۱۳۹۸/۳/۲۶   6:43  ویزیٹ:1604     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


10شوال 1440(ھ۔ ق) مطابق با 06/14/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بسم الله الرحمن الرحیم

 

الحمدللَّه ربّ العالمین نحمده و نستعینه و نستغفره و نتوکّل علیه و نصلّی و نسلّم علی حبیبه و نجیبه و صفیّه و خیرته فی خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته بشیر رحمته و نذیر نقمته سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّةاللَّه فی الأرضین و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین.

سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ تمام برادران و خواہران کہ جو اس مسجد میں موجود ہیں سب کو تقوائے الہی کو حفظ کرنے کی وصیت کرتا ہوں

«سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ»   عالمین میں نوح نبی پر سلام ہو۔

  اللہ تعالی نے  قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ان پر سلام کرنے سے شروع کیا ہے جو تقریبا 120 آیات پر مشتمل ہے

قرآن مجید نے انبیاء کے قصے انکی شخصی زندگی جیسا کہ جاے پیدائش، والدین، علاقے یا ازدواج کے بارے میں بیان نہیں کیے جبتک  ان میں کوئی تربیتی یا اخلاقی پہلو نہ ہو جیسے حضرت نوح کا قصہ ہے۔ اس موضوع کا ہر پہلو اپنے اندر ہدایت رکھتا ہے ۔

قرآن نے حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کے مختلف ادوار بھی اسی طرح بیان کیے ہیں کہ مثلاً 400 سال کا نبوت سے پہلے کا دور، انکی ہنر مندی یا ذریعہ معاش جو کہ نجاری تھا  اور پھر کس طرح آپ نے حکم خدا سے کشتی تیار کی کہ یہ کشتی بنانے ہی کو انکا معجزہ سمجھا گیا اور تقریبا 950 سال انہوں نے لوگوں کو دعوت حق دی اور یہ کہ آپ نبی تھے طوفان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

قوم نوح  دنیاوی چیزوں کو بہت قیمتی سمجھتے اور ان کو بے انتہا اہمیت دیتے تھے اور ان چیزوں کی حفاظت کیلئے مختلف بتوں کی پرستش کرتے۔ اپنے مال کی حفاظت کرنے کے لیے وہ مختلف خداؤں کی پناہ لیتے، بارش کیلئے کوئی خدا تو ہوا کیلئے کوئی اور، چاند سورج کا خدا اور، غرض ہر چیز کیلئے بت پرستی اور اسکا مقصد اپنے مفادات کی حفاظت کرنا ۔

اس قوم کیلئے دنیا اسقدر اہم اور با ارزش ہوچکی تھی کہ انکی ساری توجہ سارا خوف فقط اسکے کھوجانے اور اسکو نقصان سے بچانے کا تھا اور یہ خوف ہی بت پرستی کا سبب تھا اسی لیے اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو انکو اس حالت سے نکالنے کیلئے بھیجا اور قرآن نے آپ کا تعارف بعنوان "نذیر" کروایا

«وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا نُوحاً إِلى‏ قَوْمِهِ إِنِّي لَکُمْ نَذِيرٌ مُبِين‏» (هود/25) 

ترجمہ: اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ میں تمہارے لئے کھلے ہوئے عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا ہوں (25)

نذیر مبین یعنی "ایک کھلےعام ڈرانے والا"۔ نذیر یعنی ایسا شخص جو اپنے اطراف کے لوگوں کو ہر آنے والے خطرے سے آگاہ کرے وہ بھی دلیل کے ساتھ اور عام فہم زبان میں۔ مبین یعنی آشکار جیسے سورج جیسے کوئی بھی چیز جسکو ہر کوئی جانتا ہو۔

ہمارے لئے اس واقعے میں جو نصیحت ہے وہ یہ کہ ہم نے بھی جب کسی کو تعلیم اور تربیت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ اس کے اندر بنیادی چیزیں کیا ہے اور وہ کس عمر کا ہے کس مزاج کا ہے، اس کا کن چیزوں کے ساتھ زیادہ لگاؤ ہے اور کن چیزوں کا خوف رکھتا ہے اور ان کے لیے کس چیز کی زیادہ اہمیت ہے تو ہمیں ان کی تربیت وہاں سے شروع کرنا ہوگی۔

چونکہ حضرت نوح ع کے زمانے میں واقعات اور حادثات باعث بنے کے لوگ خوف کے مارے بتوں کی طرف راغب ہوے اور انکو کو  ہر شے کا مالک سمجھنے لگے تھے تو حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اسی نکتے سے آغاز کیا اور قوم کو متوجہ کیا کہ اس کائنات کا خالق و مالک حقیقی کوئی اور ہے اور جن چیزوں کی پرستش میں تم گرفتار ہو یہ سب اسی کی مخلوق ہیں ۔ لہذا اگر کسی نے ڈرنا ہو تو اس حقیقی خدا سے ڈرو آپ لوگ کیوں ایک ایسی چیز سے ڈر رہے ہو کے جس کے ڈر کی حقیقت خیال سے  بڑھ کر  کچھ بھی نہیں ہے، کیوں اسباب سے خوفزدہ ہیں، کیوں نا خدا سے ڈریں کہ جس کے ہاتھ میں سب اسباب ہے۔

یہ جو تم لوگ سورج کو چمکتا ہوا دیکھ رہے ہو یہ چمک اور روشنی فقط ارادہ خدا کے سبب ہے، کیونکہ سورج کی روشنی ارادہ خدا کے سبب ہے بس چاند کی روشنی بھی اسی کی مرضی سے ہے، اور بارش بھی اللہ کے ارادے سے برستی ہے اور ابھی جو آپ لوگ بادلوں کے برسنے یا نا برسنے کی وجہ سے ڈر رہے ہو اور اس طرح سورج اور چاند کے نہ چمکنے سے ڈرتے ہو، یہ سب تو اللہ کی تدبیر ہے  لہٰذا اللہ خضوع اور خشوع کا  ان سے زیادہ حق دار ہے۔

اس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے چاہا کہ انکے ڈر کو  خدائی رنگ دے کر دوسری طرف لے جائیں وہ جگہ کے جہاں سے ڈرنا چاہیے لیکن یہاں پر جو ڈرنا ہے وہ ایسا ڈرنا ہے کہ درک کیا جا سکتا ہے اور معرفت کے ساتھ ہے اور اگر ڈر معرفت کے ساتھ ہو تو وہ انسان کو کمال کی طرف لے جاتا ہے۔

چونکہ حضرت نوح علیہ السلام کی امت بت پرست تھی تو اللہ تعالی نے نوح کو انذار و نذیر کے عنوان سے بھیجھا۔

یہاں پر یہ بھی ایک دلچسپ بحث ہے کہ ہم بشارت کو کہاں پر استعمال کریں اور انذار  کو  کہاں پر استعمال کریں  یا ان دونوں کو کہاں پر استعمال کریں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو انعام دینا ہی مقصود ہو یا کسی کو ڈرانا ہی مقصود ہو اور یہ بھی نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لئے ہمارا طور طریقہ ایک ہی جیسا ہو بلکہ ضروری یہ ہے کہ کہیں پر انذار یعنی ڈر اور کہیں پر بشارت یعنی خوشخبری لہذا  ہمیں توجہ کرنا چاہیے کہ کہاں پر کس شئی کی ضرورت ہے وہاں پر اس کو استعمال کرنا چاہئے۔

اللہ تعالی نے انبیاء کو یہ صلاحیت عطا کی تھی کہ کہاں سے شروع کریں  یہ ایسے نکتے  ہیں  کہ عموماً لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کبھی ان چیزوں سے غافل رہتے ہیں اور ہمیشہ رحمت کی باتیں کرتے ہیں  یا کبھی رحمت سے غافل ہو کر صرف ڈراتے رہتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کس سے مخاطب ہیں کیا اس کو ڈرانا چاہیے یا خوشخبری دینا چاہیے۔

حضرت نوح علیہ السلام نذیر یعنی عذاب الہی سے ڈرانے والے کے عنوان سے پیغمبر بن کر آئے۔

جیسا کہ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے(«أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ‏ عَذابٌ أَلِيم‏» (نوح/1)  

ترجمہ : اے نوح درد ناک  عذاب آنے سے پہلے  اپنےقوم کو عذاب الہی سے ڈراؤ۔

یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ انسانوں کو اس ڈر کے ذریعے عذاب الیم سے  نجات دینا چاہتا ہے لہذا حضرت نوح کا یہ انذار اصل میں عذاب اور قھر الہی سے  نجات دلانا ہے۔

آپ لوگ جانتے ہیں کہ کب امت پر عذاب نازل ہوتا ہے؟

یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ کفر میں ڈوب جائیں اور پھر ان میں کمال حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی نہ رہے  اور پوری قوم زوال پذیر ہو تو اس کے بعد اگر انکو کمال کی استعداد دی بھی جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ وہ گرتے ہی جائیں گے تو جب اس حد پر کوئی امت پہنچ جائے تو عذاب نازل ہوتا ہے۔  مطلب یہ کہ اس حد کے بعد ان کے رہنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں بلکہ کے نقصان ہی نقصان ہے۔ اس وقت اللہ تعالی  عذاب کے ذریعے زمین کو ان جیسے لوگوں سے پاک کردیتا ہے۔

یہ جو سوال کیا جاتا ہے کہ فلانی جگہ پر بہت زیادہ فساد ہے لیکن پھر بھی عذاب نازل نہیں ہوتا! کیوں؟

اس کا بھی جواب یہی ہے کہ ابھی یہ لوگ مکمّل طور پر گمراہی میں نہیں ڈوبے ہیں اس حد تک کے کوئی بھی امید نہ رہے در حالی کے عذاب الہی وہاں پر نازل ہوتا ہے کہ جہاں پر لوگوں کے حق کی طرف پلٹنے کی کوئی بھی امید نہ ہو۔

 

لہذا اس آیت کے مطابق قوم نوح نبی عذاب الیم کی طرف حرکت میں تھے اور کفر مطلق کی طرف حرکت کر رہے تھے تب اللہ تعالی نے حضرت نوح کو نبی بنا کر بھیجا کہ ان لوگوں کو اس عظیم عذاب سے بچائیں تو کہا کہ  اے نوح عذاب الیم کے آنے سے پہلے ان لوگوں کو اس عذاب سے ڈراؤ تاکہ یہ بچ جائیں۔

یہاں پر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر انسان گناہ یا کفر کی وادی میں قدم رکھتا ہے تو یہ نابودی اور عذاب کی طرف حرکت کر رہا ہے

یہ چاہے اجتماعی صورت میں ہو یا انفرادی تو اگر یہاں پر پلٹ جانا  محقق ہو جائے  تو دوسرے آیتوں کی رو سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اللہ کی طرف پلٹ جانے میں نجات ہے

جب انسان اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ بھی عذاب کو پلٹا دیتا ہے۔

حضرت نوح کے قصے میں انہوں نے جو اپنی امت سے بات کی اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سارا جہان، یہ سب مخلوقات یہ پورا عالم اللہ تعالی کی طرف جا رہا ہے اور تم لوگ چاہتے ہو کہ حق کے مقابلے میں بت کی عبادت کرو!؟  ہرگز ہرگز اس کام سے ڈرو اور  یہاں پر ڈرانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگوں  نے ڈرنا ہو  تو  اس ہستی سے ڈرو کہ یہ سب موجودات اس کی مخلوقات ہیں اور سب کچھ اسی کی طرف ہی سفر کر رہے ہیں اور ایک ہی راستے پر گامزن ہیں۔ اور یہی حضرت نوح علیہ السلام کا پیغام تھا۔

خدایا تجھے تیرے اولیاء کا واسطہ  ہمارے دلوں کو اپنے ذکر سے مانوس کر دے

اور اپنی محبت کو ہمارے دلوں میں بڑھا دے۔۔آمین

 

دوسرا خطبہ:

 بسم اللَّه‌الرّحمن‌الرّحیم‌

الحمدللَّه ربّ العالمین والصّلاةوالسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما علی امیرالمؤمنین والصّدیقة الطّاهرة سیّدة نساءالعالمین والحسن والحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علی‌بن‌الحسین و محمّدبن‌علی و جعفربن‌محمّد و موسی بن‌جعفر و علی‌بن‌موسی و محمّدبن‌علی و علی‌بن‌محمّد والحسن‌بن‌علی و الخلف الهادی المهدی القائم حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمةالمسلمین و حماةالمستضعفین و هداةالمؤمنین. اوصیکم عباداللَّه بتقوی اللَّه.

 اس دوسرے خطبے میں سب سے پہلے آپ سب کو تقوی الہی اپنا نے کی وصیت کرتا ہوں یہ وہ وصیت ہے کہ جوہر نماز جمعہ کے  خطبوں میں  کی جانی چاہیے. اللہ تعالی ہم سب کو تقوی اپنانے کی  توفیق عطا فرمائے۔

 میں چاہتا ہوں کہ مختصر طور پر خاندان کے موضوع پر  کچھ نکات پیش کرو‌ں۔

 وہ مجموعہ جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہے وہ ایک خاندان کا مجموعہ ہے۔ شادی کہ جس میں ایک جوڑا شادی کے بندھن میں باندھا جاتا ہے یہ بندھن اللہ کو بہت پسند ہے اور طلاق کہ جس میں اس بندھن سے آزادی ملتی ہے اللہ تعالی  کے ہاں ناپسندیدہ ترین آزادی ہے۔

 اور یہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان بھی ہے۔

  جو کوئی بھی طلاق کے راستے میں قدم رکھتا ہے یا کسی کو طلاق کی طرف دھکیلتا ہے اس پر دنیا اور آخرت میں  اللہ تعالی کا غضب  اور لعنت ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلاق کے بارے میں فرمایا  کہ جس نے بھی  کوئی ایسا کام کیا کہ جس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو وہ اللہ تعالی کے غضب کا دنیا اور آخرت میں حقدار ٹھہرتا ہے اور اللہ تعالی روز قیامت میں جہنم کے ہزار پتھر اس پر  رکھے گا اور اگر کسی نے  یہ  کوشش بھی کی  تو وہ بھی اللہ تعالی کے خشم اور غضب کا حق دار ہوگا اور اللہ تعالی اس پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجے گا اور اس پر ذرہ برابر بھی رحم نہیں کرے گا۔

 لہذا ہمیں چاہیے کہ وہ چیزیں کہ جس سے خاندان بنا رہتا ہے ان چیزوں پر زیادہ توجہ دیں کیونکہ میاں بیوی کا ساتھ رہنا اللہ تعالی کو بہت پسند ہے تو ہمیں بھی ایسا کام کرنا ہوگا کہ جس کی وجہ سے یہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہیں اور ان دونوں کی آپس میں تفاھم اور سمجھ بوجھ بر قرار رہے۔

 میاں اور بیوی کے  ساتھ رہنے کا سب سے بڑا فائدہ اولاد کو جنم دینا ہے کہ جس کے ذریعے انسان سعادت کو پہنچتا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:  صالح اور اچھی اولاد والدین کیلئے سعادت شمار ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے زندگی جنت بنتی ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صالح اور اچھا  بچہ جنت کے پھولوں میں سے  ایک پھول ہوتا ہے۔

 اور دوسری طرف ایک نافرمان اور گنہگار اولاد والدین کی زندگی کو جہنم بناتی ہے اور وہ ماں باپ کے لیے ننگ اور عار یعنی شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔  امام علی علیہ السلام نے فرمایا:  بری اولاد شرافت کو ختم کرکے والدین کو بد نام کردیتی ہیں۔

اکثر لوگ یہی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کیا کام کریں کہ جس کے ذریعے ان کے بچے صالح اور نیک بنیں.

 ہم اولاد کی صحیح تربیت اس وقت کرسکتے ہیں کہ جب گھر میں اور گھروالوں کے اندر پیار اور محبت ہو اور دلوں کا آپس میں ملن ہو۔

 لہذا اگر کوئی والدین ایک ایسا ماحول نہ بنا سکے کہ جس میں بچے خوش اور خوشبختی اور آرام محسوس نہ کریں یہ ماحول باعث بنتا ہے کہ بچہ گھر سے باہر نکلے اور جو بچے اپنے گھر سے فراری ہوں اور گھر کی نسبت باہر ان کو اچھا لگتا ہو اور اسی طرح بچہ بجائے اس کے کہ  اس کا  اپنے والدین کے ساتھ ایک دلی رشتہ ہو اپنے کوئی دوست کے ساتھ  صمیمیت اور ہم دلی کا رشتہ بنالیتا ہے .

اور اسی طرح بچہ بجائے اس کے کہ وہ  اپنے والدین سے درد دل اظہار کرے اور اپنی مشکلات ان کے سامنے بیان کرے ایک دوست کے ساتھ بیان کرتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس بچے کی تربیت بھی وہی دوست کر رہا ہوتا ہے۔

 اور اس وقت اس بچے کی تربیت میں  والدین کا بہت کم کردار ہوتا ہے اور یہ بہت خطرے کی بات ہے کیونکہ گھر سے باہر کے ماحول میں امن نہیں ہوتا. گھر سے باہر کے ماحول میں ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں کہ جو اس بچے کو مٹا سکتا ہے۔

اس سے بچنے کے لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ گھرمیں  والدین اور بچوں کا آپس میں دلی ملن  پیار اور محبت ہو. اگر میاں بیوی کے درمیان غصے اور سختی کا ماحول بن جائے تو وہ قبل اس کے کہ انسان کو فقیر اور تنگ دست بنا دے بچوں کی زندگی پر بہت برا اثر کرتا ہے۔

  کیونکہ بچے عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں کہ جس میں وہ فکر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ والدین کے درمیان اچھے رابطے یا برے رابطے کو سمجھ سکتے ہیں اور والدین کے آپس میں جھگڑے بچپن میں بچوں کی روح پر بہت برا اثر ڈالتے ہیں ۔ والدین میں جس حد تک آپس میں ناراضگیاں  ہوں اسی حد تک بچے بھی بگڑ جاتے ہیں.

 اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ والدین کے درمیان ناراضگیاں نہ ہو؟

 ایک تو ہمیں ایک دوسرے میں صمیمیت اور  اعتماد کو اس حد تک بڑھانا چاہیے کہ  فیملی کے  سب ارکان ایک دوسرے کے نزدیک ہو جائیں اور ہر کوئ ایک دوسرے کو پیارا ہو۔

 اسلامی ثقافت میں اچھے اور برے کی پہچان کے لیے کچھ ترازو اورمعیار رکھے گئے ہیں  کہ اگر ان معیاروں کو پہچانا جائے تو اس سے گھر کو آباد کرنے یا پھر مٹانے کا راستہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ والدین کے درمیان ناراضگیاں نہ ہو؟

 

 ایک تو ہمیں ایک دوسرے میں صمیمیت اور  اعتماد کو اس حد تک بڑھانا چاہیے کہ  فیملی کے  سب ارکان ایک دوسرے کے نزدیک ہو جائیں اور ہر کوئ ایک دوسرے کو پیارا ہو۔

 اسلامی ثقافت میں اچھے اور برے کی پہچان کے لیے کچھ ترازو اورمعیار رکھے گئے ہیں  کہ اگر ان معیاروں کو پہچانا جائے تو اس سے گھر کو آباد کرنے یا پھر مٹانے کا راستہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا معیار یہ ہے کہ  گھر میں انسان کا رویہ دیکھا جائے. دین کی نظر سے وہ آدمی کہ جو اپنے جوڑے کے حقوق کو اچھی طریقے سے ادا کرتا ہو وہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور اس کے برعکس  برا سمجھا جاتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  کہ اگر کسی کی بیوی ایسی ہو کہ  کہ جس سے شوہر اذیت ہوتا ہو اس وقت تک اس کی نماز اور باقی اعمال قبول نہیں ہوتے  کہ جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔

 

 اگر ایسی عورت پوری عمر روزے رکھے اور نماز ادا کرے اور غلام آزاد کرے اور اپنا پورا مال خدا کی راہ میں خرچ کردے تب بھی وہ پہلی عورت ہوگی جو جہنم میں بھیجی جائے گی۔

 اور پھر فرمایا کہ اگر مرد بھی  اپنی بیوی پر ظلم کرے اس کے لئے بھی یہی عذاب ہے اور  فرمایا  کہ آپ لوگوں میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھے ہو۔

 کچھ لوگ اختلافات سے ڈرتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ بس یہاں پر  زندگی ختم ہو جاتی ہے

 لیکن ایسا نہیں ہے اختلافات سے نہیں ڈرنا چاہیے یہ ایک عمومی چیز ہے  اور یہ اکثر گھروں میں ہوتے ہیں جب بھی دو لوگوں کا آپس میں جوڑ بنتا ہے ظاہر ہے کہ ہر کسی کا ایک خاص طریقہ اور عادت ہوتی ہے تو یہ دونوں کچھ ارادوں میں متفق ہو سکتے ہیں لیکن کچھ چیزوں میں شاید ایک دوسرے کے مخالف اور یہ ایک  عمومی چیز ہے۔

آپس میں اختلافات کا اس وقت تک کوئی گھر نہیں ہوتا کہ جب تک یہ اختلافات آپس کے رشتے پر اثرانداز نہ ہوں۔

 جو لوگ اس مسئلے کا شکار ہوتے ہیں انکی  مشکل یہ ہے کہ  وہ زندگی کے قوائد نہیں جانتے کے اختلافات کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیا جائے۔

 ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ وہ چیز کے جس کے لئے ہمیں خلق کیا گیا وہ ہمارا خدائی ہونا ہے وہ ہمیں یاد رہنا چاہیے تاکہ ہم اس مقصد تک پہنچ جائیں اور خدائی بننے کے لئے بندگی ھی ایک واحد راستہ ہے  فرمایا («وَ ما خَلَقتُ الْجِنَّ وَ الآنسَ إِلّا لِیعبُدُونِ:)  میں نے جن اور انس کو نہیں خلق کیا   اگر  پیدا کیا تو اس لیئے کہ وہ  میری عبادت کریں۔

 مشترکہ زندگی سے انسان کی اپنی زندگی بہت اہم بن جاتی ہے مرد اور عورت اپنی زندگی کے دن اور رات ایک دوسرے یا پھر بچوں پر لگاتے ہیں  لیکن اگر کسی نے ایسا نہیں کیا تو وہ  زندگی کے اس راستے سے بہت دور ہے۔ اور اسی طرح وہ مقصد کے جس کے لیے پیدا کیا گیا تھا اس مقصد کو پہنچنے والے راستے سے بھی بہت دور ہے۔ ہمیں اللہ کے لیے زندگی کرنی چاہیے بخش دینا چاہیے خاموش رہنا چاہیے کام کرنا چاہیے

 اس بارے میں  سب سے کاملترین تعبیر جو خود اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمای ہے  کہ جس کی  اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو ارشاد فرمایا ہے «قُل إِنَّ صَلاتی‏ وَ نُسُکی‏ وَ مَحیای وَ مَماتی‏ لِلَّهِ رَبِّ العالَمین:   ان لوگوں سے کہو کہ ہماری نماز اور  دوسرے اعمال، زندگی اور موت سب اس اللہ کے لیے  کہ جو عالمین کی پالنے والا ہے۔

بس اگر ہماری زندگی کا مقصد اللہ بنے تو پھر ہم ہمیشہ خوش رہ سکتے ہیں اس وقت کامیابی قرب خدا اور ناکامی خدا سے دوری ہوگی۔  ہمیں کس چیز سے خوش ہونا چاہیے؟  ہمیں ہر اس چیز جس سے خوش ہونا چاہیے کہ جو ہمیں خدا تک پہنچادے ہمیں ہر اس چیز سے اذیت ہونی چاہیے کہ جو ہمیں خدا سے دور کردہے۔

بس اب بتائیے کہ اگر میاں نے بیوی کے ساتھ یا بیوی نے میاں کے ساتھ غصہ کیا اور دوسرے نے حلم اور  بردباری سے اس کا جواب دیا تو اس کام سے کیا ہم خدا کے نزدیک ہوگئے یا دور؟  اگر میں اس اچھے سلوک کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ہوگیا تو اس صورت میں ہمیں خوش ہونا چاہیے یا ناراض ہونا چاہیے؟ اس وقت  ہمیں کامیابی کا احساس کرنا چاہئے یا بربادی کا؟

 اگر اس نے میرے حق میں ظلم کیا اور میں نے اس کو بخش دیا تو اس سے میں  اللہ کے نزدیک ہو سکا یا پھر اس کے ساتھ کینہ اور بغض رکھنے سے؟

 اگر میں نے اس کی غلطی معاف کی تو مجھے خوش ہونا چاہیے یا ناراض؟

اور اسی طرح اگر ہماری زندگی میں ایک ایسا مسئلہ ہو کہ جس کا حل کرنا مشکل ہو یا  پھر اس کیلئے بہت زیادہ عرصہ درکار ہو اور میں صبر کرتا جاؤں،  تو مجھے خوش رہنا چاہیے یا ناراض؟

  اگر شوہر نے بیوی کو کسی شے کا حکم دیا اور وہ چیز ایسی ہو کہ جس میں بیوی کو زحمت کرنی پڑے تو اس صورت میں عورت کو خوش ہونا چاہیے یا ناراض؟  اس کو کامیابی کا احساس کرنا چاہیے یا ہارنے کا؟

 اسی طرح اور بہت کچھ۔۔۔۔  لیکن جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں زندگی کا مقصد نہیں بھولنا چاہیے اور ہمیں اس پر پابند رہنا چاہیے کسی بھی حالت میں کچھ بھی ہو ہمیں خوشی کی احساس کرنا چاہیے اور یہ بھی سمجھ لیں کے اس کے علاوہ ہم کبھی بھی زندگی کی مٹھاس کو نہیں  چکھ سکتے  چونکہ ایک اچھی زندگی کا مفہوم بندگی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحیم‌

انّا اعطیناک الکوثر، فصلّ لربّک وانحر، انّ شانئک هو الابتر.

والسّلام علیکم و رحمةاللَّه‌