۱۴۰۱/۴/۱۷   2:30  ویزیٹ:641     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


08 ذی الحجہ 1443(ھ۔ ق) مطابق با08/07/2022 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

 

ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

تمام عالم اسلام کو یوم عرفہ اور عید سعید قربان کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ یہ ایام شعائر الہی میں سے ہیں۔ بہترین فرصت ہے کہ ہم عرفات اور قربانی کی فلسفے کو سمجھ سکیں۔ قربانی بھی انہی اعمال میں سے ایک عمل ہے جو حج میں کچھ اعمال کو بجا لانے کے بعد انجام دیا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ سی باہر جانا پڑتا ہے۔ اسی طرح حج کے عظیم اعمال میں سے ایک میدان عرفات میں مشعر اور منٰی ہیں۔ یہ تینوں عبادات کسی بھی حقیقت کو انجام دینے کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ چونکہ اگر کوئی چاہتا ہو

کہ اس کا راستہ صحیح ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ہر حرکت، شناخت اور شعور پر گہری نظر اور اس کے بعد درخواست بھی صحیح ہو۔

 

عرفہ کا معنی معرفت اور مشعر کا شعور ہے اور گہرائی سے سمجھنے اور منٰی کا مطلب کسی ایسی شئ کی آرزو کرنا جو معرفت اور شناخت کی بنیاد پر گہرائی سے سمجھا کر کیا گیا ہو۔

 

یہ منٰی ہی تھا جب اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیه السلام سے فرمایا: (تمنّی ماشئت ابراهیم) اے ابراہیم کیا چاہتے ہو اپنا چاہت ظاہر کرو لیکن کمال کو پہنچنے کے لیے سخت مرحلہ یہ ہے کہ قربانی کرو وہ بھی اس شئے کی قربانی جو تمہیں سب سے زیادہ عزیز اور پیاری ہو۔

 قربانی سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ انسان اس بلند مقام اور درجے پر پہنچ جائے کہ کسی بھی شئے سے علقہ یعنی تعلق اور محبت کو ترک کر دے اور اس کی قربانی کے لیئے راضی ہو جائے۔

 

ہم اپنے عزیزوں کو قربان کریں تاکہ اس مرحلے پر پہنچ جائیں جس کے بدلے میں اللہ کی طرف سے  فدیہ پا لیں جیسا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قربانی

 

 

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَما وَ تَلَّهُ لِلْجَبِينِ‌ و نادینه أَنْ يا إِبْراهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيا إِنَّا کَذلِکَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ‌

 

 

پس جب وہ لڑکا آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو آپ(ع) نے فرمایا (اے بیٹا) میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تم غور کرکے بتاؤ کہ تمہاری رائے کیا ہے؟ عرض کیا بابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ بجا لائیے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

اس سے پہلے ہمیں چاہیے کہ شیطان کے وسوسوں کو دور کریں مطلب کہ اس درجہ پر پہنچ جائیں کہ  شیطان ہمیں اپنے کام سے اور اللہ کے راستے میں کسی بھی قربانی کو انجام دینے سے نہ روک سکے۔ اور یہ ہمیں رمی جمارات سکھاتا ہے کہ ہر ایک  جمرہ اور ستون والے مقامات پر شیطان کوشش کرتا تھا

کہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے وظیفہ پر عمل کرنے سے روک سکے لیکن ابراہیم علیہ السلام شیطان کو پتھر مارتے تھے اور بھرپور کوشش کرتے تھے کہ وہ آپ کو صحیح راستے پر جانے سے نہ روک سکے اور وہ صحیح عمل اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا تھا اور یہی امتحان عظیم اس بات کا باعث بنا

 کہ ابراہیم علیہ السلام مقام امامت پر فائز ہوئے اور یہاں یہ اعلان بھی کیا گیا کے ہمیشہ کے لئے مقام امامت نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں آ سکتا۔

 

 

اللہ تعالی نے فرمایا

وَ إِذِ ابْتَلی إِبراهیمَ رَبُّه بِکلماتٍ فَأتَمَّهُنَّ قالَ إِنّی جاعِلُک لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرّیتی قالَ لاینالُ عَهدی الظّالِمینَ

 

اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔

جو آدمی ظلم کا مرتکب ہو چکا ہو وہ امامت پر نہیں پہنچ سکتا چاہے اس نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیوں نہ کیا ہو یا کسی دوسرے پر۔ کیونکہ قرآن کریم میں لفظ (لا ینال) کا استعمال اس بات کی طرف  اشارہ کرتا ہے اور اسی طرح شرک کو بہت بڑے ظلم کے نام پر متعارف کرواتا ہے۔

فرماتا ہے  إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

کہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے لہذا وہ لوگ جو اسلام لانے سے پہلے مشرق وسطی اور پھر اسلام قبول کئے ہوں تو وہ قرآن کے حکم کے مطابق  کبھی بھی اور حتی ایک لحظے کے لیئے بھی امام نہیں ہو سکتا ہے۔

امام علی علیہ السلام جو ایک لحظہ کے لئے بھی مشرک نہیں رہے مطلب یہ کہ بالغ ہونے سے پہلے مسلمان تھے تو اس بنیاد پر وہ سب سے زیادہ حق رکھتا ہیان کہ امام بنیں اور اسی بنا پر ان کو کرم اللہ وجه اللہ سے یاد کیے جاتا ہے اور دوسرے صحابہ کو رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،

برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،  امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ  وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ  وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ