۱۳۹۸/۹/۲۹   1:38  ویزیٹ:1620     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


23 ربیع الثانی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 20/12/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


خطبہ اول

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين، نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ، ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته ؛ سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد ، وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين ، سيّما بقيّة الله في الأرضين، وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين .

 

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔ جس طرح اس مادی دنیا کا عملی طور پہ مطالعہ یا تجربہ کر کے پتہ چلا کہ ہر ایٹم مالیکیول پر مشتمل ہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح عالم مفاہیمی (عالم برزخ) کے بھی کچھ اصلیات ہیں جو کئی دوسرے مفاہیم پر مشتمل ہوتے ہیں

 اور لازم وجوبی ہے کہ ہم ان کی طرف متوجہ ہوں ۔ مثال کے طور پر روایت ہے کہ :

الایمان الکامل و ھو الاعتقاد بالجنان و الاقرار باللسان و العمل بالارکان

(مازندارانی 1382 / ق ج 2 / ص 160)

ایمان کامل ہوتا ہے بہشت پر اعتقاد رکھنے اور زبان کے ساتھ اقرار کرنے اور بدن اور اعضاء کے ساتھ عمل کرنے پر ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ : التوبہ علی اربع دعائم ندم بالقلب و استغفار باللسان و عمل بالجوارح و عزم ان لا یعود

توبہ چار ستونوں پر مشتمل ہے دل سے پشیمان ہونے اور زبان سے استغفار کرنے اور جوارح کے ساتھ عمل کرنے (یعنی کنٹرول ہونا کہ عمل کرنا ہی ہے) اور یہ کہ دوبارہ اس عمل کو انجام نہ دینے کا ارادہ کرے ۔

اسی طرح فرماتے ہیں کہ :

الشکر یعنی الاعتقاد بان نعمت اللہ وصل الیک و الاقرار باللسان

شکر کا ادا کرنا یعنی جو نعمات اللہ کی طرف سے تمہیں مل چکی ہیں ، اپنی زبان سے بارہا اس کا اظہار ۔

اور یہ کہ صحیح راستے میں ان نعمات کا استعمال کریں تا کہ انہیں دینے والی کی رضایت (خوشنودی) حاصل ہو ۔

خداوند متعٰال کی نعمات پر شکر کرنے کے چند نکات :

اللہ کی نعمات بیش بہا ہیں

 جیسا کہ سورۃ ابراہیم آیت 34 میں فرمایا کہ : آپ کو وہ سب کچھ دیا گیا جو کچھ تم نے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا بھی چاہو تب بھی نہیں کر پاؤ گے اور بے شک انسان ظالم بھی ہے اور کفر کرنے والا بھی ۔

 

جیسا کہ زندگی ، مختلف قسم کے رزق ، سلامتی ، امنیت ، کام ، سانس لینا ، اعضاء و جوارح ، آل اولاد ، احترام ، دوست ، دین ، مذہب ، رہبران دینی ۔ پس انسان کو چاہیے کہ ہر ایک نعمت کی طرف توجہ کرے تاکہ غافلین میں شمار نہ ہو ۔

سورہ یوسف آیت 105 میں فرمایا : بہت سارے غافل لوگ ان آیات اور نشانیوں کو پاتے ہیں لیکن ان سے منہ پھر لیتے ہیں ۔ اگر ہم طبیعت (اصلیت) کی طرف زیادہ توجہ کریں تو ہم اس مادی دنیا سے بہت زیادہ لذت اٹھا سکتے ہیں اور اس کی شکر گزاری بھی کر سکتے ہیں ۔

سورہ ابراہیم آیت 7 میں فرمایا :

جب تمہارے رب نے تمہیں حکم دیا کہ اگر تم لوگوں نے ان نعمتوں (رزق) کا شکر کیا تو میں تمہارے رزق کو بڑھا دوں گا لیکن اگر تم نے کفر کیا تو میرا عذاب بہت سخت ہے ۔

کبھی کبھی خداوند متعٰال اپنی نعمات سیڑھی کی طرح یعنی ایک کے بعد دوسری دیتا ہے یعنی جب پچھلے نعمتوں کا شکر کیا تو نعمتوں کو زیادہ کر دیا ۔ مثال کے طور پہ آپ ایسے انسان کے ساتھ دوبارہ نیکی نہیں کرتے جب تک وہ پہلی کی گئی نیکی کے لیے شکریہ ادا نہ کر دے ۔

امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوا کہ :

خدا کی نعمتوں کا بڑھ جانا تب تک نہیں رکتا جب تک لوگ شکر کرنا نہ چھوڑ دیں ۔

 

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ : جب انسان کو کوئی نعمت ملے تو تہہ دل اس کی قدر کرے اور زبان سے شکر ادا کرے ، اور یہ کہ جب انسان نے ایسا کیا تو ابھی اس کے شکر کے الفاظ ختم نہیں ہوں گے کہ دوسری نعمت نازل ہو جائے گی ۔ اور اکثر لوگ غافل ہیں کہ وہ شکر ادا نہیں کرتے ۔

سورہ یونس آیت 60 میں فرماتے ہیں کہ :

ان لوگوں کے گمان (شک) کا کیا ہو گا جو اللہ پر قیامت کے بارے میں جھوٹ کی نسبت باندھتے ہیں جبکہ اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے ، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے ۔

سورہ الضحٰی آیت 11 میں فرماتے ہیں کہ :

اللہ کی نعمتوں کا ذکر کیا کرو ۔

پس ہمیں ان نعمات کی قدر جاننا چاہیے اور شکر ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ اسی طرح کوشش کرنی چاہیے کہ نعمتوں کے مقابل اپنے وظیفوں کو بھی احسن طریقے سے نبھائیں

شکر کرنے کی مصادیق

یہ کہ سمجھیں اور توجہ کریں کہ یہ نعمت خدا کی طرف سے ہے اور خدا کسی سے زیادہ امید بھی نہیں رکھتا ۔ جیسا کہ نقل ہوا کہ موسٰی علیہ السلام سے کہا گیا کہ : اے موسٰی میری نعمتوں کا شکر ادا کرو بالکل اسی طرح جتنا شکر ادا کرنے کا حق ہے ۔ موسٰی علیہ السلام نے پوچھا : یا رب میں کیسے شکر ادا کرو کیونکہ شکر کرنا بھی تمہاری نعمت ہے تو لہٰذا مجھے ہر شکر کے لیے بھی شکر ادا کرنا ہوگا ، تو خداوند متعٰال نے فرمایا کہ : اے موسٰی جب تم نے یہ سمجھا کہ یہ نعمتیں میری طرف سے ہیں تو گویا تم نے شکر کرنے کا حق ادا کیا ۔

شکر کرنے کی کیفیت

نماز پڑھنا شکر ہے ، روزہ رکھنا شکر ہے ، غسل کرنا شکر ہے ، سجدہ کرنا شکر ہے ، اپنے رخسار کو مٹی پر رکھنا شکر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوران سفر اپنی سواری سے نیچے اتر کر شکر بجا لایا کرتے تھے اور فرماتے کہ جو خوشخبری مجھے جبریل علیہ السلام سناتے ہیں اس کے لئے مجھے زمین پر اتر کر شکر کا سجدہ کرنا پڑتا ہے اور کچھ نعمتوں کے لئے زین پر موجود لکڑی پر سجدہ کرتے تھے ۔

 

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب مخلوق خدا (یعنی انسانوں) میں کسی احسان کرنے والے کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا تو کیسے وہ خداوند متعٰال کا شکر ادا کر سکتے ہیں ۔ لہذا انسانوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ایک لحاظ سے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے ۔

اسی طرح والدین کا شکریہ بھی ادا کرنے چاہیے ۔

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعٰالی نے اپنا اور والدین کا شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے ، پس جس نے اپنے والدین کا شکریہ ادا نہ کیا گویا اللہ تعٰالیٰ کا شکر بھی نہیں کیا

اسی طرح ہم نصف (یعنی نامکمل) شکریہ ادا نہ کریں بلکہ کامل شکریہ ادا کریں جیسا کہ پکوان پر فقط میزبان کا شکریہ ادا نہ کریں یا اکثر تقریبات میں صرف کچھ ہی شخصیتوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے ، بلکہ وہاں پر کام کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔

ہمارا تو یہ حال ہے کہ جس نے کوئی کام نہ بھی کیا ہو تب بھی اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن جس نے سارا کام کیا ہو اور زحمات اٹھائی ہوں ان کا کبھی بھی شکریہ ادا نہیں کیا جاتا ۔

 

اچھے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اچھے کاموں کی قدردانی نہیں کی جاتی تھی جبکہ عرب و عجم دونوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اچھے کاموں اور بہترین سلوک ظاہر تھے

 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کردار والا روئے زمین پر نہیں مل سکتا ۔ اہلبیت اطہار علیہ السلام بالکل اسی طرح تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت کا ہاتھ ان لوگوں کے سروں پر ہوتا ہے کہ جن کی اچھے امور میں ان کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا ۔

شیخ سعدیؒ نے کہا کہ تم نیکی کرو اور دریا میں ڈالو تاکہ اللہ تمہیں اس نیکی کا بدلہ صحرا میں دے ۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تمہارے اچھے کاموں کا شکریہ ادا نہیں بھی کیا جائے تب بھی تم انہیں انجام دینا مت چھوڑو کیوںکہ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے

 کہ جنہوں نے ان کاموں سے فائدہ نہ بھی اٹھایا ہو وہ شکر ادا کرتے ہیں ۔ لہٰذا ان لوگوں کا تمہارے لیے شکریہ ادا کرنا بالمقابل ایسے لوگوں کے کہ جنہوں نے فائدہ اٹھا کر بھی شکریہ ادا نہ کیا ہو ، سے زیادہ ملتا ہے اور خدا اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

جو لوگ شکر ادا نہیں کرتے ، خداوند متعٰال ان پر لعنت بھیجتا ہے

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : جو لوگ نیکی کے راستے کو بند کر دیتے ہیں ، تو خدا ان پر لعنت کرتا ہے ۔ پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں

 کہ جب ان کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے تو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور اس کے نتیجے میں جو لوگ نیکی کرنے والے ہوتے ہیں وہ نیکی کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔

سب سے پہلے شکر کرنے والا خود خدا ہے

 

سورۃ البقرہ آیت 158 میں ارشاد ہوا کہ :

صفا اور مروہ کے مابین سعی کرنا اللہ کی نشانیوں میں سے ہے ، پس جس نے حج کیا اورخانہ کعبہ کے اعمال بجا لائے ہوں تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ صفا اور مروہ میں سعی کرے

 اور جو اللہ کے راستے میں نیکی کرتا ہے تو خدا ضرور اسے اس کا بدلہ دے دیتا ہے کیوںکہ خدا بہت قدردان اور عالم ہے ۔

دعائے جوشن کبیرہ کی معرفی کرنا (راز جاننا) اور اس کا اس موضوع کے ساتھ ارتباط

جب موسٰی ہادی عباسی نے امام کاظم علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا تو امام علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا جو ان سے یہ کہ رہے تھے کہ اللہ تعٰالی نے تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دیا ۔

دعائوں میں کچھ نعمتوں کو بیان کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ بلائیں دور ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعٰالی چاہتا ہے کہ ہم پر سختی نہ کرے باوجود اس کے کہ ہم اس کی طرف متوجہ بھی نہیں رہتے ۔

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

والعصر . ان الانسان لفی خسر . الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات . و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر  ۔

خطبہ دوم

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّدبن‏ علىّ و جعفربن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّدبن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین

 

اُوصيکم وأدعوکم أيّها الإخوة والأخوات الأعزّاء جميعاً ونفسي بتقوى الله

اللہ تعٰالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے وحی آسمانی اور شریعت سے قبل ایک قیمتی چیز جسے فطرت یا اپنا وجدان یا راوان یا فواد یا قلب یعنی دل یا انصاف کہا جاتا ہے ، کو پیدا کیا تھا ۔

 یہ سب حقیقی نام ہیں جو حقیقت وحی ، روح مجرد اور نفس انسان ہیں کہ جس نے انسان کے جسم میں حلول کیا ہے اور اسی جسم سے اپنے کامل ہونے کے لیے کام لیتا ہے ۔ کوئی بھی انسان اگر اپنے ضمیر اور انصاف کے مطابق عمل کرے تو ہدایت کے رستے پر خود سے چل سکتا ہے ۔

 جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک عالم دین نے ارادہ کیا تھا کہ وہ امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کریں گے اور اسی واسطے اِنہوں نے بہت زیادہ ریاضت کی یا چلہ کیا ۔ ان سے کہا گیا کہ اگر امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کرنا چاہتے ہو تو فلاں شہر کی فلاں گلی اور فلاں دکان میں جائو ۔

جب یہ عالم دین وہاں گئے تو کیا دیکھا کہ ایک ضعیف العمر شخص اس دکان میں بیٹھا ہے ۔ اتنے میں ایک ضعیف العمر عورت بھی وہاں آگئی ۔ اس عورت نے کہا کہ میرے پاس یہ تالا (قفل) ہے ، کیا آپ اسے تین سکوں میں خریدو گے ؟ ضعیف شخص نے کہا اس کی قیمت تو آٹھ سکے ہے ۔ ضعیف عورت نے یہ سنا تو بہت حیرانی سے کہا اِس پورے بازار میں ایک دکاندار بھی نہ تھا جو یہ تین سکوں میں بھی لیتا ، لیکن تم کتنے منصف آدمی ہو جو آٹھ سکے میں خریدنے کو کہ رہے ہو ۔ ضعیف آدمی نے آٹھ پیسے دے کر تالا (قفل) خرید لیا ۔

 وہیں ایک اور خوب صورت شخص بیٹھا تھا کہ گویا وہی امام زمان علیہ السلام تھے ۔ امام نے فرمایا کہ اے شخص ! کیا تو نے اس ضعیف آدمی کا انصاف دیکھا ۔ اگر تم بھی اپنے آپ میں انصاف کرو تو میں تم سے بھی ملنے آ جاؤں گا ۔ مجھ سے ملنے کے لیے زیادہ ریاضت کی ضرورت نہیں ہے

ہمیشہ انصاف اور ضمیر اور وجدان کے مطابق ایک دوسرے سے خورد برد کرو ۔ امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جو امام زمان علیہ السلام کے جد امجد ہیں ، نے ایک بہت خوبصورت حدیث میں اس موضوع کے بارے میں کچھ اس طرح بیان فرمایا :

احبب لغیرک ما تحب لنفسک و اکرہ لہ ما تکرہ لنفسک

دوسروں کے لئے وہی سب پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو اور جو کچھ نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو ۔

 

اگر کوئی رئیس یا مدیر یا عہدیدار اپنے زیر اثر کام کرنے والوں ، حاکم اپنے رعیت (رعایا) ، استاد اپنے شاگرد ، بیچنے والا خریدنے والے کی جگہ پر اپنے آپ کو رکھے اور پھر اس کے ساتھ کوئی معاملہ یا بات چیت کرے ۔

یا اس کے الٹ کرے یعنی جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ مد مقابل کے لیے پسند کرے ۔ یا جو کچھ سننا چاہتا ہے وہ اپنے ملازمین یا رعایا کو سنائے تو بہت سارے جھگڑے فساد اور بے انصافیاں ختم ہو جائیں گے ۔

ظلم و جور اس معاشرے سے نکل جائے گا اور بہت سارے مسائل و مشکلات با آسانی حل ہو جائیں گے ۔

 

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے ۔ خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں ۔

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر   والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ