۱۳۹۸/۱۰/۲۷   1:43  ویزیٹ:1834     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


21جمادی الاولی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 17/01/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 

 خطبہ اول

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين، نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ، ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته ؛ سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد ، وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين ، سيّما بقيّة الله في الأرضين، وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

 

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔

و بعد از این

 

آج ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر گفگتو کریں گے اور چند افضل سنتیں بیان کریں گے۔

 

اللہ تبارک و تعٰالی سورۃ الاحزاب ، آیت 21 میں فرماتے ہیں :

لَّـقَدْ کَانَ لَکُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَـرَ اللّـٰهَ کَثِيْـرًا

البتہ تمہارے لیے رسول اللہ میں اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے

 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وصیت میں امام علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :

و السادسة الاخذ بسنتی فی صلاتی و صومی و صدقتی

میری چھٹی وصیت ہے کہ میری سنت پر عمل کریں ، نماز میں ، روزے میں اور صدقے میں

(برقی 1371 ق ، ج  1، صفحہ17)

 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

انی لاکرہ لرجل ان یموت و قد بقیت علیہ خلة من خلال  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لم یآتی بھا

میں ایک مسلمان سے یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ مر جائے مگر زندگی میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سب سنتوں پر ایک بار بھی عمل نہ کیا ہو

 

پس ہمیں چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کریں اگرچہ زندگی میں ایک بار ہی کیوں نہ ہو لیکن ضرور انجام دیں ۔

 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند افضل سنتیں

 

پہلی سنت - سادہ لوح

خافض الطرف نظرہ الی الارض اطول من نظرہ الی السماء جل نظرہ الملاحظہ یبدر من لقیہ بالسلام

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ زمین کی طرف زیادہ نگاہ کرتے ، آسمان کی طرف زیادہ نہ دیکھتے ۔

 

دوسری سنت - خشوع و خضوع

جل نظرہ الملاحظہ یبدر من لقیہ بالسلام

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی ملنے آتا یا مل جاتا تو سلام میں پہل کیا کرتے ۔

 

لیکن نماز و عبادات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہ ہمیشہ آسمان کی طرف ہوتی تھی ، یہاں تک کہ اللہ تعٰالی نے وحی نازل کی (سورۃ المؤمنون ، آیات 1 ، 2) :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُـوْنَ  (1)  اَلَّـذِيْنَ هُـمْ فِىْ صَلَاتِـهِـمْ خَاشِعُوْنَ (2)

بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے ۔  جو اپنی نماز میں عاجزی (خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں ۔

 

تیسری سنت - حق تلفی پر غیض و غضب

لا تغضبہ الدنیا و ما کان لھا اذا تعوطی الحق لم یعرفہ احد و لم یقم لغضبہ شئ حتی ینتصرلہ

دنیا اور اس کی سختیوں اور مشکلات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے  لیکن جب حق پائمال ہوتا دیکھتے ، تب کسی کو نہیں پہچانتے تھے اور کوئی شے یا فرد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غیض و غضب کا سامنا نہیں کر سکتی تھی ، اس وقت تک کہ انتقام لے لیتے یعنی حقدار تک اس کا حق پہنچا دیتے یا دلوا دیتے ۔

 

چوتھی سنت -

کان رسول اللہ یحزن لسانہ الا عما یعنیہ

جن معاملات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ نہ ہوتا تھا اس سے مربوط نہ رہتے اور اپنی زبان کو محفوظ رکھتے تھے ۔

 

پانچویں سنت - خلوص

جن چیزوں پر دیگر لوگ ہنستے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہنسا کرتے اور جن چیزوں پر لوگ تعجب کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی تعجب کرتے تھے ، خود کو دیگر لوگوں سے الگ نہیں سمجھتے تھے ، یہاں تک کہ کوئی اجنبی شخص بھی آ جاتا تو یہ پتہ نہ چلا سکتا کہ ان سب میں سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کون ہیں ۔

 

چھٹی سنت - شجاعت

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شجاعت کے بارے میں امام علی علیہ السلام سے نقل ہوا کہ :

کُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ وَلَقِيَ الْقَوْمُ الْقَوْمَ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللهِ فَمَا يَکُونُ مِنَّا أَحَدٌ أَدْنَى إِلَى الْعَدُوِّ مِنْهُ

جب جنگ سخت ہوتی اور ہم دشمن کے مقابلے میں ہوتے تو کوئی فرد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ دشمن کے نزدیک نہ ہوتا تھا ۔

 

ساتویں سنت - حیاء

کَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم أَشَدُّ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِيْ خِدْرِھَا فَإذَا رَأى شَيئا يَکْرَهُهُ عَرَفنَاهُ فِي وَجۡهِه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی ، تو اس کے آثار ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک پر پہچان جاتے تھے ۔ 

 

آٹھویں سنت - قناعت

جا‏ء الی رسول اللہ ملک ، فقال یا محمد ان ربک یقرئک السلام و ھو یقول لک ان شئت جعلت لک بطحاء مکہ رضراض ذھب قال فرفع راسہ الی السما‏ء فقال یا رب اشبع یوما فاحمدک و اجوع یوما فسالک

ابو بصیرؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر علیہ السلام سے یہ فرماتے ہوا سنا کہ ایک مرتبہ فرشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا اور کہا ! اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کا رب آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو تمہارے لیے مکہ اور بطحہ کو سونا بنا دوں ، میں (محمد) نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا ! اے میرے رب ، میں چاہتا ہوں کہ پیٹ بھر کر کھائوں تا کہ آپ کا شکر ادا کروں لیکن یہ بھی چاہتا ہوں کہ بھوکا رہوں تا کہ تجھ سے مانگتا رہوں ۔

 

پروردگار عالم سورۃ العلق ، آیات 6 ، 7 میں فرماتے ہیں :

کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى  (6) اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى  (7)

ہرگز نہیں ، بے شک آدمی سرکش ہو جاتا ہے ۔ جب کہ اپنے آپ کو غنی پاتا ہے ۔

 

اسی وجہ مصلحت سے اللہ تعٰالی نے تمام رزق ایک ہی مرتبہ انسان کو نہیں دیا ۔ جو عبادات میں تم سے کل چاہتا ہوں وہ آج نہیں چاہتا بس تم بھی کل کے رزق کو آج مت مانگو ۔

نویں سنت) سادگی کو پسند کرتے تھے۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے نھج البلاغہ میں فرمایا:
 
 ولَقَدْ کَانَ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَأْکُلُ عَلَى الأَرْضِ - ويَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ ويَخْصِفُ بِيَدِه نَعْلَه - ويَرْقَعُ بِيَدِه ثَوْبَه ويَرْکَبُ الْحِمَارَ الْعَارِيَ - ويُرْدِفُ خَلْفَه - ويَکُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَيْتِه فَتَکُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ فَيَقُولُ - يَا فُلَانَةُ لإِحْدَى أَزْوَاجِه غَيِّبِيه عَنِّي - فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْه ذَکَرْتُ الدُّنْيَا وزَخَارِفَهَا -
دیکھو پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔ غلاموں کے انداز سے بیٹھتے تھے اور کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھا بھی لیا کرتے تھے۔اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اوربے پالان گدھی پر سوار کرتے تھے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے ایک مرتبہ اپنے مکان کےدروازے پر ایسا پردہ دیکھ لیا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں تو ایک زوجے سے فرمایا کہ خبر دار اسے ہٹائو۔ میں اس کی طرف دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئے گی۔
وکَذَلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَيْئاً أَبْغَضَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْه - وأَنْ يُذْکَرَ عِنْدَه.
اور یہی ہر انسان کا اسلوب ہے کہ جس چیز کو نا پسند کرتا ہے اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا اور اس کے ذکر کوبھی نا پسند کر تا ہے۔
دسویں سنت) خدا کے خوف سے روتے تھے
 امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہ نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی اللہ کے خوف سے اتنا روتے تھے کہ جانماز نم ہو جاتی تھی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حد تک رویا کرتے تھے کہ بے ہوش ہوجاتے۔
 
 
گیارہویں سنت) ہر دن ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم دن میں ستر مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتے تھے۔ میں نے امام سے پوچھا کہ کیا وہ اس طرح کہتے تھے "استغفر اللہ واتوب الیہ" ؟!
امام نے فرمایا، نہیں بلکہ وہ کہتے تھے "اتوب الی اللہ" میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبہ کرتے تھے اور جب کہ اس کام کو انجام بھی نہیں دیا لیکن ہم توبہ کرتے ہیں اور پھر اسی کام کو دوبارہ انجام دیتے ہیں امام نے فرمایا کہ ہاں! اللہ ہمارے مدد فرمائیں
 اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم زمین سے نہیں اٹھتے تھے مگر یہ کہ پچیس مرتبہ استغفار کہتے تھے۔
 
بارھویں سنت) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہترین مکارم اخلاق کے مالک تھے امام رضا علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مکارم اخلاق کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے
 مکارم اخلاق کے لیے مبعوث کیا ہے بس ایک دوسرے کو بخش دو اور اپنے مابین مصافحہ کرو کیا آپ لوگ نہیں چاہتے کہ سب بخشے جاؤ
 
تیرھویں سنت: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے مقابلے میں بہت دیر سے غصہ ہوتے تھے لیکن سب سے جلدی راضی ہوجاتے وہ سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ خیر خواہ اور سب سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے تھے۔
چودہویں سنت: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ آئینہ میں دیکھتے تھے اور اپنے بالوں کو کنگی کرتے تھے اور اگر آئینہ نہیں ہوتا تھا تو پانی کے برتن میں اپنے آپ کو دیکھتے تھے اور اپنے سر کے بالوں کو مرتب کرتے تھے اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کے لئے مہیا اور مرتب اور صاف ستھراء رکھتے تھے اور اسی طرح اپنے دینی بھائیوں کے لیے بھی اپنے آپ کو صاف ستھراء اور مرتب رکھتے تھے جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیوں اپنے آپ کوصاف ستھراء اور مرتب کرتے ہو؟! تو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ بہت پسند کرتا ہے کہ
 اگر کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے پاس جانے کیلئے اس نے اپنے آپ کو مرتب اور صاف ستھراء کیا ہو۔
 
پندرھویں سنت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو سلام کرتے تھے اور عورتوں کی سلام کا جواب بھی دیتے تھے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کا طریقہ کار بھی یہی تھا کہ وہ بھی عورتوں کو سلام کرتے تھے لیکن وہ پسند نہیں کرتے تھے
کہ جوان عورتوں کو سلام کریں اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کی آواز مجھے اچھی نہ لگے کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ ثواب کی جگہ گناہ کما لیں۔
 
سولھویں سنت: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تمام اور کمالات سے بھرپور ہوکر بھی سب سے مختصر ہوتی تھی آپ کے خطبے سب سے چھوٹے اور آپ فضول باتوں سے اجتناب کرتے تھے
 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتے تھے۔
سترویں سنت: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھتے تھے
 
اٹھارویں سنت: اگر کھبی بادیہ نشین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفے لاتے تو کہتے تھے ہمیں اپنے تحفےکی قیمت دے دیں تو  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیتے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگین ہوتے
 تو کہتے تھے کہ وہ بادیہ نشین کہاں ہے کاش وہ میرے پاس ہوتا۔
انیسویں سنت: صحابہ کرام اپنے چھوٹے بچوں کوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لاتے تھے تاکہ ان کے لیے دعا کریں یا ان کا نام رکھیں
 تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچے کو اپنے ہاتھوں لیتے، تاکہ اسکے گھر والوں کا احترام ہو اور کبھی اگر کوئی بچہ گود میں پیشاب کردے اور لوگ شور مچاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو روک دیتے۔ پھر اس کے لئے دعا کرتے اور نام بھی رکھتے تھے
اور اس طرح بچے کے گھر والوں کو خوش کرتے تھے، حتی انکو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ میرے بچے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے ہوں اور جب وہ لوگ چلے جاتے تھے تو تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کپڑوں کو دھولیتے تھے۔
بیسویں سنت: پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحاب میں سے اگر کوئی بیمار ہو جاتا اور اس کو تین دن نہیں دیکھتے تو اس کے بارے میں پوچھتے کہ وہ کہاں ہے اگر وہ سفر میں ہوتے تھے تو اس کے حق میں دعا کرتے تھے اور اگر وہ شہر میں ہوتے تو عیادت کے لئے چلے جاتے تھے۔
 
 
خطبہ دوم
 
والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّد بن‏ علىّ و جعفر بن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّد بن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین
اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
 
محترم نماز گذار برادران و خواہران !
ان حالات میں سب سے ضروری و اہم بات یہ ہے کہ ہم بصیرت (حق شناسی یعنی حق کیا ہے اسے پہچانیں) رکھتے ہوں ۔ ہم حق کو باطل سے ، دل سوز شخص کو دھوکا دینے والے سے اور شیطان کی فوجوں کو اللہ کی افواج سے تشخیص دے سکیں ۔
یہ قابل ذکر ہے کہ جس طرح جنگ صفین میں لوگوں نے کاغذی قرآن کو نیزوں پر اٹھایا اور اس کے مقابلے میں قرآن ناطق یعنی امیرالمومنین علی علیہ السلام کو چھوڑ دیا اور یہ سمجھ نہ سکے کہ حق کس طرف ہے ۔ ان لوگوں نے مالک اشتر کو نہیں پہچانا جبکہ دشمن اس کے خون کے پیاسے تھے ۔ اس طرح اگر ہم بھی اپنے زمانے کے امیرالمومنین یا مالک اشتر کو نہ پہچان سکے باوجودیکہ یہ بھی جانتے ہوں کہ دشمن ان کے خون کا پیاسہ ہے تو بہت بڑا نقصان ہے اور ہم ان سب پر پچھتائیں گے۔ یاد رکھیے کہ اگر شیطان ہم سب کا کھلا (صریح) دشمن ہے تو ہم بھی شیطان کو دشمن ہی سمجھیں ۔
 
ہمیں شیطان اور اس کی افواج کو بہتر طور پر جان لینا چاہیے ۔ ہمیں ان کے ساتھ دشمنی رکھنی چاہیے ناں کہ اپنے لوگوں سے ، اپنی افواج سے اور خدائی افواج سے ۔
 
خداوند متعٰال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق اور خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری و مصائب ہو آلام پر صبر جمیل عطا فرمائیں ۔
 
 
امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
 
خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں
 
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
 
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ