۱۳۹۹/۱۲/۸   2:8  ویزیٹ:876     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


14 رجب 1442(ھ۔ ق) مطابق با 26/02/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

اَمَا بَعدْ ۔۔۔عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، اور امر الہی کو انجام دینے اور جس چیز سے اللہ منع کریں اس کو انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہو (مالک الموت نے کہا ہے) کہ ای بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقوی اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوی ہی ہے۔

دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ہم پر حق ہے کہ  اُنہیں یاد رکھیں جو الله کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔

 لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں۔

ہم ولادت امام المتقین مولا علی علیہ السلام جو پیغمبر اکرم کے بعد ایک منفرد حکیم ہیں ، کی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور آج ان کی عظمات و فضائل کے بارے میں بات کریں گے۔

قرآن حکیم، بزرگان، علماء کرام و تمام محدثین متفقہ طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جیسے فضائل علی المرتضیٰ کے لیئے بیان ہوئے ایسے کسی اصحاب کے بارے میں ذکر نہیں ہوئے کیونکہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے۔

حاکم نیشا پوری نے بھی انہی الفاظ کو امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوئے اپنی کتاب المستدرک على الصحيين میں لکھا ہے کہ:

ما جاء لأحد من أصحاب رسول الله صلّى الله عليه وسلّم من الفضائل ما جاء لعلي بن أبي طالب

جو فضائل علی المرتضی کے بارے میں بیان ہوئے ہیں وہ دیگر اصحاب میں سے کسی کے لیے بیان نہیں ہوئے۔

قرآن بھی امام علی کی جان نثاریوں کو اس طرح بیان کر رہا ہے کہ

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے

سورَ  البقرَ  ،  آیت  207

یہ آیت کریمہ ان ایام کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جب مشرکان مکہ آپس میں متحد ہو کر رسول اللہ کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے اور جس رات وہ قتل کی نیت سے تمام ہتھیاروں (تلواریں، نیزے) سے لیس ہو کر آپ کے گھر میں داخل ہوئے لیکن وہاں محمد کی جگہ علی کو پایا۔ یعنی یہ کہ علی، رسول اللہ کے خطرات کو اپنے اوپر لیتے ہوئے اور اپنی جان فدا کرتے ہوئے بستر پر سو جاتے ہیں، اس طرح سے کہ جو جاسوس مشرکان نے چھوڑ رکھے تھے وہ بھی متوجہ نہ ہو سکے کہ علی گھر تک کیسے پہنچے اور سو گئے۔ پس یہ قربانی رسول اللہ کے لیے مناسب وقت فراہم کرتی ہے کہ وہ مکہ سے دور نکل جائیں اور محفوظ ہو جائیں اور ناکامی ان مشرکان کا مقدر ہو جائے۔

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب المستدرک على الصحيين میں ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

شری علی نفسہ و لبس ثوب النبی ص ثم نام علی مکانہ

علی علیہ السلام نے اپنی جان کو بیچ دیا اور نبی کا لباس زیب تن کیا اور آپ کے بستر مبارک پر سو گئے

احمد  بن  حنبل  اپنی  مسند  میں  علی  علیہ  السلام  کے  فضائل  لکھتے  ہیں  کہ :

حسین  ابن  علی  اپنے  بابا  علی  کی  شہادت  کے  بعد  اپنے  خطبے  میں  کہتے  ہیں  کہ  "  کل  آپ  لوگوں  نے  ایسے  عالم  شخصیت  کو  ہاتھ  سے  دے  دیا

  کہ  اس  جتنا  علم  تک نہ  اولین  میں  سے  کسی  کی  اس  تک  رسائی  تھی  اور  نہ  آخرین  میں  سے  کوئی  اس  کو  درک  کر  پائے  گا۔  جب  بھی  پیغمبر  اکرم (ص) نے  علی  کو  کمانڈر  بنا  کر  علم  اسلام  ان  کے  ہاتھ  میں  دے  دیتے  تھے  تو  جبریل  امین  ان  کے  دائیں  اور  میکائیل  ان  کے  بائیں  طرف  چلتے  تھے  اور  جب  تک  فتح  یاب  نہ  ہو  جاتے  تب  تک  واپس  نہیں  پلٹتے  تھے۔

حاکم نیشا پوری نے کتاب المستدرک على الصحيين میں ابن عباس سے نقل کیا ہے

انا مدینة العلم و علی بابھا فمن اراد المدینة فلیات الباب

میں علم کا شہر ہو اور علی دروازہ  پس  جو  بھی  شہر  علم  میں  داخل  ہونا  چاہے  تو  اسی  دروازے  سے  داخل  ہو۔

جنگ احزاب میں   ایک  اہم  واقعہ رونما ہوا جسے تاریخ نے ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں محفوظ کیا ۔ جنگ کے بعد   تمام کافروں  نے   آپس میں متحد ہو  کر  یہ طے کیا کہ سب مل کر پیغمبر اسلام اور ان کے یاران و اصحاب کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں  گے۔ اسی بنا پر انہوں نے مدینہ کی طرف حرکت کی تاکہ ایک بڑی جنگ لڑ سکیں لیکن جب مدینہ پہنچتے ہیں۔

 حضرت  سلمان  فارسی  کی مشورے سے  جنگ کے لیے  نئی  ٹیکنیک (خندق) متعارف  کروئی  گئی۔  لیکن  اس  کے  باوجود عمر ابن عبدود نے  اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ خندق کو پار کر لیا اور ھل من مبارز کہنے لگے کہ ہے کوئی جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔ سب لوگ عمر ابن عبدود سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ ایک پہلوان تھا۔ رسول اللہ نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہے کوئی جو اس کا مقابلہ کرے تو اس وقت بھی صرف علی ہی تھے جنہوں نے لبیک کہا۔ امام علی علیہ السلام عمر ابن عبدود کے مقابل  لڑنے گئے اور اسے  قتل کر کے جنگ خندق میں فتح یابی نصیب ہوئی۔

حاکم نیشا پوری نے کتاب المستدرک على الصحيين میں  عاصم سے نقل کیا ہے

پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جنگ خندق میں علی کا عمر ابن عبدود کے ساتھ لڑنا میری تمام امتیوں کے اعمال سے زیادہ ہے۔

فخر رازی نے تفسیر کبیر میں شب قدر کی فضیلت و قدر و قیمت کو جنگ خندق میں علی کے مقابلے کی فضیلت کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور کہتے ہیں کہ شب قدر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے لیکن کتنا بہتر ہے یہ اللہ تعالی نے نہیں فرمایا ہے۔ بالکل اسی طرح امام علی کا جنگ خندق میں بہادری کی فضیلت کو پورے امت کے اعمال سے زیادہ بیان کیا ہے

 لیکن کتنا زیادہ ہے یہ نہیں فرمایا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ یہ جو عمل ہے یہی کافی اور باقی سب فضول ہے۔

حاکم نیشا پوری نے کتاب المستدرک على الصحيين  میں  نقل  کیا  ہے

مثل اہلبیتی کمثل سفینة النوح

پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ آگاہ ہو جاؤ کہ میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو بھی اس میں سوار ہوا اس نے نجات پا لیا اور جو بھی اس سے محروم ہوا وہ غرق ہوا۔

سنن ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں آپ سے ایک روایت اس طرح نقل کی ہے

إِنِّي تَارِکٌ فِيکُمُ الثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا کِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا کَيْفَ تَخْلُفُونِّي فِيهِمَا أَلَا هذا عَذْبٌ فُراتٌ فَاشْرَبُوا وَ هذا مِلْحٌ أُجاجٌ فَاجْتَنِبُوا

میں تم لوگوں میں ایسا کچھ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم لوگوں نے ان کے ساتھ تمسک رکھا تو میرے بعد ہمیشہ کے لیے تم گمراہ نہیں ہو گے کہ جن میں سے ہر ایک دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے کہ جو رسی کی مانند آسمان سے زمین تک متصل ہے اور ایک میرے اہلبیت کی محبت ہے۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے حتیٰ کہ حوض کوثر پر مجھ سے جا ملیں۔

دیکھ لو کہ تم لوگ کیسے آپس میں اختلاف کرتے ہو۔ اس عبارت میں لن کسی عبارت میں نفی کے لیے آتا ہے یعنی قرآن اور اہلبیت میں کبھی جدائی نہیں آسکتی۔ یہ دونوں خطا سے پاک ہیں اور ان کی پیروی واجب ہے اور دونوں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ان دونوں پر کسی کو بھی سبقت حاصل نہیں ہے اور رسول اللہ نے اس بات پر تاکید کی تھی کہ قرآن و اہلبیت فصل الخطاب ہیں۔

خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے 

، امام مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

 

إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ  فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ  إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ

 

صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم