۱۳۹۸/۱/۹   1:47  ویزیٹ:1670     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


22 رجب 1440(ھ۔ ق) مطابق با 29/03/2018 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 



پہلا خطبہ
گزشتہ خطبات کی طرح آج بھی دعا کے موضوع پر ہی گفتگو کو جاری رکھتے ہیں اور آپکی خدمت میں شرائط استجابت دعا کے حوالے سے کچھ عرائض پیش کرنا چاہتا ہوں۔
استجابت دعا کی شرائط
قبولیت دعا کی اولین شرط دل و روح کی پاکیزگی ہے جو انسان توبہ سے حاصل کر سکتا ہے
حضرت امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
ایا کم ان یسئل احدکم ربہ شی‏ئا من حوائج الدنیا و الآخرہ حتی یبدء بالثنا علی الله المدحه له و الصلاة علی النبی و آله ثم اعترف بالذنب ثم المسالة.
خبردار آپ میں سے کوئی بھی اللہ تعالی سے کچھ نہ مانگے مگر یہ کہ شروع کریں حمد اور ثناء سے اور پھر درود بھیجے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھر گناہوں کا اعتراف کرے اور اس کے بعد جو کچھ مانگنا ہو تو اللہ سے مانگے. (سفینۃ البحار)

دوسری شرط ہے رزق و روزی حلال، یعنی انسان حلال اور پاک رزق کی تلاش کرے اور حرام اشیاء کے استعمال سے پرہیز کرے، اور اپنے لیئے حلال روزی اور حلال کسب و کار کی کوشش کرتا رہے۔ کسی غصبی ذریعے سے یا ظلم و ستم کے راستے مال نہ کمائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"من احب ان یستجاب دعائه فلیطب مطعمه و مکسبه"
جو کوئی اپنی دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہے وہ اپنی غذا اور کمائی کو پاک رکھے۔ (
یکصد موضوع  اخلاقی ص 93 آیت الله مکارم)
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں خدا سے اپنی دعاؤں کی قبولیت کا طالب ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے آپ کو پاک کرو اور ہر قسم کے حرام کھانے سے بچے رہو۔
(یکصد موضوع  اخلاقی ص 92 آیت الله مکارم)
تیسری شرط یہ ہے کہ انسان  فساد، لڑائی جھگڑے اور مردم آزاری سے پرہیز کرے۔
حق پرستی اور دعوت حق دینا بھی دعا کے مقبول ہونے کی شرائط میں سے ایک ہے کیونکہ جو بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردے  تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ جو لوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں تو اللہ تعالی ان پر نیک حکمران کو لے آئے گا اور ایسے لوگوں کی دعاؤں کو قبول فرمائے گا
(یکصد موضوع  اخلاقی ص 94 آیت الله مکارم)
شرط چہارم اللہ کے ساتھ کئے گئے وعدے پر برقرار رہنا
ایمان، عمل صالحہ اور  دیانتداری شرائط استجابت دعا میں سے ہیں، لہذا جو کوئی اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے پر وفا نہیں کرتا تو اس کو اللہ سے دعا کی قبولیت کی امید بھی نہیں کرنی چاہیے.
کتاب اصول کافی میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی نے تین سال دعا کی کہ خدا اسے بیٹا عنایت فرمائے لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ خدایا کیا میں تیرے در سے اتنا دور ہوں کے میری آواز تجھ تک نہیں پہنچتی یا بہت نزدیک ہو پر مجھے جواب نہیں دیتے؟
اس شخص کو خواب میں کسی نے کہا کہ:
انک تدعو الله عز وجل بلسان بذی و قلب عات غیر تقئ و نیة غیر صادق.... یعنی تم اللہ تعالی کو ضرر پہنچانے والی زبان، سرکش و ناپاک اور غلط نیت رکھنے والے دل سے چاہتے ہو اسی لئے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی۔ لہذا اپنی زبان کو اذیت دینے سے روکو،
دل اور نیت کو پاک اور صاف کر لو تاکہ تمہاری دعائیں قبول ہوں اور جب اس نے طہارت کا یہ عمل انجام دیا تو اس کی دعا قبول ہو گئی.
پانچویں شرط قبولیت خود وہ عمل اور کوشش ہے جو دعا کے طبیعی اساب اور عوامل فراہم کرنے کے لئے کی جائے یعنی انسان دعا کے ذریعے جو نتیجہ یا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اس سے متعلق جو وسائل درکار ہوں وہ مہیا کرے۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا
"الداعی بلا عمل کرامی بلا وتر" (کلمات قصار)
بے عمل دعا کرنے والا ہوا میں بغیر نشانے کے تیر پھینکنے والے جیسا ہے۔
یہ تمام شرائط جو آپکی خدمت میں بیان ہوئیں اس بات کی وضاحت کے لی ہیں کہ دعا کبھی طبیعی اسباب اور وسائل کی جگہ نہیں لے سکتی بلکہ دیگر جسمانی و روحانی عناصر کی فراہمی دعا مانگنے کی اساس ہیں۔
سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں حاملان عرش الہی مومنین کو دعا کرنے کے انداز اور طریقے کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ وہ خدا کو پکارنے کیلئے (( ربنا))  کہتے ہیں، پھر اپنے رب کی نعمات اور بے پناہ رحمت کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی رحمت ہر شے سے زیادہ ہے اور پہلی چیز دعا قبول ہونے کے وسائل کی فراہمی کی دعا کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدایا وہ لوگ جو تیری اطاعت کرتے ہیں ان کو اور وہ جنہوں نے تیرے راستے کی پیروی کی ان کو بخش دے
آیات قرآن بتاتی ہیں کہ پیغمبران خدا، اولیاء اللہ، فرشتگان یا نیک اور صالح لوگ جب دعا کرتے تو خدا کو "ربنا" سے یا "یاربّ" کہکر پکارتے،  جیسا کہ (ربنا ظلمنا انفسنا)
خدایا ہم نے اپنے نفوس پر ظلم کیا
یا کہتے ہے (رب اغفرلی و لوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب)
اے پروردگار میرے ماں باپ کو بخش دے اور ان سب مومنین کو بخش دے کہ جن کے لئے قیامت کے دن حساب و کتاب لگایا جائے گا۔
ضرت امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا "جس پر بھی اگر کوئی مشکل آئے تو وہ پانج بار (ربنا) کہے، تو جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اللہ تعالی اسے اس چیز سے بچا لیگا اور وہ جو چیز چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا"
پھر پوچھا گیا کہ ہم کس طرح پانچ مرتبہ ربنا کہیں؟
تو فرمایا کہ "سورہ آل عمران کی آخری  آیات کہ جو ربنا پر مشتمل ہیں انکی تلاوت کرو اور پھر  دعا مانگو تو دعا قبول ہوگی" فاستجاب لہم ربہم۔ پس اللہ نے انکی دعائیں قبول کی۔
(یکصد موضوع اخلاقی آیت اللہ مکارم شیرازی)
وہ آیات یہ ہے (191 سے 194سورہ آل عمران )
الَّذِيْنَ يَذْکُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَکَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝0ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۝0ۚ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝191

191۔ جو اٹھتے بیٹھتے اوراپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں ، (اور کہتے ہیں :) ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَہٗ۝0ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝192

192۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے جسے جہنم میں ڈالا اسے یقینا رسوا کیا پھر ظالموں کا کوئی مددگار بھی نہ ہوگا۔

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا۝0ۤۖ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۝193ۚ

193۔اے ہمارے رب! ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا: اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے، تو اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں سے درگزر فر ما اور ہماری خطاؤں کو دور فرما اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمار ا خاتمہ فرما۔

رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝0ۭ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝194

194۔ پروردگارا ! تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے جو وعدہ کیاہے وہ ہمیں عطا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا،بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔



 
دوسرا خطبہ:
دعا قبول ہونے کے لئے پانچ شرائط ہیں
1۔ سب سے پہلے اپنے دل اور روح کو پاک کریں
2: اپنے اموال کو ظلم اور ستم یا حرام راستوں سے نہ کمائیں۔
3: ظلم و ستم اور بداخلاقی سے مقابلہ کرتے ہوئے ہر حالت میں اخلاقی حدود کی رعایت کریں
4: ایمان، عمل صالح، امانتداری، نیک اعمال بجا لائیں اور خدا کے سامنے تسلیم ہونا بھی دعا  کے قبولیت کی شرائط میں سے ایک ہے۔
5: جو کچھ چاہتے ہو اس کے حصول کیلئے مسلسل کوشش کریں۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا کے بغیر عمل کے اللہ تعالی سے  کچھ مانگنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بغیر نشانے کے  تیرچلانا۔
حضرت امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا "جس پر بھی اگر کوئی مشکل آئے تو وہ پانج بار (ربنا) کہے، تو جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اللہ تعالی اسے اس چیز سے بچا لیگا اور وہ جو چیز چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا"
پھر پوچھا گیا کہ ہم کس طرح پانچ مرتبہ ربنا کہیں؟
تو فرمایا کہ "سورہ آل عمران کی آخری پانج آیات جو ربنا پر مشتمل ہیں انکی تلاوت کرو اور پھر  دعا مانگو تو دعا قبول ہوگی" فاستجاب لہم ربہم۔ پس اللہ نے انکی دعائیں قبول کی۔
(یکصد موضوع اخلاقی آیت اللہ مکارم شیرازی)