بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین
اَمَا بَعدْ ۔۔۔عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، اور امر الہی کو انجام دینے اور جس چیز سے اللہ منع کریں اس کو انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہو (مالک الموت نے کہا ہے) کہ ای بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقوی اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوی ہی ہے۔
دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔
ہم پر حق ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جو الله کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔
25رجب کویوم شہادت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہے اسی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کہ جس کو باب الحوائج بھی کہا جاتا ہے، 128 ھ ق میں پیدا ہوئے اور 20 سال کی عمر میں اپنے والد گرامی حضرت امام صادق کی شہادت کے بعد 148 ھ ق میں امام بنے اور 35 سال تک امامت کی۔ ان سے 3000 سے زیادہ احادیث نقل کی گئی ہیں اور وہ 183 ھ ق میں جیل میں شہید ہوئے ۔
وہ پیروکاران اہل بیت علیہم السلام کا ساتواں امام ہیں، وہ اہل بیت کہ جن کی شان میں خدا وند متعال فرماتا ہے: "انما یرید اللہ..."
کاظم غیض (غصہ پینے والا) ان کے القاب میں سے ایک ہے۔
کہتے ہے کہ ایک شخص کہ جو امام کاظم (ع) کو اذیت دیتے تھے اور ان کی توہین کرتے تھے؛ امام کاظم علیہ السلام کے بعض اصحاب نے اسے تنبیہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن امام نے سختی سے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا، ایک دن امام کاظم علیہ السلام اپنے سواری پر سوار ہوئے اور اس آدمی کے کھیت میں چلےگئے اور اسے کھیت میں پایا، امام نے پوچھا: تم نے اس کھیت پر کتنا خرچ کیا؟ کہا: سو دینار۔ امام نے کہا: تمہیں کتنا منافع مل سکتا ہے؟ اس نے کہا: میں غیب نہیں جانتا۔ امام نے پوچھا: میں نے کہا تم کتنی امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا: مجھے امید ہے کہ مجھے 200 دینار کا نفع ہوگا۔ حضرت نے 300 دینار نکال کر انکو دیے اور اس پر رحم کیا اور فرمایا کہ زراعت بھی تمہاری ہے، اللہ تمہیں وہی دے گا جس کی تم امید رکھتے ہو۔
وہ شخص اٹھا اور امام کے سر کو چوما اور اس سے اپنے گناہوں اور توہین کرنے کی معافی مانگی۔ امام مسکرائے اور واپس آگئے۔ اگلے دن وہ شخص مسجد میں بیٹھا ہوا تھا جب امام کاظم علیہ السلام داخل ہوئے۔ اس شخص نے امام کی طرف دیکھا اور کہا: " الله اعلم حیث یجعل رسالته" اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو اپنا رسول بنا دے۔ اس شخص کے دوستوں نے حیرت سے پوچھا، کیا قصہ ہے، کہ تم تو پہلے اس کو برا بھلا کہتے تھے اب کیا ہوا ؟ تو اس شخص نے حقیت اور اپنا نادانی بتا دیا،اور اس طرح وہ راہ مستقیم پر ہدایت ہو اور امام نے بھی اس کے لئے دعا کی، اور امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ جو اسے تنبیہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے کہ کونسا راستہ بہتر تھی جو آپ لوگ کہتے تھے وہ یا یہ جو میں نے اختیار کیا؟ میں نے اپنے طرز عمل سے انکو راہ راست پر لے آیا۔ اس لئے کہتے ہیں کہ ایمان کی طاقت غصے کو کنٹرول کرتی ہے، یہ ایا خاص ایام اور دن ہیں، ہم شہداء، امام راحل اور ان تمام لوگوں کی یاد مناتے ہیں اور انکو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے حق کے دفاع کے لیے جدوجہد کی اور مسلمانوں کو عزت بخشی، اور اپنےآپ پر کھیل گئے۔ تاکہ ہم فخر اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ آئیں انکو تحفہ صلوات سے نوازتے ہیں،
اللھم صل علی محمد و آل محمد۔
پیغمبر خاتم کے رسالت سے لے کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عالمی انقلاب اور ظہور تک، اسلام نے خدا کے بندوں کی خدمت اور عدل و انصاف کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے کچھ ہدایات دی ہیں۔
اس زمرے میں کچھ روایات ابن ماجہ اور حاکم نے مستدرک میں نقل کیے ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَيْنَا مُسْتَبْشِرًا يُعْرَفُ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ، فَمَا سَأَلْنَاهُ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِهِ، وَلَا سَکَتْنَا إِلَّا ابْتَدَأَنَا، حَتَّى مَرَّتْ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فِيهِمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، فَلَمَّا رَآهُمُ الْتَزَمَهُمْ وَانْهَمَلَتْ عَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِکَ شَيْئًا نَکْرَهُهُ، فَقَالَ:« إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا، وَإِنَّهُ سَيَلْقَى أَهْلُ بَيْتِي مِنْ بَعْدِي تَطْرِيدًا وَتَشْرِيدًا فِي الْبِلَادِ، حَتَّى تَرْتَفِعَ رَايَاتٌ سُودٌ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَيَسْأَلُونَ الْحَقَّ فَلَا يُعْطَوْنَهُ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ فَلَا يُعْطَوْنَهُ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ فَلَا يُعْطَوْنَهُ، فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ، فَمَنْ أَدْرَکَهُ مِنْکُمْ أَوْ مِنْ أَعْقَابِکُمْ فَلْيَأْتِ إِمَامَ أَهْلَ بَيْتِي وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهَا رَايَاتُ هُدًى يَدْفَعُونَهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي، وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي، فَيَمْلِکُ الْأَرْضَ فَيَمْلَأُهَا قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا»
عبد الله بن مسعود سے روايت ہوئی ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ ّالہ کے پاس آئے آپ خوش کی حالت میں باہر آئے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے انور پر عیاں تھے ہم نے جو بھی پوچھا آپ صلی اللہ علیہ ّالہ نے ہمارا جواب دیا اور جب ہم خاموش ہوجاتے تو خود ہی بیان کرنا شروع کردیتے یہاں تک بنی ہاشم کی ایک جماعت جس میں حسن و حسین[سلام اللہ علیہما] بھی تھے وہاں سے گزرے جب آپ نے انھیں دیکھا تو انکے ساتھ ہوگئے اور گریہ فرمانے لگے تو ہم نے کہا ہم آپ کے چہرے پر اداسی دیکھنا نہیں چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ ّالہ نے فرمایا ہم وہ خاندان ہیں کہ خدا نے ہمار ے لئے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے عنقریب میرے اہل بیت کے لئے سختیاں آئیں گی اور شہر بہ شہر دربدری ہوگی یہاں تک کہ سیاہ پرچم مشرق سے نمادار ہونگے پس یہ لوگ حق کو طلب کرینگے لیکن انھیں نہیں دیا جائے گا دوسری اور تیسری بار حق طلب کرینگے لیکن نہیں دیا جائے یہ لوگ تب جنگ کریں اور کامیاب ہونگے اس وقت تم یا تمہاری نسل میں سے کوئی ہو تو لازم ہے کہ امام اہل بیت پاس جائے اگر چہ برف پر سینے کے بل جانا پڑے اس لئے کہ یہ ہدایت کے پرچم ہیں اور یہ میرے اہل بیت کے شخص کے سپرد کرینگے جس کا نام میرے نام پر اور جن کے والد کا نام میرے والد پر ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ۔
المستدرک على الصحيحين ج4، ص511 ش 8434،
رجب کا مہینہ غور اور فکر اور تزکیہ نفس کا بہترین موقع ہے۔
رجب کا مہینہ بہترین فرصتوں کا مہینہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انَّ اللّهَ تَعالى نَصَبَ فِي السَّماءِ السّابِعَةِ مَلَکا يُقالُ لَهُ : الدّاعي ، فَإِذا دَخَلَ شَهرُ رَجَبٍ يُنادي ذلِکَ المَلَکُ کُلَّ لَيلَةٍ مِنهُ إلَى الصَّباحِ : طوبى لِلذّاکِرينَ! طوبى لِلطّائِعينَ!
الله تعالی نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ کو مقرر کر کے رکھا ہے اسے "داعی” کہا جاتا ہے اور جب رجب کا مہینہ آتا ہے وہ فرشتہ رجب کے تمام راتوں میں یہ ندا دیتا رہتا ہے ” کتنا خوش نصیب ہے اس ماہ میں ذکر خدا کرنے والے ؛
ويَقولُ اللّهُ تَعالى : أنا جَليسُ مَن جالَسَني ، ومُطيعُ مَن أطاعَني ، وغافِرُ مَنِ استَغفَرَني ، الشَّهرُ شَهري ، وَالعَبدُ عَبدي ، وَالرَّحمَةُ رَحمَتي ، فَمَن دَعاني في هذَا الشَّهرِ أجَبتُهُ ، ومَن سَأَلَني أعطَيتُهُ ، ومَنِ استَهداني هَدَيتُهُ ، وجَعَلتُ هذَا الشَّهرَ حَبلاً بَيني وبَينَ عِبادي ؛ فَمَنِ اعتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إلَيَ
کتنے خوش نصیب ہے اطاعت کرنے والے”اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اس کا ھمنشین ہوں جو اس ماہ میں میرا ہم نشین ہوتا ہے،اس شخص کو بخش دیتا ہوں جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے،اسے جواب دیتا ہوں جو مجھے پکارتا ہے،اسے عطا کرتا ہوں جو مجھ سے مانگتا ہے،اور اسے ھدایت کرتا ہوں جو مجھ سے ہدایت طلب کرتا ہےاور اس مہینے کو میں نے اپنے اور بندوں کے درمیاں ایک رسی قرار دیا ہے جو بھی اس رسی کے ساتھ تمسک کرے اور اسے تھام لے وہ مجھ تک پہنچے گا۔
:شِیعَتُنَا أَهْلُ الْوَرَعِ وَ الْاِجْتِهَادِ وَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَ الْاَمَانَةِ وَ أَهْلُ الزُّهْدِ وَ الْعِبَادَةِ وَ أَصْحَابُ اِحْدَی وَ خَمْسِینَ رَکْعَةً فِی الْیَوْمِ وَ اللَّیْلَةِ الْقَائِمُونَ بِاللَّیْلِ وَ الصَّائِمُونَ بِالنَّهَارِ یُزَکُّونَ أَمْوَالَهُمْ وَ یَحُجُّونَ الْبَیْتَ وَ یَجْتَنِبُونَ کُلَّ مُحَرَّمٍ
ہمارے شیعہ وہ ہے کہ جو صاحب تقوی ہو اور اہل اجتھاد اور کوشش کرنے والے ہو۔ اور اہل وفا اور امانت دار ہو، زاھد اور عابد ہو، اور ان لوگوں میں سے ہو کہ جو دن اور رات میں 51 رکعت نماز بجا لاتے ہیں، اور رات میں عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزے رکھتے ہیں اور اپنے اموال کو حرام سے پاک رکھتے ہیں اور بیت اللہ میں جا کر حج بجا لاتے ہیں اور وہ لوگ ہر قسم کی حرام سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔
خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ
صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم
|