بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
سب سے پہلے امام حسن عسکری کے یوم میلاد کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امام حسن عسکری 232 ھ ق میں پیدا ہوئے اور 260 ھ ق میں سامرہ میں شہید ہوئے، آپ نے 27 سال عمر کی۔ اور آپ نے 6 سال تک امامت کی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:«لَیْسَتِ الْعِبادَةُ کَثْرَةُ الصّیامِ وَالصَّلاةِ، وَ إنَّمَا الْعِبادَةُ کَثْرَةُ التَّفَکُّرِ فی أمْرِ اللّهِ»
عبادت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان زیادہ نمازیں پڑھیں اور یا زیادہ روزیں رکھیں بلکہ عبادت یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ خدا کی قدرتوں میں غور و فکر کریں۔
دنیا عجیب دنیا بن گئی ہےہر طرف ظلم پھیل گیا ہے۔، «ظهر الفساد في البرّ والبحر بما کسبت أيدي النّاس»
لوگوں نے ہر جگہ ظلم شروع کیا ہے کہ جس سے زمین اور دریا بھر چکی ہے۔
اور سب سے تلخ بات یہ ہے کہ ظالم آ کر مظلوم کی جگہ لے لیتی ہیں، ایک غاصب آکر لوگوں کی زمینیں اور گھر چھین کر برسوں سے اس پر قابض رہتا ہے، اور آسانی سے گھر کے مالکان کو قتل کرتے ہے اور ان کی املاک کو تباہ کرتے ہے۔ . ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ مظلوموں کا ہر طرح سے دفاع کرے ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر لعنت ہو گی۔
. و عن النبيِّ ص عن الله عَزَّ وَجَلَّ و عزتی و جلالی لأنتقِمنَّ من الظالمِ في عاجلِه وآجلِه،
ولأنتقِمنَّ ممّن رأى مظلومًا فقَدَرَ أن يَنْصُرَه فلم يَنصُرْه . کنز العمال، ج 3، ص 505
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مجھے قسم ہے میری عزت اور جلال کی کہ میں جلد یا کچھ عرصے کے بعد۔ ظالم سے ضرور مظلوم کا انتقام لیتا ہوں۔
اور میں ان لوگوں سے بھی انتقام لوں گا کہ جو مظلوم کو دیکھے اور مظلوم اسے مدد کے لیے پکاریں لیکن وہ مدد نہ کریں۔
و امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ یَکُونُ ذا وَجْهَیْنِ وَ ذالِسانَیْنِ، یَطْرى أخاهُ شاهِداً وَ یَأکُلُهُ غائِباً، إنْ أُعْطِىَ حَسَدَهُ، وَ إنْ ابْتُلِىَ خَذَلَهُ
برا آدمی وہ ہے جس کے دو چہرے اور دو زبانیں ہے۔ وہ اپنے دوست کی اس کے سامنے تعریف کرتا ہے، اور اگر وہ نہ ہو تو پھر اسکی غیبت کرتا ہے۔، ایسا دو چہروں والا شخص اگر اس کے دوست کو کچھ ملتا ہے تو وہ حسد کرتا ہے اور اگر وہ مصیبت اور مشکل میں ہو تو اسکی غیبت کرتا ہے ۔
خدا کی نظر میں انسان کی عظمت اور اعلیٰ مقام کے متعلق نبی ﷺ فرماتے ہیں: کہ بہترین انسان اپنے مومن بھائیوں کے حقوق کو جانتا ہے اور وہ ان کو دے دیتا ہو۔
دوسرے لفظوں میں وہ ہمیں نصیحت کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے اور کہتا ہے: «مَنْ وَعَظَ أخاهُ سِرّاً فَقَدْ زانَهُ، وَمَنْ وَعَظَهُ عَلانِیَةً فَقَدْ شانَهُ»
فرمایا اگر کسی نے خفیہ طریقے سے لوگوں سے چھپ کرکسی کو نصیحتیں کی، تو یہ انکی خوشی اور ترقی اور رونق کا باعث بنتی ہے اور کسی کو سب کے سامنے نصیحتیں کرنا لوگوں کے سامنے اسکی ذلت کا باعث بنتی ہیں۔
حضرت معصومہ (س) یکم ذی القعدہ 173 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں، ان کے والد حضرت موسیٰ بن جعفر (ع) تھے اور ان کی والدہ "نجمہ خاتون" امام رضا علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے اپنے پیارے والد کی قید اور شہادت کی وجہ سے 21 سال تک امام رضا (ع) کی سرپرستی میں رہی۔ امام رضا (ع) 200 ہجری میں مامون کے قافلے کے ساتھ خراسان چلے گئے ایک سال کے بعد (201 ہجری) میں حضرت معصومہ (س) اپنے بھائی حضرت رضا (ع) سے ملنے کے لئے خراسان کی طرف روانہ ہوئیں۔ جب حضرت معصومہ (س) سوا کے مقام پر پہنچیں تو قم کی طرف روانہ ہوئیں اور موسیٰ بن خزرج بن سعد اشعری کے گھر ٹھہریں جو امام رضا (ع) کے اصحاب میں سے تھے اور آخرکار 28 سال کی عمر میں 10ویں یا 12ویں ربیع الثانی سنہ 201 ہجری میں انتقال کر گئی۔
وہ احادیث روایت کرنے والوں میں سے ایک تھی۔ فرماتی ہے:
عن فاطمه بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی... «من کنت مولاه فعلی مولاه.» علامه امینی، الغدیر، ج 1، ص 196
فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ وہ اپنے اجداد کے سند سے فرماتی ہے کہ آپ ص نے فرمایا: کہ جسکا میں مولاہ ہو اسکا مولا علی ہے۔
امام رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ علیہا السلام کی شان میں فرمایا : " من زار المعصومة بقم کمن زارنی "
کہ جس نے حضرت معصومہ کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ۔ ریاحین الشریعہ، جلد 5، صفحہ 35
امام صادق علیہ السلام نے کریمہ اہل بیت کی ولادت سے برسوں پہلے اسکی عظمت کے بارے میں ایک عجیب و غریب حدیث بیان کیا ہے۔
«إن للّه حرماً و هو مکه ألا انَّ لرسول اللّه حرماً و هو المدينة ألا وان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الکوفه الا و انَّ قم الکوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها إِلَی قُمَّ تُقْبَضُ فیها امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِی اسمها فَاطِمَةُ بِنْتُ مُوسَی وَ تُدْخَلُ بِشَفَاعَتِهَا شِیعَتِی الْجَنَّةَ خطبه134بِأَجْمَعِهِم»
خدا کے لیے حرم ہے جو مکہ ہے، پیغمبر کے لیے حرم ہے جو مدینہ ہے اور حضرت علی کے لیے حرم جو کوفہ ہے اور قم ایک چھوٹا کوفہ ہے، جنت کے 8 دروازوں میں سے تین قم کے لیے کھلے ہیں۔ قم میں میری اولاد میں سے ایک خاتون کا انتقال ہوگا کہ جس کا نام فاطمہ بنت موسیٰ ہے اور ان کی شفاعت سے میرے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں:
«وَ لَنا حَرَماً وَ هُوَ قُمُّ وَ سَتُدفَنُ فيها اِمرَأةُ مِن وُلدي تُسَمّي فاطِمَةُ، مَن زارَها وَجَبَت له الجَنَّةُ. »
اور قم میں ہمارا حرم ہے اور عنقریب وہاں میرے بچوں میں سے ایک خاتون دفن ہوں گی، اس کا نام فاطمہ ہے۔ جو اس کی زیارت کرتا ہے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے بحار الانوار ج 48، ص: 317
اور فرمایا: : «الّا انَّ حرمي و حرم ولدي بعدی قم
" آگاہ رہو کہ میرا اور میرے بچوں کا حرم " قم ، ہے
خدایا پروردگارا ! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
|