۱۳۹۸/۴/۲۸   6:50  ویزیٹ:1772     آنلین مقابلے


16 ذی القعدہ 1440(ھ۔ ق) مطابق با 19/07/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


خطبه نماز جمعه 
لیکچر نمبر :    ( 57 ) ستاون 57
چینل :        منبر آسمانی
مناسبت :        ہفتہ وار
موضوع :        نماز جمعہ میں شرکت کی اہمیت ، فضائل ، ثواب و درجات
عنوان :        دو سو سال کی عبادات کا انعام / ثواب / جزا


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

1  ابتدائیہ جملات برائے حوصلہ افزائی

ریاست مدینہ کو خشک سالی و قحطی نے  بری طرح سے گھیرا ہوا تھا ۔ عوام کی بنیادی ضروریات اس قدر نا پید ہو چکی تھیں کہ محنت کش طبقہ انتہائی سختی اور دشواری سے اِن حالات میں گذارہ کر رہا تھا ۔ انہی دنوں ایک تجارتی قافلہ مدینہ میں وارد ہوا جسے دیکھ کر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئ  یعنی لوگوں کی خوشی دیکھنے لائق تھی ۔ شور و غوغا اور دف و نقارہ بجنے کی آواز سے شہرِ مدینہ کے لوگ ایک بھیڑ کی صورت میں قافلے کے ارد گرد جمع ہونا شروع ہو گئے اور اشیائے ضروریہ کی خریداری میں مصروف ہو گئے ۔ اسی دوران نماز جمعہ کا وقت ہونے کو آیا اور عوام مسجد مدینہ میں پہنچنا شروع ہو گئے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر جلوہ افروز تھے اور خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ 

اتنے میں مسجد کے باہر شور و غوغا کےساتھ ساتھ دف و نقارہ بجنے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔ تھوڑی مدت میں نمازیوں تک خبر پہنچی کہ شام سے ایک بہت بڑا قافلہ اشیائے خورد و نوش لے کر مدینہ پہنچا ہے ۔ اس خبر کے پھیلتے ہی نماز جمعہ کی صفیں درہم برہم ہونا شروع ہوئیں اور وہ نماز گذاران جو کئی ہفتوں سے قحطی و سختی برداشت کر رہے تھے ، پہلے صفیں توڑنا شروع کیں اور بے اختیار ، سرپٹ تجارتی قافلے کی سمت روانہ ہو گئے ۔

چند لمحوں بعد ، وہ مسجد جس کی بنیاد لوگوں کو ان کے مسائل سے نجات اور مشکلات کے حل کے لیے رکھی گٓئی تھی ، اس میں ہر طرف سناٹا چھا گیا یہاں تک کہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی منبر پر موجود رہ گئے اور حیرت سے صفوں کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ فقط 8 یا 12 افراد شرم کے مارے مسجد کے صحن میں سر جھکائے بیٹھے رہے ، وہ بھی جانا چاہتے تھے لیکن شرم کے مارے اپنی جگہ سے اٹھ نہیں پا رہے تھے ۔ 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت ہی محبت و شفقت کے لہجے میں فرمایا : 
" میں خدائے وحدہ لا شریک کہ جس کے قبضہ و قدرت میں میری روح و جان ہے کہ ، اگر آپ لوگ جو اس وقت مسجد میں موجود ہیں یہ بھی باقی نہ رہتے تو ، آسمان سے پتھروں کی بارش جاری ہو جاتی ۔ 

انہی ساعتوں میں پروردگار عالم نے آیات سورۃ مبارکہ جمعہ کا نزول کیا : 

آیت نمبر 11
وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَیْها وَ تَرَکُوکَ قائِماً قُلْ ما عِنْدَ اللَّهِ خَیْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجارَةِ وَ اللَّهُ خَیْرُ الرَّازِقینَ ٌٔ (ط)

ترجمہ : اور اُن کی حالت تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ سودا بکتا یا تماشہ ہوتا دیکھیں تو اس کی طرف ٹوٹ پڑیں اور تم کو کھڑا ہوا اور تنہا چھوڑ دیں ( اے رسول ﷺ ) تو تم ان سے کہ دو کہ جو چیز خدا کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے کہیں بہتر ہے اور خدا ہی سب سے بہتر رزق مہیا کرنے والا ہے ۔ 
( تفسیر نمونه ،  جلد 24 صفحه 125 )


آیت نمبر 9

یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاةِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِکْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذَ لِٰکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُو ن (ط)

ترجمہ : اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز ( جمعہ ) کے لیے اذان دی جائے تو خدا کی یاد ( نماز ) کی طرف دوڑ پڑو اور ( خرید ) و فروخت چھوڑ دو اور اگر تم سمجھ دار ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ 

تو برادران و خواہران عزیز !  آپ مومنین کیوں نماز جمعہ کے مسائل کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور ان کو توجہ اور وقت نہیں دیتے ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم ایک حدیث گوہر میں ارشاد فرماتے ہیں :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
اگر میری امت اِن تین چیزوں کی اہمیت ، فوائد اور ثواب کو جان لے تو انہیں حاصل کرنے کے لیے تیر سے زیادہ تیزی دکھائیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگ جائیں یہاں تک کہ ان خصوصیات کو پا لیں : 
1۔  اذان الصلاۃ ( نماز کے لیے پکار )
2۔  نماز جمعہ میں شرکت و ادائیگی
3۔  نماز جماعت کی صف اول میں شرکت

برادران و خواہران عزیز !  آج ، ہم اس حدیث گوہر اور نماز جمعہ میں شرکت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کچھ نکات پر گفتگو کریں گے اور انشاء اللہ انہیں آپ تک پہنچانے کی حتی الوسیٰ کوشش کریں گے ۔

1۔  نماز جمعہ غرباء کے لیے مانند حج ہے اور انہیں اس کے برابر ثواب عطا ہو تا ہے ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : 
میں نے بہرہا ان مومنین و مومنات جو حج کا ارادہ رکھتے تھے لیکن کامیاب نہیں ہو پاتے تھے ، کے سوالات کے جواب میں کہا ہے ، آپ ﷺ فرماتے ہیں : 
تم پر نماز جمعہ ، جو غرباء و مساکین کا حج ہے ، فرض ہے اور یہ کہ اس سے منسلک رہو اور کثرت سے شرکت کرو ۔ 
( وسائل الشیعه ، ج 5 ، ص 5 )

2۔  نماز جمعہ کا انجام دینا اس قدر اہم ، قابل قدر و ثواب ہے کہ چند مراجع عظام نے اسے واجب قرار دیا ہے ۔ 

3۔  کوئی ایسی دعا نہیں جو نماز جمعہ میں کی جائے اور مستجاب ( قبول ) نہ ہو ۔ 





4۔  فرشتگان الہٰی اس ( نمازی ) کے لیے دعا بلند کرتے ہیں ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
وہ شخص جو روز جمعہ ناخن تراشتا ہے ، چہرے کو زیبائی دیتا ہے ( داڑھی بنوانا اور حجامت کروانا ) ، دانتوں میں مسواک کرتا ہے  اور نماز جمعہ میں شرکت کے لیے غسل انجام دیتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کاوشوں کے صلے میں اس کے لیے استغفار کرتے اور شفاعت و بخشش طلب کرتے ہیں ۔ 
( مستدرک الوسائل ، ج 6 ، ص 4 )

5۔  روز قیامت خوف ہ ہراس اس ( نمازی ) پر ساقط ہو جائے گا ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
جب مومن نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے نکلتا ہے تو اللہ جل جلالہ روز قیامت اس کے خوف و ہراس کو کم کر دے گا اور بہشت کے لیے راہنمائی کرے گا ۔ 
( وسائل الشیعه ، ج 7 ، روایت 9390 )

6۔  ستر ہزار بہشتی شہر ( آسمانی ) جن میں سے ہر ایک اس دنیا کی مانند ہے ، کے فرشتے اس کے لیے بخشش طلب کرتے ہیں ۔ 

7۔  ہر ایک قدم جو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے بڑھتا / اٹھتا ہے ، بیس سال کے اعمال کے برابر ہے ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
غسل روز جمعہ کا انجام دینا گناہوں کا کفارہ ہے اور ہر قدم جو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے بڑھتا / اٹھتا ہے ، بیس سال کے اعمال کے برابر جزا پاتا ہے ، اور جب نماز جمعہ کی ادائیگی ہو جاتی ہے تب خداوند رحمان و رحیم دو سو سال کی عبادات کا اجر عطا فرماتا ہے ۔ 
( کنز العمال ، حدیث 2109 ) 

8۔  خداوند رحمان و رحیم نماز جمعہ کے اختتام میں دو سو سال کے اعمال بجا لانے کا اجر عطا فرماتا ہے ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
جب کوئی قدم نماز جمعہ کی طرف اٹھتا / بڑھتا ہے اور نماز کی ادائیگی ہو جاتی ہے تب خداوند رحمان و رحیم دو سو سال کی عبادات کا اجر عطا فرماتا ہے ۔ 
( کنز العمال ، حدیث 2109 )






9۔  روز قیامت ان افراد کا شمار خدا کے نزدیک ترین بندوں میں ہو گا ، ، جو کثرت سے نماز جمعہ کی ادائیگی بجا لاتے ہوں گے ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
روز قیامت پروردگار عالم کی لوگوں سے قربت کا عالم یہ ہے کہ جو شخص جس کثرت سے نماز جمعہ میں شرکت کرتا ہو گا اس کا شمار نماز جمعہ کے بجا لانے والے افراد کی فہرست میں اول ، دوم و سوم میں ہو گا ۔ 
( مستدرک الوسائل ، ج 6 ، ص 39 )

10۔  امام اول علی علیہ السلام نے نماز جمعہ میں شرکت کے لیے پہنچنے کے دوران وفات / انتقال پا جانے والے مومن کو بہشت کی ضمانت دی ہے ۔ 
مولائے متقیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں : 
میں روز قیامت پروردگار عالم سے 6 طرح کے افراد کے لیے بہشت کا طلب گار ہوں ، ان میں ایک وہ ہے جو نماز جمعہ کے انجام دینے کے لیے نکلتا ہے اور راستے میں وفات / انتقال پا جاتا ہے ، پس ایسے افراد کے لیے بہشت ہے ۔ 
( وسائل الشیعه ، ج 5 ، ص 11 )

11۔  نماز جمعہ کے بجا لانے والے کے بدن پر آتش جہنم حرام قرار ہے ۔ 
امام ششم جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : 
جو شخص نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے قدم بڑھاتا / اٹھاتا ہے تو خدا جہنم کی آگ اس پر حرام قرار دے دیتا ہے ۔ 
( من لایحتضر الفقیه، ج 1 ، ص 247 )

12۔  اگر نماز جمعہ کی ادائیگی میں خلوص ہو تو نمازی کو گناہوں سے پاک کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ از سر نوع اعمال صالح انجام دے سکے ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
جو بھی خدائے رب العزت کی رضا اور اپنے ایمان کی تازگی و پاکیزگی کے حصول کے لیے نماز جمعہ میں شامل ہوتا ہے ، تو اس کے گذشتہ اعمال کو برخاست کر دیا جاتا ہے اور از سر نوع لکھنا شروع کیا جاتا ہے تاکہ وہ (مومین و مومنات) خدا کی بارگاہ میں اعمال صالح کے ساتھ وارد ہوں ۔ 
( وسائل الشیعه ، ج 5 ، ص 4 )





13۔  نماز جمعہ میں شرکت و انجام دہی الہٰی درجات میں بلندی کا سبب ہے ۔ 
امام پنجم باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : 
تین چیزیں بلندی درجات کا سبب قرار پاتی ہیں : 
1۔  سرد موسم میں مکمل و ترتیب وار وضو کا انجام دینا ۔ 
2۔  نماز کی ادائیگی کے بعد اگلی نماز کا انتظار 
3۔  شب جمعہ کے اعمال اور نماز جمعہ میں شرکت و انجام دہی
( بحارالانوار، ج 88 ، ص 10 )

لیکن برادران و خواہران عزیز ! کیا آپ جاننا چاہیں گے یا جان لیجئے کہ نماز جمعہ میں شرکت و انجام دہی نہ کرنے کی صورت میں کیا نتائج اور اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مختلف احادیثِ عجائب میں فرماتے ہیں :
مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُناً بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ (ط)

1۔  جو بھی 3 روز جمعہ ، نماز جمعہ کو ترک کرتا ہے تو خدائے ذوالجلال اس کے قلب پر مہر صلب ( پیوست ) کر دیتا ہے ۔

2۔  خدائے ذوالجلال نے تم پر نماز جمعہ واجب قرار دی ہے ۔ بس جو بھی میری حیات میں یا میرے بعد ، اسے سبک ( اہمیت نہ دے ) جانے گا یا کوتاہی یا اس سے غفلت کرے گا ، تو قسم ہے خدائے جل جلالہ کی کہ : 
1۔  وہ ہمیشہ پریشانی میں مبتلا رہے گا ۔ 
2۔  اس کے کاروبار میں برکت نہ ہونے پائے گی ۔ 
3۔  جان لو کہ ، اس کی نمازیں قبول نہ ہوں گیں بلکہ رد کر دی جائیں گی ۔ 
4۔  اور جان لو، جان لو کہ ، اس کی ادا کردہ زکوٰۃ و خیرات قبول نہیں کیے جائیں گے ( یعنی اسے کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں دیں گی ) ۔ 
5۔  جان لو کہ ، اس کا حج قبول نہیں ہو گا ۔ 
6۔  جان لو کہ ، اس کے نیک اعمال قبول نہیں کیے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ وہ صدق دل سے توبہ کرے کہ اگلی نماز جمعہ ترک نہ کرے گا ، سستی نہیں کرے گا ، اہمیت دے گا اور جو کہ رہا ہے اس سے منکر نہیں ہو گا ۔

لیکن بد قسمتی سے کچھ حضرات کچھ ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ، جناب مولانا / آقا صاحب ! ہم جمعہ میں جانا چاہتے اور پسند کرتے ہیں لیکن ہمارے بچے تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور ہمارے ساتھ آنا پسند نہیں کرتے اسی لیے ہم نہیں آتے ۔ 
کچھ حضرت کا کہنا ہے کہ ہمیں یہی ایک دن تعطیل ہوتی ہے تا کہ اپنے خاندان کے ساتھ کچھ وقت گذار سکیں اس لیے جمعہ میں شرکت نہیں کر سکتے ۔ 


برادران و خواہران عزیز ! یہاں میں آپ کی توجہ ایک نقطہ کی طرف دلانا چاہتا ہوں جس سے آپ کے بچے نماز جمعہ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ آپ بعد از نماز جمعہ انہیں کسی تحفے یا اشیائے روز مرہ جو پورے ہفتے کے لیے کافی ہوں ، کی خریداری کے لیے لے جائیں ۔ اگر وقت اور ہمت باقی ہو تو سب افراد دوپہر کے کھانے کے لیے بھی چلے جائیں ۔ یہ سب مشق کرنے کے بعد آپ دیکھئے کہ یہی بچے اگلے نماز جمعہ میں شرکت کے خواہاں ہوں گے اور ضد کریں گے کہ آپ بھی چلیں اور ہمیں بھی ساتھ لے چلیں ۔ یہ ایک بہترین مشق ہے لیکن اسے حلِ واحد نہ سمجھیے بلکہ یہ ابتداء ہے ۔ آپ کے بچے جلد ہی مساجد اور محافل سے مانوس ہو جائیں گے اور وہ رسم جو انہیں جمعہ میں شرکت کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں ، ان کی ضرورت خود بخود ختم ہو جائے گی ۔ 

اس ماہ مبارک ذی العقد میں ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق ہمیں کم از کم تین نماز جمعہ میں شرکت کرنی چاہیے ۔ 

میں چاہتا ہوں کہ اس خطبے کے آخر می کچھ گذارشات جو بالخصوص ملک سے باہر رہنے والے افراد و خانوادہ کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں ، یا یہ کہ اس بات کی طرف اشارہ کروں اور آپ سب افراد با توجہ سنیں :
دبئی کاروباری و اقتصادی تجارت کا شہر ہے ، یہاں بے شمار افراد روزگار کے حصول کے غرض سے آتے ہیں ۔ ان لوگوں کی خدمت میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ اسلام میں ان تمام امور سے ضروری امر و ہدایت یہ بھی ہے کہ انسان  اپنے خانوادہ ( والدین ، زوجہ و بیٹے و بیٹیاں ) کا خاص خیال رکھیں ۔ وہ حضرات جو کمانے کے غرض سے آتے ہیں اور اپنے خانوادہ کو یہاں نہیں رکھ پاتے اور خود بھی سالہا سال گھر نہیں جاتے یا نہیں جانا چاہتے ، تو براداران دین و شریعت انہیں اس بات کی قطعاۡ اجات نہیں دیتا ۔
اسلام و فقہ کے پابند و غیر پابند افراد یا تو چار مہینے میں ایک بار ضرور گھر جایا کریں یا اپنے خانوادہ کو (اپنے سہولت کے بینادوں پر) یہاں سیر و تفریح کے غرض سے بلائیں اور یا یہ کہ اپنے اپنے علاقوں میں کوئی کاروبار یا کوئی نظام بنائیں جس میں وہ اپنے خانوادہ کے ہمراہ رہ سکیں تاکہ ان کی ہر لحاظ سے بہترین تربیت انجام دے سکیں ۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو رشتہ ازدواج میں دراڑیں پڑیں گے ، شوہر و زوجہ کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ تربیت کے لحاظ سے بچوں پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور بشمول خود اس فرد کے لیے بھی یہ کام بہت ہی تکلیف زدہ ثابت ہو گا ۔ 

ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اپنے شوہر کی شکایت اس طرح کی کہ : 
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، میرا شوہر گھر اور کام کاج چھوڑ کر مسھد میں عبادت کرنے بیٹھا رہتا ہے ، یہ سننا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب کام چھوڑ کر مسجد کی طرف روانہ ہو گئے اس نیت کے ساتھ کہ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اس بندے کو صحیح راستہ دکھایا جائے کیونکہ وہ غلط راہ پر چلنا شروع ہو گیا ہے ۔  اللہ و اکبر

اس طرح دوسری روایت میں ہے کہ اپنے خانوادہ کے ساتھ ایک گھنٹہ باتیں کرنے کا ثواب مسجد نبوی میں تین دن اعتکاف کرنے سے بہتر ہے ۔ اللہ و اکبر 

انسان کو ان امور کے بارے میں سوچھنا چاہیے کہ کوئی ایسا طریقہ نکالے کہ وہ اپنے خانوادہ کے ہمراہ رہ سکے کیونکہ اسلام میں گھر بسانے اور اسکو قا‏ئم رکھنے کی بہت زیادہ تاکید و اہمیت ہے ۔ یہ اسلامی اجتماعی زندگی کی نظر سے ایک بہت ضروری رکن ہے اور اسلام اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ یہ رکن کبھی بھی نقصان کا شکار نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ باپ کا بچوں سے دور ہونا اور میاں کا بیوی سے دور ہونا اس خانوادہ کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے ۔


اسی طرح نماز جمعہ کے لحاظ سے بھی یہ عرض کرتا چلوں کہ نماز جمعہ سے پہلے گھر والوں کے ساتھ مل کر کہیں گھومنے جانا چاہیے ۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیئے خانوادہ کے ہمراء مسجد میں آنا چاہیے ۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد خانوادہ کے لئے کچھ خریدنا چاہئے اور کھانا کھانے کی غرض سے کسی اچھے اور مناسب ریسٹورنٹ میں جانا چاہیے تا کہ خانوادہ کے درمیان میل جول اور محبت پیار و خلوص قائم و دائم رہے ۔


ہمیں شیطان رجیم کی چالوں ، چاپلوسیوں اور گمراہیوں سے آگاہ رہنا چاہیے اور اسے موقع نہ دیں کہ وہ خدائے بزرگ و برتر اور ہمارے درمیان حائل ہو سکے ۔

خدا تعالیٰ ہمیں ان مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور پروردگار عالم کا قرب حاصل ہو ۔

ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام  کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد کے لیے مفید قرار دے۔


والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکا تہ