۱۳۹۸/۱۲/۲   7:17  ویزیٹ:1392     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


26 جمادي الثانيه ١٤٤١(ھ۔ ق) مطابق با 21/02/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


خطبہ اول

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين  نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه  ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته  سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد  وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين  سيّما بقيّة الله في الأرضين  وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

 

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔

و بعد از این

 

آج کے خطبہ اول میں، ان اسباب و عوامل جن کے ذریعہ ہم متقی بن سکتے ہیں ، پر بحث اور ان کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا ۔

 

امام علیہ السلام نے فرمایا :

رحم اللہ امر‏‏اء علم من این ھو فی این ھو الی این ھو

اللہ رحم کرے اس پر کہ جس نے یہ سمجھا کہ وہ  کہاں سے آیا ہے اور کہاں پر ہے اور کہاں پر جائے گا

 

امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عظمت کا راز بھی یہی ہے کہ آپ نے حقیقت دنیا کو سمجھا تھا ۔

 

دنیا کی صفات

امام علیہ السلام نہج البلاغہ ، حکمت 131 میں فرماتے ہیں :

وقَدْ سَمِعَ رَجُلًا يَذُمُّ الدُّنْيَا - أَيُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْيَا الْمُغْتَرُّ بِغُرُورِهَا - الْمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا -

ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا ۔ اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اس کے فریب میں مبتلا ہو کراس کے مہملات سے دھوکہ کھا جانے والے ! تو اسی سے دھوکہ بھی کھاتا ہے اور اسی کی مذمت بھی کرتا ہے ۔

 

وقَدْ مَثَّلَتْ لَکَ بِه الدُّنْيَا نَفْسَکَ وبِمَصْرَعِه مَصْرَعَکَ - إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا - ودَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا - ودَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا - ودَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا - مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّه ومُصَلَّى مَلَائِکَةِ اللَّه - ومَهْبِطُ وَحْيِ اللَّه ومَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّه - اکْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ ورَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ -

اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلا دی تھی اور تمہیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کر دیا تھا (لیکن تمہیں ہوش نہ آیا) یاد رکھو کہ دنیا باور کرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے اور سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کا مقام ہے ۔ یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور ملائکہ آسمان کا مصلیٰ ہے یہیں وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیں جس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کر لیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں ۔

 

پھر حکمت 191 میں فرمایا :

إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - ونَهْبٌ تُبَادِرُه الْمَصَائِبُ - ومَعَ کُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ - وفِي کُلِّ أَکْلَةٍ غَصَصٌ - ولَا يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِه إِلَّا بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ وأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ - فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُو الْبَقَاءَ - وهَذَا اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْءٍ شَرَفاً - إِلَّا أَسْرَعَا الْکَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا وتَفْرِيقِ مَا جَمَعَا -

انسان اس دنیا میں وہ نشانہ ہے جس پر موت اپنے تیر چلاتی ہے اور وہ مصائب کی غارت گری کی جولان گاہ (گھوڑا دوڑ کا میدان) بنا رہتا ہے ۔ یہاں کے ہر گھونٹ پر اچھو (گلا یا دم گھٹنے کا عمل) ہے اور ہر لقمہ پر گلے میں ایک پھندہ ہے ۔ انسان ایک نعمت کو حاصل نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسری ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور زندگی کے ایک دن کا استقبال نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسرا دن ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہمارے نفس ہلاکت کا نشانہ ہیں ۔ ہم کہاں سے بقاء کی امید کریں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو اونچا نہیں کرتے ہیں مگر یہ کہ حملہ کر کے اسے منہدم کر دیتے ہیں اور جسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے بکھیر دیتے ہیں ۔

 

اسی طرح ایک دوسرے کو دل میں فرمایا کہ دنیا کی حالت بدلتی رہتی ہے اور کبھی بھی ثابت (ایک جیسی) نہیں رہتی ۔ یہ دنیا ایک کشتی کی مانند ہے کہ جب دریا میں تیرتی ہے تو اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے لیکن جب  دریا کے کنارے لگ جاتی ہے اور اپنا لنگر ڈال دیتی ہے ، پھر اوپر نیچے نہیں ہوتی ۔

 

اگر یہ سب حقیقت دنیا ہیں تو پھر ہمیں اس دنیا کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ؟

 

امام علیہ السلام حکمت 303 میں فرماتے ہیں :

النَّاسُ أَبْنَاءُ الدُّنْيَا - ولَا يُلَامُ الرَّجُلُ عَلَى حُبِّ أُمِّه -

لوگ دنیا کی اولاد ہیں اور ماں کی محبت پر اولاد کو ملامت نہیں کی جا سکتی ہے ۔

 

اگر یہ پیمانہ ہے تو پھر ہمیں اس دنیا میں کیا کرنا چاہیے ؟

دین اسلام کہتا ہے کہ دنیا کو آخرت کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے ، صرف دنیا پر بس (اکتفا) نہیں کرنا چاہیے ۔ اسلام رہبانیت یعنی ترک دنیا یا ترک لذات کو پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ اسلام میں نہیں ہے ۔ اس دنیا سے آخرت کی راہ میں فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ یہاں جو بھی کام انجام دینا چاہتے ہو تو پہلے دیکھو کہ اس میں میری آخرت کے لیے اچھائی ہے یا نہیں ؟ بالکل ایک مسافر کی طرح کہ جب وہ کسی سفر پر جانا چاہتا ہو تو پہلے معلوم کرتا ہے کہ کیا یہ راستہ مجھے اپنی منزل مقصود تک پہنچائے گا یا نہیں ؟

 

اسی طرح خطبہ 209 میں فرمایا ، جب امام علیہ السلام بصرہ عراق میں علاء بن زیاد حارثی کے گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے گھر کی وسعت کا مشاہدہ کرنے کے بعد فرمایا :

مَا کُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِه الدَّارِ فِي الدُّنْيَا - وأَنْتَ إِلَيْهَا فِي الآخِرَةِ کُنْتَ أَحْوَجَ - وبَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ - تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وتَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ - وتُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا - فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ

تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان کو لے کر کیا کرو گے جبکہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے ۔ تم اگر چاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کر سکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو ۔ قرابت داروں سے صلہ رحم کرو اور موقع و محل کے مطابق حقوق کو ادا کرو کہ اس طرح آخرت کو حاصل کر سکتے ہو ۔

 

فَقَالَ لَه الْعَلَاءُ - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَشْکُو إِلَيْکَ أَخِي عَاصِمَ بْنَ زِيَادٍ

یہ سن کرعلاء بن زیاد نے عرض کی کہ اے امیر المومنین میں اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرنا چاہتا ہوں ۔

 

قَالَ ومَا لَه

فرمایا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے ؟

 

قَالَ لَبِسَ الْعَبَاءَةَ وتَخَلَّى عَنِ الدُّنْيَا

عرض کی کہ انہوں نے ایک عبا اوڑھ لی ہے اور دنیا کو یکسر ترک کر دیا ہے ۔

 

قَالَ عَلَيَّ بِه فَلَمَّا جَاءَ

فرمایا انہیں بلائو ۔

 

قَالَ : يَا عُدَيَّ نَفْسِه لَقَدِ اسْتَهَامَ بِکَ الْخَبِيثُ - أَمَا رَحِمْتَ أَهْلَکَ ووَلَدَکَ - أَتَرَى اللَّه أَحَلَّ لَکَ الطَّيِّبَاتِ وهُوَ يَکْرَه أَنْ تَأْخُذَهَا - أَنْتَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّه مِنْ ذَلِک

جب عاصم آئے تو فرمایا کہ : اے دشمن جان ! تجھے شیطان خبیث نے گرویدہ بنا لیا ہے ۔ تجھے اپنے اہل و عیال پر کیوں رحم نہیں آتا ہے ۔ کیا تیرا خیال یہ ہے کہ خدا نے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کیا ہے لیکن وہ ان کے استعمال کو نا پسند کرتا ہے ۔ تو خدا کی بارگاہ میں اس سے زیادہ پست ہے ۔

 

قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - هَذَا أَنْتَ فِي خُشُونَةِ مَلْبَسِکَ وجُشُوبَةِ مَأْکَلِکَ !

عاصم نے عرض کی اے امیر المومنین ! آپ بھی تو کھردرا لباس اور معمولی کھانے پر گذارا کر رہے ہیں ۔

 

قَالَ وَيْحَکَ إِنِّي لَسْتُ کَأَنْتَ - إِنَّ اللَّه تَعَالَى فَرَضَ عَلَى أَئِمَّةِ - الْعَدْلِ أَنْ يُقَدِّرُوا أَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ - کَيْلَا يَتَبَيَّغَ بِالْفَقِيرِ فَقْرُه !

امام نے فرمایا : تم پر حیف ہے کہ تم نے میرا قیاس اپنے اوپر کر لیا ہے جب کہ پروردگار نے آئمہ حق پر فرض کر دیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قرار دیں تاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا شکار نہ ہو ۔

 

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت فقیہ کے پیروکاران و محافظین بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

 

خطبہ دوم

 

الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّد بن‏ علىّ و جعفر بن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّد بن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین 

اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله

 

محترم نماز گزاران

و پیروکاران رسالت و امامت

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 

ماہ مبارک رجب المرجب شروع ہونے کو ہے ، اس منگل کو پہلی رجب ہے اور ولادت باسعادت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت بھی ہے جو امام علی زین العابدین علیہ السلام کے فرزند اور امام پنجم ہیں ۔ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ ماہ رجب کے منتظر رہتے تھے تاکہ اس مہینے میں ان کی دعائیں مستجاب ہو جائیں ۔

 

روایات میں ملتا ہے کہ جب ماہ رجب شروع ہوتا ہے تو ایک مَلَک (فرشتہ) جس کا نام داعی ہے ، وہ ندا دیتا ہے کہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ہر رات اذان صبح تک خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔ اللہ تعٰالی فرماتا ہے کہ میں اس کا ہم نشین رہوں گا جو میرا ہم نشین ہوتا ہے اور میں اس کی بات مانتا ہوں جو میرا فرمانبردار ہوتا ہے اور جو مجھ سے بخشش کا طلبگار ہے میں اس کو بخش دیتا ہوں ۔ ماہ رجب میرا مہینہ ہے بندہ بھی میرا بندہ ہے رحمت بھی میری رحمت ہے ، پس جو اس ماہ میں مجھے چاہے گا ، میں اس کی دعائیں قبول کروں گا ، جو مجھ سے مانگے گا میں اسے دے دوں گا ، جو مجھ سے ہدایت مانگے گا میں اسے ہدایت دے دوں گا ۔ ماہ رجب میرے اور میرے بندوں کے درمیان ایک رسی کی مانند ہے کہ جو اسے پکڑتا ہے وہ مجھ تک پہنچ جاتا ہے ۔

 

شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے کیا خوب کہا ہے :

رشتــه ای بر گردنم افکنده دوست      می کشد هر جا که خاطرخواه اوست

میں ایک رسی میں بندھا ہوا ہوں       جہاں میرا دوست چاہے مجھے کھینچ کر لے جائے
 

رشته بر گردن نه از بی مهری است    رشته ی عشق است و بر گردن نکوست

اور یہ رسی ظلم کی نشانی نہیں بلکہ   یہ عشق و محبت کی نشانی ہے اور یہ کہ مجھے بہت پسند ہے

 

اگر ہم چاہیں تو اس ماہ مبارک میں تین اہم کام انجام دے سکتے ہیں :

1۔   فکری طور پر امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عظیم کتاب نہج البلاغہ سے آشنائی حاصل کریں ۔

2۔   دینی طور پر زیادہ سے زیادہ استغفار کریں کیونکہ یہ استغفار کا مہینہ ہے ۔

3۔   معمولاتی طور پر کچھ اعمال بجا لائیں جن میں اس ماہ کے روزے رکھنا ، نماز حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ پڑھنا اور اعتکاف کرنا ہیں ۔

 

اس ماہ کے روزے خدا کے غضب اور غصے کو ٹھنڈا کر دینے کا باعث ہیں اور جس کے سبب وہ جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ بند کر دیتا ہے ۔ اگر کوئی پوری زمین کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں دے دیں تب بھی اس کا ثواب اس مہینے کے روزوں کے برابر نہیں ہوسکتا ۔

 

اس ماہ میں افطار کے وقت روزہ دار کی دس دعائیں مستجاب ہو جاتی ہیں ۔ اگر دنیا کیلئے مانگے تو اسے مل جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے نامہ اعمال میں وہ خیر لکھ دی جائے گی جو اللہ تعٰالی اپنے اولیاء اور پسندیدہ بندوں کے لئے لکھتا ہے ۔

 

اس ماہ صدقہ دینے کا بہت ثواب ہے ۔ لیکن اگر روزانہ ایک روٹی صدقے میں نہیں دے سکتا تو چاہیے کہ ہر دن سو مرتبہ اس ذکر کو پڑھے :

سُبْحانَ الاْلهِ الْجَليلِ ، سُبْحانَ مَنْ لا يَنْبَغي التَّسْبيحُ إِلاّ لَهُ ، سُبْحانَ الاْعَزِّ الاْکْرَمِ ، سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَهُوَ لَهُ اَهْلٌ

 

دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعٰالی ہمیں تمام امتحانوں ، میدانوں اور اجتماعی زندگی میں کامیاب کریں ۔ آمین ۔

 

خداوند متعٰال ہم سب مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق ، خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری ، مصائب و آلام پر صبر جمیل اور صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں ۔ آمین ۔

 

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ