۱۳۹۸/۱۰/۲۰   1:13  ویزیٹ:1397     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


14جمادی الاولی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 10/01/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 

اما بعد   عباد الله  اوصیکم و نفسی بتقوه الله

 

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 

و بعد از این

ہم شہادت پیکر وفا ، ضامن بقائے دین اسلام و محافظ رسالت و امامت جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے ، اسی طرح سردار رشید اسلام ، مالک اشتر زمان حاج قاسم سلیمانی ، شہید حاج ابو مہدی المہندس و ہمراہان ، وہ جو کرمان میں دوران جلوس جنازہ انتقال کر گئے ، وہ جو طیارے کے حادثے میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ، اِن سب مناسبات پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ شریف کی خدمت میں ہدیہ تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں ۔

 

شہادت کا موضوع ان تمام حوادث کے ساتھ بہت مناسبت رکھتا ہے اور یہ کہ ہم صبر و مقاومت اور تحمّل کرنے پر بات کریں ۔

 

اللہ تبارک و تعٰالیٰ سورۃ الزمر ، آیت 10 میں فرماتے ہیں :

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا

 

اسی طرح سورۃ الرعد ، آیت 24 میں فرماتے ہیں :

سَلَامٌ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَـرْتُـمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الـدَّارِ 

بہشت کے فرشتے کہیں گے ! تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے ، پھر آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے

 

پھر یہ فرشتے مومنین و صالحین سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں :

وَجَعَلْنَا مِنْـهُـمْ اَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَـرُوْا ۖ وَکَانُـوْا بِاٰيَاتِنَا يُوْقِنُـوْنَ 

اور ہم نے ان میں سے پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے جب انہوں نے صبر کیا تھا ، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین بھی رکھتے تھے

(سورۃ السجدۃ ، آیت 24)

 

امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

الصَّبْرُ مِنَ الْإِيمَانِ، کَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ

صبر کی نسبت ایمان کے ساتھ ایسی ہی ہے کہ جیسے سر کی نسبت بدن سے ہے ۔

 

صبر کے لغوی معنیٰ برداشت کرنا ، تحمل کرنا ، بے تابی و بے قراری سے اپنے نفس کو روکنا ۔ صبر کے اصطلاحی معنیٰ اپنے آپ کو ایسے کاموں سے روکنا جو ہدف تک پہنچے میں مانع (رکاوٹ) ہوں یا ہدف تک پہنچنے میں تاخیر کا باعث ہوں۔ اگر صبر اخلاقی کمالات و تقرب الہٰی پانے کے لیے ہو تو اخلاقی لحاظ سے فضیلت شمار ہوتا ہے ، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کوئی آپ کو تھپڑ مارتا رہے اور آپ جواب بھی نہ دیں ، بلکہ اپنے وظیفے کو انجام دیں ۔

 

جہاد کا مطلب مقابلہ ، امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا کے ہیں ۔ البتہ ان دونوں کی خاص مشکلات ہیں جنہیں برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ برخلاف ان لوگوں کے جو صابر نہیں ہیں یعنی جو پہلی ملاقات میں ہی میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔

 

اما ! صبر کے درجات :

الف۔  ناپسندیدہ چیزوں یا مصائب پر صبر ، جانی نقصان جیسے موت و بیماری پر صبر ، مالی نقصان پر صبر

 

اللہ تبارک و تعٰالیٰ سورۃ البقرۃ آیت 155 میں فرماتے ہیں :

وَلَنَـبْلُوَنَّکُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ 

اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے ، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو

 

دنیا کی خصوصیات میں سے ایک تعارض (ایک دوسرے کے مد مقابل ہونا) ہے ۔ یعنی جیس طرح انسان چاہتا ہے کہ وہ زندگی کو آگے بڑھائے ، نسل سازی کرے اور حیات رہے ٹھیک اسی طرح لڑائی جھگڑے و فساد ، اموات ، بیماریاں ، مائیکرو جراثیم بھی چاہتے ہیں کہ وہ پھلیں پھلیں ۔ اسی طرح انسان میں بھی حب ذات موجود ہے اور اس طرح نفع میں ایک دوسرے کے ساتھ مد مقابل آ جاتا ہے ، تو ان تمام وجوہات اور مقامات پر مقابلے اور صبر کا آغاز ہوتا ہے ۔

 

اللہ تبارک و تعٰالیٰ سورۃ بلد آیت 4 میں فرماتے ہیں :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىْ کَبَدٍ

کہ بے شک ہم نے انسان کو مصیبت میں پیدا کیا ہے

 

محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

جو اللہ کے قریب ہوتا ہے اس کے مصائب اور امتحانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں ۔

 

پھر فرمایا :

کوئی بھی میرے جیسا آذار (آزمایا ہوا ، مصائب و امتحانات میں گھرا ہوا) نہیں ہوا ہے ۔

 

پس ہم کہ سکتے ہیں کہ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مصیبت میں ہے لیکن حالت یہ ہے کہ ہم جانتے ہی نہیں ۔

 

شاعر نے کیا خوب کہا کہ :

دل بی غم در این عالم نباشد    اگر باشد بنی آدم نباشد

اس عالم میں کوئی ایسا دل نہیں جس میں کوئی نہ کوئی غم نہ ہو اور اگر ہے تو وہ بنی آدم نہیں ہے

 

ب۔  اطاعت خداوندی پر صبر

اللہ تبارک و تعٰالیٰ سورۃ مریم آیت 65 میں فرماتے ہیں :

رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَـهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِـرْ لِعِبَادَتِهٖ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَـهٝ سَـمِيًّا 

آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو چیز ان کے درمیان ہے سو اسی کی عبادت کر اور اسی کی عبادت پر قائم رہ ، کیا تیرے علم میں اس جیسا کوئی اور ہے

 

عبادات کے میدان میں شیطان کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑتا ہے اس لیے بہت توجہ کرنی چاہیے ۔ شیطان انسان کے قلب میں وسوسے ڈالتا ہے ۔ مثال کے طور پہ جب آپ مسجد میں موجود ہوں اور نماز کا وقت قریب ہو ، اگر امام جماعت نہیں آئے تو عقل کہتی ہے کہ اٹھو نماز مستحب پڑھو لیکن شیطان کہتا ہے نہ پڑھو کیونکہ یہ ریا کاری اور دکھاوا ہو گا ۔ زرا سوچیے کہ نماز کل کتنے منٹ میں ادا کی جاتی ہے اور اس دوران شیطان ہمارے قلب میں کتنے وسوسے ڈالتا ہے ۔ کبھی کہتا ہے کہ کام میں دیر ہو جائے گی ، کبھی کہتا ہے کہ فلاں کام میں تاخیر ہو جائے گی ، کبھی کہتا ہے پڑھائی کے لیے دیر ہو رہی ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں اگر دو ڈھائی گھنٹہ کی فلم یا ڈرامہ دیکھنے بیٹھتے ہیں تو پھر شیطان یہ کبھی نہیں کہے گا کہ دیر ہو رہی ہے ، پڑھنا ہے ، فلاں کام سے تاخیر ہو رہی ہے ۔ پس اطاعت خداوندی کے لیے کچھ طاقت اور وقت چاہیے ۔ نماز پرھنا ، روزہ رکھنا ، حج ادا کرنا ، امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا یہ سب تحمل چاہتے ہیں ۔

 

حج کے معاملے میں شیطان و شیطان صفت انسان کہتے ہیں ہم کیوں اپنا مال خرچ کریں اور یہ عرب لوگ ہمارا پیسہ کھائیں ، لیکن زرا دیکھیے کہ ہر دور میں اہل البیت اطہار علیہم السلام حج کو جایا کرتے تھے ۔ اسی طرح امر بالمعروف و نہی از منکر کے معاملے میں شیطان و شیطان صفت انسان کہتے ہیں ہمیں شرم آتی ہے یا لوگ خوامخواہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے ، یہ تمام شیطانی وسوسے ہی ہیں ۔

 

ج۔  مصیبتوں پر صبر

شہوت کے جلتے ہوئے شعلوں کے مقابلے پر کھڑے ہونا اور ہواء نفس کے ساتھ مقابلہ کرنا

سورۃ ہود آیت 10 اور 11 میں ارشاد ہوا :

وَلَئِنْ اَذَقْنَاهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّىْ ۚ اِنَّهٝ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ (10) اِلَّا الَّـذِيْنَ صَبَـرُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُولٰٓئِکَ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ کَبِيْـرٌ (11)

اور اگر مصیبت پہنچنے کے بعد نعمتوں کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری سختیاں جاتی رہیں ، کیونکہ وہ اِترانے والا شیخی خورا ہے  ۔ مگر جو لوگ صابر ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔

یعنی انسان کبھی خوشی ، غفلت ، فخر و غرور فروشی میں غرق ہو جاتا ہے لیکن وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں ، استقامت سے کام لیتے ہیں ، اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے ۔

 

داستان حضرت یوسف علیہ السلام میں ہے :

وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِىْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ۚ اِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ 

اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے مگر جس پر میرا رب مہربانی کرے، بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے

(سورۃ یوسف علیہ السلام ، آیت 53)

 

قرآن کریم صبر اور صابران کی اس طرح تعریف کرتا ہے کہ پیغمبران اور جو ان کےساتھ ہو کر یا دوست بن کر لڑتے تھے وہ لوگ کبھی بھی اللہ کی راہ میں پیچھے نہیں ہٹے اور نہ کبھی سر تسلیم خم کیا اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

 

مجاہدین کے بارے میں سورۃ البقرۃ ، آیت 349 میں کہتے ہیں :

کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ

وہ کہنے لگے بارہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے غالب ہوئی ہے ، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

 

د۔  دشمن کی چالبازی پر صبر

سورۃ آل عمران ، آیت 120 میں فرماتےہیں :

اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُـمْ ؕ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَيِّئَةٌ يَّفْرَحُوْا بِـهَا ۖ وَاِنْ تَصْبِـرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّکُمْ کَيْدُهُـمْ شَيْئًا ۗ 

اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے ، اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس سے خوش ہوتے ہیں ، اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کے فریب سے تمہارا کچھ نہ بگڑے گا

 

صبر کے بارے میں متعدد آیات ہیں جن میں سے کچھ نمونے کے طور پر عرض کی ہیں ۔ ان میں سے ایک سورۃ العصر بھی ہے ۔

اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ 

مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے

 

اسی طرح سورۃ النحل ، آیت 127 میں فرماتے ہیں :

وَاصْبِـرْ وَمَا صَبْـرُکَ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْـهِـمْ وَلَا تَکُ فِىْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْکُـرُوْنَ 

اور صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے ، اور ان پر غم نہ کھا اور ان کے مکروں سے تنگ دل نہ ہو

 

اسی طرح سورۃ لقمان ، آیت 17 میں فرماتے ہیں :

يَا بُنَىَّ اَقِمِ الصَّلَاةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِـرْ عَلٰى مَآ اَصَابَکَ ۖ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ 

بیٹا نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور تجھ پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کیا کر ، بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہیں

 

 

 

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

خطبہ دوم

 

والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّد بن‏ علىّ و جعفر بن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّد بن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین 

اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله

 

محترم نماز گزاران

و پیروکاران رسالت و امامت

 

چاہتا ہوں اس خطبے میں تازہ ترین حادثات کے متعلق گفگتو کروں ۔

 

علامہ مجلسي علیہ الرحمۃ  امام باقر علیہ السلم سے روایت کرتے ہیں ، کہ فرمایا :

کأني بقوم قد خرجوا بالمشرق، يطلبون الحق فلا يعطونه ثم يطلبونه فلا يعطونه، فإذا رأوا ذلک وضعوا سيوفهم على عواتقهم فيعطون ما سألوا فلا يقبلونه حتى يقوموا، ولا يدفعونها إلا إلى صاحبکم، قتلاهم شهداء أما إني لو أدرکت ذلک لأبقيت نفسي لصاحب هذا الامر

میں ایک قوم کو دیکھتا ہوں جو مشرق سے قیام کرے گی اور وہ حق کے پیچھے ہوں گے یا وہ اپنا حق مانگیں گے لیکن اس زمانے کی ظالم حکومتیں انہیں حق نہیں دیں گے پھر یہ قوم لسانی مقاومت کرے گی لیکن پھر بھی انہیں حق نہیں ملے گا ۔ پھر یہ ہتھیار اٹھا کر جنگی مقاومت شروع کریں گے اور اس وقت جب دشمن ان کی قدرت دیکھے گا تب وہ ان کے حق کو تسلیم کرے گے ، لیکن اُس وقت وہ قوم اس پیشکش کو قبول نہیں کرے گی اور اپنے قیام کو جاری رکھے گی اور اس حد تک کہ اس جنگی مقابلے اور حق کے پرچم کو عدالت الہٰی یعنی امام زمان علیہ السلام کے حوالے کریں گے ۔ اِس قوم میں جو لوگ مرتے ہوں گے وہ شہید ہو جائیں گے ، کاش اگر میں اس زمانے میں ہوں تاکہ امام زمان علیہ السلام تک پہنچ جائوں ۔

(بحار الأنوار - ج 52 - الصفحة 243)

 

اس روایت کی متعدد علماء و فقھا نے تصدیق کی ہے اور اس سے مراد نہضت (اٹھ کھڑے ہونا / قیام کرنا) اور عدالت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو لیا ہوا ہے اور اب یہ ہمارے بہترین رہبر سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ جو قوی ، شجر طیبہ جیسے مضبوط و محکم اور اقوام جہان کے لیے بیداری کا سبب بن گئے ہیں ، بالکل تیار ہیں کہ اس پرچم کو امام زمان علیہ السلام کے حوالے کریں ، اس حدیث سے یہی مراد لیا گیا ہے ۔

 

گزشتہ دن شہادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہ سے منسوب ہے کہ جو عالمین کی عورتوں کی سردار ، زوجہ علی المرتضیٰ علیہ السلام اور مادر امام حسن و حسین علیہ السلام ہیں ، وہ بھی حق ولایت کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئی تھیں ۔

 

اگر ہم خاندان پاک اہلبیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (ارواحنا لہ الفداء) کی پیروی پر فخر کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں حق ، عدالت اور حقیقت کے طرفدار بن کر اس کی حمایت کریں ۔ ہمیں خدائے عز و جل کے علاوہ کسی اور سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔ اللہ تعٰالیٰ نے آیۃ اعلان ولایت میں فرمایا :

فَلَا تَخْشَوْهُـمْ وَاخْشَوْنِ ۚ

ان (دشمنوں) سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو

(سورۃ المائدہ ، آیت 3)

 

 

خداوند متعٰال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق اور خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری و مصائب ہو آلام پر صبر جمیل عطا فرمائیں ۔

 

 

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے

 

خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ