۱۳۹۹/۱۲/۱   2:11  ویزیٹ:1392     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


07 رجب 1442(ھ۔ ق) مطابق با 19/02/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

اَمَا بَعدْ ۔۔۔عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی 

محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، اور امر الہی کو انجام دینے اور جس چیز سے اللہ منع کریں اس کو انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہو (مالک الموت نے کہا ہے) کہ ای بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقوی اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوی ہی ہے۔

دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ہم پر حق ہے کہ  اُنہیں یاد رکھیں جو الله  کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔

آئندہ ہفتے میں بمناسبت ولادت امام المتقین مولا علی علیہ السلام جو پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد ایک منفرد حکیم ہیں ، کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ قرآن حکیم اور تمام محدثین متفقہ طور پر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ علی المرتضیٰ عظیم شخصیت تھے۔

قرآن کریم نے بی بی مریم کے مقام کو عظمت و بڑائی کے ساتھ ذکر کیا ہے ، کیونکہ ان کی والدہ ماجدہ جو حضرت عمران علیہ السلام کی زوجہ تھیں ، نے نذر رکھی تھی کہ اگر ان کی اولاد ہو جائے تو اسے راہ خدا میں وقف کریں گی ، لیکن جب بی بی مریم پیدا ہوئیں تو وہ سخت غمگین اور پریشان ہوئیں کہ کیسے ایک بچی کو عبادت گاہ خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دیں۔

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِکَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

( سورۃ آل عمران ، آیۃ 36 )

جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا ، اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا ، تو کہنے لگیں کہ پروردگار! میری تو لڑکی ہوئی ہے اور (نذر کے لیے) لڑکا (موزوں تھا کہ وہ) لڑکی کی طرح (ناتواں) نہیں ہوتا ، اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے ، اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں

پس ماں نے اپنی بیٹی کے لیے دعا کی اور خداوند متعال نے دعا کو قبول کرتے ہوئے آیۃ کریمہ نازل کی ۔

 

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا

تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا

( سورۃ آل عمران ، آیۃ 37)

اس طرح بی بی مریم کو ایک حیثیت و مرتبہ حاصل ہوا اور لوگ ان کی کفالت کے لیے اس حد تک مجبور ہوئے کہ ان کے کفیل کو منتخب کرنے کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے نام نکالے گئے ، پس یوں ان کی کفالت حضرت زکریا کو حاصل ہوئی ۔

وَمَا کُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَکْفُلُ مَرْيَمَ

اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا متکفل کون بنے

( سورۃ آل عمران ، آیۃ 44 )

جب کبھی جناب زکریا ، بی بی مریم کی عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ دیکھ سکتے تھے کہ مریم کی تربیت تو خود خداوند متعال ہی کر رہا ہے حتی اِن کی مہمان نوازی بھی اللہ کے ہاں سے ہی کی جا رہی تھی اور یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ خداوند متعال چاہتا تھا کہ بی بی مریم ہی حضرت عیسیٰ کلمۃ اللہ  کی ماں بنیں۔

وَکَفَّلَهَا زَکَرِيَّا ۖ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَکِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

( سورۃ آل عمران ، آیۃ 37)

اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ، زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں ان کے پاس جاتے تو ان کے پاس کھانا پاتے ، (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے ، وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) ، بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے

لیکن جب وقت ولادت قریب آیا تو بی بی مریم باوجودیکہ اللہ کی برگزیدہ تھیں ، انہیں بہشت سے خصوصی رزق بھیجا جاتا تھا اور پیغمبر جناب زکریا کو خادم مقرر کیا تھا ، ان سب عظمات کے باوجود انہیں بچے کو جنم دینے کے لیے عبادت گاہ سے نکل جانے کا کہا گیا اور دور ایک مکان میں بھیج دیا گیا۔

فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَکَانًا قَصِيًّا

تو وہ اس (بچّے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں

( سورۃ المریم ، آیۃ 22 )

 لیکن اس کے برعکس جب بی بی فاطمہ بنت اسد کعبۃ اللہ کے طواف میں مصروف تھیں اور وقت ولادت مولا علی قریب آتا ہے تو دعا کرتی ہیں کہ پروردگار میرے وضع حمل پر رحم فرما اور زچگی کو مجھ پر سہل کر دے تو انہیں یہ نہیں کہا جاتا کہ عبادت گاہ سے دور ہو جاؤ بلکہ انہیں اسی وقت دعوت دی جاتی ہے ، اشارہ دیا جاتا ہے ( دیوار کعبہ پھٹنے لگتی ہے ) کہ خانہ کعبہ کے اندر چلی جائیں ۔ پس ملاحظہ فرمائیں کہ علی المرتضیٰ کتنی عظمت کا مالک ہے کہ دیوار کعبہ پھٹ جاتی ہے اور والدہ علی کو کعبہ کے اندر دعوت دی جاتی ہے اور وہاں وہ تین دن اللہ کی مہمان رہتی ہیں یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب دنیا میں آ گئے اور اسی مناسبت سے فرزند کعبہ کہلائے گئے ۔

 

حاکم نیشا پوری اپنی کتاب المستدرک على الصحيين میں امام کی ولادت کو اس طرح بیان کرتا ہے ۔

قد تواترت الأخبار أنّ فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب کرّم اللَّه وجهه في جوف الکعبة

کثرت یا تواتر ( بار بار ) کے ساتھ یہ تحاریر ہیں کہ بی بی فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے علی بن ابی طالب کو کعبہ کے عین وسط میں جنم دیا

( المستدرک / الحاکم٤٨٣:٣ )

رسول اللہ نے امام علی  کی تربیت اپنے پیغمبر مبعوث ہونے سے پہلے ہی شروع کر دی تھی اور اس درجہ کمال پر پہنچتے ہیں کہ نفس پیغمبر بن جاتے ہیں ۔ جب مسیحیان نجران رسول اللہ کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئے تو چونکہ وہ حق کو نہیں مانتے تھے تو اللہ تعالی نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا کہ

فَمَنْ حَاجَّکَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکَاذِبِينَ

( سورۃ آل عمران ، آیۃ 61  )

پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود ( نفس ) بھی آئیں اور تم خود ( نفس ) بھی آؤ ، پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا و التجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں

بیٹے ، عورتیں اور نفس حقیقت میں ہر انسان کا اپنا حصہ ہی ہوتے ہیں ۔ جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو جسم مٹی میں دفن کیا جاتا ہے ولیکن اس آیت کی رو سے حقیقت تو یہ ہے کہ جو پیغمبر کی جان اور روح ہیں وہ رہ جاتے ہیں  ، تو یہ اس طرح ہوا گویا پیغمبر خود موجود ہوں ۔ علی کا گفتار اورکسی شے کے بارے میں امر و نہی کرنا گویا پیغمبر کے گفتار اور امر و نہی کرنے کی پیروی کے مترادف ہیں ۔ اسی وجہ سے علی کے علاوہ کوئی اور اس درجہ پر نہیں تھا کہ اگر پیغمبر کے بعد کوئی اور پیغمبر ہوتا تو علی کے علاوہ کوئی اور نہ ہو سکتا تھا ، کیونکہ اللہ کے کہنے کے مطابق خود علی ہی نفس پیغمبر ہیں کیونکہ رسول اللہ نے کسی بھی صحابی کو انفسنا کے ساتھ اپنا حصہ نہیں کہا ہے ، جبکہ یہ ممکن تھا کہ انفسنا چونکہ صیغہ جمع ہے تو اس میں سب کو شامل کر دیتے ۔ صحیح بخاری میں رقم ہے کہ روایت ہے کہ رسول اللہ نے علی کو مخاطب کرتے ہو فرمایا

أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْکَ ادْفَعُوهَا إِلَى خَالَتِهَا، فَإِنَّ الْخَالَةَ أُمٌّ

علی ! آپ مجھے سے ہیں اور میں آپ سے ہوں

یعنی علی نفس پیغمبر ہیں اور اس سے بھی عظمت والی بات کہ پیغمبر خود بھی علی سے ہیں ، اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ جو بھی رسول اللہ کو معصوم سمجھتا ہے ، اسے علی المرتضی کو بھی معصوم سمجھنا ہو گا۔

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب المستدرک على الصحيين میں تحریر کیا کہ عامر بن سعد اپنے والد سے نقل کرتا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی، فاطمہ ، حسن و حسین کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اے اللہ ! یہ میرے اہلبیت ہیں ۔

اہلبیت علیہم السلام کا بلند مقام و مرتبہ ہے ، وہ مقام جہاں اللہ نے انہیں معصوم قرار دیا ہے ۔ ام المومنین سے کتاب صحیح مسلم میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں کہ امام حسن اپنے نانا کے پاس تشریف لائے کہ رسول اللہ نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی ، انہوں نے حسن کو اپنی چادر میں لے لیا، اسی طرح حسین آئے ، پھر فاطمہ اور پھر علی اور ان سب کو بھی اپنی چادر کے نیچے لے لیا اور تبھی خداوند متعال نے آیت کریمہ نازل فرمائی ۔

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيرًا

اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردےجس طرح سے پاک صاف کرنے کا حکم ہے

(سورۃ الاحزاب ، آیۃ 33 )

جو جنگیں رسول اللہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں لڑیں ، ان میں سے ایک غزوہ تبوک ہے جو آپ کی آخری جنگ بھی تھی ۔ یہ 9 ہجریٰ میں ماہ رجب اور شعبان میں مقام تبوک پر لڑی گئی ۔ یعنی رسول اللہ کی رحلت سے ٹھیک ایک سال اور کچھ ماہ پہلے لڑی گئی ۔ ایک طرف اُس وقت مدینہ کے معاشی حالات اچھے نہ تھے اور دوسری طرف منافقین مدینہ رسول اللہ کی مخالفت میں متحرک رہتے تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگ مسجد کے زیر سرپرستی رہتے تھے اور کچھ آپ کے ہمراہ ، لیکن پھر بھی دوران سفر رسول اللہ کی اونٹنی کو ڈراتے تھے تاکہ وہ رسول اللہ کو نقصان پہنچائے اور وہ یہ اس انداز سے کرتے کہ ان کی خیانت مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوتی تھی ۔ انہوں نے رسول اللہ سے کہا کہ آپ ہماری مسجد میں نماز پڑہیں تو آپ نے جواب میں کہا کہ جنگ لڑنے کے بعد پڑہیں گے ۔

 

رسول اللہ نے مدینہ سے تبوک روانگی سے قبل علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا اور پھر رومیوں سے لڑنے کے لیے روانہ ہوئے ۔ اسلامی افواج تبوک میں کچھ دن  قیام کرنے کے بعد بغیر لڑے واپس مدینہ آ جاتے ہیں اور جو منصوبہ منافقین مدینہ نے رسول اللہ کے قتل کا بنایا تھا وہ بھی خاک میں مل جاتا ہے ۔ جب رسول اللہ مدینہ پہنچتے ہیں تو اللہ منافقین کے برے منصوبے اور خیالات کو آشکار کر دیتا ہے اور اسی دوران مسجد ضرار کے بارے میں آیت نازل کی گئی ۔

 

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ

( سورۃ التوبۃ ، آیۃ 107 )

اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کرچکے ہیں ان کے لیے گھات کی جگہ بنائیں اور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصود تو صرف بھلائی تھی مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں

یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ جب علی المرتضیٰ خلیفہ رسول کی حیثیت پر مدینہ میں رہ جاتے ہیں  تو منافقین مدینہ سمجھ جاتے ہیں کہ علی  کے ہوتے ہوئے ہم اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ، لہٰذا علی کے لیے سازشیں اور منصوبہ بندی کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ ان حالات میں ناں صرف رسول اللہ ان سازشوں کو ناکام بناتے تھے بلکہ علی کو اپنا جانشین اور نائب ہونے کا اعلان بھی کرتے  رہتے تھے ۔ ان سب حالات و واقعات سے علی کے نبی ہونے کے سوا خلیفہ رسول ہونا ضرور ثابت ہو جاتا ہے ، کیونکہ قرآن نے ہارون کو موسیٰ مانا ہے اور بہت ساری روایات مختلف طریقوں سے صحائح میں بھی آ چکی ہیں ۔ ان میں سے مشہور تر صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، ترمذی ، نسائی ، مسند احمد اور دیگر کثیر معتبر کتابیں ہیں جن کا ذکر اس قلیل وقت میں ممکن نہیں ۔

 

سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں جانے سے قبل رسول اللہ نے علی کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ، تو علی نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں پر خلیفہ بنا رہے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا علی کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ کا مقام میرے بعد وہی ہے جو موسیٰ کے بعد ہارون کے مقام جیسا ہے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا ۔

وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِ

اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے (کوہِٰ طور پر جانے کے) بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو

( سورۃ الاعراف ، آیۃ 142 )

امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں رسول اللہ کے فرمان کو نقل کرتے ہیں تاکہ لوگ پیغمبر اکرم کے بعد دو اہم امور کو جان سکیں اور اس کی پیروی کریں ۔

پیغمبر فرماتے ہیں کہ

إِنِّي تَرَکْتُ فِيکُمُ الْخَلِيفَتَيْنِ کَامِلَتَيْنِ: کِتَابَ اللَّهِ، وَعِتْرَتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ( میں آپ کے درمیان دو جا نشینوں کو رکھ رہا ہوں جو کامل ہیں ، ایک خدا کی کتاب اور دوسری میری اولاد ( اہل بیت ) ، اور وہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے جب تک مجھ سے حوض کوثر پر نہ مل لیں )

یعنی جو صفات قرآن کے لیے ہیں وہی اہل بیت علیہم السلام کے لیے بھی ہیں ، یعنی یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے ۔ حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب المستدرک على الصحيين میں تحریر کیا کہ علی کی اطاعت کرنا گویا خود پیغمبر کی اطاعت کرنا ہے کیونکہ جناب ابوذر غفاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ

مَن أطَاعَنِي فقَدْ أطَاعَ اللَّهَ، ومَن عَصَانِي فقَدْ عَصَى اللَّهَ، ومَن أطَاعَ عَلِیّاً فقَدْ أطَاعَنِي، ومَن عَصَی عَلِیّاً فقَدْ عَصَانِي

جس کسی نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ، اور جس نے علی کی بات مانی گویا اس نے میری اطاعت کی ، اور جس نے علی کی نافرمانی کی گویا اس نے میری نافرمانی کی۔

اس بات پر دوسری دلیل یہ ہے کہ خداوند متعال ہدایت کرنے والا ہے اور حکم فرماتا ہے کہ ان کی پیروی کرو کہ جو پہلے سے ہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

فرماتا ہے کہ

قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَکُمْ کَيْفَ تَحْکُمُونَ  ۚ  وَمَا يَتَّبِعُ أَکْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ

( سورۃ الیونس ، آیات 35  ، 36 )

کہہ دو کہ خدا ہی حق کا رستہ دکھاتا ہے۔ بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو؟ اور ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں۔ اور کچھ شک نہیں کہ ظن حق کے مقابلے میں کچھ بھی کارآمد نہیں ہوسکتا۔

خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔  ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے  ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

 

إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ  فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ  إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ 

 

صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم