بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مسجد امام حسین علیہ السلام ، دبی کی جانب سے نماز جمعتہ المبارک کے پرنور اجتماع میں بھرپور اور منظم انداز سے شرکت پر خوش آمدید کہتے ہیں اور تہ دل سے مشکور ہیں کہ باوجود مختصر وقت و محدود وسائل کے ، آپ حضرات نے بھرپور تعاون کیا ۔ ہم فرداً امید کرتے ہیں کہ اس اجتماع عظیم و نماز پنجگانہ میں شرکت کے لیے وزارت صحت و متعلقہ ادارہ جات کی جانب سے جاری کردہ اصول و ضوابط کی پاسداری و انجام دہی کی جائے گی اور ایک بھرپور ، پرخلوص ، تعلیم یافتہ ، منظم اور باشعور قوم و معاشرہ ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے ۔
اما بعد ۔۔۔ عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، خوف خدا اور زندگی کے تمام لحظات میں مرضی خدا و قدرت خدا کی موجودگی سے فائدہ اٹھانے کی گذارش کرتا ہوں ۔
دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔
ہم پر حق ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جو آگے بڑھ چکے (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔
تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔
عزیزان! انسان جو درحقیقت اشرف المخلوقات ہے ، اگر قرآن کریم کے صحیح پیروکار بن جائے تو اس کے لاتعداد فیوض و برکات میں سے ایک برکت "خیر کثیر "حاصل کر پائیں گے.
ہر انسان چاہتا تو ہے کہ درجہ کمال پر فائز ہو جائے اور ان کمالات کے حصول میں مصروف بھی رہتا ہے لذا قرآن کریم نے اس کمال کا نام حکمت رکھا ہے. فرماتے ہیں:
يُؤْتِى الْحِکْـمَةَ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِـىَ خَيْـرًا کَثِيْـرًا ۗ وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ
(اللہ) جس کو چاہتا ہے سمجھ دے دیتا ہے، اور جسے سمجھ دی گئی تو اسے بڑی خوبی ملی، اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں سورۃ البقرۃ ، آیت 269
قبل اس کے میں حکمت کے دس مراحل بیان کروں، ایک مقدمہ بیان کرتا چلوں ۔
قران کریم کی حیثیت ایک الٰہی مستری یا ترکھان جیسی ہے جو ہر مقام پر انسان کی روحانی و جسمانی تعمیر یا اصلاح کراتا رہتا ہے، ہماری خرابی دور کر دیتا ہے، یا اگر خرابی ناقابل اصلاح ہو تو اس کے بدل میں ایک نیا پرزہ یا نئی جگہ تعمیر کر دیتا ہے۔
حقیقی دنیا میں دیکھا جائے تو صحرائے بیابان میں رہنے والے ایک چرواہے کو ابوذر غفاری رحمة اللہ علیہ بنا دیتا ہے، ایک گاؤں دیہات میں رہنے والے کو سلمان فارسی رحمة اللہ علیہ بنا دیتا ہے، ایک رومی غلام سے صھیب بن سنان رحمة اللہ علیہ بنا دیتا ہے.
اور اسی طرح ایک اونٹوں کے چرواہے سے کہ جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا تک نہ ہو اسے اویس قرنی رحمة اللہ علیہ بنا دیتا ہے، بس یہی ہے قرآن کریم کا طریقہ علاج ۔
قرآن کریم کا الہٰی و روحانی شفا دینا ایسا ہی ہے گویا قرآن حکیم بھی ہے اور جیسا کہ سورة یٰس ، آیات 1 اور 2 میں ذکر ہوا:
يس وَالْقُرْآنِ الْحَکِيمِ
یٰسٓ قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے
قرآن حکیم ایک بہت بڑے حکیم پر نازل ہوا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم حکمت پڑھانے والے ہیں۔
سورۃ جمعہ ، آیت 2 میں ذکر ہوا:
وَيُعَلِّمُهُـمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَۖ
اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے
فرماتے ہیں کہ قرآن خدائے حکیم کی طرف سے نازل ہوا ہے اور حکیم کا بنانے والا ہے۔
وَإِنَّکَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِن لَّدُنْ حَکِيمٍ عَلِيمٍ
اور تم کو قرآن (خدائے) حکیم وعلیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے سورۃ النمل ، آیت 6
عزیزان! ان چار مقامات کو ملاحظہ فرمائیں کہ قرآن حکیم خدائے حکیم کی طرف سے حکیم پیغمبر (ص) پر نازل ہوا تاکہ اس کے طفیل تمام دردوں کو شفا دے۔ قرآن حکیم کا کام ہی علاج کرنا، درد کو دفع کرنا، مرض کو شفا دینا اور حکمت و تدبیر کرنا ہے۔
لذا کیوں ناں ہم قرآنی بن جائیں تاکہ ہم حکمت پر خود مختار ہو جائیں۔ اسی ذیل میں سورہ البقرہ ، آیت 269 میں ارشاد ہوا:
يُؤْتِي الْحِکْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
وہ (اللہ) جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں
اس آیت مبارکہ میں 3 مقامات کی طرف راہنمائی کرائی گئی ہے
1۔ اللہ جسے چاہے حکمت دے دیتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمت ملنے کا معیار کیا ہے؟
یعنی اللہ کن معاملات یا خواص کے عوض حکمت عطا کرتا ہے یا یوں کہیے کہ کیا بغیر کسی معیار کے بھی حکمت عطا ہوتی ہے یا اس کے لیے سفر طے کرنا پڑتا ہے تاکہ ہم حکمت لینے کے قابل ہو جائیں۔
2۔ دنیا کثیر مراتب کے باوجود قلیل فائدے والی ہے کیونکہ قرآن نے دنیا کا ذکر و موازنہ متاع قلیل کے ساتھ کیا ہے۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ
(اے پیغمبر ان س) ے کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو پرہیزگار کے لئے (نجات) آخرت ہے
سورۃ النساء ، آیت 77
لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک تعالی نے حکمت کو خیر کثیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔
وَمَن يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں
سورۃ البقرۃ ، آیت 269
یہ بڑی بات ہے اور باعظمت شخصیات نے بھی ان مطالب کی طرف توجہ کرنے پر خاص زور دیا ہے.
3۔ اس خیر کثیر کو درک (سمجھنے اور غور) کرنے کے لئے کیسے دریافت کیا جائے؟
اس کے لئے ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
وَمَا يَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں (غور فکر کرنے والے ہیں)
سورۃ البقرۃ ، آیت 269
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمت خداوند متعال کا عظیم تحفہ ہے جسے وہ انہیں نوازتا ہے جو علم اور معرفت کے متلاشی اور پیاسے ہوتے ہیں اور حقیقت کو پانے کی فکر و کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ایسے بندوں کو اللہ تعالی اس طیب و طاہر اور پاک پانی (حکمت) سے سیراب کر دیتا ہے۔
دنیاوی مال و دولت اور سرمایہ، حکمت کی حد تک نہیں پہنچ سکتا۔
دراصل حکمت کے مقابل دنیا کچھ بھی نہیں ہے یعنی حکمت کو پا لینا پوری دنیا کو حاصل کرنے سے کئی گنا زیادہ ہے۔
فرض کیجئے ایک آدمی جو تمام دنیاوی مقامات اور فضیلتیں جیسے دولت، حکومت، عیش و آرام پر قادر ہو وہ دراصل پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ باوجود اس کے ان پر قادر ہونے کے تمام آسائشیں محدود ہیں کیونکہ اسے ان کے ختم ہو جانے کی پریشانی اور ڈر بھی رہتا ہے
اور اسی پریشانی اور ڈر کے ساتھ ساتھ ان کے ختم ہونے کی طرف سفر کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب جسے حکمت حاصل ہو جائے تو اسے دنیاوی سکون بھی مل جاتا ہے اور اس کے ہاتھ ابدی زندگی کا سرمایہ بھی آ جاتا ہے۔
4۔ اس مطلب کو سمجھنے کے لیئے حکمت کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ یہ کہ وہی آدمی حکمت کو پا سکتا ہے جس میں غور و فکر کرنے کا مادہ موجود ہو۔
اسی وجہ سے اللہ تعالی نے حکمت کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو صاحب عقل ہوں اور غور و فکر کرتے ہوں۔
امام صادق علیہ السلام نے حکمت کی تعریف یوں کی ہے کہ حکمت معرفت کا نور ہے، متقی کی میراث ہے اور سچ بولنے کا میوہ ہے۔
خداوند متعال کسی بھی بندے کو حکمت سے بڑھ کر کوئی نعمت اور بزرگی نہیں دیتا۔ لیکن پھر وہی سوال کہ ہم کیسے اس حکمت کو حاصل کر سکتے ہیں؟ اس موضوع پر آئمہ معصومین علیہم السلام سے کثیر روایات نقل ہوئی ہیں۔ حکمت انسان کے خالص اعمال کا معنوی نتیجہ ہے۔ عمل خالص کے ساتھ اللہ تعالی انسان کی معرفت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جو چالیس دن کے لیے اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص طور پر انجام دے اور بدل میں اسے دنیاوی لحاظ سے زاہد بنا دیا،
یعنی دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے، اُسے اِس کے درد کی دوا دی جاتی ہے، اس کے دل میں حکمت کو نقش کر دیتا ہے اور اس کی زبان کو حکمت پر لب کشائی پر روانی دے دیتا ہے۔
روایات میں ملتا ہے کہ حکمت پانے کے لئے دس مرحلے درکار ہیں تاکہ ہمارے دلوں پر حکمت کا سورج طلوع ہو جائے۔ انشاء اللہ ان مرحلہ جات کو آئندہ خطبہ جمعہ میں مفصل بیان کیا جائے گا۔
خدایا پروردگارا ! ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی عطا فرما ، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَالْعَصْرِ (1)
زمانہ کی قسم ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ (2)
بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔
اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے۔
|