۱۴۰۱/۶/۱۱   2:16  ویزیٹ:689     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


05 صفر 1444(ھ۔ ق) مطابق با2/09/2022 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

 

تقویٰ   اپنے آپ اور معاشرتی معاملات میں  ہوتی ہے کیونکہ اسلام ایک سماجی اجتماعی اور معاشرتی مذہب ہے۔

اسلام میں رہبانیت کا مطلب یہ کہ معاشرے میں موجود رہے اور تقویٰ کو حفظ کریں اور دین کی حدود کو برقرار رکھے۔

آئیے سب سے بہترین چیز کو اللہ کی راہ  میں دے اور خرچ کریں ۔

سورہ بقرہ آیت نمبر 267

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿267

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔

 

 

قومیت اور مذہب کو دیکھے بغیر دوسروں پر توجہ دینا!

کیونکہ امام علی نے فرمایا کہ وہ یا تو ایک ہی دین کے ہیں یا ایک ہی قسم کے ہیں! اور ہمارے جیسے انسان ہے۔

 

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

اگر لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے تو اسلامی معاشرے میں کبھی بھی کوئی محتاج مسلمان نہیں ہوتا اور اسکے مقابلے میں  اللہ تعالیٰ نے امیروں کے مال میں جو برکات اور نفع رکھے ہے وہ اتنے ہے کہ جسکی وجہ انکی سب احتیاجات دور ہو جاتے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ دینے سے گریز نہ کریں کیونکہ اس میں آپ کے لیئے 10 فائدے ہیں کہ جس میں سے 5 اس دنیا میں ملنے والے ہیں اور 5 آخرت میں ۔

 

دنیا میں جو فائدے ملنے والے ہیں وہ ہے: 1. آپ کے مال اور جسم کو پاک اور پاکیزہ بناتی ہے، 2. یہ  کہ آپ کے بیماریوں یا مریضوں  کی شفاء اور تندرستی کے لیے بہترین علاج  ہے، 3. دلوں کو خوشی بخشتی ہے، 4. مال میں اضافے کا سبب بنتی ہے، 5۔ اس سے رزق کی فراوانی ہوتی ہے۔

آخرت میں جو فائدے ملنے والے ہیں وہ ہے: 1. یہ قیامت کے دن انسان کےسر پر سایا بنا دیتی ہے 2. یہ کہ حساب کو آسان بناتا ہے 3. اس سے اعمال صالحہ اور اجر کا میزان بھاری ہو جاتا ہے 4. صراط کے پل سے گزرنے کا وسیلہ بنتی ہے 5. اور انسان کو  جنت کی بلند ترین مقام پر پہنچا دیتی ہے۔

ہمیں غور کرنا چاہئے کہ:

عطیہ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ  احتیاج کو ختم کریں ، نہ کہ کہے بھی خرچ کریں ! اس لیے اہل بیت کی توجہ اس بات پر تھی کہ کو لوگوں کو بی نیاز بنائیں، نہ کہ فقط عارضی ضرورت کو ختم کریں!

جو ہم سے کچھ مانگتے ہمیں انکو کچھ نا کچھ دینا چاہئے ، چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ واقعی غریب اور نادار اور محتاج کون ہے

ذاتی طور پر ہم خود مدد کریں اور یہی اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔

 

جیسا کہ امام علی  علیہ السلام  خود ایک تھیلی اٹھا کر غریبوں کو پہنچایا کرتا تھا!

وہی امام جس نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی دی تھی ۔

 

غریبوں کی عزت کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ غریبوں کے پاس پیسے کی کمی ضرور ہے لیکن کردار اور عزت کی نہیں!

 

اگر یتیم کی ضروریات پوری نہ کی جائیں تو معاشرے کو بہت سی اخلاقی اور معاشرتی خرابیاں لاحق ہو جاتی ہیں اور محبت کی کمی یتیم کو سخت دل اور بھگڑہ ہوا انسان بنا سکتا ہے۔

 

امام حسین (ع) نے غریبوں کے لیے اتنے تھیلے اٹھائے کہ جب امام سجاد (ع) نے آپ کے  مبارک جسم کو دفن کرنا چاہا تو بنی اسد کے لوگوں نے دیکھا کہ امام کے کندھے پر پرانے زخموں کے نشانات ہیں نہ کہ عاشورا کے دن کے تازہ زخم۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ پرانے زخم کس چیز کی ہے

تو جواب ملا کہ  یہ غریبوں کے ساتھ مدد کے لیئے  اٹھائے گئے تھیلوں کی نشانات ہے۔

السلام علیک ابا عبداللہ الحسین

 

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،

برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،  امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ  وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ  وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ