بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین
اَمَا بَعدْ ۔۔۔عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، اور امر الہی کو انجام دینے اور جس چیز سے اللہ منع کریں اس کو انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہو (مالک الموت نے کہا ہے) کہ ای بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقوی اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوی ہی ہے۔
دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ہم پر حق ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جو الله کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔
وقت کی قلت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ مطالب آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
قبل از ایں ! عید مبعث ، ولادت امام حسین و ابا الفضل علیہ السلام کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
پیغمبر اکرم کو آخری نبی بنا کر بھیجا گیا تھا کہ انسان کی خود مختار ہدایت کے لیے راستہ ہموار کریں ، انسان کو سعادت پر پہنچنے کے لیے راستے سکھائیں اور وہ خطرات جن کی وجہ سے انسان گمراہی کی طرف جا سکتا ہے اس کی بھی یاد دہانی کرائیں ۔ لہٰذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اپنی زندگی میں اچھا کام کرے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی انسان کی ہدایت کے لیے کوشش کرے ۔ کسی کو ہدایت کرنے کی قدر و قیمت اتنی زیادہ ہے کہ کسی کو بھی حیرت میں ڈال دے ۔ جیسا کہ امام علی نے فرمایا کہ جب پیغمبر اکرم نے مجھے یمن کی طرف بھیجنا چاہا تو فرمایا :
وَ ايمُ اللّهِ، لَأَن يَهدِيَ اللّهُ عَلى يَدَيکَ رَجُلًا خَيرٌ لَکَ مِمّا طَلَعَت عَلَيهِ الشَّمسُ و غَرَبَت، و لَکَ وِلاؤُهُ يا عَلِيُّ
خدا کی قسم اگر آپ کے ہاتھ سے ایک بھی انسان ہدایت پا لے تو یہ آپ کے لیے ان سب چیزوں سےبہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور اے علی تم اس کے مولا ہو ۔
عبد الرحمٰن بن عائذ سے روایت ہے کہ جب بھی پیغمبر اکرم کسی گروہ کے ساتھ جنگ کے لیے بھیجتے تو کہا کرتے تھے کہ ان لوگوں سے محبت پیدا کرو اور انہیں وقت دو اور جب تک ان کو اسلام کی طرف دعوت نہ دے دو ان پر حملہ بھی نہ کرو یہاں تک کہ روئے زمین پر ایسا کوئی خاندان نہ بچے کہ جو مسلمان نہ ہوا ہو ، اور یہ امر میرے نزدیک اس سے کئی گنا بہتر ہے کہ تم ان پر حملہ کر کے ان کے مردوں کو قتل کرو اور عورتوں و بچوں کو قیدی بناؤ ۔
کانَ النَّبِيُّ ص إذا بَعَثَ بَعثا یقول:
تَأَلَّفُوا النّاسَ، و تَأَنَّوا بِهِم، و لا تُغيروا عَلَيهِم
ہدایت کرنے کا منبع قرآن کریم ہے اور وہ ہدایت کرنے کو اس طرح بیان فرماتا ہے ۔۔۔
وَإِنَّکَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ
اور اخلاق تمہارے بہت (عالی) اور عظیم ہیں ( سورۃ العلق ، آیت 4 )
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ
(اے محمد) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو۔ ( سورۃ آل عمران ، آیت 159 )
ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جو بھی مقام اور جس حالت میں بھی ہوں انہیں انسان کی ہدایت کے لیے استعمال کریں ، ان سب اچھے اخلاقیات و تعلقات کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے استعمال کریں، اسی کے ذریعے حقیقی اسلام کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھائیں تا کہ ہمارے یہ امور امام زمان اور اہل بیت عصمت و طہارت کی خوشنودی کا سبب بنیں ۔
مَعاشِرَ الشيعه کونوا لنا زَيناً و لاتکونوا علينا شيناً، قولوا للناس حُسْناً و احفظُوا السِنَتَکُم و کُفُّوها عن الفُضُول و قَبيح القَول
سلیمان بن مہران کہتا ہے کہ میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے پیروکاروں کا ایک گروہ پہلے ہی ان کی ملاقات کے لیے موجود تھا اور امام ان سے فرما رہے تھے کہ ہمارے لیے باعث زینت بنو ناں کہ باعث ذلالت و بے عزتی بنو ، لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں بات کریں اور اپنی زبان کو بری اور فضول باتوں سے محفوظ و باز رکھیں ۔
تمام پیغمبران کرام و آئمہ طاہرین حکمت سکھانے والے ہیں اور روح کی صحت و سلامتی اور تربیت کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہم اونچے کمال و مقام پر فائز ہو جائیں اور ہماری روح کی شکل و صورت خوبصورت ہو جائے اور روح کے خوبصورت و بہترین اثرات و کردار ظاہر ہو جائیں ۔
حکمت پانے کے کچھ طریقہ کار و راستے ہم نے پچھلے خطبوں میں بھی ذکر کیے ہیں کہ جن میں ایک یہ کہ ۔۔۔
إنصافُ النّاسِ مِن نَفسِکَ ومُؤاساتُکَ أخاکَ
دوسروں کے ساتھ معاملات کرنے میں منصفانہ کردار اختیار کریں اور مال دنیا سے بے رغبتی کی قوت کو اپنے اندر تقویت بخشیں۔ چھوٹے سے چھوٹے مرحلے سے شروع کریں اور اتنا مضبوط ہو جائیں کہ ہر بڑے سے بڑے مرحلے میں بھی کامیاب ہو جائیں ۔ ہم نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ ہر حال میں اللہ کو حاظر و ناظر سمجھیں اور اس مرحلے کا نام حقیقت ذکر تھا ۔ اگرچہ زبان سے ذکر پڑھنا بھی بہت اچھا عمل ہے لیکن یہاں پر ذکر سے مراد دل کی توجہ ہے کیونکہ اس کے بغیر زبانی ذکر کا زیادہ اثر نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر رکھنے کی ایک مثال نماز ہے کہ کچھ لوگ اسے حضور قلب کے ساتھ بجا لاتے ہیں اور کچھ غفلت کی حالت میں اور کچھ نماز کے معنوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، لیکن نماز کا اس طرح سے پڑھنا کہ آپ کسی کے ساتھ مخاطب ہوں اس لحاظ سے لوگوں کے مخاطب کو سمجھنے میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ، لیکن ضروری یہ ہے کہ مخاطب کو سمجھ کر ان کی مناسبت سے بات کریں ۔ گناہ کی صورت میں اللہ کو حاضر و ناظر رکھنے کا بھی یہی طریقہ ہے ، لہٰذا اگر ہم اللہ کو حاضر و ناظر سمجھیں تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ گناہ کر پائیں کیونکہ جب بھی انسان متوجہ گناہ ہوتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی محترم شخصیت اسے دیکھ رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو غلطیوں یا گناہ سے روک سے لیتا ہے ۔
دوسرا مرحلہ زکوٰۃ دینا ہے ، زکوٰۃ کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نماز قبول ہو اور نماز کی برکات سے فائدہ اٹھائیں تو اس کے لیے اسلام میں تاکید کی گئی ہے کہ زکوٰۃدیں ۔
امام رضا اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
إنَّ اللّه َ عز و جل أمَرَ بِثَلاثَةٍ مَقرونٍ بِها ثَلاثَةٌ أُخرى : أمَرَ بِالصَّلاةِ وَالزَّکاةِ ، فَمَن صَلّى ولم يُزَکِّ لَم تُقبَل مِنهُ صَلاتُهُ
اللہ نے تین چیزوں کا حکم دیا ہے جبکہ تین اور چیزیں اسی کے ساتھ رکھی ہیں ۔ اللہ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا زکوٰۃدینے کے ساتھ ، پس اگر کسی نے نماز پڑھی لیکن زکوٰۃنہیں دی تو اس کی نماز قبول نہیں ۔ مال کا پاک ہونا ضروری ہے لہٰذا خمس و زکوٰۃدینا امر واجبی ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو اس امر کے لیے تربیت و مشق کرائیں کہ ہم اپنے وظیفوں کو احسن طریقے سے انجام دے سکیں ، بس یہ سمجھیں کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس موجود ہے وہ اللہ نے دیا ہے تو اللہ ہی کے حکم کے مطابق کچھ مال اللہ کے راستے میں دیں ، اس طریقے سے ہماری زندگی میں طاقت آ جائے گی اور حکمت پر فائز ہونے کا راستہ بھی کھل جائے گا ۔
خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ
صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم
|