۱۳۹۸/۱/۳۰   2:18  ویزیٹ:1855     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


13 شعبان 1440(ھ۔ ق) مطابق با 04/19/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 



پہلا خطبہ۔

اے بندگان خدا سب سے پہلے  اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوی  الہی  آپنا نے کی تاکیدکرتا ہوں
جو لوگ خدا کی تلاش میں ہیں ان کیلئے تقویٰ کی اہمیت چھپی ہوی نہیں ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا: فَإِنَ‏ التَّقْوَى‏ فِي‏ الْيَوْمِ‏ الْحِرْزُ وَ الْجُنَّةُ وَ فِي غَدٍ الطَّرِيقُ إِلَى الْجَنَّة؛
یہ تقوی دنیا میں انسان کیلئے ایک سپر اور ڈھال کی طرح اور آخرت میں بہشت جانے کے لیے بہترین راستہ ہے
تقوی کی اقسام میں سے ہم نے اپنے خاندان اور  اپنے کنبے  کی نسبت تقوی اختیار کرنے کے بارے میں کچھ مطالب آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کئے اور ہم نے کہا کہ خوشحال و پر سکون زندگی اور میاں بیوی کے درمیان محبت قا‏ئم رکھنے کے لئے بہترین راستہ تقوی الہی کو اختیار کرنا ہے اللہ تعالی نے سورہ نساء آیت نمبر 1 میں فرمایا: 
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا کَثِيرًا وَنِسَاءًوَاتَّقُوا 
اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔
 
میں نے گزشتہ ہفتے مرد اور عورت کی صفات کو جاننے کی ضرورت کو بیان کیا تھا اور اس آیت کے پیش نظر یہ بات ثابت ہو گئی کہ  اللہ تعالی نے  سب انسان حقیقت میں ایک ہی جنس سے پیدا کئے ہے (الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ) 
اور  دوسری بات یہ کہ یہ (وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا کَثِيرًا وَنِسَاءً) اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔
اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو ایک نفس سے پیدا کیا لیکن ان دونوں کے درمیان فرق ضرور رکھا اور ان دونوں کو اللہ تعالی  نے مختص صفات کے ساتھ پیدا کیا اور یہ الگ الگ صفات کے ساتھ پیدا کرنے کی دلیل بھی  ہم نے بیان کیا  کہ  یہی صفات ان دونوں کی رشد اور ترقی کا باعث بنتے ہیں  کیونکہ ان کا (مرد اور عورت کا )  ایک دوسرے کی طرف نیاز مند اور محتاج ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ایک کو کچھ چیزوں میں دوسرے کی احتیاج ہے تو دوسرا بھی اسکا نیاز مند  ہے، لیکن اگر یہ فرق اور نہ ہوتیں تو زندگی گزارنا محال ہوتا جیسا کہ کتاب عیون اخبار رضا میں آیا ہے
قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا تَفَاوَتُوا فَإِذَا اسْتَوَوْا هَلَکُوا  
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک لوگوں کے درمیان یہ فرق موجود ہوتا ہے تو اس وقت تک یہ لوگ زندہ رہتے ہیں اور جب یہ فرق ختم ہو جائے اور سب ایک جیسے ہو جائیں تو یہ ہلاک ہو جائیں گے
دوسری بات یہ کہ یہ فرق مرد عورتوں کے درمیان اس لیے ہے کہ ان دونوں  میں سے ہر ایک بچوں کی صحیح تربیت اور اسی طرح ان کی مادی اور معنوی ضروریات کا خیال رکھ سکے، اس فرق کو  والدین کی فطرت میں  بھی رکھا ہے
لھذا اس حکمت کا نہ سمجھنا میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا سبب بنے گا۔
اس ہفتے میں اس بات پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ مرد اور عورت کی خاص صفات کی وجہ سے دونوں کی کچھ خاص ضرورتیں ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو نہیں سمجھیں گے، انکے درمیان اختلافات پیدا ہونگے، یہ ایک دوسرے پر اعتراضات کرتے رہیں گے  اور  دونوں میں ناراضگی پیدا ہو جائے گی  اور آگے جاکر یہی ناراضگی اس خاندان کے ستون کو ہلا دیگی۔ 
مثال کے طور پر میں عرض کروں کہ مرد کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے خاندان اور کنبے کی مادی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور اس لحاظ سے وہ چاہتا ہے کہ اس بات میں اس کی توانمندی اور قدرت پر اعتماد کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کو تولید یعنی کچھ نیا بنانے کے لیے خلق کیا ہے اور مرد میں اسکی صلاحیت رکھی ہے اور اسی وجہ سے مرد کی قوت اور قدرت کو بھی زیادہ ہے اور حتی مرد کی ہڈیاں عورت سے زیادہ بنائی ہیں تو اسی وجہ سے مرد میں اس بات پر غرور بھی رکھا ہے عورت کو  اس غرور کو سمجھنا ہوگا اور مرد کی اس قدرت کو قبول بھی کرنا ہوگا۔
اسی طرح گھر کے سربراہ کی حیثیت سے ایک بات یہ بھی پائی جاتی ہے کہ مرد چاہتا ہے کہ میری بیوی اور خاندان والے میری قدرت پر اعتماد رکھیں اور  ان کا یہ اعتماد رکھنا مرد کی بنیادی ضرورت ہے۔
جب ایک عورت اپنے شوہر کی صلاحیت پر اعتماد نہ کرے تو اسکے مرد کی خوداعتمادی چلی جاتی ہے، وہ اس وقت یہ سوچتا ہے کہ میری وہ قدرت کمزور ہو چکی ہے جس کی وجہ سے میں دوسروں کی ضروریات کو پورا کر سکتا تھا اور وہ اب نہیں  رہی۔ اس طرح  کا احساس اگر کسی میں پیدا ہو گیا  تو یہ بہت خطرناک احساس ہوگا۔ لہذا مرد کی اس ضرورت  کے مطابق عورت کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی کوئی ایسی بات نہ کرے کہ جس سے مرد کی توانمندی  اور قدرت زیر سوال واقع ہو، کبھی بھی  عورت مرد کو یہ  نا کہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے ہو تم میں وہ طاقت نہیں رہی ہے اور اسی طرح اپنے مرد کے سامنے دوسرے مردوں کی قدرت اور توانائی کو بیان بھی نا  کرے۔ مثال کے طور پر  اگر عورت کہے کہ  میری بہن کے شوہر نے یا میرے دوست کے شوہر نے فلاں قسم کی گاڑی خریدی یا  اس طرح  کا گھر خریدا ۔۔۔ تو یہ باتیں انکو کبھی بھی اچھی نہیں لگیں گی۔
اسی طرح عورت کی بھی کچھ ضرورتیں  ہوتی ہے اس میں سے  ایک یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس کے ساتھ محبت کا اظہار کیا جائے
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے کہ رَسُولِ اللَّهِ ص أَنَّهُ قَالَ: کُلَّمَا ازْدَادَ الْعَبْدُ إِيمَاناً ازْدَادَ حُبّاً لِلنِّسَاءِ.
کہ جتنا مرد کا ایمان زیادہ ہوتا جائے اتنا اسکی اپنی بیوی کے ساتھ محبت  زیادہ ہونی چاہیے۔
عورت کو محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس محبت کووہ  خود دیکھ سکے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان سے محبت کا اظہار کرنے کی کوئی خاص  ضرورت نہیں  ہوتی ہے لیکن قرآن نے فرمایا ہے کہ
وَ مِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْواجاً لِتَسْکُنُوا إِلَيْها وَ جَعَلَ بَيْنَکُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَة اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، ۔
تو یہاں مودت کی معنی ہے محبت کا اظہار کرنا  لھذا  عورت چاہتی ہے کہ شوہر اس کے ساتھ محبت کا اظہار کرے اور وہ اطمینان کرنا چاہتی ہے کہ اسکا شوہر اس کو چاہتا ہے اور اگر وہ اس محبت کو دیکھلے تو یہ اس کیلئے اتنا کافی ہوتا ہے کہ کبھی بھی وہ اپنے شوہر سے ناراض نہ ہو۔
جب ایک آدمی اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ میں آپ سے پیار کرتا ہوں یا آپ مجھے اچھی لگتی ہو تو یہ بات اس کے دل سے کھبی نہیں نکلے گی۔ مرد کا یہ وظیفہ ہوتا ہے کہ وہ عورت کی عاطفی ضرورت کو پورا کرے لیکن اگر  کوئی اس ضرورت  کو پورا نہ کرے تو پھر  اس کا  بہت زیادہ نقصان بھی بھگتنا پڑے گا۔
اپنی بیوی سے محبت رکھنا  اس قدر ضروری ہوتا ہے کہ حتی  اہل بیت  علیہم السلام نے  اپنے ساتھ  محبت رکھنے کا ایک معیار یہی رکھا ہے کہ آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کتنی محبت کرتا ہے۔
دیکھیں  اس حدیث مبارک میں کہ  حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرماتے  ہے کہ :کُلُ‏ مَنِ‏ اشْتَدَّ لَنَا حُبّاً اشْتَدَّ لِلنِّسَاءِ حُبّاً   کہ جتنا  کسی انسان کی ہم سے محبت بڑھائے گا اتنی ہی وہ اپنی بیوی سے محبت بڑھاتا ہوگا۔
لھذا مرد کو چاہئے کہ وہ عورت کو محبت کی نگاہ سے دیکھے محبت بھرے لحجہ میں بات کرے اور اسکے لیئے  محبت بڑھانے والا کوئی کام کرے مثلاً یہ کہ کسی مناسبت سے یا بغیر کسی مناسبت کے اپنی بیوی کے لئے کچھ تحفے خریدے کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ الْهَدِيَّةُ تَجْلِبُ‏ الْمَحَبَّة
 تحفے دینا محبت کو زیادہ کرنے کا باعث بنتا ہے بلکہ تحفہ  محبت کو کھینچ  لاتا ہے۔
بس میں اپنی بات کو ان  چند باتوں میں خلاصہ کرتا ہوں کہ  اپنے  خاندا ن اور کنبے کو  خوشحال  رکھنے  کے لیے ضروری ہے کہ ہم تقوی  اختیار  کریں  اور اس معاملے میں اللہ سے ڈریں اور تقوی کو رعایت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی مختص صفات کو سمجھیں تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو اچھے طریقے سے نبھا سکے ۔
مرد  چاہتا ہے کہ اس کی قدرت  اور توانمندی پر اعتماد کیا جائے اور عورت چاہتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے بلکہ  اس سے بڑھ کر محبت کا اظہار بھی  کیا جائے ۔
دعا کرتے ہے کہ خدایا تجھے انوار مقدسہ اہل بیت علیہم السلام  کاواسطہ ہمارے معاشرےمیں  میاں بیوی کے درمیان محبت بڑھا دے خداوندا ہمیں تقوی الہی اپنانے کی توفیق عطا  فرما اورہمیں  اپنے خاندان  اور بیوی بچوں کی نسبت تقوی اپنانے کی توفیق عطا فرما حضرت امام زمان علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما خدایا  ہمارے گناہوں کو بخش دے اسلام اور مسلمین کو عزت عطا فرما اور ہم سب کی عاقبت کو بخیر بنا دے اور ہمیں حلال روزی کمانے کی توفیق عنایت فرما.

دوسرا خطبہ

اس ہفتے میں منجی عالم سراسر  نور قطب  دائرہ امکان واسطہ فیض الٰہی حضرت حجت ابن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی 15شعبان کو ولادت باسعادت ہے
پندرہ شعبان کی رات کو خاص فضیلت حاصل ہے انشاءاللہ ہم   اس رات کو شب بیداری کی کوشش کریں گے کیونکہ اس کیلئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب ان کے  والد  گرامی حضرت امام باقر علیہ السلام سے پندرہ شعبان کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ هِیَ أَفْضَلُ لَیْلَةٍ بَعْدَ لَیْلَةِ الْقَدْرِ  شب قدر کے بعد پندرہ شعبان کی رات سب سے بافضیلت رات ہے خداوند متعال اس رات کو اپنا خاص کرم  اپنے بندوں پر نازل فرماتا ہے اور اپنے احسان سے اپنے بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے بس کوشش کریں کہ ہم اس رات میں اللہ کے نزدیک ہوجایں بے شک یہ وہی رات ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قسم کر رکھا ہے کہ اگر اس رات کو گناہ کے علاوہ  کوئی اور شرعی کام کے لیے کسی نے اگر مجھ سے  کچھ مانگا تو وہ کھبی بھی رد نہیں کیا جائے گا۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے تو اس حد تک فرمایا ہے کہ:: یُعْجِبُنِی أَنْ یُفَرِّغَ الرَّجُلُ نَفْسَهُ فِی السَّنَةِ أَرْبَعَ لَیَالٍ
 مجھے اس آدمی پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ جو سال کی ان چار راتوں کو ضائع کرے وہ چار راتیں یہ ہے ایک عید الفطر کی رات دو عید قربان کی رات  تین 15 شعبان کی رات چار  ماہ رجب کی پہلی رات( مصباح المتھجد ص 852)
پندرہ شعبان کی رات ہمارے لئے بہترین موقع ہوتی ہے کہ ہم امام زمان علیہ السلام کے بارے میں اور زیادہ جان سکیں اور ہم منتظرانِ امام مہدی علیہ السلام کے وظائف کو مطالعہ کریں یا وہ لوگ جو مطالعہ کرتے ہیں ان سے پوچھیں اور اسی طرح اس کے متعلق پروگرامات میں شرکت کریں اور ان پروگراموں میں سے ایک پروگرام کہ جسکا مسجد امام حسین علیہ السلام کی طرف سے  اہتمام کیا گیا ہے جو کہ ہفتے اور اتوار کو نماز مغربین کے فورا بعد  منعقد کیا جائیگا  اس میں شرکت کریں ۔
اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم حضرت امام زمان علیہ السلام کو لوگوں کے لئے معرفی کریں اور ان  کے لیے کچھ کام کریں مثال کے طور پر ہم  جہاں کام کرتے ہیں وہاں پر مٹھایاں تقسیم کریں اور اسی طرح اگر ہو سکے تو امام زمان علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں  لوگوں کو بتائیں  اور اگر ممکن ہو تو اپنے گھر اور دفتر میں پوسٹر لگائیں اور اسی طرح اپنے ہمسایوں کے درمیان  مٹھائی  تقسیم کریں انشاءاللہ کہ  یہ کام حضرت امام زمان علیہ السلام کی رضایت کا سبب بنیں اور یہ آپ علیہ السلام کے ظہور کا باعث بنے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو کئی ہفتوں سے جمہوریہ اسلامی ایران میں رونما ہورہا ہے کہ جس میں سیلاب نے کئی صوبوں  کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ خداوند متعال کی ان بارشوں پر کہ جو کئی سال خشک سالی کے بعد برس رہی ہیں ہم شکر  ادا کرتے ہیں لیکن ہمیں کو شش کرنا ہوگی کہ ہم سیلاب سے متاثر لوگوں کی مادی اور معنوی مدد کرنے میں شریک ہو جائیں.
 خداوندا تجھے اہل بیت کے مقدس انوار کا واسطہ ہمیں مسلمانوں کی خدمت کرنے کی توفیق عنایت فرما اور ہمیں توفیق دے کہ ہم پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت سمجھ سکیں، اسلام اور مسلمین کو عزت عنایت فرما اور ہمارے عاقبت کو بخیر بنا دے