۱۴۰۲/۷/۱۶   1:11  ویزیٹ:354     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


20 ربیع الاول 1445(ھ۔ ق) مطابق با10/13/2023 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

 

ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

یقیناً پرہیزگار لوگ باغات اور نہروں میں ہوں گے، قدرت  لا یزال کے  قریب ایک عزت والے  مقام پر فایز ہوں گے۔

حقیقت میں، یہ لوگ اللہ کے حضور میں صداقت کے درجے حاصل کریں گے، اپنے لیے باغات اور نہروں کے کناروں میں جگہ منتخب کریں گے۔ یہ لوگ حق کے مقام میں  عزت اور طاقت پانے والے ہے۔

پرہیزگاروں کی کچھ خصوصیات:

- چاہے مشکلات ہوں یا آسانی، وہ ہمیشہ خیرات دیتے ہیں۔

- انہیں غضب پر قابو رہتا ہے اور جو بھی انہیں ظلم کرتا ہے، انہیں معاف کرتے ہیں، کیونکہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

- اگر کوئی ناجائز یا برا عمل ان سے سر زد ہوتا ہے تو وہ ایمانداری سے توبہ کرتے ہیں اور اپنے گناہ کو دہراتے نہیں ہیں۔

- جب ایک مومن پرہیزگاری کے درجے تک پہنچتا ہے، اللہ اُن کا ہاتھ پکڑتا ہے اور حضرت پیغمبر کے خاندان کی برکتوں کے ساتھ راہنمائی کرتا ہے۔

 

پچھلے ہفتے ہم نے پیغمبر کی سیرت  کے بارے میں مختصر گفتگو  کی تھی اور آج ہم آپ کے سامنے امام علی اور ان کے  لخت جگر، امام حسن علیہم السلام کے اخلاق و رفتار کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو سفیان، جب اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے، ابو سفیان نے کہا:

"میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔" حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اگر  میں بتاؤ۔"  کہ تم  کیا پوچھنا  چاہتے ہو تو ؟!" ابو سفیان نے جواب دیا: " کہ بتائے"، تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم میرے عمر   کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہو   تو سونو: کہ میری زندگی کتنی ہوگی۔" ابو سفیان نے جواب دیا: " ہاں ، یا رسول اللہ!" تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "إن شاء الله، من 63 سال زندگانی خواہم کرد"، یعنی: "اگر اللہ چاہے تو، میں 63 سال تک زندہ رہوں گا۔" ابو سفیان نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ تم  سچ کہتے ہو۔ تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: "تم  فقط زبان  سے گواہی دیتے ہو۔"

 

 

اسلامی فتوحات

ببراء ابن عازب فتوحات

اسلامی کا خبر دیتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو بڑے سخت پتھر نکل آئیں جس کا   ہٹانا  ممکن نہیں تھا، تو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود آئے اور اپنا لباس زمین پر   رکھ کر کلنگ اٹھایا اور بسم اللہ کہتے ہوئے ایک ضرب  لگایا اور پتھر کا تیسرا  حصہ ٹوٹ گیا  اور  انہوں ہمیں  شام کی   چابیاں دی کہ جیسا کہ ہم نے شام کو فتح کیا  اور میں شام کے  کاخ دیکھ رہا ہوں۔ پھر حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دوسرا ضرب مارا اور دوسرا حصہ  تھوڑ دیا اور فرمایا: "اللہ اکبر"، اور فارس کی  چابیاں  بھی  مجھے دی   اور جیسا کہ مداین کے  سفید کاخ دیکھ رہا ہوں۔ آخری بار زور سے ضربہ مارا اور باقی  پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔  اور فرمایا: "اللہ اکبر"، یمن کی کلیدیں بھی حاصل ہو گئیں اور  جیسا کہ میں یہاں ہی صنعاء شہر کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔

جابر ابن عبدالله انصاری   نقل  کرتے ہے کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ الشریف) کے بارے میں  فرمایا: "مہدی میرے نسل سے ہے، اس کا نام میرا نام ہے، اس کا کنیہ میرا کنیہ ہے، اس کا چہرہ سب سے زیادہ   مجھ سے ملتا  ہے.

وہ پہلے تو  غیبت کبراء  میں چلا جائے گا، جس سے لوگ حیران ہوجائیں گے اور بہت سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے. اور وہ   چمکتے ہوئے ستارے  کے جیسا غیبت کے پردے سے باہر آئیں گے، اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا،  جیسا وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگئی ہے."

 

امام صادق   علیہ السلام کی خدمت کے بارے  میں عرض کروں۔

ابو جعفر احول کہتے ہیں کہ ایک دن ابن ابی العوجا نے میرے پاس آکر کہا: "کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ بناتا ہے اور اسے ایسا بناتا ہے کہ واضح ہو کہ یہ چیز کس نے بنائی ہے، تو کیا وہ بنانے والا  اسکا  پیدا  کرنے والا اور  خالق  نہیں بنتا؟" میں نے جواب دیا: "ہاں"، تو ابن ابی العوجا کو کہا کہ دو ماہ مہلت دو اور  پھرمیرے پاس آ و تا کہ تمہارے سامنے سب کچھ واضح ہو جائیں.

میں  حج کے لیے مکہ گیا اور حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور ابن ابی العوجا کا  بتایا ہو ماجرا آپ کے سامنے رکھ دیا۔

تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ تمہارے لئے دو بکرے تیار کریں گے اور اس کے  کچھ دوست بھی انکے ساتھ ہونگےوہ سب  تمہارے پاس آئیں گے اور وہ مردہ بکرے لے آئیں گے جن کے بدن میں کیڑیں پڑھ گئے ہوں گے۔ اور وہ کہے گے کہ یہ   کیڑے  میں نے خلق کیے ہے اور یہ میرے کردے ہے، تو جب یہ کہے تو تم اس کو یہ جواب دو کہ اگر یہ  تم نے  بنائے ہیں اور تم نے  انہیں پیدا کیے ہے تو ان  کیڑوں  میں نر اور مادے ( مذکر اور مونث )  آپس میں الگ کر دو."

 

تو جب ابن ابی العوجا مہمان لے کر آیا تو کہا کہ ان  بکریوں میں کیڑیں  میں نے پیدا کیے ہے اور میں ان کا خالق اور پیدا کرنے والا ہوں ۔  تو میں نے کہا کہ اگر تم نے یہ پیدا کیے ہیں تو ان مین نر اور مادہ کو الگ کر دو"،  یہ سن کر ابن ابی العوجا نے کہا: "خدا کی قسم، یہ بات تمہاری بات  نہیں ہے،  یہ تم  امام صادق سے لائے  ہوں۔

یونس ابن یعقوب کہتے ہیں کہ ایک شامی آدمی نے ہشام ابن حکم سے کہا: "آج کے زمانے میں  خدا کی حجت کون ہے؟" ہشام نے جواب دیا: "وہ عظیم شخصیت جو یہاں بیٹھا ہوا ہے" اور اس نے امام صادق علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا   کہ جس کو اپنے والدین اور دادا سے علم وراثت  میں ملی ہے کہ جس کی بنا پر وہ ہمیں  ہمیں آسمانی خبریں  بیان کرتے ہیں۔

 

مرد شامی نے پوچھا: " میں  کیسے یقین کروں ؟" ہشام نے کہا: "جو بھی  پوچھنا چاہتے ہو  ان سے سوال کرو،" تو شامی امام کی خدمت میں پہنچا اور امام نے جواب دیا: "اے شامی! تم چاہتے ہو کہ  میں تجھے  تیرے سفر  اور راستے کی حالت بیان کروں؟،" اور اس طرح اما م نے  ایک ایک بات  بیان کی،  اور شامی نے تصدیق کی اور پھر کہا: " کہ میں  ایمان لاتا  ہوں " امام نے فرمایا: " کہ اسلام قبول کر چکے ہو  اور اسلام ایمان سے پہلے ہے۔" شامی نے کہا: "میں خدا کی توحید اور پیغمبر کی رسالت کا ا قرار  کرتا  ہوگواہی  دیتا  ہوں اور آپ  پیغمبر کی وراثت اور جانشین  ہو."

خدایا پروردگارا ! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔  ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی  عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔

 

 

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

 

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

 

 

 

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

 

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

 

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

 

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ