۱۴۰۳/۳/۱۸   2:10  ویزیٹ:173     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


30 ذی القعدہ 1445 برابر با 06/07/2024 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین احمدہ علی عواطف کرمه ، سوابغ نعمه حمدا لا منتہی لحمدہ ، و لا حساب لعددہ، و لامبلغ لغایتہ ، و لاانقطاع لامرہ و الصلاہ و السلام علی آمین وحیہ ، خاتم رسلہ و بشیر رحمتہ ، و نذیر نعمتہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین ، صحبہ المنتجبین و الصلاہ علی آئمہ المسلمین سیما بقیتہ اللہ فی الارضین ،

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و اتباع امرہ۔

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

 

 

 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

شروع کرتا ہواللہ کے نام سے جو کہ نہایت  رحمن اور  رحیم ہے

وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿٭ۖ30 سورہ  الانسان

اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے یقیناً اللہ بڑا علیم و حکیم ہے

قال أمير المؤمنين عليه السلام إني أوصيکم بتقوالله

امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور تقوی اختیار کرو۔

آج  روز جمعہ ظاہری طور پر ماہ ذی قعدہ کا آخری دن ہے اور ذی قعدہ کی آخر میں  امام  جواد علیہ السلام کا یوم شہادت ہے اور کل ذی الحجہ کی پہلی تاریخ ہے

 

ذوالحجہ کا مہینہ مسلمانوں کے لیے مقدس اور محترم مہینوں میں سے ایک ہے۔ جب یہ مہینہ آتا تھا تو مسلمان  اس مہینے مین عبادات پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے اور خاص طور پر ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں عبادت کا اہتمام کرتے تھے جس کی فضیلت احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان ہوئی ہے۔

 جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: "کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک اعمال اور عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذی الحجہ کے پہلے عشرے سے زیادہ محبوب ہو۔

 

" بعض احادیث میں آیا ہے کہ قرآن نے جن دس راتوں کی قسم سورہ "والفجر ورلیال عشر" میں کھائی ہے وہ اس مقدس مہینے کے پہلے عشرے کی راتیں ہیں (تفسیر قمی، جلد 2، صفحہ 419) اور یہ قسم اس ماہ کی عظمت کی وجہ سے ہے۔

ان ایام عزیز سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہم اس کے اعمال ذکر کرتھے ۔

اس مہینے کے پہلے عشرے کو "ایام معلومات" کہا جاتا ہے جس کا تذکرہ قرآن پاک میں آیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ اس عشرے سے  بڑھ کر کسی اور مہینے کے نیک اعمال اور عبادات اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہیں۔ اس دہائی کے لیے  کچھ خاص اعمال  ذکر   ہوئے   ہیں:

 

1- اس عشرے کے پہلے 9 دنوں میں روزے رکھنا جسکا ثواب عمر بھر کے  روزے رکھنے جتنا ہے۔

2- اس عشرے کی تمام راتوں میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان  دو رکعت نماز پڑھی جائے اور ہر رکعت میں حمد کے بعد آیت «وَعَدْنَا موسیٰ» پڑھی جائے۔

وَ واعَدنا مُوسی ثَلاثینَ لَیلَهً وَ اَتمَمناها بِعَشرٍ فَتَمَّ میقاتُ رَبِّهِ اَربَعینَ لَیلَهً وَ قالَ مُوسی لأَخیهِ هارونَ اخلُفنی فی قَومی وَ اَصلِح وَ لا تَتَّبِع سَبیلَ المُفسدِین.”

جو اس نماز کو پڑھے گا اس کو حج کا ثواب ملے گا۔

 

 

لیکن آج امام ابو جعفر محمد ابن علی علیہ السلام (195 تا 220) ہجری کی شہادت کادن ہے جو امام جواد علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں جو نواں امام اور چودہ معصومین میں سے ایک ہیں۔

امام جواد علیہ السلام 10 رجب 195 ہجری کو پیدا ہوئے۔

 

اس مولود  کو مبارک مولود کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کی ولادت کے ساتھ ہی امامت اور امام رضا علیہ السلام کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات دور ہو گئے اور امام رضا علیہ السلام ان سب  مسائل سے نجات پانے میں کامیاب ہو گئے۔ جسکا  وہ سامنا کر رہے تھے۔

 

امام جواد علیہ السلام نے سترہ سال تک امامت کی جو کہ  مامون عباسی اور معتصم عباسی کی حکومت  کے زمانے میں تھی۔ اکثر منابع کے مطابق امام جواد علیہ السلام نے ذوالقعدہ 220 ہجری کے آخر میں 25 سال کی عمر میں شہادت پائی۔ ہمارے ائمہ میں سے وہ اپنی شہادت کے وقت سب سے کم سن امام تھے۔

 آپ کو کاظمین میں قریش کے مقبرے میں اپنے دادا موسیٰ بن جعفر  علیہ السلام کے  جوار میں  دفن کیا گیا۔

امام جواد علیہ السلام   آب آٹھ سال کے تھے کہ آپ کی امامت  کے بارے  میں کچھ ماننے والوں کو  شک ہوا، لیکن پھر ان میں سے اکثر نے محمد بن علی علیہ السلام یعنی امام جواد علیہ السلام کی امامت کو قبول کیا۔

امام جواد علیہ السلام اپنے پیروکاروں سے زیادہ تر اپنے وکلاء کے ذریعے اور خطوط کے ذریع رابطہ کرتے تھے۔

بہت سارے مسائل پر امام جواد علیہ السلام کی علمی  بحثیں،اور مناظرے ہوئے  جیسے امامت کا مقام اور فقہی مسائل، جیسے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم اور حج کے احکام  شامل ہے۔

 

امام جواد علیہ السلام  سے صرف 250 کے قریب احادیث نقل ہوئی ہیں جس  کہ وجہ ان کی مختصر زندگی اور ان کے زیر تسلط میں ہونا اور حاکم وقت کے سخت کنٹرول میں ہونا ہے۔ ۔اس امام کے راویوں اور اصحاب کی تعداد بھی 115 سے 193 تک ہے۔احمد بن ابی نصر بیزنتی، صفوان بن یحییٰ اور عبد العظیم حسنی امام کے اصحاب میں سے تھے۔

شیعہ امامیہ کے منابع میں امام جواد علیہ السلام کے لیے کرامتیں، ذکر ہوئی ہیں  جیسے پیدائش کے وقت کلام کرنا ، طی الارض کرنا، بیماروں کو شفا دینا، اور دعاؤں کا مستجاب ہونا،  نقل کیا گیا ہے۔ سب علماء بھی امام جواد علیہ السلام کے علمی اور روحانی پیشوا ہونے کا اقرار کرتے تھیں ان کے لیے خاص احترام کے قائل تھے۔

 

ضرورت مندوں کی ضرورت پورا کرنا اور انکے حاجت کے مطابق عطاء کرنا۔

ہمارے نویں پیشوا امام  جواد علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے   اس کی  سبب، سخاوت اور لوگوں کے ساتھ احسان  سمجھا جاتا ہے۔اس خط کی بنا پر جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے اپنے بیٹے امام جواد علیہ السلام  کو بھیجا تھا، اس وقت سے  اپنی سخاوت کے لیے مشہور ہو گئے ۔

 جب ان کے والد خراسان میں تھے تو ان کے ساتھی امام جواد علیہ السلام کو گھر کے پہلو کے دروازے سے باہر لے جایا کرتے تھے تاکہ ان کو کم لوگوں کا سامنا ہو جو ان کے گھر کے ارد گرد جمع ہو کر مدد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس روایت کی بنا پر امام رضا علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ایک خط بھیجا اور حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کی بات نہ سنیں جو اسے کہتے ہیں کہ مرکزی دروازے سے نہ جائے۔

 اس خط میں علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ جب بھی تم گھر سے نکلنا چاہو تو سونے اور چاندی کے کچھ سکے ساتھ لے کرجانا۔ تاکہ کھبی ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ سے کچھ  مانگے اور آپ نہ دے سکے۔ کوئی آپ سے کچھ لیے بغیر واپس نہ جائے۔

 

 

 

آپ کی کرامات

ہمارے منابع میں  کچھ کرامت امام جواد علیہ السلام سے منسوب ہے۔ جن میں ولادت کے وقت کلام کرنا، اپنے والد امام رضا علیہ السلام کی تدفین کے لیے مدینہ سے خراسان تک کا سفر، بیماروں کو شفا دینا، دعاؤں کا مستجاب ہونا، لوگوں کے اندرونی خیالات اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ  ہونا شامل ہے۔

  1. محدث قمی نے قطب راوندی سے روایت کی ہے اور انہوں نے محمد بن میمون سے روایت کی ہے: " امام رضا علیہ السلام خراسان منتقل ہونے سے پہلے  مکہ کے سفر پر گئے اور میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھا۔ جب میں نے واپس جانا چاہا تو میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا: میں مدینہ جانا چاہتا ہوں۔

آپ بھی امام محمد تقی علیہ السلام کے لیے ایک خط لکھو تاکہ میں اسےامام تقی جواد علیہ السلام کے لیے لے جاو۔ امام رضا علیہ السلام  نے خط لکھا۔ میں اسے مدینہ لے آیا اور اس وقت میری آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں۔ موفق جو کہ امام  کا خادم تھا، امام جواد علیہ السلام کو  گود میں کر لے   آیا ۔ میں نے خط اسے دیا۔

وہ  بچپن کی حالت میں تھے۔

حضرت نے موفق سے فرمایا خط پر سے مہر ہٹا کر کاغذ کھولو۔ پھر فرمایا: اے محمد، آپ کے آنکھوں کی حالت کیسا ہے؟ میں نے کہا اے ابن رسول اللہ میری آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی ہے۔ تو آپ  نے میری آنکھوں پر ہاتھ پھیرایا اور ان کے دست مبارک سے میری آنکھیں ٹھیک ہو گئیں اور میں بینا ہو گیا۔

 

2.یہ بھی منقول ہے کہ امام جواد علیہ السلام کے واپسی کے سفر میں بغداد سے مدینہ تک ایک گروہ نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے شہر سے باہر نکلا۔ غروب آفتاب کے وقت امام جواد علیہ السلام نے وضو کیا اور مسجد کے صحن میں دیودار کے ساتھ ایک درخت کے  نیچے نماز ادا کی اس درخت نے آب تک  پھل نہیں دیا تھا۔ نماز کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ درخت نے پھل دیا ہے۔

وہ حیران ہوئے اور اسے کھایا اور معلوم ہوا کہ یہ میٹھا اور بیج کے بغیر پھل  تھا۔ شیخ مفید کہتا ہے کہ برسوں بعد انہوں نے اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا

 

يا أبا جعفر محمد بن علي أيها الجواد يا ابن رسول الله يا حجة الله على خلقه يا سيدنا ومولانا انا توجهنا واستشفعنا وتوسلنا بک إلى الله وقدمناک بين يدي حاجاتنا

يا وجيها عند الله اشفع لنا عند الله

*‏عظم الله أجورنا و اجورکم بمصاب واستشهاد الامام محمد ابن علي الجواد عليه السلام

 

قالَ محمد بن علی الجواد علیه‌السلام: مُلاقاةُ الاْخوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقیحٌ لِلْعَقْلِ وَ إنْ کانَ نَزْراً قَلیلاً. (بحار‌الانوار، ج71، ص353)

آپ نے فرمایا: [اچھے] دوستوں اور بھائیوں سے ملنا دل کو پاکیزہ اور روشن بناتا ہے اور اس سے عقل و دانش پروان چڑھتی ہے۔ اگرچہ یہ ملاقات مختصر مدت کے لیے  کیوں نہ ہوں۔

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ