۱۴۰۰/۱/۱۳   2:2  ویزیٹ:1246     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


19 شعبان 1442(ھ۔ ق) مطابق با 02/04/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

اَمَا بَعدْ ۔۔۔عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ،  امر الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔ مالک الموت نے کہا ہے کہ اے بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقویٰ اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوٰی ہی ہے۔ دوران حیات اپنے قلوب میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر لحظات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ہم پر حق ہے کہ  اُنہیں یاد رکھیں جو الله  کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔

تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔

قلت وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند مطالب آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ قبل از ایں ! ولادت امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف ، ایام ماہ مبارک شعبان اور اس میں وقوع پذیر عیدین کی مناسبت سے مبارک باد و ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہوں ۔

 

پروردگار عالم سورۃ البقرۃ ، آیۃ 269 میں فرما رہا ہے کہ :

يُؤْتِي الْحِکْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔

گذشتہ خطبات جمعہ میں بارہا حکمت کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اگر ہم قرآنی پیروکار بنیں اور انسیت پیدا کرلیں تو قرآن کی من جملہ برکات میں سے خیر کثیر حاصل ہو جائے گی ۔ تمام انسان کمال طلب ہیں یعنی کمال چاہتے ہیں اور کمال کے حصول میں ہیں۔

قرآن  کمال کو حکمت کے نام سے تحریر کرتا ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ انسان جس پر چل کر تکامل ، آرام و سکون پا لیتا ہے ۔ لیکن دوسری طرف دنیا اور اس میں زندگی گذارنا مشکلات اور بلاؤں کے ہمراہ ہے ۔

 

جیسا کہ امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَلدُّنْیَا دَارٌ بِالْبَلاَءِ مَحْفُوفَةٌ

دنیا تباہی سے بھری پڑی ہے ، گھیرے میں ہیں          ( نہج البلاغۃ ، خطبہ 226 )

قدرت مند اور کمزور دونوں گروہ اس میں مبتلا ہیں ۔ ہر نفس خاص قسم کی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے

 جبکہ درحقیقت حکمت کی نگاہ  میں  یہ بلائیں  نہیں ہے بلکہ یہ انسان سازی کے امتحان میں کامیابی کے لیے ایک بہترین فرصت  ہوتی ہے ۔ اگر حکمت سے صحیح طور پر فائدہ اٹھایا جائے تو : ایک تو ہم دنیا کی سہولیات و آسائشوں سے بہترین فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ، دوسری بات  یہ کہ حکمت ہمارے لیے سکون و آرام کے لیے بھی زمینہ فراہم کرتا ہے ۔

 پس حکمت وہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی پوری طاقت اور محنت لگاتا ہے کہ کسی طرح اس کو حاصل کریں تا کہ  اسے بروی کار لاتے ہوئے کمال پر پہنچ جائے ۔ اگر ہم خیر و آرام و سکون کے درجہ میں دنیاوی مال و متاع کے ذریعے پہنچ جائیں تو سمجھ لیجئے کہ اس مال و متاع سے صحیح طور استفادہ کیا ہے اور ہم نے ان سب کا صحیح مصرف کیا ہے ۔

لیکن  اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر سمجھیں کہ خود ہم ہی ان وسائل و مال و متاع کی خدمت کر رہے ہیں ۔ اصلاً ہماری حرص ، غصہ اور کوشش یہ سب اس لیے ہو گا کہ ہم  مال و متاع دنیا کی حفاظت کریں  یہ ہم اس وقت تک  کرتے رہتے ہے حتی کہ اس دنیا سے چل بسیں اور دوسرے لوگ ان مال و متاع کے مالک بن جائیں ۔

 جبکہ خیر کا مطلب ہے کہ ہم دنیا کے ثمرات سے درست فائدہ اٹھائیں۔

 اور یہ کہ مال و متاع دنیا کو متاع قلیل کی حیثیت دی گئی ہے ۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان متاع دنیا کو جمع کرتا ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے وقت نہیں بچتا ۔ بالکل اسی طرح کے جو لوگ مرتے ہیں تو ان کا بہت سارا ( مال و متاع ) یہیں رہ جاتا ہے۔

 یعنی بجائے اس کے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ لے جائیں اور یہاں کم رہ جائے ، الٹا بہت کم لے کر جاتے ہیں اور کثیر تعداد یہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ جب تک انسان میں طاقت ہے تب تک ان کو جمع کرتا رہتا ہے لیکن پھر جب بیش بہا مال و متاع  ہے تو پھر جوانی نہیں ہے اور طاقت نہیں رہتا ہے  اور یہ سب یہیں چھوڑ کر چلا جاتاہے ۔

لہٰذا ہمیں اپنے زندگیوں میں ہی سوچنا چاہیے کہ اپنے لیے کتنا جمع کریں اور اپنے لیے خرچ کریں۔ ہم اپنے آپ سے کتنا کام  اور وقت لیتے ہے کہ مال و متاع دنیا کو  جمع کریں ؟

 اور کس وقت تک یہ مال و متاع ہمارے کام میں ہمارا مددگار ہے ۔ روایات سے ملتا ہے کہ اگر حکمت پانا ہے تو کچھ اقدامات کرنے یا مراحل طے کرنا ہوں گے تاکہ حکمت کے نور ہمارے دلوں میں چمکیں ۔

 پہلا اقدام یا مرحلہ یہ کہ ہم حقیقت ذکر پر توجہ دیں ، حقیقت ذکر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کا ہر وقت احساس رکھیں کہ ہم اللہ کے محضر میں ہیں اور ہمیں زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی ذکر اللہ کرنا چاہیے تاکہ ہمارے دلوں   پر ان دعاؤں اور اذکار کے معانی کا اثر ظاہر ہو ۔

 خالق کائنات کی طرف توجہ قلبی رکھنے کی علامات یہ ہیں کہ انسان ہر کام میں خاشع و خاضع بن جاتا ہے اور مسؤلیات اور وظیفہ شناس اور عمل کرنے والا بن جاتا ہے ۔

دوسرا اقدام یا مرحلہ زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ کی دو قسمیں ہیں ظاہری اور باطنی ۔ ہمارے نفوس کی تربیت کے لیے ان دونوں کو بہتر سے بہتر بنانا ہے ۔ ذکر کی حقیقت خدا کو حاضر و ناظر سمجھنا ہے اور زکوٰۃ کی حقیقت اپنے مال کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک کرنا ہے ۔

امام رضا علیہ السلام نے زکوٰۃ ظاہری کے بارے میں فرمایا کہ :

أمَرَ بِالصَّلاةِ وَالزَّکاةِ ، فَمَن صَلّى ولم يُزَکِّ لَم تُقبَل مِنهُ صَلاتُهُ والشکر له وللوالدين، وتقوى الله وصلة الرحم

خداوند متعال نے تین چیزوں کے بارے میں حکم ( امر ) دیا ہے جبکہ تین اور چیزیں اس کے ہمراہ ہیں ۔ ان میں سے پہلا امر نماز ہے ، پس اگر کسی نے نماز پڑھی اور زکوٰۃ نہیں دی تو اس کی نماز قبول نہیں ہے ۔

دوسرا امر یہ کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکر ادا کریں ۔

تیسرا امر یہ کہ اللہ سے ڈریں اور صلہ رحمی کریں ۔

اما جہاں تک زکوٰۃ باطنی کی بات ہے تو ، امام صادق علیہ السلام نے زکوٰۃ ظاہری و باطنی کے سوال کے جواب میں بعد اس کے کہ انہوں نے زکوٰۃ ظاہری کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی ، اس کے بعد زکوٰۃ باطنی کے بارے میں فرمایا :

وَأَمَّا الْبَاطِنَةُ : فَلَا تَسْتَأْثِرْ عَلى أَخِيکَ بِمَا هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنْکَ

زکوٰۃ باطنی و حقیقی وہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی بھائی آپ سے زیادہ کسی شئے کا محتاج ہے وہ وہ شئے آپ کی قدرت میں ہے تو آپ کو اسے اپنے لیے نہیں رکھنا ہے بلکہ اپنے بھائی کو دے دینا چاہیے ۔

تو اس بناء پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ مخلوق خدا پر احسان کرنا اور اللہ کے لیے لوگوں کی مشکلات حل کرنا حکمت پر پہنچنے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ۔ اگر ہم اس حد ( اختیار ، قدرت مند ) میں نہ ہوں کہ دوسروں کی مشکلات حل یا کم کر سکیں تو کم از کم اتنا ضروری کریں کہ ان کے معاملات میں خندہ پیشانی سے پیش ہو اور معاونت کریں ۔

تیسرا اقدام یا مرحلہ حلال کھانا اور دل کو نورانی کرنا ہے ۔ حلال کمائی عصر غیبت کے مشکل کاموں میں سے ایک ہے ۔ ہمیں سوچنا ہے کہ جو کچھ کما رہے ہیں وہ کہاں سے ہے اور کس طرح اور اس میں کتنی رضائیت خدا شامل ہے ۔ کچھ علمائے اخلاق نےاس طرح فرمایا کہ ہمیں متوجہ رہنا چاہیے کہ یہ سادہ مزاج لوگ ہمیں دھوکہ نہ دیں ۔

پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت ہوئی ہے :

مَن أکَلَ مِنَ الحَلالِ صَفا قَلبُهُ ورَقَّ

جس نے رزق حلال کھایا تو اس کا دل نورانی اور نرم ہوا

پھر فرماتے ہیں کہ :

مَن أکَلَ الحَلالَ أربَعينَ يَوما ، نَوَّرَ اللّه ُ قَلبَهُ ، وأَجرى يَنابيعَ الحِکمَةِ مِن قَلبِهِ عَلى لِسانِهِ

جس نے چالیس روز تک حلال کھایا تو اللہ اس کے دل کو نورانی کر دیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے دل و زبان پر جاری ہو جاتے ہیں ۔

خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔  ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے  ، امام زمان امام مہدی عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔

 

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

 

إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ 

 

صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم