۱۴۰۱/۸/۲۷   2:6  ویزیٹ:337     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


23 ربیع الثانی 1444(ھ۔ ق) مطابق با11/18/2022 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

 

ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

تقوی اور پرہیز گاری کی فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی انسان کو درجہ فرقان دے دیتا  ہے

 

گزشتہ خطبات میں ذکر کیا گیا تھا کہ اگر انسان چاہے کہ اپنے نفس اور کردار و رفتار پر  کنٹرول حاصل کر سکے تو اپنی زندگی میں غور و فکر کرے۔ اور جو کام کر رہے ہیں اس میں غور کریں کہ اسکے دنیا و آخرت میں کیا اچھے اثرات یا برے اثرات ہو سکتے ہیں؟
جیسا کہ کہا گیا ہے
.

 تَفَکُّرُ ساعَةٍ خَیرٌ مِنْ عِبادَةِ سَبْعَیْنَ سَنَةً

یعنی ایک گھنٹہ غور و فکر کرنا ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

 

یہ زمانہ غیبت ہے اور اس میں شک و شبھات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ زمانہ ہے کہ جس میں  صحیح کو  غلط سے اور آچھے کو برے سے اور حق کو باطل سے پہچان ملتی ہے۔
کسی کام کے انجام کے بارے میں غور و فکر کرنے کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو بصیرت حاصل ہو جاتی ہے
.

 اور آگے آنے والے مسائل کے بارے میں اور زیادہ آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ انسان کا تدبر اور بصیرت جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ بہتر فیصلہ یا انتخاب کر سکتا ہے اور اس کا طرز عمل، گفتار  عقلمندانہ اور حکمت کے مطابق ہو گا ورنہ انسان گمراہی اور انحراف میں پڑ جائے گا۔

دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کسی شے یا شخص پر جلد یقین نہ کرے۔ ایک سمجھدار شخص  کسی بھی افواہ اور بات کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ فوراً سے یقین کر لینا اور دعووں کو قبول کرنے میں جلدی کرنا انسانیت کو در پیش خطرات میں سے ایک بڑا خطرہ ہے کیونکہ ایسا کرنا انسان کے غلط رویے کا باعث بنتا ہے۔انسان کو ہر شخص یا شے پر بھروسہ اور یقین نہیں کرنا چاہئے جو آپ سنتے ہیں یا دکھائے جاتے ہیں، خاص طور پر آج کی دنیا میں جہاں جھوٹی خبریں آسانی سے پھیل جاتی ہیں۔

 

اللہ تعالی نے قرآن  کریم  سورہ حجرات آیت 6 میں فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

 

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔

 

یعنی جنہوں نے ایمان لایا ہے اگر تم لوگوں کے پاس کوئی فاسق نیا خبر لے آئے تو اس کو اتنی جلدی قبول نہیں کریں گے بلکہ پہلے اس کے بارے میں تحقیق کریں گے کیونکہ کبھی ایسا نہ ہو  کہ تم لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچائے اور بعد میں تم  لوگ اس پر پشیمان ہوں۔

انسان جو بھی غلطی کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں اس کے برے اثرات کا شکار رہتا ہے۔

 

تیسرا اہم نتیجہ یہ کہ انسان حق و باطل کے معیار کو پہچانے۔
امام راحل خمینی رضوان اللہ علیه فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کسی موضوع کے بارے میں تعریف کرے تو آپ اس کی تعریف کو شک کی نگاہ سے دیکھیں کہ کہیں اس میں اس کی کوئی چال نہ ہو۔

سورة البقرة آیت 120 میں ارشاد ہوا

وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ

 

اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں

یعنی یہ (یہود) تبھی راضی ہوں گے یا ہوتے ہیں جب آپ ان کی مطابعت کریں گے۔

دشمن کو پہچاننے کے معیارات میں ایک یہ کہ انسان یہ پہچانے کہ دشمن کی خواہشات اور تمایلات کیا ہیں اور وہ کیا چاہتا ہے۔

 

عارفین اپنی عملی زندگی میں نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ غور و فکر کرنے کے نتائج میں سے ایک ہے کہ انسان  حب اور بغض کی تحقیق کرے۔ اگر آپ کا کسی سے محبت یا بغض رکھنا غور و فکر کے نتیجے کی صورت میں ہو تو یہ عقل کے مطابق ہوگا اور اس صورت میں انسان افواہوں کے دھوکے میں نہیں آتا اور اپنے آپ کو کنٹرول کر لیتا ہے  اور وہ کسی بھی غلط رویے اور کردار  کا مرتکب نہیں ہوتا۔

 

لیکن اگر محبت اور نفرت بغیر سوچے سمجھے اور جذبات پر مبنی ہو تو یہ بہت خطرناک ہے اور انسان اعداد و شمار اور معلومات سے دھوکہ کھا جاتا ہے اور نتیجتاً وہ غیر منصفانہ فیصلوں سے اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے اور دنیا و آخرت میں نقصان اٹھاتا ہے۔

حب الشیء یعمی و یصم

کسی شے کی محبت انسان کو گونگا اور بہرہ بنا دیتی ہے۔

 

اگلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان حق بات کو قبول کرے اور کوشش کرے کہ اپنے نفس کو حق قبول کرنے کی مشقیں کروائے تاکہ آپ حق قبول کرنے کا عادی بنے۔ اس طرح کی مشقیں انسان کو یہ قدرت و قوت دیتی ہیں کہ انسان  اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرے۔

 یہ بات خاص کر خاندانوں کیلئے اور میاں بیوی کے رابطے کو اچھی طرح برقرار رکھنے کے لئے بہترین مشق ہے۔ اگر ہمارے اندر حق کو قبول کرنے کا رویہ تقویت پا جائے تو زندگی کی بہت ساری مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔

اگلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان یقین حاصل کرے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو  نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے میرے بیٹے یقین کے بغیر عمل کرنا ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی انسان اپنے یقین سے بڑھ کر عمل نہیں کرتا اور جو لوگ اہل عمل ہوتے ہیں وہ کبھی سستی نہیں کرتے۔ وہی لوگ سستی کرتے ہیں جن کا یقین کم زور ہو۔

یقین حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان پند اور نصیحت سے عبرت لیں۔ حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ نصیحت کو قبول کرو اگرچہ یہ تمہارے لئے مشکل، سخت اور دشوار ہی کیوں نہ ہو۔

وائے ہو اس شخص پر جو کسی اچھی بات کو سنے لیکن اس کا سننا اس کو فائدہ نہ پہنچائے البتہ وہ خوش قسمت ہیں جو اپنے علم اور دانش سے  فائدہ اٹھائے، ہر قسم کی بات تو سنے لیکن اس میں سے فقط اچھی بات کی پیروی کرے۔

 

سورة الزمر آیت 18 میں فرماتے ہیں:

فَبَشِّرۡ عِبَادِ الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ

پس آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے، جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،

برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،  امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ  وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ  وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ