۱۴۰۰/۷/۳۰   1:54  ویزیٹ:999     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


15 ربیع الاول 1443(ھ۔ ق) مطابق با22/10/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

ممنوع اور حرام  چیزوں سے بچنا بہت ضروری ہے جسے مذہب کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو روحانی سفر میں منزل پر پہچانے، حقیقی دوست اللہ رب العزت سے تقرب اور قربت حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

تقویٰ کے بغیر کسی بھی مقام و منزل تک پہنچنا ممکن نہیں کیونکہ جب تک نفس حرام اور گناہوں کی غلاظت سے داغدار ہے اور خواہشات و لذتوں کے تابع ہے تب تک روحانی کمالات کے پہلے درجہ تک بھی نہیں پہنچا جا سکتا ہے۔

ہر وہ نفس اچھی اور بہترین پاک زندگی کا مقام حاصل کرسکتا جسے تخلیق کا مقصد سمجھ آ جاتا ہے۔ تقویٰ اختیار کرنا، حرام چیزوں سے پرہیز کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّهَ کَثِيرًا

البتہ تمہارے لیے رسول اللہ میں اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔

ہفتہ وحدت اور عید میلاد نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میلاد  حضرت امام صادق علیہ السلام کی مناسبت سے ہدیہ تبریک عرض کرتا ہوں

ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن اور پیغمبر خدا اور اھل بیت علیھم السلام کو اپنی زندگی کا محور قرار دیں کیوں کہ یہ وحدت کے لئے بہترین معیار ہے کیونکہ قرآن اور پیغمبر پر سب متحد ہیں اور اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہے کیونکہ جس نے ان دونوں سے انکار کیا تو وہ دین سے خارج ہوگیا ہے اور اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کی عظمت اور مقام کو محور قرار دینا اس میں بھی کسی کو شک اور تردید نہیں ہیں کیونکہ اہل بیت علیہم السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جگر کے ٹکڑے اور اپنا نفس اور یہ کہ یہ لوگ بہشت میں میرے ساتھ میرے درجے پر ہونگے یاد کیا ہے۔

لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر تھوڑا زیادہ روشنی ڈالو اس لیے اس ضمن میں کچھ روایات بیان کرنا چاہتا ہوں قیامت کے دن عمل کی ترازو پر سب سے بھاری چیز محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود کا ثواب ہوگا

اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت میں ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اہل بیت علیہم السلام پر سلام اور درود بھیجنے کا کہا گیا اور یہ کہ اس فضیلت میں کوئی بھی ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔

صحیح بخاری میں اس طرح نقل ہوا ہے

کہ راوی نے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجنا تحفہ الہی قرار دیا ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف آ رہے تھے تو ہم نے پوچھا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر کس طرح سلام کریں اور ہمیں سیکھا دیں کہ ہم آپ پر کس طرح صلوات پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح بولو اللھم صلی علی محمد وآل محمد اگرچہ روایات میں جو آیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم پر اس اصل طریقے سے صلوات پڑھیں  جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان کیا ہے۔

چاہے آپ مل کر درود و سلام  پڑھنا چاہیے یا پھر الگ صلوات پڑھنا چاہے لیکن کچھ روایات میں  سب  کو ملا کر صلوات پڑھنے پر ترجیح دی گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں فرمایا:

«کَفَى بِهِ شُحًّا أَنْ يَذْکُرَنِي قَوْمٌ فَلَا يُصَلُّونَ عَلَيَّ»

جو میرا نام سنے اور مجھ پر صلوات نہ پڑھے تو وہ بہشت نہیں جا سکتا ہے۔

أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ: «مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ فَقَدْ خَطِئَ طَرِيقَ الْجَنَّةِ

 

وہ لوگ جو میرا نام سنے اور مجھ پر اور میرے آل پر صلوات نہ پڑھے تو وہ جنت کی راستے کو نہیں پا سکتے۔

کتاب ابن ماجہ میں ایک روایت ابو مسعود انصاری سے نقل ہوا ہے :

عَنْ جَابِرٍ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ , عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ « مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيهَا عَلَيَّ وَلَا عَلَى أَهْلِ بَيْتِي لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. »

 

کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی نماز پڑھے لیکن محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ نہ بھیجے تو اسکا نماز قبول نہیں ہوتا ہے

حاکم نے اپنے کتاب مستدرک میں ابن مسعود سے ایک روایت نقل کیا ہے کہ

اللهم صل على محمد وعلى آل محمد و... قال: "إذا تشهد أحدکم في الصلاة فليقل: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد،

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جو میرے نام کی گواھی دی تو مجھ پر اور میرے آل پر صلوات پڑھے  لہذا اگر کسی نے نماز پڑھا اور محمد و آل محمد پر درود و سلام نہیں پڑھا تو اس کا نماز قبول نہیں ہے جو تشہد پڑھنا چاہتا ہے تو وہ تشہد  میں پڑھے

 اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد۔

آل محمد پر درود بھیجنا یہ بہت اہم اور عظیم عمل ہیں کہ جس کا شریعت اور اسلام میں بہت بڑا مقام ہے محمد و آل محمد پر درود بھیجنے کا ایک مقام یہ ہے کہ کوئی بھی دعا کا قبول ہونا آل محمد پر درود بھیجنے پر متوقف ہے کیونکہ روایات میں اس طرح آیا ہے کہ کوئی بھی دعا اس وقت تک قبول نہیں ہوتی کہ جب تک محمد و آل محمد پر درود نہ پڑھے۔ محمد و آل محمد پر صلوات پڑھنے کا  بہت اونچا مقام ہے عمر ابن ثابت کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے نقل کیا  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے ملنے کے لیے ہمارے گھر آ گئے جبکہ حسنین علیھم السلام سو رہے تھے اس درمیان حسن علیہ السلام نے پانی مانگا تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اٹھ کر پانی لے آئے تاکہ امام حسن علیہ السلام پی سکیں لیکن اس سے پہلے امام حسین علیہ السلام نے ہاتھ آگے کیا کہ پانی لے لیں  پیغمبر نے انکو منع کیا اور پانی حسن علیہ السلام کو دے دیا فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا اے پیغمبرخدا کیا آپ کو حسن حسین سے زیادہ پیارا ہے پیغمبر نے فرمایا ایسا نہیں ہے بلکہ حسن نے پہلے پانی مانگا تھا اور فرمایا کہ میں اور یہ حسن اور علی قیامت کے دن ایک مقام پر ہوں گے

سنن ترمذی اور مسند احمد میں اس طرح نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جو کوئی مجھ سے محبت رکھتا ہوں تو ان کو چاہیے کہ حسن اور حسین اور ان کے ماں باپ سے محبت رکھے یہ لوگ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے پر ہوں گے ترمذی میں ایک اور روایت میں کہتے ہیں کہ طبرانی اور بیہقی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر نے خود اپنے اہل بیت کو سب سے بہترین خاندان متعارف کروایاا ہے اور اپنے خاندان کو ہر قسم کے گناہ اور رجس سے پاک بیان کیا ہے تاکہ امت کو پتہ چلے کہ کیوں یہ لوگ میرے ساتھ میرے درجے پر ہوں گے اور اسی طرح اہل بیت کی پیروی کرنے کو اپنی پیروی قرار دیا ہے اور اس میں کوتاہی نہ کرنے کا کہا ہے احمد بن حنبل نے ابوہریرہ اور ابن ماجہ ۔۔۔ وغیرہ یہ روایت زید ابن ارقم سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور فاطمہ حسن اور حسین سے اس طرح فرمایا میں دوست اور ہمراہ ہو اس کا جو آپ لوگوں کا ہمراہ ہو اور دوست ہو اور آپ لوگوں کو تسلیم کریں اور میں جنگ کرتا ہوں اور دشمن رکھتا ہوان لوگوں سے جو آپ لوگوں سے لڑیں اور تسلیم ہونا  اور دوست رکھنا تب حقیقت میں آ جاتا ہے کہ انسان سب کاموں میں انکی پیروی کرے اور مطیع رہے اہل بیت علیہم السلام کا۔

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام مہدی  عجل الله فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما

اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔ دعا کرتے ہیں کہ ہم سبھی کو مکتبہ قرآن اور چھاردہ معصومین علیہم السلام میں سے قرار دے۔

 

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

 

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ