ابوصلت ہروی کہتے ہیں: میں امام رضا (ع) کی خدمت میں حاضر تھا۔ امام (ع) نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے ابا صلت! ہارون کی قبر پر بنے ہوئے قبے میں جا کر چار اطراف سے تھوڑی سے مٹی جمع کر کے لاؤ۔ میں گیا اور مٹی اکٹھی کر کے لایا۔ امام (ع) نے مٹی کو سونگھا اور فرمایا: یہ لوگ مجھے ہارون کے پیچھے دفن کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں ایک بہت بڑا پتھر ظاہر ہوگا اور اگر پورے خراسان کے کدال بھی لائیں تو اس کو اکھاڑ نہيں سکیں گے اور ہارون کے سر اور پاؤں کی جانب بھی پتھر ظاہر ہوگا۔ اس کے بعد آپ (ع) قبر ہارون کے سامنے قبلہ کی جانب کی مٹی کو سونگھا تو فرمایا یہ میری تدفین کا مقام ہے۔
فرمایا: اے ابا صلت! جب میری قبر تیار ہو جائے تو ایک نمی پیدا ہو گی اور میں تمہیں ایک دعا بتاتا ہوں وہ پڑھو گے تو قبر پانی سے بھر جائے گی۔ اس پانی میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ظاہر ہوں گی۔ میں تمہیں ایک روٹی دیتا ہوں یہ روٹی ان مچھلیوں کے لے توڑ کر پانی میں ڈال دو تو وہ روٹی کو کھا لیں گی اور اس کے بعد ایک بڑی مچھلی ظاہر ہوگی جو ان چھوٹی مچھلیوں کو نگل لے گی اور پھر غائب ہو جائے گی۔ اس وقت تم پانی پر ہاتھ رکھو اور یہ دعا پڑھ لو جو میں تمہیں بتاتا ہوں تو پانی غائب ہو جائے گا۔ تم یہ سارے افعال مامون کی موجودگی میں انجام دو۔
فرمایا: اے ابا صلت! کل میں اس فاسق و فاجر شخص (مامون عباسی) کے پاس جاتا ہوں جب میں اس کے پاس سے باہر آؤں تو دیکھنا اگر میں نے اپنے سر پر عبا ڈالی ہو تو مجھ سے بات نہ کرنا اور جان لو کہ اس شخص نے مجھے زہر دے دیا ہے۔
امام رضا (ع) کو انگور دے کر شہید کیا گیا:
اباصلت کہتے ہیں: دوسرے روز امام رضا (ع) اپنے محراب میں منتظر رہے۔ تھوڑي دیر بعد مامون نے اپنا غلام بھیجا اور امام (ع) کو بلوایا۔ امام مامون کی مجلس میں داخل ہوئے میں بھی آپ (ع) کے پیچھے پیچھے تھا۔ مامون کے سامنے کھجوروں اور دوسرے پھلوں کا ایک طبق رکھا ہوا تھا۔ مامون کے اپنے ہاتھ میں انگور کا ایک خوشہ تھا جس میں سے اس نے زیادہ تر انگور کھا لئے تھے اور کچھ دانے باقی تھے۔
مامون نے امام (ع) کو آتے دیکھا تو اٹھا اور امام سے گلے ملا اور آپ (ع) کے ماتھے کو بوسہ دیا اور اپنے پہلو میں بٹھا دیا اور اس کے بعد انگور کا خوشہ آپ (ع) کو پیش کرتے ہوئے کہا: میں نے اس سے بہتر انگور نہیں دیکھا۔
امام (ع) نے فرمایا: شاید کہ جنت کا انگور بہتر ہو!
مامون نے کہا: یہ انگور تناول فرمائیں۔
امام (ع) نے فرمایا: مجھے انگور کھانے سے معذور رکھ لو۔
مامون نے کہا: آپ کے پاس یہ انگور کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیا آپ ہم پر الزام لگانا چاہتے ہیں، اس کے بعد انگور کا خوشہ اٹھایا اور اس میں سے کچھ دانے کھا لئے اور خوشہ امام (ع) کو پیش کیا۔
امام علیہ السلام نے انگور کے تین دانے کھا لئے اور خوشہ طبق میں رکھ کر فورا اٹھے۔
مامون نے کہا: کہاں جارہے ہیں؟
امام نے فرمایا: وہیں جا رہا ہوں جہاں تم نے مجھے روانہ کیا۔
اس کے بعد امام نے عبا اپنے سر پر ڈال دی اور گھر تشریف لے آئے اور مجھے حکم دیا کہ دروازہ بند کر دوں۔ اور اس کے بعد بستر پر لیٹ گئے۔
امام محمد تقی جواد (ع) کا اپنے والد کے پاس آنا:
اباصلت کہتے ہیں: میں گھر کے درمیانی حصے میں پریشانی کی حالت میں کھڑا تھا کہ میں نے ایک خوبصورت نوجوان کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھا جو امام رضا (ع) کے شبیہ ترین تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: آپ کہاں سے داخل ہوئے؟
فرمایا: جو مجھے مدینہ منورہ سے یہاں تک لایا اسی نے مجھے بند دروازے سے داخل کیا ہے۔
میں نے عرض کیا: آپ کون ہیں؟
فرمایا: میں تم پر اللہ کی حجت ہوں، اے ابا صلت! میں محمد بن علی الجواد ہوں۔
اس کے بعد آپ (ع) اپنے والد بزرگوار کی طرف چلے گئے اور مجھے اپنے پاس بلایا۔ جب امام رضا (ع) کی نظر امام جواد پر پڑی تو آپ (ع) نے اپنے فرزند کو گلے لگایا اور ماتھے پر بوسہ دیا۔ حضرت جواد (ع) امام رضا(ع) کے بدن پر گر سے گئے اور والد ماجد کو چوما اور اس کے بعد باپ بیٹے میں آہستہ سے بات چیت شروع ہوئی جو میں نہيں سن سکا۔ اس دوران باپ بیٹے کے درمیان اسرار و رموز کا تبادلہ ہوا اور یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ امام رضا (ع) کی روح عالم قدس کی بلندیوں کی جانب پرواز کر گئی۔
امام جواد (ع) نے والد گرامی کو غسل دیا:
ابوصلت کہتے ہیں:
امام جواد (ع) نے فرمایا: اے اباصلت! اس گودام کے اندر جاؤ اور غسل کی چيزیں اور پانی لاؤ۔
میں نے عرض کیا: وہاں اس قسم کے چیزیں نہیں ہیں۔
امام (ع) نے فرمایا: جو کہتا ہوں وہی کرو۔
میں خزانے کے اندر داخل ہوا اور دیکھا کہ سارے وہی چیزیں حاضر پڑی ہيں۔ میں ان اشیاء کو اٹھا کر لایا اور اپنا دامن کمر تک چڑھا کر باندھ لیا تا کہ امام (ع) کے غسل میں شرکت کروں۔
امام (ع) نے فرمایا: اے ابا صلت! ہٹ جاؤ کیونکہ جو غسل میں میری مدد کرے گا وہ تمہارے سوا کوئی اور ہے۔ اس کے بعد امام جواد (ع) نے امام رضا (ع) کے جسم اطہر کو غسل دیا۔
اس کے بعد فرمایا: گودام میں رکھے ہوئے تھیلے سے کفن اور حنوط کا سامان لاؤ۔
میں گودام میں داخل ہوا تو وہاں پر ایک تھیلا رکھا ہوا تھا کہ جو اس وقت تک مجھے نظر نہیں آیا تھا۔ میں اس میں سے کفن و حنوط و کافور اٹھا کر لایا۔
امام جواد (ع) نے والد کو کفن دیا اور آپ (ع) پر نماز پڑھی اور فرمایا: تابوت لاؤ۔
میں نے عرض کیا: تابوت بڑھی کی دکان سے لاؤں؟
فرمایا: نیچے گودام میں تابوت موجود ہے۔
میں اندر گیا اور وہاں سے تابوت باہر لایا۔
امام جواد (ع) نے والد کا جسم اطہر تابوت میں رکھا اور خود نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔
تابوت آسمانوں کی طرف پرواز کر گیا:
ابوصلت ہروی کہتے ہیں:
ابھی امام جواد (ع) کی نماز ختم نہیں ہوئی تھی کہ میں نے دیکھا گھر کی چھت میں شگاف پڑ گیا ہے اور وہ تابوت اس شگاف سے نکل کر آسمان کی جانب پرواز کر گیا ہے۔
میں نے امام (ع) سے عرض کیا: یا بن رسول اللہ (ص)! ابھی مامون آئے گا اور پوچھے گا کہ امام رضا (ع) کا جسم اطہر کہاں ہے؟ فرمایا: پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں! امام کا جسم اطہر ابھی واپس لوٹ کر آ جائے گا۔ اے ابا صلت! کوئی بھی پیغمبر شرق اور غرب عالم میں دنیا سے رخصت نہیں ہوتا مگر یہ کہ اللہ تعالی اس کی اور اس کے وصی کی روح و جسم کو ایک دوسرے سے ملا دیتا ہے۔ خواہ اس کا وصی غربِ عالم میں ہی دنیا سے رخصت کیوں نہ ہوا ہو۔
اسی اثناء میں چھت میں ایک بار پھر شگاف ہوا اور تابوت اپنی جگہ پر واپس لوٹ آیا۔
اس کے بعد امام جواد (ع) نے اپنے والد کا جسم اطہر تابوت سے نکال کر پہلے کی سی حالت میں بستر پر رکھ دیا۔ جبکہ جسم کی حالت ایسے تھی کہ، گویا نہ تو اس کو غسل دیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی تکفین ہوئی ہے۔
اس کے بعد امام جواد (ع) نے فرمایا: اے ابا صلت! اٹھو اور مامون کے لئے دروازہ کھولو۔
مامون عباسی کا امام رضا (ع) کی میت پر آنا:
ابوصلت کہتے ہیں:
میں نے دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مامون اپنے غلاموں کے ہمراہ اشک بہاتے ہوئے اور چاک گریبانوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ مامون سر پیٹتا ہوا امام رضا (ع) کے سر مطہر کی جانب بیٹھ گیا اور تجہیز و تکفین کا حکم جاری کیا۔
امام رضا (ع) نے جو جو مجھ سے ارشاد فرمایا تھا وہ سب وقوع پذیر ہو گیا تھا۔
مامون نے کہا: امام رضا زندہ تھے تو ہم نے ان سے بے شمار کرامات دیکھیں اور اب وفات کے بعد بھی وہ ہمیں کرامات دکھا رہے ہیں۔
مامون کے وزیر نے کہا: آپ سمجھ گئے کہ حضرت رضا نے آپ کو کیا دکھایا؟
مامون نے کہا: نہیں۔وزیر نے کہا: امام رضا (ع) نے ہمیں ان چھوٹی مچھلیوں اور اس بڑی مچھلی کے ذریعے بتایا کہ "تم بنو عباس کی سلطنت شہنشاہوں کی کثرت اور درازیِ مدت کے با وجود ان چھوٹی مچھلیوں کی مانند ہے کہ جب تمہاری اجل آن پہنچے گی تو خداوند ہم میں سے ایک مرد تم پر مسلط فرمائے گا اور وہ تم سب کو نیست و نابود کر دے گا۔ مامون نے کہا: سچ کہہ رہے ہو۔
اس کے بعد مامون نے مجھ سے پوچھا: وہ کونسی دعا تھی جو تم نے پڑھی تھی ؟
میں نے کہا: خدا کی قسم! میں وہ دعا اسی وقت بھول گیا اور میں حقیقتاً وہ دعا اب بھول گیا ہوں۔
لیکن مامون نے مجھے قیدخانے میں ڈال دیا۔
امام جواد (ع) کے ہاتھوں ابوصلت کی رہائی:
ابوصلت کہتے ہیں:
مامون نے مجھے قید کر دیا اور میں ایک سال تک قید خانے میں رہا۔ میں بہت دل تنگ ہو گیا تھا اور ایک رات صبح تک دعا میں گذار دی اور اللہ کو محمد و آل محمد (ص) کا واسطہ دیا کہ اچانک امام جواد (ع) جیل میں داخل ہوئے اور فرمایا اے اباصلت! کیا یہاں رہ رہ کر تھک گئے ہو؟
میں نے عرض کیا: خدا کی قسم! ہاں۔امام (ع) نے فرمایا: اٹھو اور پھر میرے پیروں سے زنجیر کھول دی اور مجھے جیل سے باہر لے گئے۔ جیل کے محافظین مجھے دیکھ رہے تھے لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ کہا۔امام (ع) نے فرمایا: اب تم خدا کی امان میں ہو اور جان لو کہ اس کے بعد مامون تم تک نہیں پہنچ سکے گا۔
ابوصلت یہ روایت سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے بعد آج تک میں نے مامون کو نہیں دیکھا۔
بحار الانوار، ج 49، ص 300، ح 10. نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 242.
امام رضا (ع) کی شہادت کے بارے میں مختلف اقوال:
بعض فرقوں کے نزدیک ہر حاکم واجب الاطاعت ہے اور اس کے خلاف قیام جائز نہیں خواہ وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہی کیوں نہ کرتا ہو یا مقدسات کی توہین ہی کیوں نہ کرتا ہو! اس عقیدے کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ حاکم وقت اولاد رسول اللہ (ص) کا خون ہی کیوں نہ بہائے اس کی اطاعت واجب ہے اور اس کی نا فرمانی حرام اور نا جائز ہے۔
اہل حدیث، عام اہل سنت، (امام اشعری سے پہلے اور اس کے بعد)؛ امام اشعری کا خود یہی عقیدہ تھا۔ اس عقیدے کا تعلق مرجئہ طرز فکر سے بھی ہے۔ جہاں افراد کا گناہ ان کا ذاتی عمل ہے اور اس عمل کا حساب و کتاب اللہ کے پاس ہے اور انسانوں کو ان کا محاسبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور تمام افراد چاہے کسی بھی عمل کا ارتکاب کریں قابل احترام ہیں اور قابل مؤاخذہ نہیں ہیں۔ یہ عقیدہ کلی طور پر حکمرانوں کو قانون اور شریعت سے بالاتر ثابت کرنے کے لئے استعمال ہوا ورنہ عام لوگوں کے لئے عدالتیں قائم تھیں اور ان کو معمول کے مطابق سزائیں ملتی تھیں اور ان علماء نے کبھی بھی انہیں گناہوں سے بری الذمه قرار نہیں دیا!.
ان لوگوں نے اپنے عقائد کی توجیہ کے لئے بعض احادیث بھی رسول اللہ (ص) سے منسوب کر رکھی ہیں۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا یہ عقیدہ اور مذکورہ جعلی احادیث قرآن کی نص صریح اور حکم عقل کے بالکل برعکس ہیں۔یہ عقیدہ بہت سے مؤلفین کے افکار پر اثر انداز ہوا ہے، حتی ان کے بزرگ علماء اور فقہاء بھی اسی عقیدے سے متأثر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر حکام کے جور و ستم پر پردہ ڈالنے اور ان کے برے اعمال کی تأویل و توجیہ پر مجبور بھی ہوئے۔
حکام کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے حقائق کو لوگوں سے خفیہ رکھا جائے یا پھر ان حقائق کو من پسند انداز سے یوں بیان کیا جائے کہ ان کا غلط اور الٹا اثر ہو۔ اس سلسلے میں درباروں سے وابستہ یا اپنے عقیدے سے مجبور ہو کر حکام کے درباروں میں بیٹھنے والے علماء، مورخین اور مؤلفین نے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا اور چونکہ ان کے جبری عقیدے کے مطابق حکام کا ارادہ اللہ کا ارادہ تھا چنانچہ انھوں نے حکام کے ارادے کی تکمیل کے لئے ہر ممکن کوشش کی؛ اسی بنا پر بہت سی کتابوں میں حتی آئمہ اہل بیت (ع) کا کردار بیان کرنا تو دور کی بات، ان کے اسماء گرامی بھی ذکر نہیں کئے گئے۔
اس امر کا سبب یہ نہیں تھا کہ آئمہ معصومین علیہم السلام گمنام تھے یا وہ معاشرے میں خدمت دین کے حوالے سے کام نہیں کر رہے تھے یا عوام ـ حتی علماء ان کو توجہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ سبب وہی تھا جس کی طرف اشارہ ہوا ورنہ لوگ یا تو ان کے دوست اور محب تھے یا پھر ان کے دشمن یا مخالف تھے اور دونوں صورتوں میں ان کا کسی نہ کسی انداز میں آئمہ علیہم السلام کے ساتھ واسطہ پڑ ہی جاتا تھا تاہم کئی کتابوں میں ان کے نام ذکر کرنے سے بھی اجتناب کیا گیا ہے۔ جبکہ ان ہی کتابوں میں اس دور کی رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کے نام یا اس دور کے مشہور ڈاکؤوں کے نام پڑھنے کو ملتے ہیں!
اگر اس مسئلے کا دینی پہلو نظر انداز بھی کیا جائے پھر بھی ادب اور تألیف و تصنیف اور تاریخ نویسی کی دنیا اور اخلاق قلم و کتابت کی رو سے یہ ایک پیشہ ورانہ خیانت ہے انھوں نے اپنے دور کے حقائق سے چشم پوشی کر کے آئندہ مسلم نسلوں سے خیانت کی ہے اور اہل قلم ہونے کے ناطے سے بھی انہیں جو امانت بعد کی نسلوں تک پہنچانی تھی اس میں وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
حکومت ان ہی منشیوں اور تحصیلداروں کی حمایت کرتی تھی یا یوں کہیے کہ حکومت ان کے ہاتھ میں تھی چنانچہ تشریح حقائق کے حوالے سے اہل تشیع کے پاس تألیف و تصنیف کے لئے بہت ہی قلیل وسائل میسر تھے اور انہیں ہر وقت حکام اور اہل دربار کے عتاب و تعاقب کا سامنا تھا اور ان کی جان ہر وقت خطرے میں رہتی تھی۔
بہر حال حکام وقت مختلف علماء اور دانشوروں کو دور افتادہ علاقوں سے اپنے پاس بلوایا کرتے تھے اور اس بات سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام علم و دانش کی چوٹی پر تھے تو پھر حکام ان کے ساتھ کیوں عداوت برتتے تھے کیا یہ حکام کے عمل میں تضاد کی علامت نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ:
1۔ خلفاء کی اہل بیت علیہم السلام کی دشمنی کا سبب یہ تھا کہ ان سب کو معلوم تھا کہ امت اسلامی پر حکمرانی کا حق آئمہ طاہرین علیہم السلام کا ہے چنانچہ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں قتل کر کے اس حق کو پامال کیا کرتے تھے۔
2۔ آئمہ معصومین کبھی بھی حکام کی تأئید اور حمایت نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے کردار سے خوشنودی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
3۔ آئمہ طاہرین علیہم السلام اپنے طرز سلوک اور با اثر سماجی شخصیت کے حامل تھے اور معاشرے میں ان کا بہت گہرا اثر و رسوخ تھا چنانچہ حکام ان کی طرف سے اپنی حکومت و اقتدار کے لئے ہر وقت خطرہ محسوس کرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ حکام علماء اور فقہاء کی حمایت کیوں کرتے تھے اور وہ ان علماء کی سرپرستی کیوں کرتے تھے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے:
1۔ اس طرح علماء ـ جو معاشرے کے آگاہ افراد تھے اور معاشرے میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ـ حکام کے زیر تسلط قرار پاتے تھے اور حکام انہیں حکومت کے مفاد کی حدود میں رکھتے تھے۔
2۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکام ان ہی علماء کے ذریعے بہت سے مشکل منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔
3۔ علماء کی سر پرستی کر کے عوام کو باور کراتے تھے کہ ان کے حکمران علم دوست ہیں اور علماء کی تکریم کرتے ہیں اور اس طرح وہ معاشروں کا اعتماد حاصل کیا کرتے تھے اور اہل بیت (ع) کے ساتھ اپنی دشمنی سے وجود میں آنے والے سماجی بد ظنی کی تلافی بھی کیا کرتے تھے اور سادہ دل عوام ان کی اہل بیت دشمنی کو نظر انداز کر جاتے تھے۔
4۔ علماء کی تکریم کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ حکام ان کو اپنے گرد جمع کر کے آئمہ طاہرین علیہم السلام کا نورانی چہرہ عوام کی نظروں سے چھپا دیتے تھے تا کہ وہ آئمہ (ع) کو فراموش کر دیں۔
اور ہاں علماء کی تکریم کا سبب ہر گز یہ نہ تھا کہ حکام کسی خاص مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان کا مذہب تو اقتدار تھا اور حکام کی طرف سے علماء کی تکریم و تعظیم بھی غیر مشروط نہیں تھی بلکہ ان کی حمایت اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک وہ متعینہ حدود میں رہ کر سرکاری مقاصد کے حصول میں معاون رہتے تھے اور جب ان کا کردار حکومت کے متعینہ سیاسی اہداف سے متصادم ہو جاتی تو وہی حکام ان ہی علماء کو سزائیں بھی دیتے تھے یہاں تک کہ بعض اکابرین علماء اہل سنت جیلوں میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ چنانچہ علم اور عالم متعینہ سرکاری اہداف کے دائرے میں محترم تھے۔
احمد امین المصری عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے بارے میں لکھتا ہے کہ: "منصور معتزلیوں کو ضرورت کے وقت اپنے پاس بلایا کرتا تھا اور محدثین اور علماء کو بھی دعوت دیا کرتا تھا اور یہ دعوتیں اس وقت تک ہوتی تھیں جب تک ان معتزلیوں اور علماء و محدثین کا کردار اس کے اقتدار کے لیے خطرہ نہیں ہوتا تھا اور اگر ان کے کردار اور سلطان کے اقتدار میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوتی تو انہیں بلا تکلف منصور کی سزائیں بھگتنا پڑتی تھیں"۔
ضحى الاسلام، 3 ، ص 202 و نیز جلد 2 / ص 46 و 47۔
منصور دوانیقی وہی بادشاہ ہے جس نے حنفی مسلمانوں کے امام ابوحنیفہ کو زہر کا جام پلایا اور ساتھ ہی امام جعفر الصادق (ع) اور آپ (ع) کے شاگردوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک روا رکھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ منصور محمد بن عبداللہ علوی کے قیام کی وجہ سے امام (ع) کا مخالف ہو چکا تھا۔ 2
محمد بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابیطالب (ع) المعروف "نفس زکيہ" جنہوں نے سنہ 145 ہجری میں منصور دوانیقی کے خلاف مدینہ منورہ میں قیام کیا۔ منصور نے اپنے بھانجے عیسی کو ایک لشکر دے کر مدینہ روانہ کیا؛ مدینہ کے قریب جنگ چھڑ گئی اور نفس زکیہ شہید ہوئے اور ان کا سر قلم کر کے منصور کے پاس بھیج دیا گیا۔
الکامل/ج 5 / ص 150
طبرى /ج 11 / ص 1030
تاریخ ابوالفداء /ج 2 / ص 23
مختصر تاریخ الدول / ص 134
مرآة الجنان /ج 2 / ص 12
وفیات الاعیان /ج 1 / ص 321
بہر حال حکام کی کوشش ہوتی تھی کہ آئمہ علیہم السلام کے حقائق بیان نہ ہوں یا توڑ مروڑ کر بیان کئے جائیں اور اس سلسلے میں علماء کہلانے والے افراد کی حمایت حاصل کیا کرتے تھے۔
چنانچہ اگر کہا جائے کہ ابن اثیر، طبرى، ابوالفداء، ابن العبرى، یافعى اور ابن خلکان ان ہی علماء میں سے تھے جنہوں نے حقیقت اور تاریخ سے خیانت کی اور واقعات تاریخ کی تألیف میں بے انصاف تھے اور انھوں نے پیشہ ورانہ غیر جانبداری کا لحاظ ہر گز نہ رکھا، تو یہ عین حقیقت ہو گی۔
ان لوگوں کی نا انصافی، تعصب اور حکام جور کی اندھا دھند متابعت کی ایک اہم دلیل امام رضا (ع) کے بارے میں ان کی تحریریں ہیں۔ اچھا تو ان سب نے لکھا ہی کیا ہے کہ اتنی شدت سے ہماری تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں؟ہاں انھوں نے لکھا ہے: امام رضا (ع) نے انگور کھانے میں زیادہ روی کی اور اسی وجہ سے انتقال کرگئے!!!؟
تاریخ ابن خلدون /ج 3 / ص 250۔
ابن خلدون نے بھی علم و فن کے ہر شعبے میں قلم فرسائی کی ہے اور حدیث کے حوالے سے تو انہیں سنی علماء کی طرف سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے اور اس نے تاریخ و سیاست کے بارے میں بھی لکھا ہے اور عقائد و کلام کے بارے میں چنانچہ اس نے بھی ـ جو اموی مذہب تھا ـ ان ہی مصنفین کی پیروی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: «جب مأمون طوس میں داخل ہوا اسی وقت امام رضا (ع) انگور کھانے میں زیادہ روی کے باعث ناگہانی طور پر گذر گئے»۔
روح الاسلام، سید امیر على / ص 311 و 312 -
یہ بتانا البتہ ضروری ہے کہ آئم معصومین علیہم السلام کھانے پینے اور دیگر دنیاوی امور میں نہایت متوازن تھے اور ان کے زہد و پارسائی کا تو دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے اور پھر وہ تمام علوم و فنون کے امام تھے اور انہیں حدود کا علم تھا اور یقینا کوئی عام سا عقلمند شخص بھی کھانے پینے میں زیادہ روی کے انجام سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور کبھی بھی خود کشی نہیں کرتا چہ جائے کہ وہ فرد ایک امام معصوم ہو۔
تاہم ایسی باتیں لکھنے کا سبب تعصب اور حقائق سے اعلانیہ چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور کوئی بھی با ضمیر اہل قلم ایسے امام سے ایسے سخیف عمل کی نسبت نہیں دے سکتا۔ اور پھر ہم بھی اتنے زمانی فاصلے کے با وجود اپنی عقل و ضمیر کی طرف رجوع کریں تو ایسی یاوہ سرائیوں کی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ کسی امام کے بارے میں ایسی کوئی صفت کسی بھی دوست یا دشمن نے ذکر نہیں کی ہے۔
امام رضا (ع) کی شہادت کے بارے میں مختلف اقوال:
مذکورہ بالا رائے کو کوئی بھی علمی اہمیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ امام (ع) کی زندگی کے حالات میں غور کرنے سے آپ (ع) کی سیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے چنانچہ ہم نے اس رائے کو شہادت کے بارے میں مختلف آراء میں شامل نہیں کیا۔
دیگر مؤرخین نے مختلف اقوال بیان کیے ہیں جو کئی طرح کے ہیں اور ان کے نقطہ ہائے نظر میں وحدت کا فقدان ہے جس کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے۔
بعض مورخین نے صرف اس حادثے کی رپورٹ دی ہے اور اس کی کیفیت اور اسباب و عوامل کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے اور صرف بر سبیل تردد متذکر ہوئے ہیں کہ «کہا جاتا ہے کہ آپ (ع) کو زہر دیا گیا اور آپ (ع) انتقال کر گئے»۔ جیسا کہ یعقوبی نے اپنی تاریخ کی جلد دوئم کے صفحہ 80 پر اشارہ کیا ہے۔
بعض دیگر نے تسلیم کیا ہے کہ امام کو مسموم کیا گیا مگر ان کی رائے یہ ہے کہ یہ جرم عباسیوں نے کیا ہے جبکہ مامون اس سے بری الذمہ تھا۔
سیدامیرعلی کی رائے بھی یہی ہے۔ اور احمد امین المصری نے بھی یہی رائے نقل کی ہے۔
الامام الرضا ولى عهد المأمون / ص 102 به نقل از خلاصة الذهب المسبوک / ص 142۔
اس رائے کی صرف ایک سند ہے جو اربلی نے نقل کی ہے اور وہ ایک مبہم عبارت ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ «جب انھوں نے عباسیوں نے نے دیکھا کہ خلافت فرزندان علی علیہ السلام کو منتقل ہو گئی ہے تو انھوں نے علی بن موسی (ع) کو زہر دیا اور آپ (ع) ماہ مبارک رمضان کے ایام میں طوس کے مقام پر دنیا سے رخصت ہوئے»۔
تذکرة الخواص / ص 355۔
ایک رائے یہ ہے کہ امام علیہ السلام عباسی بادشاہ مأمون بن ہارون کے ہاتھوں مسموم ہوئے لیکن اس نے یہ عمل اپنے وزیر فضل بن سہل کی ترغیب اور اس کے کہنے پر انجام دیا۔
البتہ ہماری رائے کے مطابق مأمون کو کسی ترغیب یا ہدایت و راہنمائی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ خود امام علیہ السلام کے مقام و منزلت سے بخوبی تھا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ رائے دینے والے مؤرخین نے جب محسوس کیا کہ مأمون کو اس قتل سے کلی طور پر بری الذمہ قرار دینا ممکن نہیں ہے تو انھوں نے لکھا کہ یہ درست ہے کہ مأمون اس قتل کا مرتکب ہوا ہے لیکن یہ کام اس نے اپنے ارادے سے نہیں بلکہ فضل بن سہل کی ترغیب پر انجام دیا تھا گو وہ پھر بھی مأمون کی بے گناہی ثابت کرنے پر بضد ہیں۔ جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ فضل بن سہل امام کی شہادت سے کافی عرصہ قبل مأمون کے طوس آنے سے پہلے اس کے جلادوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا چنانچہ یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کہ مأمون نے امام کو اپنے مقتول وزیر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے امام (ع) کو شہید کر دیا تھا ورنہ وہ خود ہرگز اس عمل کا روادار نہ تھا!
ایک رائے یہ بھی ہے کہ امام علیہ السلام کا وصال طبعی موت کا نتیجہ تھا اور نہ تو آپ (ع) مسموم ہوئے تھے اور نہ ہی کسی نے آپ (ع) کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ یہ رائے دینے والوں نے بعض دلیلیں بھی بیان کی ہیں۔
ابن جوزی اس رائے کا قائل ہے۔ انھوں نے دیگر مؤلفین کی یہ رائے نقل کی ہے کہ: «امام علیہ السلام حمام گئے تھے؛ حمام میں آپ (ع) کے سامنے ایک طشت انگور کا رکھا گیا جس میں رکھے ہوئے انگور کے دانوں کو سوئی کے ذریعے زہر سے آلودہ کیا گیا تھا چنانچہ آپ (ع) انگور تناول فرمانے کے بعد وصال کر گئے»
اور اس کے بعد لکھتا ہے کہ: یہ بات درست نہیں ہے کہ مأمون کو اس عمل میں ملوث قرار دیا جائے کیونکہ اگر اس نے انگور مسموم کر کے آپ (ع) بھیجا تھا تو پھر وہ آپ (ع) کے وصال پر اتنا ملول و محزون کیوں ہوا اور اتنی بی چینی کا اظہار کیوں کر رہا تھا؟
ابن جوزی کے بقول یہ واقعہ مأمون پر اتنا گران گزرا کہ کئی روز تک کھانا پینا تک چھور دیا اور دنیا کی تمام لذتوں سے دوری اختیار کی۔
حى الاسلام / 3 / ص 295 و 296۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک طرف سے تو ابن جوزی کہتا ہے کہ امام کا وصال طبعی موت کا نتیجہ تھا اور دوسری طرف سے تسلیم کرتا ہے کہ حمام میں آپ (ع) کو زہریلا انگور دیا گیا شاید اس کی بات کا یوں مفہوم لیا جائے کہ مأمون کے ولیعہد کو مأمون کی موجودگی میں کسی اور نے قتل کیا اور مأمون بہت مغموم ہوا لیکن اس صورت میں سوال یہ ہے کہ مأمون نے قاتلوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اور ایسی کوئی بات تاریخ میں نہیں ملتی کہ کوئی قاتل پکڑا گیا ہو اور اس کو سزا دی گئی ہو۔ اور اس سوال کا جواب دھونڈتے ہوئے الزام کی انگلی سیدھی مأمون کی طرف ہی اٹھتی ہے بادشاہ اور صاحب اختیار جو تھا!۔
بہر حال ابن جوزی کا اصرار ہے کہ مأمون اس قتل میں ملوث نہیں تھا۔
اربلى نے بھی ابن جوزی کی پیروی کرتے ہوئے یہی رائے بیان کی ہے اور اس رائے کے لئے وہی دلیل بیان کی ہے جو ابن جوزی نے بیان کی تھی۔
احمد امین المصری کا بھی یہی خیال ہے اور اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ مأمون جب بغداد واپس آیا اس وقت بھی علویوں کی طرح سبز جامہ پہنتا تھا اور علماء کے ساتھ علی علیہ السلام کی برتری کے بارے میں مباحثے کیا کرتا تھا۔
نظریة الامامة / ص 387۔
عجیب یہ ہے کہ اتنے مشہور اور عالم مصنفین کی دلیلیں اتنی غلط اور کمزور کیوں ہیں؟
ڈاکٹر احمد محمود صبحى نے بھی گمان کیا ہے کہ امام رضا (ع) کی مسمومیت اہل تشیع کا بنایا ہوا الزام ہے اور شیعہ مؤرخین اور تاریخی تجزیہ نگار مأمون کے نزدیک امام علیہ السلام کے مقام و منزلت اور مأمون کے ہاتھوں آپ (ع) کی مسمومیت کے درمیان تضاد کا احساس کیوں نہیں کرتے!
التاریخ الاسلامى و الحضارة الاسلامیة / 3 / ص 322 - ماثر الانافة / 1 / ص 211۔
انھوں نےالبتہ اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے کہ جب منشی حضرات بادشاہوں کی تاریخ لکھتے تھے شیعہ علماء حالات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھے اور کبھی بھی حق کو باطل کے بطن میں ہضم ہونے نہیں دے رہے تھے؛ بات صرف اتنی سی ہے کہ اہل تشیع ظاہری نعروں اور وابستگی و محبت کے اظہار کو محبت اور وفاداری کی دلیل نہیں سمجھتے۔
جن لوگوں نے مأمون کو امام رضا علیہ السلام کو زہر دینے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے ان کی دلیلوں کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
1۔ مأمون اور امام علیہ السلام کے درمیان ولیعہدی کا میثاق موجود تھا جس کے تحت امام کو مأمون کی موت کے بعد خلافت کا عہدہ سنبھالنا تھا۔
2۔ مأمون امام علیہ السلام کی شان و منزلت کی تعظیم کرتا اور آپ (ع) کے شرف و علم و فضیلت اور آپ (ع) کی خاندانی عظمت کا اعتراف کرتا تھا۔
3۔ مأمون نے اپنی بیٹی کا نکاح امام علیہ السلام سے کرایا تھا اور یہ خود ان کے درمیان محبت و اخلاص کے استحکام کا سبب تھا۔
4۔ مأمون علماء کے سامنے علی علیہ السلام کی برتری پر استدلال کیا کرتا تھا۔
5۔ امام (ع) کی شھادت ہوئی تو مأمون بہت بے چین اور مغموم ہوا اور اس نے کئی دن تک کھانے پینے اور دیگر دنیاوی لذتوں سے اجتناب کیا۔
6۔ مأمون نے امام علیہ السلام کو اپنے باپ کے پہلو میں دفنا دیا اور آپ (ع) کی میت پر خود ہی نماز پڑھی۔
7۔ امام کا وصال ہوا تو وہ بدستور سبز لباس میں ملبوس رہا حتی کہ بغداد میں لوٹ کر رہائش پذیر ہوا۔
8۔ علوی اس کے خلاف مختلف اقدامات کیا کرتے تھے مگر وہ علویوں پر مہربان تھا۔
9۔ مأمون کے اخلاق اور عادات و اطوار کے پیش نظر وہ ایسا قدم اٹھا نہیں سکتا تھا البتہ اس نے اپنے بھائی امین کو بھی شاید غلطی سے قتل کروایا تھا اور اس کا سر اپنے محل میں ایک نیزے کے نوک پر ایک عرصے تک نصب کر رکھا تھا ورنہ وہ کہاں اور کسی کا قتل کہاں!!!
10۔ امام رضا (ع) کی مسمومیت کی داستان شیعوں نے خود گھڑی ہے:
چنانچہ مأمون اس قتل سے بری الذمہ ہے۔ یہ ان دلیلوں کا خلاصہ ہے جو مأمون کی وکالت کرنے والے اہل قلم حضرات نے اس کو بری الذمہ اور بے گناہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں۔
ہمارے خیال میں یا تو ان حضرات کو تمام حقائق کے بارے میں علم نہیں تھا یا پھر اتنی ساری باتوں میں سے حقیقی رائے استخراج کرنے اور اس تاریخی واقعے کے صحیح تجزیئے سے عاجز تھے۔
یا پھر یہ کہ وہ تاریخی حقیقت سے بخوبی واقف تھے اور حقائق کا تجزیہ کرنے کی قوت سے بھی بہرہ مند تھے مگر تعصب نے انہیں حقیقت کا اعتراف کرنے سے روک رکھا ہے اور انھوں نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آئمہ اہل بیت رسول (ص) کے خلاف اپنی عداوت کی بنا پر حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور اپنی ہوائے نفس اور اپنے بادشاہوں کی پیروی کرتے ہوئے ان حقائق کو خلط ملط کر چکے ہیں جو ان کے خلفاء کے حق میں نہ تھے۔
ہم ان تمام دلیلوں کو مانتے ہیں اور بظاہر یہ سب باتیں وقوع پذیر ہوئی ہیں اور ہمیں ان کا انکار نہیں۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں مأمون کے سامنے ممکنہ خطرات کا خاتمہ کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے اس کو عباسی بادشاہت کے سلسلے کی حفاظت کا مسئلہ در پیش تھا اس نے اس سے قبل اپنے وفا دار وزیر کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ گردان کر قتل کر دیا۔ فضل کو مأمون کے نزدیک بلند مقام و مرتبت حاصل تھی اور مأمون نے بار ہا اصرار کیا تھا کہ اپنی ایک بیٹی کا فضل سے نکاح کر دی۔
ہرثمہ بن اعین اس کا قریبی ساتھی اور اس کی فوج کا سربراہ تھا اور اس کے اقتدار کے استحکام میں اس کا بہت بڑا کردار تھا مگر یہی کمانڈر جب اس کے دارالسطنت «شہر مرو» میں داخل ہوا تو اس کا خیر مقدم کرنے کی بجائے اس پر متعدد الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور اس کو بات کرنے اور اپنے دفاع میں کچھ بولنے تک کی فرصت دیئے بغیر اس کا سر تن سے جدا کروایا۔ اس نے اپنی دوسرے اعلی کمانڈر طاہر بن حسین اور اس کے فرزندوں کو بھی نیست و نابود کر دیا۔ یہ اس کے کمانڈر اور اس کے تاج و تخت کے محافظ تھے اور ان کی شمشیر کی بدولت وہ اسلامی مملکت پر حکمرانی کرتا تھا مگر اس نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا۔
ابتدائے سلطنت مأمون سے انتہا تک دیکھیں تو اس نے اپنے تمام قریبی ساتھیوں کو آب تیغ سے سیراب کیا جبکہ انہیں قتل کرنے سے قبل ان کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا تھا۔ مأمون کے کون سے عادات و اطوار اس کو امام رضا (ع) کے قتل سے روک سکتے تھے جبکہ اس نے سلطنت اور اقتدار پر قبضہ جمانے کی خاطر اپنے بھائی تک کو تہہ تیغ کیا تھا! اب اگر اقتدار ہی کی حفاظت کا مسئلہ امام رضا (ع) کے قتل کا متقاضی ہو تو وہ کون سا عامل ہو سکتا ہے جو اس کو اس عمل سے روک سکے؛ کیا یہ بات معقول ہو گی کہ کوئی دعوی کرے کہ "مأمون امام رضا (ع) کو اپنے سچے خدمتگزاروں اور حتی اپنے بھائی سے زیادہ دوست رکھتے تھے اور آپ (ع) مأمون کو سب سے زیادہ عزیز تھے؟
اب سوال یہ ہے کہ پھر مأمون امام علیہ السلام کی شہادت پر اتنا محزون و مغموم کیوں ہوا؟
اس سوال کا جواب بھی بالکل روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ مأمون نہایت مکار اور عیار سیاستدان تھا اور اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ کسی کو قتل کر کے اس کی موت پر خوشی منائے۔
کیا مأمون ہی نہیں تھا جس نے اپنے مخلص وزیر فضل بن سہل کو قتل کیا اور پھر اس کے لئے عزاداری کا اہتمام کیا؟
لطف التدبیر / ص 166۔
اس نے خود ہی کئی افراد کو مأمور کر کے انہیں فضل بن سہل کے قتل کی ہدایت کی تھی اور انہیں انعام و اکرام کا وعدہ دیا تھا چنانچہ وہ انہیں بخوبی جانتا تھا اور فضل کی قتل کے بعد ان سب کو گرفتار کیا اور لوگوں کے سامنے ان کا خون بہایا، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک نے لوگوں کے سامنے مأمون سے کہا کہ "ہم نے فضل کو تمہارے حکم پر قتل کیا ہے اور اگر قاتل کو سزا دینی ہے تو یہ سزا تمہیں ملنی چاہئے" بہر حال مأمون نے انہیں قتل کروایا اور ان کے سر قلم کروا کر فضل کے بھائی حسن بن سہل کے پاس بھجوائے۔ اور اپنی لڑکی بھی حسن بن سہل سے بیاہ دی۔ مگر جب اس نے ابن شکلہ کی شورش کچل دی تو حسن بن سہل کو بھی بر طرف کر کے گھر بٹھا دیا۔
الصواعق المحرقة، فصول المهمة،
ینابیع المودة، اثبات الوصیة، بحار، اعیان الشیعة، احقاق الحق جلد 2 به نقل از: اخبار الدول قرمانى، نور الابصار، ائمة الهدى هاشمى، الاتحاف بحب الاشراف، مفتاح النجا فى مناقب اہل العبا۔ ۔ ۔
طاہر بن حسین کو بھی اسی نے قتل کیا اور پھر اس زمانے کے بڑے مولوی جناب یحیی بن اکثم کو طاہر کے بیٹوں کے پاس روانہ کیا تا کہ وہ خلیفہ کا تعزیتی پیغام انہیں پہنچا دیں۔ اس کے بعد طاہر کے بیٹوں کو باپ کا منصب سونپا مگر انہیں بھی یکے بعد دیگرے برطرف کر کے نیست و نابود کر دیا۔
وہ ایسا اس لئے کرتا تھا کہ قتل ہونے والے افراد معاشرے میں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور اس مکار خلیفہ کا یہ وطیرہ تھا کہ با اثر افراد کے قتل کے منفی نتائج سے بچنے کے لئے ان کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا کرتا تھا اور امام رضا (ع) کا اثر و رسوخ اتنا وسیع تھا کہ مأمون کے سامنے غم و اندوہ کا اظہار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا وہ سخت خوفزدہ ہو چکا تھا اور غم و اندوہ خوف کی بھی تو علامت ہے۔
امام رضا (ع) کے بارے میں اس کی آراء و خیالات اور آپ (ع) کی شہادت کے بعد اس کا اظہار غم ہر گز اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اگر واقعی وہ سچا تھا تو اس نے امام کے سات بھائیوں کو کیوں قتل کیا؟ اور علویوں کو اذیت و آزار کا نشانہ بنایا اور مصر میں اپنے والی کو لکھا: منبروں کی دھلائی کا فرمان جاری کرو کیونکہ ان پر امام رضا (ع) کا نام لیا گیا ہے!۔
مأمون کی وہ کونسی شرافت تھی جس کے ہوتے ہوئے وہ امام (ع) کو قتل نہیں کر سکتا تھا؟ یہ کیسا سوال ہے کہ امام (ع) سے اس کا اظہار محبت اس کے ہاتھوں آپ (ع) کے قتل سے ناہماہنگ تھا؟ کیا اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے دیگر افراد سے اس نے کبھی بھی اظہار محبت نہیں کیا تھا؟
ہاں وہ علویوں کا احترام کرتا تھا اور اس نے عباسی اکابرین کے نام اپنے خط میں اس کی وجہ یوں بیان کی ہے: "علویوں کی تکریم و تعظیم ہماری پالیسی کا حصہ ہے"۔
وہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے چند روز بعد تک علویوں کا سبز لباس پہنتا تھا مگر اس کے بعد اس نے سیاہ عباسی لباس پہننا شروع کیا اور امام کے سات بھائیوں کو قتل کیا اور مختلف علاقوں میں اپنے والیوں کو لکھا کہ علوی بزرگوں کو پابند سلاسل کر دیں۔
احمد امین نے لکھا ہے کہ "علویوں نے مأمون کے خلاف بہت سے قیام کئے تھے" لیکن اس نے اس بات کے لئے کوئی ثبوت نقل نہیں کیا ہے اور امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعیان اہل بیت (ع) نے کوئی قیام نہیں کیا۔ ہاں البتہ یمن میں "عبدالرحمن بن احمد" نے قیام کیا جس کی وجہ صرف اور صرف عباسی والی کا ظلم و ستم تھی۔ اور بس، اور امام (ع) کے بھائیوں نے اپنے بھائی کی خونخواہی کی غرض سے قیام کیا تھا۔
احمد امین نے لکھا ہے کہ امام (ع) کی مسمومیت اہل تشیع کا افسانہ ہے!
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل تشیع سے پہلے سنی مؤرخین نے ہی لکھا ہے کہ مأمون اس جرم کا مرتکب ہوا تھا اور شیعہ بھی اس جرم کی داستان سنیوں کی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن اگر پھر بھی مأمون کو نیک نیتی کی نسبت دینا ہے اور اس کو اس گناہ سے بری الذمہ قرار دینے پر بضد رہنا ہے تو وہ آ کر ہمارے اس سوال کا جواب دے کہ: "مأمون نے امام علیہ السلام کے وصال کے بعد ولیعہدی کا منصب آپ (ع) کے فرزند "محمد تقی الجواد علیہ السلام" کو کیوں نہیں سونپا؟ جبکہ امام جواد علیہ السلام مأمون کے داماد بھی تھے اور مأمون کو آپ (ع) کے فضل و علم و کمالات کا اعتراف بھی تھا!
امام جواد (ع) نے ظاہری طور پر بچپنے کی عمر میں ہی یحیی بن اکثم کے ساتھ مناظرہ کر کے ان کی تحسین جیت لی تھی۔ یہ مناظرہ بہت مشہور و معروف ہے۔
مسند الامام الرضا / 1 / ص 130 - بحار / 49 / ص 299 - عیون اخبار الرضا / 2 / ص 242۔
ایک نظر جو درست بھی ہے یہ ہے کہ امام علیہ السلام کو مسموم کیا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور ابن جوزی نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ رائے بالکل درست ہے البتہ شیخ اربلی نے کشف الغُمّہ میں اس رائے سے اختلاف کیا ہے لیکن شیخ مفید نے لکھا ہے کہ امام (ع) کو مسموم کیا گیا تھا۔ گو کہ شیخ مفید نے لکھا ہے کہ: مأمون اور امام رضا علیہ السلام نے ساتھ مل کر انگور تناول کیا جس کے بعد امام علیہ السلام بیمار پڑ گئے اور مأمون نے تمارض کر کے اپنے آپ کو بیمار ظاہر کیا!!۔
بہر حال تمام شیعہ علماء اور مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کو مأمون نے زہر کے ذریعے شہید کر دیا اور یہ بہت اہم دلیل ہے کیونکہ شیعہ علماء زیادہ بہتر انداز میں ائمہ علیہم السلام کی احوال نویسی میں غور کرتے تھے اور وہ اس حوالے سے کوئی بھی خفیہ زاویہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔
اہل سنت کے علماء میں سے ایک کثیر تعداد نے امام علیہ السلام کی طبعی موت کو مسترد کر دیا ہے یا پھر ان کے ہاں اس حقیقت کو ترجیح دی گئی ہے کہ آپ (ع) کو شہید کیا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل افراد ان ہی مؤرخین اور مؤلفین میں سے ہیں:
ـ ابن حجر مکی ـ صواعق المحرقہ ـ صفحہ 122
- ابن صباغ مالکى فصول المہمة صفحہ 250
ـ مسعودى ـ اثبات الوصیة ـ صفحہ 208
التنبیہ و الاشراف صفحہ 203
مروج الذہب / 3 / صفحہ 417۔
ـ لقشندى ـ مآثرالانافة فى معالم الخلافة / 1 /ص 211۔
ـ قندوزى حنفى ـ ینابیع المودة، صفحہ 263 و 385۔
ـ جرجى زیدان ـ تاریخ تمدن اسلامى / 2 / بخش 4 / صفحہ 440، و کتاب امین و مأمون آخری صفحہ۔
ـ ابوبکر خوارزمى نے اپنے رسالے میں اور احمد شلبى نے تاریخ اسلامى اور تمدن اسلامى / 3 / صفحہ 107۔ میں یہ نکتہ بیان کیا ہے۔
ـ ابوالفرج اصفہانى ـ مقاتل الطالبیین - ابو زکریا موصلى ـ تاریخ موصل 171 / 352 - ابن طباطبا
الآداب السلطانیة صفحہ 218 - شبلنجى
نور الابصار صفحہ 176 و 177 مطبوعہ 1948
ـ سمعانى ـ الانساب جلد 6 صفحہ 139
ـ سنن ابن ماجہ بحوالہ تہذیب التہذیب الکمال فى اسماء الرجال، ص 278
عارف تامرـ الامامة فی الاسلام صفحہ 125
ـ ڈاکٹر کامل مصطفى شیبى ـ الصلة بین التصوف و التشیع ـ صفحہ 226۔
مأمون کے زمانے میں امام رضا (ع) کے قتل کی خبر پھیل گئی تھی:
جب ہم تاریخی کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام رضا (ع) کی شہادت مأمون کے ہاتھوں زہر دینے کے نتیجے میں واقع ہوئی اور یہ خبر مأمون کے دور میں ہی معروف ہو گئی اور خاص و عام اس سے آگاہ ہو گئے تھے۔ مأمون کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی چنانچہ وہ خود بھی کبھی کبھی شکوہ کیا کرتا تھا کہ "لوگ امام رضا کو زہر دینے کا الزام مجھ پر کیوں لگاتے کرتے ہیں!"۔
روایت میں مذکور ہے کہ جب امام علیہ السلام شہید ہوئے تو لوگ اکٹھے ہو کر بآواز بلند بیان کر رہے تھے کہ امام کو اس شخص (مأمون) نے ظلم کا نشانہ بنایا ہے؛ اس سلسلے میں لوگوں کا احتجاج اس قدر بڑھ گیا کہ مأمون نے مجبور ہو کر آپ (ع) کے عم بزرگوار محمد بن جعفر کو عوام کے پاس بھجوایا اور ان کو عوام سے یہ کہنے پر مجبور کیا کہ "امام (ع) بلؤوں سے اجتناب کی خاطر آج گھر سے باہر نہیں نکلیں گے۔
تاریخ ابن خلدون /ج 3 / ص 115
ابن خلدون نے مأمون کے ہاتھوں امام (ع) کی شہادت کا انکار کرنے کے باوجود مأمون کے خلاف امام (ع) کے بھائی "ابراہیم بن موسی" کے قیام کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ابراہیم بن موسی مأمون کو اپنے بھائی کے قتل کا مجرم سمجھتے تھے۔
مشاکلة الناس لزمانهم / ص 29
ظلم و ستم میں یہ عباسی خلفاء امویوں سے کسی لحاظ سے بھی کم نہ تھے گو کہ دیگر عباسی خلفاء بھی ایسے ہی تھے؛ اس شخص نے ہی ابراہیم بن موسی کو بھی زہر دلوا کر شہید کیا اور مصر میں مأمون کے خلاف اٹھنے والے امام (ع) کے دوسرے بھائی زید بن موسی کو بھی اس نے زہر کے ذریعے قتل کروایا تھا۔
البتہ یعقوبی نے لکھا ہے کہ مأمون نے ابراہیم اور زید کو معاف کر دیا۔
قیام سادات علوى / ص 169
اعیان الشیعة /ج 10 / ص 286 و 287
بحار / 8 / ص 308 –
حیاة الامام موسى بن جعفر / 2 / ص 413 –
فرق الشیعة / حاشیه ص 97 به نقل از بحر الانساب (چاپ بمبئى) و سایر منابع۔
اور یہ بات درست ہے کیوں کہ مأمون کے مکارانہ ظلم کا تقاضا یہی تھا کہ اس نے ان دونوں بھائیوں کو معاف کر دیا اور جب وہ گھر بیٹھ گئے تو انہیں زہر دلوا کر قتل کروا دیا۔
احمد بن موسی (شاہ چراغ) بھی امام (ع) کے دیگر بھائی تھے جنہوں نے تین ہزار، یا ایک دوسری روایت کے مطابق 12 ہزار افراد، کے ساتھ مل کر مأمون کے خلاف بغداد سے قیام کیا اور فارس کی طرف چلے گئے جہاں مأمون کے کار گزار فارس "قتلغ خان" کے ساتھ ان کی جنگ ہوئی جو کئی دنوں تک جاری رہی؛ یہ قیام احمد بن موسی اور ان کے دوسرے بھائی "محمد عابد" اور ان کے اعوان و انصار کی شہادت پر اختتام پذیر ہوا۔
قیام سادات علوى / ص 168۔
سید احمد بن موسی شاہ چراغ کا حرم آج بھی شہر شیراز میں عام و خاص کے لیے پناہ گاہ ہے۔
ان ہی ایام میں امام علیہ السلام کے ایک بھائی "ہارون بن موسی" 22 علوی سادات کے ہمراہ خراسان کی طرف جا رہے تھے۔ اس قافلے کی سربراہ امام علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا تھیں۔
جامع الانساب / ص 56
قیام سادات علوى / ص 161
حیاة الامام موسى بن جعفر /ص 2
مأمون نے اپنے والی کو حکم دیا کہ اس قافلے کا خاتمہ کر دیں۔ والی کے لشکر کے حملے میں ہارون بن موسی اور دیگر سادات زخمی ہوئے اور جب مرہم پٹی کے بعد کھانا کھانے کے لئے دسترخوان پر بیٹھے تو مأمون کے بندوں نے ان کا قتل عام کیا۔
قیام سادات علوى / ص 168۔
روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو ساوہ میں زہر دیا گیا جس کے نتیجے میں سیدہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
اعلام الورى طبرسى: جلد 2، صفحہ 66 تا 68، عيون اخبار الرّضا: جلد 2، صفحہ 263، حدیث 34،
رجال کشّى: صفحہ 504، حدیث 970،
بحار الانوار: جلد 49، صفحہ 239، حدیث 9 ۔
سیدہ معصومہ سلام اللہ کا حرم شہر مقدس قم میں لاکھوں مسلمانوں کی زیارتگاہ ہے۔
یا یوں کہئے کہ مأمون کی مبینہ شرافت کا یہ حال تھا کہ اس نے اہل بیت علیہم السلام کی خواتین تک کو قتل کروایا! جبکہ عرب عورت کا قتل اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔
ان کے علاوہ مأمون نے امام علیہ السلام کے ایک بھائی حمزہ بن موسی کو بھی قتل کروایا۔
امام رضا (ع) کی شہادت کے بارے میں خود آپ(ع) اور آپ(ع) کے آباء و اجداد(ع)، کی پیشین گوئی:
تاریخی تجزیئے سے ثابت ہو گیا کہ امام رضا(ع) کو مأمون نے زہر کے ذریعے شہید کیا تھا؛ اس کے علاوہ امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا تھا کہ آپ (ع) کو مسموم کر کے قتل کیا جائے گا۔ اور آپ (ع) کے اجداد طاہرین (ع) نے بھی آپ (ع) کی ولادت سے برسوں قبل اس امر کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔اس سلسلے میں ذیل کی روایات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
1۔ رسول اللہ (ص) سے پانچ حدیثیں منقول ہیں کہ جن میں حضور (ص) نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ امام رضا (ع) طوس میں زہر کے ذریعے شہید کئے جائیں گے۔
2۔ امام رضا (ع) نے متعدد بار فرمایا تھا کہ آپ طوس میں ہی شہید کئے جائیں گے اور ہارون کے پہلو میں دفنائیں جائیں گے۔
شاعر اہل بیت (ع) دعبل خزاعی (رحمةاللہ علیہ) نے قصیدہ پرھا اور جب اس بیت پر پہنچے کہ:اور قبر نفس زکیہ یعنی امام موسی کاظم (ع) بغداد میں ہے اور اللہ تعالی نے امام (ع) کو اعلی ترین کمروں اور اخروی مقامات و منازل میں جگہ دی ہے؛ تو امام رضا (ع) نے ارشاد فرمایا: کیا آپ حاضر ہیں کہ میں بھی آپ کے قصیدے میں دو بندوں کا اضافہ کروں:
دعبل نے عرض کیا: کیوں نہیں یابن رسول اللہ (ص)!
چنانچہ امام (ع) نے فرمایا:
اور ایک اور قبر طوس میں ہو گی جس نے کتنے مصائب برداشت کئے ہیں اور کتنی صعوبتیں جھیلی ہیں اور اس کے باطن کو زہر جفا کے ذریعے جلا دیا گیا ہے جو روز محشر تک سوزاں رہے گا۔
اور خداوند متعال اپنی حجت یعنی امام زمان (عج) کو بھیج دے گا اور وہ ہم اہل بیت (ع) کے ہر غم و حزن کو برطرف کر دیں گے۔
دعبل نے عرض کیا: یابن رسول اللہ (ص)! اس قبر میں کون مدفون ہو گا جو طوس میں واقع ہے؟
امام رضا (ع) نے فرمایا: یہ میری قبر ہے۔ اور بہت جلد طوس ہمارے شیعوں اور زائرین کے اجتماع کا مقام ہو گا۔
پس جو بھی طوس میں غربت (وطن سے دوری) کی حالت میں معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور قیامت کے روز میرے ساتھ محشور ہو گا۔
امام رضا (ع) اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔
هرثمہ بن اعین (خواجہ مراد) کہتے ہیں:
ایک رات چار گھنٹوں تک اور رات گئے تک میں مامون کے پاس تھا اور اور پھر گھر چلا گیا۔ آدھی رات کے بعد گھر کے دروازے پر دستک ہوئی اور پیغام لانے والے نے کہا: امام رضا علیہ السلام نے آپ کو بلایا ہے؛ چنانچہ میں اٹھا اور لباس پہن کر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا۔امام (ع) گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے، میں داخل ہوا تو فرمایا: بیٹھو اور خوب غور سے سنو اور میں جو کہتا ہوں یاد رکھو۔ اے هرثمہ! میری عمر آخری حصے میں ہے اور میری رحلت نزدیک ہے۔ یہ باغی و سرکش مامون مجھے انار یا انگور کے ذریعے مسموم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ ایک زہریلا دھاگا انگور سے گذارے گا اور انار کو ایک غلام کے ہاتھوں سے مسموم کرے گا اور وہ یوں کہ غلام کے ہاتھ زہر آلود ہوں گے اور وہ ان ہی ہاتھوں سے میرے لئے انار کا پانی نکال کر دے گا۔
مامون کل مجھے اپنے پاس بلائے گا اور میرے لئے انگور اور انار لائے گا اور مجھے کھانے پر مجبور کرے گا۔ میں کھا کر مسموم ہوں گا اور دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد وہ خود مجھے غسل دینا چاہے گا۔ تم جا کر چپکے سے اس کو کہہ دو کہ میں نے کہا ہے کہ مجھے غسل نہ دو اور میری تکفین و تدفین سے خود کو الگ کرے کیونکہ اس طرح وہ عذاب اس پر نازل ہو گا جو مؤخر ہو چکا ہے اور ایسی مصیبت میں پھنس جائے گا جس سے وہ بری طرح خوفزدہ ہے۔ تم جب مامون کو یہ بتاؤگے وہ میری تکفین و تدفین سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
اس کے بعد فرمایا: جب مجھے سپرد خاک کرنا چاہیں تو گھر کے پہلو میں ایک سفید خیمہ نصب ہو گا۔ مجھے میرے اسی لباس کے ساتھ لے جاؤ اور خیمے کے پیچھے قرار دو۔ خیمے کا پردہ مت اٹھاؤ ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ مامون تم سے کہے گا کہ "کیا یہ تمہارا عقیدہ نہیں ہے کہ ہر امام کو صرف آنے والا امام غسل دیتا ہے؟ پس علی ابن موسی الرضا کو اب غسل کون دے گا جبکہ ان کا بیٹا مدینہ میں ہے اور ہم طوس میں ہیں؟"۔
اے هرثمہ تم اس کو جواب دو کہ: ایسا ہی ہے لیکن اگر کوئی ظالم ظلم و جبر سے کسی امام کو غسل دے تو آنے والے امام کی امامت باطل نہیں ہوا کرتی اور آنے والے امام کی امامت پوری قوت سے برقرار ہے۔ اگر علی ابن موسی علیہ السلام اس وقت مدینہ میں ہوتے تو ان کے فرزند لوگوں کے سامنے ان کو غسل دیتے اور اب بھی ان کا بیٹا ہی ان کو غسل دے رہا ہے لیکن لوگوں کی نظروں سے دور۔
تھوڑی دیر بعد خیمہ آسمان کی جانب چلا جائے گا اور میرا جنازہ اسی مقام پر غسل و کفن کے بعد تیار ہو گا اس کے بعد مجھے میری قبر کی جانب لے جاؤ۔ مامون مجھے اپنے باپ ہارون کی قبر کے پیچھے سپرد خاک کرنا چاہے گا لیکن جتنا بھی اس زمین پر کدال ماریں گے زمین ایک ناخن کے برابر بھی کھودی نہ جا سکے گی اور جب لوگ تھک جائیں تو میری جانب سے مامون سے کہو کہ ایک کدال اپنے باپ کی قبر کے قبلہ کی جانب مارے۔ وہ جب ایسا کرے گا تو ایک تیار قبر ظاہر ہو جائے گی۔ اس حال میں مجھے قبر میں داخل نہ کرو اور صبر کرو، ایک سفید رنگ کا پانی قبر کو بھر دے گا، ایک بڑی مچھلی پانی میں ظاہر ہو گی اور اس کے بعد زمین پانی کو جذب کرے گی۔ اس کے بعد مجھے قبر میں داخل کرو۔ کہدو کہ مجھ پر مٹی نہ ڈالیں کیونکہ قبر خود بخود بھر جائے گی۔
اے هرثمہ! میں نے جو کچھ کہا اسے خوب یاد رکھو اور عمل کرو۔
محزون دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ سے رخصت ہوا اور آگ پر حرمل (اسفند) کی مانند مضطرب اور پریشان تھا۔ میرے حال سے خدا کے سوا کوئی بھی آگاہ نہ تھا۔
دوسرے روز مامون نے مجھے بلوایا اور کہا: ابو الحسن علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ اور کہدو کہ آپ ہمارے پاس تشریف لاتے ہیں یا یہ کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں۔
میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، فرمایا: میری باتیں یاد ہیں؟ میں نے عرض کیا: ہاں یابن رسول اللہ (ص) فرمایا: میرے جوتے لاؤ، میں جانتا ہوں کہ مامون نے تمہیں کس لئے میرے پاس بھجوایا ہے!۔
جب امام (ع) مامون کی مجلس میں داخل ہوئے، مامون اٹھا اور بڑے دوستانہ انداز سے اپنا ہاتھ آپ (ع) کی گردن میں ڈال دیا اور آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے پہلو میں بٹھادیا۔
تھوڑی دیر امام (ع) کے ساتھ بات چیت کی اور اس کے بعد اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ انگور اور انار لائیں۔ میں نے جب مامون کی یہ بات سنی تو مزید صبر نہ کر سکا اور میرے بدن پر بخار مسلط ہو گیا۔ اس لئے کہ کوئی میری حالت سے با خبر نہ ہو، اٹھ کر مجلس سے نکل گیا اور ایک گوشے میں گر گیا۔ ظہر کے قریب میں نے دیکھا کہ امام (ع) مامون کی مجلس سے نکل کر اپنے گھر تشریف لے گئے۔
اس کے بعد مامون کے حکم پر امام (ع) کے گھر میں طبیبوں کا آنا جانا شروع ہوا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ امام (ع) مریض ہو گئے ہيں۔ رات گئے آہ و فریاد کی صدا بلند ہوئی۔ سب امام (ع) کے گھر کی جانب دوڑے۔ میں نے مامون کو دیکھا جس کا سر برہنہ تھا اور گریبان کھلا ہوا تھا اور رو رہا تھا۔ میں لوگوں کے بيچ تھا کہ صبح ہوا اور مامون نے تغسیل و تکفین کے لئے ہدایات دینا شروع کر دیں۔ میں مامون کے پاس پہنچا اور اس کو امام (ع) کا پیغام پہنچایا۔
مامون نے کہا: ٹھیک ہے میں مداخلت نہیں کروں گا جیسے چاہو عمل کرو۔ سب کچھ اسی طرح پیش آیا جس طرح کہ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ میں اس سفید خیمے کے قریب کھڑا تھا اور وہاں سے تکبیر (اللہ اکبر)، تہلیل (لا الہ الا اللہ) اور تسبیح (سبحان اللہ) کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں اور ساتھ ساتھ برتنوں کے ٹکرنے کی آوازیں بھی واضح تھیں اور عطر کی ایسی خوشبو اطراف میں پھیلی ہوئی تھی جو اس سے پہلے میری ناک نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔
اس کے بعد مامون نے مجھے سے وہی سوال پوچھا جو امام (ع) نے مجھے بتایا تھا اور میں نے وہی جواب دیا جو امام (ع) نے مجھے تعلیم فرمایا تھا۔ سب کچھ ویسے ہی وقوع پذیر ہو رہا تھا جو امام (ع) نے فرمایا تھا۔ جب کدال زمین پر اثر نہ کر سکا تو میں نے امام (ع) کے ارشاد کے مطابق قبر کی جگہ دکھائی اور میں نے خود ہی اس جگہ پر کدال مارا اور ایک تیار قبر نمودار ہوئی اور مأمون مبہوت رہ گیا۔ قبر پانی سے بھر گئی اور اس میں ایک مچھلی ظاہر ہوئی اور پھر غائب ہو گئی اور پانی زمین میں جذب ہو گیا۔ میں نے امام علیہ السلام کا جسم اطہر قبر کے کنارے رکھا؛ اچانک ایک سفید کپڑے نے قبر کو ڈھانپ لیا اور میں نے یا کسی اور نے ہاتھ ہی نہيں لگایا تھا کہ جسم امام (ع) قبر میں اتر گیا۔ مامون نے کہا: مٹی ڈال دو۔ میں نے امام (ع) کے ارشاد کے مطابق مامون سے کہا: نہیں! قبر خود بخود بھر جائے گی۔ اور قبر بھر گئی اور مامون لوٹ کر گھر چلا گیا۔
مامون نے مجھے گھر بلایا اور کہا: اے هرثمه! تمہیں خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ جو کچھ علی ابن موسی علیہ السلام نے تمہیں بتایا ہے وہ مجھے بتاؤ۔
میں نے کہا: یہی کچھ تھا جو آپ نے دیکھا۔
مامون نے کہا: کیا انھوں نے اس کے سوا بھی تمہیں کچھ بتایا ہے؟ ميں نے کہا: ہاں! انگور اور انار کی داستان۔یہ سن کر مامون کا چہرہ پیلا، لال اور پھر کالا پڑ گیا اور بے ہوش ہو کر نقش زمین ہوا۔ اور اسی بے ہوشی کے عالم ميں کہہ رہا تھا: وائے ہو مجھ پر! میں رسول خدا اور علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین اور علی بن الحسین اور محمد بن علی اور جعفر بن محمد اور موسی بن جعفر اور علی بن موسی الرضآ (علیہم السلام) کے حضور کیسے جواب دوں گا؟ خدا کی قسم کھلا خسارہ (خسران مبین) یہی ہے۔
ميں نے اس کو اسی حال میں ترک کیا اور ایک گوشے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے آواز دی۔ میں قریب گیا تو دیکھا کہ نشے میں مست اشخاص کی طرح بیٹھا ہے۔
کہا: اے ہرثمہ خدا کی قسم! تم میرے نزدیک علی ابن موسی الرضا اور دنیا کے تمام انسانوں سے زيادہ عزیز نہیں ہو؛ اور میرے نزدیک تمہاری قیمت کسی سے بھی زیادہ نہيں ہے، اگر سن لوں کہ جو کچھ تم نے دیکھا اور سنا ہو تم نے کسی اور کو بھی سنایا ہے، تمہيں قتل کروں گا۔
میں نے کہا: اگر میں ایک لفظ بھی کہوں میرا خون آپ پر حلال ہو۔
مامون نے کہا: نہیں! تمہیں قسم اٹھانی پڑے گی۔
اور میں نے قسم اٹھائی۔ اس کے بعد مامون نے ہاتھ دوسرے پر مارا اور کف افسوس ملتے ہوئےکہا: وائے ہے مجھ پر، اور اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی: " يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لاَ يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَکَانَ اللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا۔ (سورہ نساء آیت 108)
وہ لوگوں سے (شرماتے ہوئے اپنی دغا بازی کو) چھپاتے ہیں اور اللہ سے نہیں شرماتے درحالیکہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کو (کسی) ایسی بات سے متعلق (چھپ کر) مشورہ کرتے ہیں جسے اللہ نا پسند فرماتا ہے، اور اللہ جو کچھ وہ کرتے ہیں (اسے) احاطہ کئے ہوئے ہے۔
بحار الانوار، ج 49، ص 293، ح 8.
نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 245- 250.
السلام علیک یا علی ابن موسی الرضا، السلام علیک یا ابن رسول اللہ، السلام علیک یا سلطان یا امام الرؤوف و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
التماس دعا
|