خطبہ اول
آج کے خطبے کا موضوع ہے: آگاھانہ ایمان ( سوچ سمجھ کر ایمان لانا )۔
اس موضوع کے حوالے سے میں آپ مومنین کی خدمت میں کچھ اہم نکات عرض کرنا چاہتا ہو اور اس ضمن میں آیت قرآنی سے آپ کے لیئے دلائل پیش کرونگا۔
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ
ایمان کو اصولوں اور عقیدت کی بنیاد پر اختیار کرنا انبیاء الہی اور ان کے پیروکارو ں کی ایک برجستہ خصوصیت ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 285 میں اللہ تعالی انسانوں کو اس جانب متوجہ کرنے کے لئے فرماتا ہے ۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ0ۭ
رسول اس کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر اس کے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور سب مومنین بھی،
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ
سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ0ۣ (اور وہ کہتے ہیں ) ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں ہیں
وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا0ۤۡ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَيْکَ الْمَصِيْرُ285
اور کہتے ہیں : ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی،پالنے والے ہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔ (البقرہ 285)
اسی حوالے سے دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ایمان اندھی تقلید یا غیر ارادی عمل کا نام نہیں بلکہ ایک ہوشمندانہ ، عاقلانہ، انسانی فہم و فراست اور شعور کی بنیاد پر انجام پانے والا ایک عمل ہے۔
اللہ نے انسان کے لئے کائنات کی خلقت میں ایسی نشانیاں رکھی ہیں جن کی بنیاد پر ایک عقلمند انسان با آسانی اللہ اور اسکی دین پر ایمان لا سکتا ہے۔
سورہ آل عمران کی 190 سے 192 تک آیات ایسی ہی کھلی نشانیوں کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے۔
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙبے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں ۔
الَّذِيْنَ يَذْکُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَکَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جو اٹھتے بیٹھتے اوراپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں ، (اور کہتے ہیں :)
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ191
ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَہٗ0ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَار192اے ہمارے پروردگار! تو نے جسے جہنم میں ڈالا اسے یقینا رسوا کیا پھر ظالموں کا کوئی مددگار بھی نہ ہوگا۔
رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا
اے ہمارے رب! ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا: اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے،
تیسرے نکتے میں آپکی توجہ کفار کی انداز ایمان کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو کہ تعصب اور اندھی تقلید کی بنیاد پرہے ۔
اپنے آبا اور اجداد کے رسم رواج کو ایمان بنا لینا اللہ کی نگاہ میں سخت نا پسندعمل ہے۔ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 104 میں اللہ انسانوں بہت آسان الفاظ میں فرماتا ہے کہ:
(وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا0ۭ اَوَلَوْ کَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ104 )
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں : ہمارے لیے وہی (دستور) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں ۔
|