۱۳۹۸/۱۲/۱۸   2:54  ویزیٹ:1178     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


11 رجب ١٤٤١(ھ۔ ق) مطابق با 06/03/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


خطبہ اول
 

خطبہ اول

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين  نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه  ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته  سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد  وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين  سيّما بقيّة الله في الأرضين  وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔

ایک سوال : مومن کی نگاہ میں دنیا کیا ہے اور مومن دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے ؟

مومن کا دنیا کو نگاہ

1 :  مومن دنیا کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر نگاہ کرتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کچھ چیزوں سے غافل ہو ۔

2 :  مومن دنیا کو تاجر کی نگاہ سے دیکھتا ہے یعنی جو کچھ اس کے لیئے مفید ہے وہ لیتا ہے لیکن جو اس کے لیئے مضر ہو اسے چھوڑ دیتا ہے ،

 یعنی دنیا خرید اور فروخت کی جگہ ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّـٰهَ اشْتَـرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُـمْ وَاَمْوَالَـهُـمْ بِاَنَّ لَـهُـمُ الْجَنَّـةَ ۚ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ۚ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّـٰهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِکُمُ الَّـذِىْ بَايَعْتُـمْ بِه وَذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ (111)

بے شک اللہ نے مومنین سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے، اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں، یہ سچا وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے، خوش رہو اس سودے سے جو تم نے اس سے کیا ہے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

3: مومن کی نگاہ دنیا کی طرف عبرت لینے والا ہوتا ہے۔

إنما ينظر المؤمن إلى الدنيا بعين الاعتبار

مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے

مومن کی دنیا کی طرف نگاہ عبرت لینے والی نگاہ ہونی چاہئے

 

امیر المومنین نے خطبہ نمبر 128 میں فرمایا

میں دنیا کو منہ کے بھل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔
 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر …

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

دوسرا خطبہ

معاشر الناس فضلوا عليا  معاشر الناس ما من علم إلا وقد أحصاه الله في، وکل علم علمته فقد أحصيته في إمام المتقين، وما من علم إلا وقد علمته عليا وهو الامام المبين، و قال الله  و کل شئ احصیناه فی امام مبین.

ای لوگوں علی علیہ السلام کو سب پر فضیلت دو ای لوگوں کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ علی علیہ السلام کے پاس نہ ہو

 آّپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے جو بھی علم سکیھا تو میں نے اس علم کو امام المتقین  کے سینے محفوظ کیا

اور کوئی ایسا علم نہیں کہ جو میں نے امام المبین کو نہ سکھایا ہو اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ  (اور ہم نے ہر چیز کو امام مبین میں محفوظ کر رکھا ہے)سورہ یسین

امام علی علیہ السلام  کا ارشاد گرامی جناب کمیل بن زیاد نخعی سے کمیل کہتے ہیں کہ امیر المومنین میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان کی طرف لے گئے اور جب آبادی سے باہرنکل گئے تو ایک لمبی آہ کھینچ کرفرمایا: ۔ اے کمیل بن زیاد!دیکھو یہ دل ایک طرح کے ظرف ہیں لہٰذا سب سے بہتر وہ دل ہے جو سب سے زیادہ حکمتوں کو محفوظکرسکے اب تم مجھ سے ان باتوں کو محفوظ کرلو۔لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں : خدا رسیدہ عالم۔راہ نجات پر چلنے والا طالب علم اورعوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آوازکے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا ک ساتھ لہرانے لگتا ہے۔اسنے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کاس ہارا لیا ہے۔

اے کمیل !دیکھو علم مال(1) سے بہرحال بہتر ہوتا ہے کہ علم خود تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنا پڑتی ہے مال خرچ کرنے سے کم ہو جاتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔پھر مال کے نتائج و اثرات بھی اس کے فناہونے کے ساتھ ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

اے کمیل بن زیاد! علم کی معرفت ایک دین ہے جس کی اقتدا کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان زندگی میں اطاعت حاصل کرتا ہے اور مرنے کے بعد ذکرجمیل فراہم کرتا ہے۔علم حاکم ہوتا ہے اورمال محکوم ہوتا ہے۔ کمیل دیکھو مال کاذخیرہ کرنے والے جیتے جی ہلاک ہوگئے اور صاحبان علم زمانہ کی بقا کے ساتھ رہنے والے ہیں۔ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں لیکن ان کی صورتیں دلوں پر نقش ہیں۔دیکھو اس سینہ میں علم کا ایک خزانہ ہے۔کاش مجھے اس کے اٹھانے والے مل جاتے ۔ہاںملے بھی تو بعض ایسے ذہین جو قابل اعتبار نہیں ہیں اور دین کو دنیا کا آلہ کاربناکراستعمال کرنے والے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے ذریعہ اس کے بندوں اور اس کی محبتوں کے ذریعہ اس کے اولیاء پر برتری جتلانے والے ہیں یا حاملان حق کے اطاعت گذار تو ہیں لیکن ان کے پہلو میں بصیرت نہیں ہے اور ادنیٰ شبہ میں بھی شک کاشکار ہو جاتے ہیں۔یاد رکھو کہ یہ یہ کام آنے والے ہیں اور نہ وہ۔اس کے بعد ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو لذتوں کے دلدادہ اورخواہشات کے لئے اپنی لگام ڈھلی کر دینے والے ہیں یا صری مال جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے کے دلدادہ ہیں۔یہ دونوں بھی دین کے قطعاً محافظ نہیں ہیں اور ان سے قریب ترین شباہت رکھنے والے چرنے والے جانور ہوتے ہیں

اور اس طرح علم حاملان علم کے ساتھ مرجاتا ہے۔لیکن۔اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔ تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔ لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں ؟ واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدرو منزلت بہت عظیم ہے۔اللہ انہیں کے ذریعہ اپنے دلائل و بینات کی حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ہی جیسے افراد کے حوالے کردیں اور اپنے امثال کے دلوں میں بودیں۔انہیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔انہوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنہیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھاتھا اوران چیزوں سے انس حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کے روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں۔ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے۔

کمیل (میری بات تمام ہوچکی ) اب تم جا سکتے ہو۔

مولاہ کی غربت اور ولایت مولاہ علی علیہ السلام۔

ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ امام علیہ السلام کو اس غربت سے نکل سکے ؟ اور ،ولایت اھل دنیا پر حاکم ہو؟ 

جواب:  اسکے لیئے ہمیں مولاہ کی کلام سے آشنائی ضرور ہے۔

 

 

 

'