۱۳۹۸/۹/۸   2:4  ویزیٹ:2106     آنلین مقابلے


02 ربیع الثانی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 29/11/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


اول خطبہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا و طبیب نفوسنا الذی سمی فی السما باحمد و فی الارضین بابی القاسم مصطفی محمد و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین و لعنت الله علی اعدائهم اجمعین

اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

محترم نماز گزاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے کہا :

يا أبا ذر اغتنم خمسا قبل خمس : شبابک قبل هرمک، وصحتک قبل سقمک وغناک قبل فقرک، وفراغک قبل شغلک، وحياتک قبل موتک

اے ابا ذر! پانچ چیزوں کو ان کے ختم ہونے سے پہلے جان لیجیے یعنی یعنی ان پانچ چیزوں سے فائدہ اٹھائیے .

1 بڑھاپا آنے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانیے ۔

2 بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت جانیے ۔

3 فقیر ہونے سے پہلے دولت مندی کو غنیمت جانیے ۔

4 اپنے فارغ اوقات کو مشغول ہونے سے پہلے غنیمت جانیے ۔

5 اپنی زندگی کو موت آنے سے پہلے غنیمت جانیے ۔

غنیمت کا مطلب یہ کہ ہم کسی بھی شے ، زمان و مکان ، فرصت سے حلال اور اچھا فائدہ اٹھائیں ۔

یعنی یہ کہ ان سب چیزوں کو حلال طریقے سے مخلوق کی خدمت کرنے میں خرچ کریں اور ان نعمتوں کا حق ادا کریں ۔

  1. پہلی وصیت کے مطابق جوانی میں طاقت عروج پر ہوتی ہے جیسے کہ سلامتی و تندرستی جیسی سب چیزیں ، لیکن بالآخر آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں ۔
  2.  مثلا کان بہرے ہونے لگتے ہیں، آنکھوں کمزور ہوتی جاتی ہیں ، زور بازو کم اور حافظہ بھی کمزور ہو جاتا ہے ۔

شاعر نے اس طرح اس مطلب کو شعر کی زبان میں بیان کیا ہے ۔

تا جوانی و تندرستی ھست  اید اسباب ھر مراد بہ دست

یعنی جب تک جوانی ہے ، انسان کسی بھی مراد کے حصول کے لیے اسباب فراہم کر سکتا ہے ۔ لیکن جیسے ہی بوڑھا ہو جاتا ہے تو کچھ نہیں کر پاتا ۔

الا لیت شعباب یعود یوما فاخبرہ بما فعل المشیب

کاش کہ جوانی پھر آ جائے تا کہ اسے بڑھاپے کا حال سنائوں

2  دوسری وصیت یہ کہ بیماری آنے سے پہلے اپنی صحت کو غنیمت سمجھو ۔

ہمارا بدن روح کے ساتھ مرکب ہے ، روح ہی انسان کی حقیقت ہے اور بدن کے ذریعے روح کو تکامل ملتا ہے ۔ اسی وجہ سے ہمیں چاہیے کہ اپنے بدن پر زیادہ توجہ دیں ۔

 ہمارا بدن اللہ کی امانت ہے اور کوئی حق نہیں کہ اس بدن کو کچھ بھی ضرر یا نقصان پہنچائیں ۔ وہ لوگ جس کا کام گدانی نہیں ہے یعنی ان کے کام میں زیادہ حرکت کرنا نہیں ہے ، ان پر واجبات میں سے ہے کہ ورزش کریں ۔ اسلام میں جو حلال کھانے کا حکم آیا ہے یہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ حرام کھانے سے بدن کو نقصان پہنچتا ہے .

خداوند متعٰال سورۃ البقرۃ ، آیت 168 میں فرما رہا ہے

کُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اے لوگو! ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال و پاکیزہ ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ، بے شک وہ تمہارا صریح (کھلا) دشمن ہے ۔

خداوند متعٰال نے کرہ ارض پر جتنے بھی حلال عناصر تخلیق کیے ہیں ، صرف اس لیے کہ ہمارے جسم و روح سالم رہیں ۔ بلکہ اتنی زیادہ پیدا کی ہیں تاکہ حرام کی طرف جانے کے لیے کوئی احتیاج نہ رہے ۔ مثال کے طور پر انگور کی درخت سے دس حلال فائدے لیے جا سکتے ہیں ،

 اب اگر کوئی زمیندار اس کو حرام کے لیے استعمال کرنا چاہے تو یہ اس کی کج فکری اور بدعہدی ہے ۔

خداوند متعٰال نے بھیڑ بکری کے گوشت کو حلال اور خنزیر کو حرام قرار دے دیا ۔ کبوتر کے گوشت کے بارے میں کہا کے کھائو لیکن کوے کے گوشت سے منع فرمایا ۔

پس جہاں حرام گوشت حیوانات ہیں وہاں حلال گوشت بھی ہیں ۔ لیکن پھر بھی چاہیے یہ کہ اپنی صحت و سلامتی کا خیال رکھیں اور انسان ہر عضو کی قیمت و اہمیت کو سمجھ کر اس پر توجہ دے ۔ اب زرا سوچیے کہ گردہ جو سائز میں ایک انڈہ کے برابر ہے لیکن ایک بڑی مشین کی طرح ڈائیلیسز کرتا ہے ۔

 ہمیں حکم ہے کہ زیادہ مت کھائیں اور وہ اس لیے کہ ہم اپنے بدن کی سلامتی کو محفوظ رکھ سکیں ۔

المعدہ بیت کل الداء ، و الحمیہ راس کل دواء

سب بیماریوں کا گھر معدہ ہے اور پرہیز کرنا سب دواؤں سے بہتر ہے ۔

اب باوجود اس کے دیکھا جائے کہ ہم اتنی چینی اور کولڈ ڈرنکس استعمال کرتے ہیں کہ عالمی ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے ، لیکن شوگر کی مریض کے لیے زیادہ میٹھا کھانا حرام کھانے کے برابر ہے ۔

اگر کسی کو ہدیہ دینا چاہیں تو بجائے مٹھائی دینے کے ، زیتون کے تیل و چاول یا میوہ خرید کر دیں کیونکہ ان اشیاء سے بدن سالم رہتا ہے ۔ البتہ مٹھائی ، کولڈ ڈرنکس و جملہ ٹھنڈے مشروبات یہ تمام انسانی بدن کو برباد کر دیتے ہیں ۔

ورزش یا کوئی بھی ایسا کام کرنا کہ جس سے بدن حرکت کرتا رہتا ہو ، انسان کیلئے بہت مفید ہے ۔

 دین مبین اسلام میں ورزش اور تیراکی کی بہت زیادہ تاکید ہے ۔ معصوم فرماتے ہیں کہ انسان کے لئے بہترین کھیل تیرنا ہے ۔

3  تیسری وصیت یہ کہ دولتمندی کو فقیر ہونے سے پہلے غنیمت جانیے ۔

مال و دولت و سرمایہ کا ہونا انسانی ضروریات میں سے ہے ۔ اگر آپ دین کی راہ میں خرچ کریں تو دیکھیے کہ مال پاک و پاکیزہ اور بہترین ہونا چاہیے جیسے کشتی کے لیے پانی ۔

 اگر دیکھا جائے کہ پانی کشتی کے باہر ہو تو اچھا ہے لیکن اگر کشتی کے اندر آ جائے تو کشتی کے غرق ہونے کا باعث بنتا ہے ۔

اب مال اور دولت برا چیز نہیں ہے کیونکہ قرآن نے بھی اسکا خیر کے ساتھ ذکر کیا ہے

سورۃ العادیات آیت 8 میں مال کا ذکر خیر کے ساتھ آیا ہے

وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ

اور بے شک وہ مال کی محبت میں بڑا سخت ہے ۔

اسی طرح سورۃ البقرۃ آیۃ 180 میں فرمایا :

کُتِبَ عَلَيْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَـرَکَ خَيْـرَاۚ ِ ۨ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ

تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے ، اگر وہ مال چھوڑے تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے ، یہ پرہیزگاروں پرحق ہے ۔

اس آیت میں خیر سے مراد مال اور دولت ہے ۔

 اپنے بے نیاز ہونے کو غنیمت سمجھنا اور یہ کہ خود سے نیچے دیکھیے ناں کہ اپنے سے اوپر ، اصراف نہ کریں ، فضول چیزوں میں بھی خرچ نہ کریں ۔

جیسا کہ سورۃ النساء آیۃ 5 میں ارشاد فرمایا : وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّـٰهُ لَکُمْ قِيَامًا وَّارْزُقُوْهُـمْ فِيْـهَا وَاکْسُوْهُـمْ وَقُوْلُوْا لَـهُـمْ قَوْلًا مَّعْـرُوْفًا    (اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہے اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو ۔ )

آقا امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

احتفظ بمالک فانہ قوام دینک

اپنے مال کی حفاظت کریں کیوں کہ اس سے آپ کا دین بھی ہمیشہ کے لیے رہتا ہے ۔ پوچھا گیا کہ یہاں کس مال کے طرف اشارہ ہے تو جواب میں فرمایا ، اپنے مال اور بیت المال دونوں کی ۔ یعنی عمومی و خصوصی اموال دونوں کی حفاظت کریں ۔

مالی لحاظ سے انسان پر جتنی بھی حقوق ہیں وہ ادا کرے ۔ خمس ، زکٰوۃ اور کفارہ ان سب سے اللہ تعالی برکت بھی دیتا ہے اور یہ کہ اگر کوئی اِس دنیا میں فقیر ہو تو یہ آسان ہے بانسبت اُس دنیا کے فقر کے ۔ اور اگر کسی نے مالی حقوق کو اپنے سے پہلے آخرت کے لیے نہیں بھیجا تو وہ عالم برزخ میں فقیر اور قیامت میں اس سے بڑھ کر زیادہ فقیر ہو گا 

4  چوتھی وصیت یہ کہ اپنے فارغ اوقات کو مشغول ہونے سے پہلے  غنیمت جانیے ۔

وہ افراد جو وقت سے ٹھیک فائدہ اٹھاتا ہیں وہ صاحب علم ، صاحب عمل ، صاحب فن اور صاحب ہنر یا کسی پیشے اور کسب کے مالک بن جاتے ہیں ۔ انسان کی عمر جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی اس کا وقت مشغول ہوتا جاتا ہے ۔ اگر کوئی ظاہری طور پر ریٹائر یا پینشنیر بھی ہو جائے پھر بھی اس کا کام گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا رہتا ہے ۔

ہمیں چھٹی کے دن کو بہ نسبت اس دن کے کہ جب ہم کام پر ہوتے ہیں ، زیادہ عبادت بجا لانا چاہئے اور صلہ رحمی کرنا چاہیے ۔ چھٹیوں میں بہ نسبت مشغول اوقات کے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ طالب علموں کو چاہیے کہ اپنے مضمون اور اسباق کو امتحان سے قبل اچھی طرح یاد کریں یا مشق کریں ۔ فقط امتحان کی رات کو رٹ لینے سے کہ جس سے فقط اچھے نمبر مل جائیں ، اس علم کا کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل میں کسی کام آتا ہے ۔

5  پانچویں وصیت یہ کہ اپنی  زندگی سے موت آنے سے پہلے فائدہ اٹھائیں ۔

ہمارے  99% کام زندگی کے ساتھ مربوط ہیں کہ جن کا موت کے بعد انجام دینا بہت مشکل ہے ۔ جیسے کہ عبادات کا انجام  دینا ، حقوق الہٰی و حقوق العباد کا ادا کرنا ۔ البتہ کسی بھی کام میں ترقی کرنا ، امیر ہونا یا بلندی کا خواب یہ سب اس دنیا کے ساتھ مختص ہیں اور یہیں تک کے لیے ہیں ۔ کسی خطیب نے کیا خوب فرمایا کہ ابھی ایک گولی کھانے سے جو مسئلہ حل ہو جاتا ہے وہ آخرت میں آپریشن کے ساتھ بھی حل نہیں ہو سکتا اور جو مسئلہ یہاں ایک آپریشن سے ساتھ ہو جاتا ہے وہ آخرت میں سو آپریشنز کے ساتھ بھی حل نہیں ہو سکتا ۔

کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے اپنے مرنے کے بعد وصیت میں کھجور کا ایک بہت بڑا ذخیرہ صدقہ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اپنی زندگی میں ایک دانہ کھجور بھی صدقہ میں دیتا تو وہ اس ذخیرہ سے بہتر تھا جو اس کا وارث اب اس کی طرف سے دے رہا ہے ۔

یَااَبَاذَرٍّ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیْفَ بِاَمَلِکَ

اے ابوذر ! ایسا نہ ہو کہ بلند آرزوئیں تمہارے اچھے کاموں میں خلل پیدا کر دیں

یہاں تسویف کے معنٰی کسی عمل یا کام کو تاخیر میں ڈالنا اس امید سے کہ بعد میں انجام پا جائے گا ۔

وہ افراد جو کہتے ہیں کہ ابھی تو میں زندہ ہوں ، انشاء اللہ یہ کام بعد میں کروں گا یا بعد میں نمٹا دوں گا تو ایسا کرنے سے وہ اپنی زندگی کوغنیمت نہیں جانتے یعنی اس کی اہمیت سے واقف نہیں ۔ اب چاہے وہ عبادات ہوں مثلا نماز ، روزہ ، حج ، گناہوں سے توبہ اور یا واجبات جیسے صدقہ ، زکوٰۃ ، خمس اور خیرات یا پھر کسی سے لین دین اور حساب کتاب کر کے اس کا قرض چکانا ہو یا کچھ اور وظائف ۔ انسان کو کوئی خبر نہیں کہ کچھ لحظے بعد کیا ہونے والا ہے ۔

يا أبا ذر! لو نظرت إلى الأجل ومسيرِهِ، لأبغضت الأملَ وغرورَه

اے ابوذر ! اگر تم موت اور اس کی راہ میں آنے والے مسائل کو دیکھ لو تو خواہشات اوراس کی دھوکے بازیوں سے نفرت کرنے لگو گے ۔

يا أبا ذر! کن في الدنيا کأنک غريب، أو کعابر سبيل، وعدّ نفسک في أهل القبور

اے ابوذر ! دنیا میں ایک اجنبی یا راہ گذر کے مانند زندگی بسر کرو اور اپنے آپ کو مُردوں کی طرح سمجھو ۔

يا أبا ذر! إذا أصبحت فلا تحدِّث نفسک بالمساء، وإذا أمسيت فلا تحدِّث نفسک بالصباح

اے ابوذر ! جب صبح کرو تو اپنے نفس کو شام کی امید مت دلاؤ اور رات کے وقت اپنے آپ کو صبح کی امید نہ دلاؤ ۔

طویل اور بڑی امیدیں باندھنا ، یہ ان کی تکمیل کے لیے بھی مصبیت ہوتی ہیں ۔ البتہ اچھی امید و آرزو رکھنا جیسے کہ شہادت کی آرزو یا نماز شب پڑھنے کی آرزو رکھنا بہترین ہے ۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ مومن اپنے عمل سے بھی زیادہ اچھا ہے یہ کہ خیر کے کاموں میں کھبی ڈھیل نہیں کرتا ۔ اسی طرح دنیا کے لیے بھی اچھی امید رکھنا جیسا کہ اقتصاد اسلامی ، قناعت ، کفایت اور مقاومت کرنا بری بات نہیں ہے ۔ حتی کہ کئی دعاؤں میں بھی آیا ہے کہ خدایا مجھے پاکی اور کفاف عطا کرنا ۔ اگر آپ کے پاس ایسی گھڑی ہے جو آپ کو آپ کے مقصد تک پہنچا سکتی ہو ، کوئی ایسا گھر ہے جس میں زندگی گزار سکیں یا کوئی ایسا کام جو آپ کی زندگی چلا سکتا ہو تو اس پر بھی خدا کا شکر بجا لائیں ۔ بزرگان دین بھی فرماتے ہیں کہ معنویات میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو اور مادیات میں اپنے سے نیچے والے کو ۔

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا : میں بغداد کی گلیوں میں بغیر جوتوں کے چل رہا تھا اور اپنے آپ سے بہت ناراض و اداس تھا کیونکہ میرے جوتے نہیں ہیں ۔ زرا آگے پہنچا تو کیا دیکھا کہ ایک بندہ خدا کے پائوں ہی نہیں ہیں ۔ جب یہ منظر دیکھا تو اپنی ناراضگی و اداسی بھول گیا ۔

اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ یہ کہ ہمارا سب کچھ یہی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اسے مقصد دنیا سمجھیں ۔ آپ خود کو مسافر سمجھیں اور مسافر کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے بس اسی حد تک سامان کریں ۔ یہ جو فرمایا کہ (اذا اصبحت)  یعنی جب آپ پر صبح آ گئی اور دیکھا کہ کسی کی تصویر لگی ہوئی ہے کہ وہ فلاں فوت ہوگیا ہے ۔ بلکہ اس کو اپنی تصویر سمجھو کیونکہ اگلی صبح کا پتہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ سورۃ لقمان آیۃ 34 میں ارشاد فرمایا :

وَمَا تَدْرِىْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِىْ نَفْسٌ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ

اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا ، بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔

خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

 

خطبہ دوم

محترم نماز گزاران

و پیروکاران رسالت و امامت

ہم ہفتہ وحدت سے زیادہ دور نہیں گئے بلکہ ابھی ابھی گزرا ہے ۔ وحدت کے بارے میں تاکید کرنا بھی تقوٰی ہے کیونکہ وحدت بہت اہم امر ہے۔

 اور یہ فقط ہفتہ وحدت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو ہر وقت متحد رہنا چاہیے ۔

 اتحادبین مسلمین کی اہمیت اور ضرورت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد ہجرت تین قسم کے عہد و پیمان پر دستخط کیا ۔

مسلمان و غیر مسلمان کے درمیان اتحاد پیدا کرنا ۔ غیر مسلمان چاہے یاہوت ہو ، مجوس ہو یا نصاری اور اس بات کی طرف قرآن کریم بھی سورۃ آل عمران آیۃ 64 میں اشارہ کرتا ہے کہ :

قُلْ يَآ اَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰى کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّـٰهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهٖ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ

کہہ دے اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے ، پس اگر وہ پِھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرماں بردار ہونے والے ہیں ۔

2  مسلمانوں کے مابین اتحاد قائم رکھنا جبکہ مہاجرین اور انصار سب مسلمانوں  کے درمیان اتحاد پر دستخط  لیے گئے 

3  مسلمانوں کے مابین اخوت اور برادری کو قائم کیا ۔ فرمایا تاخو فی اللہ اخوین ہر دو دو میں بھائی ہو جاؤ اور تاریخ نے بھی ذکر کیا کہ کون آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نا صرف فقط مسلمانوں کے درمیان بلکہ جو دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکار تھے ، ان کے درمیان بھی صلح  و بھائی چارے کوقائم کیا ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جو واقعات پیش آئے ان پر خاموشی اختیار کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم رکھا جا سکے ۔ کسی ایک مئولف نے بھی لکھا کہ اسلام کا برقرار رہنا جناب علی علیہ السلام کے سکوت و تحمل اور تلوار و جہاد کا مدیون ہیں ۔

 خطبہ شقشقیہ نہج البلاغہ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہوا کہ امام علیہ السلام اتحاد کی سلامتی و بقاء کے لیے خاموش رہے ۔ مولا علی علیہ السلام مختلف امور میں خلفاء کی مدد کیا کرتے تھے ، بہترین مشورے دیا کرتے تھے ۔ اسی طرح لوگوں کے سوالات اور جو دانشمندان یا اہل فکر اس وقت  سوال پوچھتے تھے

 ان سوالوں کے جواب بھی دیتے تھے ۔ اس طرح آپ علیہ السلام اُس وقت کی حکومت اسلامی کی مدد کرتے تھے ۔ امام علی علیہ سلام خلفاء کے ساتھ ان کے گھر تک جاتے ، نماز با جماعت میں شریک ہوتے یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے یہ حکم کر رکھا تھا کہ جب علی علیہ السلام مسجد میں موجود ہوں تو کوئی دوسرا حق نہیں رکھتا کہ وہ فتوٰی دے یا اپنی رائے ظاہر کرے ۔

امام علی علیہ سلام اپنے محبین کو مخالفین کے لیے گالی گلوچ کرنے سے روکتے ہوئے تاکید کرتے تھے کہ مجھے کبھی بھی یہ پسند نہیں کہ تم گالی دینے والوں میں سے ہو ، ہاں البتہ اگر ان کے غلط کاموں کو دیکھو کہ وہ جو غلط یا نا شائستہ کام انجام دیتے ہیں ان کو دوسروں تک پہنچائو ۔

امام علی علیہ سلام اپنے دور خلافت میں از حد کوشش کرتے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی فتنہ یا جنگ نہ ہونے پائے ۔ یہاں تک کہ جب تک امام علیہ السلام مجبور نہ ہو جاتے تب تک تلوار نہ اٹھاتے ۔ ان کی اولین کوشش یہ ہوتی کہ باتوں یا خط و کتابت کے ذریعے معاشرے کو جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ۔

امام علیہ سلام نے پہلے کبھی خود جنگ شروع نہیں کی بلکہ فرماتے تھے کہ ما کنت ابدا ھم بالقتال میں نے کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کی ۔ بقیہ معصومین علیہ السلام کا بھی یہی اصول و کردار تھا ۔ امام حسن علیہ السلام کا معاویہ کے ساتھ صلح نامے پر جانا اسی بات کی گواہ ہے

۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام کا حکومت معاویہ میں دس سال خاموش بھی رہنا اسی بات کی دلیل ہے ، البتہ وہ کبھی کوئی ایسا کام یا عمل انجام نہیں دیتے تھے جس سے ظالموں کے ظلم کو تقویت مل جائے ۔

امام باقر علیہ السلام کے دور حیات میں امیر / حاکم اقتصادی مشکلات کے ساتھ دوچار ہوا ۔ یہ بات عمومی طور پر اسلام اور مسلمین کے  لیے نقصان دہ تھی تبھی تو امام علیہ السلام نے سکہ بنانے کا طریقہ یاد دلایا تھا کہ اس طرح وہ (امیر / حاکم) اقتصادی لحاظ سے استقلال پیدا کرے ۔

امام صادق علیہ السلام کے علمائے اہل سنت کے ساتھ اچھے اور کریمانہ روابط تھے ۔ اس حد تک کہ علمائے اہل سنت بغیر کسی جھجک کے امام علیہ السلام کے پاس آتے اور پوری آزادی کے ساتھ بات کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام مالک نے کہا : میں جب بھی امام علیہ السلام کے پاس گیا ،

 انہوں نے میرا احترام کیا اور میرے لئے تکیہ پیش کیا اور کہتے کہ اے مالک ! میں آپ کو چاہتا ہوں ۔ میں ان باتوں سے بہت خوشی محسوس کرتا تھا اور خوش ہو جاتا تھا ۔ امام علیہ السلام کے مدارس صرف شیعیان کے ساتھ مخصوص نہیں تھے ۔

امام ابو حنیفہ نے کہا : لولا سنتان لھلک النعمان اگر میں دو سال امام صادق علیہ السلام کی شاگردی نہیں کرتا تو ہلاک ہو جاتا ۔

امام مالک کہتے ہیں : کسی آنکھ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا لیکن یہ کہ جعفر بن محمد الصادق سے زیادہ فقیہ اور عالم ہو ۔

یہ سب باتیں جامعہ اہل سنت کے ساتھ خاص روابط پر دلیل ہیں ۔ آئمہ اطہار علیہ السلام جماعت اہل سنت و اکابرین کے ساتھ بہترین تعلقات و لین دین رکھتے تھے ۔ ان کے ساتھ نماز جمعہ اور یومیہ نماز جماعت میں شریک ہوتے تھے ، ان کے غرباء و فقراء کی مدد کرتے تھے ، ان کے جنازہ جات میں شرکت کرتے تھے ،

ان کی مریضوں کی عیادت کے لئے جاتے تھے اور ان تمام امور کی تاکید اپنے شیعوں کو بھی وصیت کرتے تھے ۔ شیخ کلینی رحمہ اللہ علیہ اپنی کتاب اصول کافی جلد دوم کے صفحہ 219 نمبر 11 میں امام حسین علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا کہ :

إياکم أن تعملوا عملا يعيرونا به، فإن ولد السوء يعير والده بعمله، وکونوا لمن انقطعتم إليه زينا ولا تکونوا عليه شينا صلوا في عشائرهم ۔ وعودوا مرضاهم واشهدوا جنائزهم ولا يسبقونکم إلى شئ من الخير فأنتم أولى به منهم

خبردار کوئی ایسا برا کام مت کرنا جس کی وجہ سے ہم پر انگلی اٹھ جائے کیونکہ اگر کوئی بچہ برا کام کرتا ہے تو اس کے والدین پر بھی انگلی اٹھ جاتی ہے ۔ اور جس کے ساتھ تم لوگ تعلق رکھتے ہو اس کے لیئے باعث عزت بنو اسکے لیئے باعث ذلت نہ بنو ۔ ان کے ساتھ مراسم میں شریک ہو جائو ،

 ان کے مریضوں کی عیادت کے لئے جائو ، ان کے جنازے میں شریک ہو جائو ۔ وہ لوگ اچھے کاموں میں تم میں سے کسی پر سبقت نہ لے جائیں ۔ تم اچھے کام انجام دینے کے لئے سب سے بہتر ہو ۔  

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے

خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ