار ہے۔
اور ہمیں ایسے بندے سے استخارہ کروانا ہے کہ جو قرآن کا علم رکھتا ہو۔
بہت سے علماء جیسے آیت اللہ بہجت اور آیت اللہ فاضل لنکرانی تسبیح کے ذریع استخارہ لیتے تھیں۔
ایک ضروری بات یہ ہے کہ انسان تب استخارہ کریں کہ جب اس کو پتہ نہیں چلتاہو کہ کیا یہ کام اچھا ہے یا برا۔ اور اس بات کا انکوتب بھی پتہ نہ چلے کہ جب وہ اس بات پر خوب سوچھیں یا کسی تجربہ کار بندے سے مشورہ کریں ۔ تب انسان کو استخارہ کروانا چاہئے ۔
ایک بات پر بار بار استخارہ نہیں کروانا چاہئیں مگر یہ کہ پہلے استخارہ کے بعد وقت زیادہ گزرے یا پھر شرائط بدل جائیں۔
پنچویں بات یہ کہ استخارہ جو بھی نکلے اس کی نتیجہ پر راضی رہنا چاہئے۔ اگر چہ اس کام میں ہم دنیاوی ضرر کریں یا پھر فائد کریں کیونکہ اللہ ہی ہمارے فائدے اور ضرر سے خوب واقف ہے۔
امام صادق(ع) نے فرمایا: (“و لتکن استخارتک فی عافیه فانه ربما خیر للرجل فی قطع یده و موت ولده و ذهاب ماله.” (کافی، ج3، ص472)
کبھی انسان استخارہ لیتے ہیں لیکن اسکا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا کچھ دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کا راز کیا تھا۔
چھٹی بات یہ کہ استخارہ پر عمل نہ کرنا حرام نہیں ہے اگر چہ علماء کہتے ہیں کہ استخارہ پر عمل کرنا بہتر ہے۔
سوال: آیا استخارہ کسی کام کو انسان پر لازم قرار دیتا ہے ؟
آیت اللہ بہجت فرماتے ہیں کہ جو استخارہ پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کو استخارہ ہی نہیں لینا چاہئے
|