۱۳۹۷/۱۱/۱۲   18:14  ویزیٹ:2043     آنلین مقابلے


25 جمادی الاول 1440(ھ۔ ق) مطابق با 01/02/2018 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


پہلا خطبہ

سب سے پہلے میں اپنے  آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تقوی ہی بہترین طرزِ زندگی ہے۔

آج کے خطبے کا موضوع ہے، ایمان.

  ایمان عمل اور اپنے وعدے پر ہمیشہ  قائم رہنے کا نام ہے.

1۔ سوال یہ ہے کہ "آیا کسی خاص تفکر کی پیروی کرنا  یا اپنی زندگی میں چند عقائد رکھنا" ایمان کہلاتا ہے؟نہیں

 بلکہ ایمان کا زندگی میں اہم ترین رول ہے اور ایمان  انسان کو با عمل بناتا ہے تو کیا ایمان سے مطلب یہ ہے۔

قرآن کریم ہمیشہ اس ایمان کو معتبر جانتا ہے کہ جو عمل کے ساتھ ہو اور جس کے اندر  اپنے مطلوب کی طرف پہنچنے کیلئے  اطاعت کا انگیزہ موجود  ہو۔

قرآن نے بہت ساری آیات میں ایسے مؤمنین  کے لئے جن کا ایمان ہمیشہ عمل کے ساتھ ہو ،بہت ساری دنیاوی اور اخروی فائدے بیان کیے ہیں۔

اس موضوع پر چند آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

ایمان جب عمل کے ساتھ ہو  تومؤمن میں مندرج ذیل صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔


یااَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۝77ۚ

اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو، امید ہے کہ (اس طرح) تم فلاح پا جاؤ ۔ سورہ حج آیت 77

مؤمن کی  پہلی صفت یہ ہے : کہ اللہ کی بارگاہ میں رکوع بجا لاتا ہے۔

مؤمن کی  دوسرا صفت یہ ہے: یہ کہ اللہ کی بارگاہ میں خاک پر سجدہ کرتا ہے۔

مؤمن کی  تیسری صفت یہ ہے: کہ عالی  مقام پر پہنچنے کے لئے اور کامیاب ہونے کے لئے اچھے اعمال انجام دیتا ہے۔

وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۝0ۭ ہُوَاجْتَبٰىکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝0ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْکُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝0ۭ ہُوَسَمّٰىکُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝0ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۝0ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝0ۭ ہُوَمَوْلٰىکُمْ۝0ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝78ۧ

اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔ سورہ حج آیت 78

مؤمن کی  چوتھی صفت یہ ہے:  کہ جتنا ہو سکے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے

مؤمن کی  پانچویں  صفت یہ ہے:کہ اللہ کے نزدیک بھی برگزیدہ  لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔

مؤمن کی  چھٹی صفت یہ ہے: کہ ان کے دل ہمیشہ مطمئن ہوتے ہیں۔

مؤمن کی  ساتوی صفت یہ ہے: کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکاروں میں شمار ہوتا ہے۔

مؤمن کی  آٹھویں صفت یہ ہے: کہ انکوسب لوگوں پر گواہ بنایا  جاتا ہیں۔

مؤمن کی  نویں صفت یہ ہے: کہ وہ نماز قائم کرنے والوں میں شمار ہوتےہیں۔

مؤمن کی  دسویں صفت یہ ہے:  کہ زکات دینے والوں میں شمار ہوتا ہے۔

مؤمن کی  گیارہ ویں صفت یہ ہے: کہ وہ اپنے رب سے مرتبط رہتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں کوشش کرتا رہتا ہے کیونکہ مؤمن کا ایمان  کہ اللہ ہی سب سے بہترین پالنے والا اور مدد گار ہے۔

یہ وہ سب فائدے ہیں کہ جو پروردگار عالم نے قرآن پاک میں بیان کئے ہیں۔

 


 دوسرا خطبہ

آج کے خطبے میں امام خمینی (رہ) کے حوالے سے کچھ عرائض پیش کرنا چاہتا ہو۔

امام خمینی (رہ ) عالی ترین اور بہترین انسانی صفات کے مالک تھے آپ وہ مسافر تھے کہ جسکے ساتھ دلوں کے سینکڑوں  قافلے ہمراہ ہوئے۔

انکا نام ، انکا کلام، انکی تابندہ اور پاک روح، انکا آہنی عزم و ارادہ، انکی استقامت، انکی شجاعت، انکی بصیرت انکی روشن فکری، انکا جوش دلانے والا ایمان کہ جو آج بھی خاص و عام سب کی زبانوں  پر جاری ہے۔

جان جانان، قہرمانوں کا قہرمان، نور چشم و عزیز ترین روح ملت ایران،استاد عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(رہ)  ۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے

 کہ جو اللہ تعالی نے ہماری اس صدی میں ہمیں عطا فرمائی ہے جو اس بات کا حقیقی مصداق ہے کہ (ان للہ فی کل خلف عدولا ینفون عنہ تحریف المبطلین)

یقینا اللہ  کےلئے ہر زمانے میں ایسے لوگ ہوتے  ہیں کہ جو اہل باطل کی تحریفو ں اور تبدیلیوں کو اللہ کے دین سے نکالتے ہیں۔

میں چاہتا ہوں انکے کچھ صفات بیان کروں۔ شہید مطہری فرماتے ہیں کہ میں نے 12 سال انکی شاگردی کی لیکن جب میں آخری صفر میں پاریس میں انکی خدمت میں حاضر ہوا  تو وہا ں میں نے  انکی روح سے کچھ ایسی چیزیں درک کیں کہ جس پر میں فقط حیران نہیں بلکہ میرے ایمان میں اور بھی اضافہ ہوا تو جب میں وہاں سے واپس آیا تو دوستوں نے کہا کہ آپ نے کیا دیکھا ؟

میں نے کہا کہ میں نے چار چیزوں پر امام کا کامل ایمان دیکھا

  1. امام کا  اپنے مقصد پر ایمان۔ یعنی انکا اپنے ھدف پر اتنا قوی اور مضبوط ایمان ہے کہ ساری دنیا مل کر بھی چاہے تو انکو  اپنے ھدف سے نہیں ہٹا سکتی۔

2-   اپنی راہ پر ایمان۔ جو راستہ انھوں نے انتخاب کیا ہے اس پر انکا اس قدر پختہ ایمان ہے کہ ذرا سا امکان بھی نہیں کہ انکو اس  راستے پر جانے سے کوئی روک سکے۔  بالکل اسی طرح کہ جیسے انبیاء کا اپنے انتخاب کیے ہوئے راستے  اور ھدف پر ایمان رہا ہے۔

3-   اپنی  قوم  پر ایمان۔ میرے سب ساتھیوں میں ، میں ایسے ایک بھی شخص کو نہیں جانتا کہ جو ایرانی عوام کے جذبے پر  اتنا زیادہ ایمان رکھتا ہو، کیونکہ جب انکو کہا گیا کہ جناب تھوڑا آرام سے تحریک کو آگے بڑھائیں کیونکہ لوگوں کے حوصلے ٹھنڈے ہو رہے ہیں  تو امام نے فرما یا کہ ایسا بالکل نہیں ہے میں ایرانی لوگوں کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہو۔ اور بالآخرہ ایسا ہی ہے ہم دیکھ رہے ہیں دن بدن انکی باتیں سچھ ثابت ہو رہی ہیں۔

اور اس سے  بھی بڑھ کر آپ کا ایمان اللّٰہ کی ذات پر ہے۔

4۔ اپنے رب پر ایمان۔  آپ نے ایک نشست میں مجھے سے کہا کہ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ حقیقت میں ہم نہیں کر رہے ہے بلکہ میں اس کام میں اللہ تعالی کا ہاتھ میں محسوس کررہا ہوں۔