۱۴۰۱/۴/۲۴   2:26  ویزیٹ:673     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


15 ذی الحجہ 1443(ھ۔ ق) مطابق با15/0712022 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

 

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، امر الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔ مالک الموت نے کہا ہے کہ اے بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقویٰ اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوٰی ہی ہے۔

دوران حیات اپنے قلوب میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر لحظات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔

 

ہم پر حق ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جو الله کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔

 

لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں۔

اس ہفتہ ولایت اور امامت امام علی علیہ السلام کا اعلان ہوا ہے اور عید سعید غدیر ہے اس مناسبت مبارکباد پیش کرتا ہو ۔

رحمت العالمین محمد مصطفیٰ نے اپنے زمانہ رسالت میں اول و آخر تک کئی بار مقام و مرتبہ اہل بیت اطہار کو بیان کیا اور خلافت علی پر تاکید کی اور اس موضوع کو مختلف طریقوں سے لوگوں کے لئے بیان کیا۔ آج چاہتا ہوں کہ ان میں سے کچھ مقامات و مرتبہ جات آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کروں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ملا کہ اپنی ابتدائی تبلیغات کی شروعات کے ساتھ ساتھ امامت اور خلافت علی علیہ السلام کا بھی اعلان کریں۔ یہ آیت اس انداز سے نازل ہوئی:

وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَکَ الْأَقْرَبِينَ وَ اخْفِضْ جَناحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنِّي بَرِي‌ءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ وَ تَوَکَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ

 

ور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں  اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہدیجئے کہ میں تمہارے کردار سے بیزار ہوں اور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں

﴿سورة الشعراء ، آیات 214، 215، 216، 217﴾

خداوند متعال نے درج بالا آیة کریمہ میں رسالت مآب کو حکم دیا کہ اپنے لوگوں اور رشتہ داروں کو اپنے آئین اور راہ ﴿اسلام﴾ کی طرف بلائیں تو پیغمبر نے علی المرتضی جن کا سن ابھی تیرہ یا پندرہ سال سے زیادہ نہیں تھا کو مامور کیا کہ کھانا تیار کریں اور بنی ھاشم کے بزرگان جن کی تعداد چالیس سے پچاس تھی کو دعوت طعام دی اور ارادہ کیا کہ دوران تناول اپنے مہمانوں کو آئین خداوندی اور اسلام کی طرف بھی بلائیں گے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محمد مصطفیٰ کے چچاوٴں میں سے ایک جس کا نام ابو لہب تھا، اس کی بے فضول اور بے معنی باتوں کی وجہ سے موضوع رسالت نہیں شروع کر سکے۔ لہٰذا پیغمبر اکرم نے ارادہ کیا کہ اس موضوع کو اگلے دن کے لیے چھوڑ دیں۔

پیغمبر نے اگلے دن اسی طرح دعوت طعام رکھی اور بعد تناول بنی ھاشم کے بزرگوں سے مخاطب ہو کر سب سے پہلے خدا کی تعریف کی اور اللہ کی آیت اس انذار سے تلاوت فرمائی کہ اے بنی عبد المطلب میں اللہ تعٰالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں کہ تم لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراوٴں اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دوں لہٰذا آپ اسلام قبول کریں اور میری اطاعت کریں تاکہ کامیاب ہو جائیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ جو کچھ میں آپ لوگوں کے لیے لے کر آیا ہوں تم میں سے کسی نے بھی اپنے لئے اس سے بہتر حاصل نہیں کیس۔ میں تمہارے لیے دنیا و آخرت کی خیریت لے آیا ہوں۔ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اللہ کی طرف بلاؤں، تو اس راہ اور مقصد میں تم میں سے کون میری مدد کرے گا اور ہاں جو بھی میری مدد کے لیے اٹھے گا تو وہی میرا وصی و جانشین ہو گا۔

جب پیغمبر اکرم نے یہ جملہ دہرایا تو سبھی خاموش ہو گئے کہ اتنے میں علی ابن ابی طالب کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا اور کھڑا ہو با آواز بلند پکارا کہ اے پیغمبر خدا میں آپ کا مددگار ہوں، اس پر پیغمبر نے آپ کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور دوبارہ اپنے اُسی پیغام کو دہرایا۔ اس بار بھی علی ابن ابی طالب کے علاوہ کسی نے جواب نہیں دیا۔ اسی طرح پیغمبر نے تیسری مرتبہ پکارا اور اس بار بھی علی کے علاوہ کسی دوسرے نے جواب نہیں دیا۔ تب پیغمبر خدا احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا اے لوگوں یاد رکھو یہ جوان ﴿علی ابن ابی طالب﴾ آپ کے درمیان میرا بھائی میرا وصی اور جان نشین ہوگا، اس کی باتوں کو سنتے رہنا اور اس کی پیروی کرتے رہنا اور دعوت کا اختتام کیا۔

 

جونہی دعوت کا اختتام ہوا تو تمام لوگوں نے طنزیہ مسکراتے ہوئے جناب ابو طالب علیہ السلام سے کہا کہ محمد نے حکم دیا ہے کہ ہم تمہارے بیٹے کی پیروی کریں اور اس کا حکم مانیں، اور تو اور اس ﴿علی﴾ کو تمہارے اوپر فوقیت دے دی۔

یہ بات معتبر تاریخ دان و راویان طبری، ابن اثیر، ابن جوزی، نسائی اور اسی طرح اور بڑے مؤرخین نے بھی بیان کی ہے۔

حضرت ابن عباس سے نقل ہوا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

أنا المنذر وعلي الهادي، وبک يا علي يهتدي المهتدون من بعدي

میں ڈرانے والا ہوں اور علی ہدایت کرنے والا ہے، اور اے علی ہدایت ہونے والے میرے بعد آپ کے ذریعہ ہدایت حاصل کریں گے۔

اسی طرح ابن انس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

أنا وهذا حجة على أمتي يوم القيامة يعني عليا

میں اور علی قیامت کے دن اس امت پر حجت ہوں گے

مقام و منزلتِ اہل بیت اطہار علیہم السلام یعنی حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا اور امام حسن و امام حسین علیہ السلام کے بارے میں قرآن نے بہت تاکید کی ہے۔

یہاں تک کہ فرمایا: إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيرً ا

اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی و نجاست کو بالکل دور رکھے اور طاہر و پاک صاف رکھے (سورة الاحزاب، آیة 33)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے زمانے میں کئی بار مقام اہل بیت علیہم السلام اور خاص کر امام علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں مختلف انداز و طریقوں سے لوگوں کو آگاہ کیا۔

آپ کی زندگی کی آخری ایام میں سب سے بڑا واقعہ غدیر خُم کے مقام پر اللہ تعالی کی حکم سے رونما ہوا کیونکہ وحی اس وقت نازل ہوئی جبکہ پیغمبر اکرم ایک بڑے دینی اجتماع کے ساتھ ہمکنار تھے۔

ہجرت کا دسواں سال تھا اور رسول اللہ اپنے اصحاب کے ساتھ حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے اسی وقت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں اعلان کیا گیا،

وحی نازل ہوئی فرمایا:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِينَ

اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا (سورة المائدہ، آیة 67)

 

اس کے بعد آپ کھڑے ہوے اور تقریبا زوال کے وقت ایک طولانی خطبہ دے کر امام علی کی ولایت کا اعلان کیا اور اس پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچایا کہ مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ جس کا میں مولا ہوں، میرے بعد علی اس کا مولا ہے

 

جابر بن عبداللہ انصاری اور عبداللہ بن عباس کہ یہ دو پیغمبر اکرم کے بزرگ ترین اصحاب میں سے تھے نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا کہ علی کو خلافت اور امامت کے لئے منصوب کریں اور ولایت علی کو لوگوں تک پہنچائیں،

 

کیونکہ آپ کو وحی ہوئی تھی کہ (یا اَیُّها الرَّسول بَلِّغ ما اُنزِلَ اِلیکَ مِن رَبِّکَ… اے میرے رسول جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دیں، اسی کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور اعلان ولایت کیا۔

 

میں اس کو دوسرے حوالے سے نقل کرتا ہوں کہ نسائی نے اپنی کتاب صحیح میں زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ حجة الوداع سے واپس آرہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر رک گئے اور حکم دیا کہ سب لوگ جمع ہو جائیں ،

جب سب جمع ہوئے تو فرمایا کہ میرا آپ لوگوں سے رخصت ہونے کا وقت آن پہنچا ہے اور میں نے دعوت حق کو قبول کیا ہے۔ میں تم لوگوں کے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں کہ جن میں سے ہر ایک دوسرے سے زیادہ قیمتی ہے،

ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور دوسری میرے اہل بیت ہیں۔

متوجہ رہیں کہ آپ تمام انسانیت نے ان دونوں کے ساتھ کیسا برتاؤ اور کیسے متمسک رہنا ہے۔ یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آ ملیں۔

پھر فرمایا کہ اللہ تعالی میرا سرور و آقا ہے اور میں سب مومنین کا سرور و آقا ہوں، فوراً اسی وقت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا کہ جس جس کا میں سرور و آقا و مولا ہوں یہ علی بھی ان کا سرور و آقا و مولا ہے،

خدایا جو علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔ یہ الفاظ دہرائے کہ:

 

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ أَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ، وَ أَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ

کچھ مقامات پر خود امام علی نے بھی غدیر خم کا حوالہ دیا ہے۔

صحیح نسائی میں عمیر ابن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ علی مقام رحبہ میں کچھ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے اور تمام کو قسم دے کر کہا کہ کہ کن کن لوگوں نے پیغمبر کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ تو وہ گواہی دے تو دسیوں نے ہاتھ بلند کرکے گواہی دی کہ ہم نے سنا ہے۔ صحیح نسائي میں عمیر ذی مرہ سے نقل ہوا کہ میں اس بات شاھد تھا کہ علی علیہ السلام نے اصحاب پیغمبر کو قسم دی کہ تم میں سے جس جس نے غدیر خم کے مقام پر رسول اللہ کا فرمان سنا ہے تو وہ گواہی دے؟ تو ان میں کچھ اصحاب نے اٹھ کر کہا کہ ہم گواہی دیتے ہے کہ ہم نے سنا ہے

 

رسول اللہ نے غدیر خم کے مقام پر فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ… ابن منظور نقل کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ نے کہا کہ جو بھی 18 ذو الحجه کو روزہ رکھے تو اس کے لیے پورے 60 مہینے برابر روزے رکھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

 

یہ وہی غدیر خم کا دن ہے کہ جب پیغمبر اکرم نے علی کا ہاتھ پکڑا اور بلند کر کے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آیا میں مومنین کا سرور و آقا نہیں ہوں تو سب نے یک زبان ہو کر بولا ہاں یا رسول اللہ ایسا ہی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ

 

اس کے بعد اللہ تعالی نے اس آیت کو نازل کیا: الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (سورة المائدة، آیة 3)

 

احمد ابن حنبل نے اپنے کتاب مسند میں پیغمبر اکرم سے ایک صحیح روایت نقل کی تاکہ رسول اللہ کے بعد ہونے والے دو اہم خلفاء جان سکیں اور اس کی پیروی کریں، فرمایا:

 

إِنِّي تَارِکٌ فِيکُمْ خَلِيفَتَيْنِ، کِتَابُ اللَّهِ وَأَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ‏ جَمِيعًا

 

مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم میں نقل کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنے اہل بیت یعنی حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن و حسین اور علی کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اور ان پر اس آیت کی تلاوت کی: إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيرًا

اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے۔

کہ تم سے ناپاکی و نجاست کو بالکل دور رکھے اور طاہر و پاک صاف رکھے (سورة الاحزاب، آیة 33) پیغمبر اکرم نے امام علی کو مثل ہارون اپنا خلیفہ مقرر کر کے اعلان کیا اور نبوت کے علاوہ خلافت کے سب آثار کو امام علی کے لئے ثابت کیا کیونکہ قرآن نے ہارون کو موسٰی کا خلیفہ مانا ہے۔

 

اس بارے میں بھی بہت ساری روایات صحاح ستہ میں آچکی ہیں لیکن وقت کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے دہرانے و بیان سے صرف نظر کرتا ہوں۔ صحاح ستہ یعنی صحیح البخاری، صحیح مسلم ترمذی، سنن النسائی اور مسند احمد بن حنبل۔

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،

برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،  امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ  وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ  وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ